دنیا دھوکے میں کیسے ڈالتی ہے


یہ دنیا دھوکے میں کیسے ڈالتی ہے عائشے؟ ۔۔۔۔ "جب یہ اپنی چمکنے والی چیزوں میں اتنا گم کر لیتی ہے کہ اللہ بھول جاتا ہے۔"
"کیا مجھے بھی دنیا نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟"
"پہلی دفعہ دھوکا انسان بھولپن میں کھاتا ہے مگر بار بار کھائے تو وہ اس کا گناہ بن جاتا ہے۔ اور اگر احساس ہونے کے بعد نہ کھائے تو اسے ایک بری یاد سمجھ کر بھول جانا چاہیے اور زندگی نئے سرے سے شروع کرنا چاہیے۔"

"نئے سرے سے؟ ایسے یوٹرن لینا آسان ہوتا ہے کیا؟ انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ خوبصورت لگے ، خوبصورت لباس پہنے، کیا یہ بری بات ہے؟" اس کی آواز میں بے بسی در آئی تھی، جیسے وہ کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی۔ کیا غلط تھا کیا صحیح ، سب گڈ مڈ ہورہا تھا۔

"نہیں! اللہ خوبصورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔ یہ چیزیں زندگی کا حصہ ہونی چاہئیں۔ مگر ان کو آپ کی پوری زندگی نہیں بننا چاہیے۔ انسان کو ان چیزوں سے اوپر ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ میری طرح ہوتے ہیں جن کی زندگی لکڑی کے کھلونے بنانے ، مچھلی پکڑنے اور سچے موتی چننے تک محدود ہوتی ہے اور کچھ لوگ بڑے مقاصد لے کر جیتے ہیں۔ پھر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر پریشان نہیں ہوتے۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔

اور جن کی زندگی میں بڑا مقصد نہ ہو وہ کیا کریں؟

وہی جو میں کرتی ہوں۔ عبادت! ہم عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، سو ہمیں اپنے ہر کام کو عبادت بنالینا چاہیے۔ عبادت صرف روزہ، نوافل اور تسبیح کا نام نہیں ہوتا بلکہ ہر انسان کا ٹیلنٹ بھی اس کی عبادت بن سکتا ہے میں بہارے کے لیے پھولوں کے ہار اور آنے کے لیے کھانا بناتی ہوں۔ میری یہ صلہ رحمی میری عبادت ہے۔ میں پزل باکسز اور موتیوں کے ہار بیچتی ہوں۔ میرا یہ رزق تلاشنا میری عبادت ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے کام کرتے کرتے انسان بڑے بڑے مقاصد پالیتا ہے۔"

]"اور انسان ان چیزوں کے لیے مضبوطی کہاں سے لائے؟

حیا مجھے لگتا ہے ہم لڑکیوں نے اپنے اوپر Fragile (نازک) اسٹکرز لگا رکھے ہیں۔ فریجائل اسٹکر سمجھتی ہو نا؟ وہ جو نازک اشیاء کی پیکنگ کے اوپر چسپاں ہوتے ہیں کہ "ہینڈل ود کئیر!" وہی اسٹکرز ہم لڑکیاں اپنی پیشانی پہ لگائے رکھتی ہیں۔ پھر کسی کا ذرا طنز ہو یا بے جا پڑی ڈانٹ ، ذرا سا کانٹا چبھ جائے یا دل ٹوٹ جائے ، ہم گھنٹوں روتی ہیں۔ اللہ نے ہمیں اتنا نازک نہیں بنایا تھا ۔ ہم نے خود کو بہت نازک بنا لیا ہے اور جب ہم لڑکیاں ان چیزوں سے اوپر اٹھ جائیں گی تو ہمیں زندگی میں بڑے مقصد نظر آجائیں گے۔"​

(نمرہ احمد کے ناول "جنت کے پتے سے اقتباس) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں