تدبرِ قرآن
سورۃ البقرۃ
نعمان علی خان
حصہ- 22
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُم
جب بجلی چمکتی ہے تو وہ تقریباﹰ اندھے ہو جاتے ہیں.ان کی بصارت تقریباﹰ اچک لی جاتی ہے.
دوسرے لفظوں میں جب آپ اندھیرے میں کچھ نہیں دیکھ سکتے اور اچانک کیمرے کی فلیش لائٹ کی طرح بجلی چمکے تو آپ کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی پر دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں. ایک لمحے میں آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے کچھ دیکھا ہے کبھی لگتا ہے جیسے ملک الموت کو تو نہیں دیکھ لیا. اس مکمل اندھیرے میں جب ایک لمحے کے لیے بصارت ملتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ کھائی کے کنارے پر کھڑے ہیں تو ایک دم آپ رک جاتے ہیں کہ یہ میں کہاں جا رہا تھا مجھے تو دوسری طرف جانا تھا.
تو وہ لوگ بھی اسی طرح اندھیری خوفناک جگہ پر ہوتے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس سمت میں چل رہے ہیں. ایسی صورتحال میں وہ بجلی کے دوبارہ چمکنے کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ بجلی چمکے تو وہ روشنی میں دیکھ سکیں کہ اگلا قدم کہاں رکھنا ہے. اللہ پاک فرماتے ہیں
يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ
روشنی جو انہیں تقریباﹰ اندھا کر دیتی ہے اور ان کی بصارت لے جاتی ہے
كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم
جب بھی ان کے لیے روشنی ہوتی ہے
ویسے أَضَاءَ کا مطلب نَارَا جیسا نہیں ہے. ضوا میں حرارت کا عنصر شامل ہے. یہ ایسے ہے جیسے دھماکہ کہیں آس پاس ہی ہوا ہو اور آپ کو اس کی حرارت محسوس ہوتی ہو. اور جب بھی روشنی ہوتی ہے
مَّشَوْا فِيهِ
وہ تھوڑا بہت چل لیتے ہیں
اپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر آپ اس حالت میں ہوں اور تیز بارش ہو رہی ہو اور آپ مکمل بھیگے ہوں اور دھماکوں کی آوازیں آ رہی ہوں تو آپ چلیں گے نہیں بلکہ وہاں سے بھاگیں گے. جیسے بارش میں آپ اپنی گاڑی کا پاس چل کر نہیں بھاگ کر جاتے ہیں. پر حال یہ ہے کہ وہ لوگ ایسی خطرناک جگہ پر ہیں کہ وہ بھاگنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ وہ کھائی سے بھی گر سکتے ہیں.
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلي حَرْفٍ الحج
دراصل قرآن کی تماثیل آپس میں تعلق رکھتی ہیں جو کہ بہت شاندار ہے مگر اس پر پھر کسی دن بات کریں گے.
تو یہاں کہا جا رہا ہے جب بھی بجلی چمکتی ہے تو وہ اس میں کچھ قدم چل لیتے ییں.
وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْ
اور جب واپس اندھیرا ہو جاتا ہے تو وہیں کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں.
اب یہ جو ابتر حالت بیان کی جا رہی ہے اگر آپ اس کا موازنہ پچھلی مثال سے کریں تو وہ لوگ روشنی سے دور ہو گئے تھے. اللہ پاک نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے انہیں بہرا، گونگا اور اندھا بنا دیا. عملی طور پر دیکھا جائے تو موجودہ مثال کے لوگ پہلے سے ہی اندھے ہیں کیونکہ اس قدر تیز بارش میں آپ ویسے ہی نہیں دیکھ سکتے. دوسرا مسلہ یہ ہے کہ یہ لوگ تقریباﹰ گونگے بھی ہیں کیونکہ ایسے موسم میں آپ بولیں بھی تو کوئی سن نہیں سکتا. اور یہ لوگ بہرے بھی ہیں کیونکہ ایسے موسم میں کوئی آپ سے کچھ بات بھی کرے تو سنائی نہیں دیتا نہ سمجھ آتا ہے. مگر وہ تھوڑا سا تو دیکھ سکتے ہیں. اس لیے اگرچہ یہ حالت بہت بری ہے پھر بھی پچھلے لوگوں کی حالت سے بہتر ہے. بہرحال یہ ایک خوفناک صورتحال ہے پھر بھی یہ لوگ بلکل ناکام لوگ نہیں ہیں. روشنی میں کچھ تو چل ہی لیتے ہیں. اللہ پاک فرماتے ہیں
وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ
اور اگر الله پاک چاہتے تو ان کی سماعت اور بصارت سلب کر لیتے.
جیسے کے پچھلوں کے ساتھ کیا. پچھلی مثال میں الله پاک نے آنکھیں اور کان چھین لیے تھے. یہاں الله پاک فرماتے ہیں کہ میں ِابھی ایسا نہیں کروں گا.
إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٢٠﴾
بے شک اللہ پاک ہر شئے پر قدرت رکھنے والا ہے.
دوسرے لفظوں میں الله پاک فرما رہے ہیں کہ میں ایسا کر بھی سکتا ہوں، میں یہ طاقت رکھتا ہوں. پر الله پاک نے ابھی انہیں مہلت دے دی ہے کہ شاید وہ عقل کر لیں،شاید وہ الله کی پناہ میں آ جائیں.
اب یہ دوسری مثال کس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے؟ اگر آپ تھوڑا پیچھے جائیں تو آپ اس مثال کو سراہیں گے. جس پہلے گروہ کے بارے میں بات ہوئی تھی وہ سخت نافرمان لوگ تھے.
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٦﴾
ضدی نافرمان لوگ. ان کی سماعت، بولنے کی طاقت اور بصارت جا چکی ہے. قرآن کی پہلی مثال میں قریش کے سخت نافرمان لوگ اور یہودیوں کے وہ سربراہان جنہوں نے جانتے بوجھتے انکار کیا کا ذکر کیا گیا ہے.
دوسری مثال میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو تھوڑا تھوڑا بھلائی کی طرف ڈرتے ڈرتے بڑھتے ہیں.
وہ کس چیز سے خوفزدہ ہیں؟ بجلی سے، بادل کی گرج سے. چونکہ صدیوں بعد اترنے والی کتاب قرآن میں یوم آخرت، جہنم کی آگ، اللہ کے سامنے دوبارہ زندہ ہونے کا ذکر تھا اور جب بھی ایسی کوئی آیت نازل ہوتی تھی تو یہ ان کے لیے ایسی ہی ہوتی تھی جیسے بجلی چمکی ہو. اور جب بات آتی ہے تنقید کی تو قرآن سختی اپناتا ہے، احکام ایسے لگتے ہیں جیسے کے بجلی یا بادل کی گرج ہو. اور چونکہ یہ لوگ انہی وحیوں، تنبیہات کو سنتے تھے اس لیے ان کا ڈرنا لازم تھا.
ویسے بجلی کا چمکنا اور بادل کی گرج، تنبیہات کے لیے موزوں الفاظ کیوں ہیں؟ اگر آپ دیکھیں
سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ
کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لَا دَعوَتَہُم کے نہیں. قرآن کے اس حصے میں بار بار تنبیہات کا ہی ذکر ہے. تنبیہ ایسے ہے جیسے کسی پر بجلی گرے.
میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ وہ لوگ توریت سے قیامت کا ذکر، جہنم کی آگ کا ذکر بالکل سرے سے ہی بھلا چکے تھے. حتی کہ آج بھی اگر کہیں ان باتوں کا ذکر ملے گا تو عبرانی بائبل کے آخر میں ہی ہو گا بس وہ بھی کسی کسی جگہ ورنہ تو وہ لوگ ان باتوں سے بالکل ہی انجان ہیں، بھلا چکے ہیں. اگر آپ اج کسی پختہ عقیدہ کے یہودی سے پوچھیں کہ وہ قیامت میں اور جہنم کی آگ میں یقین رکھتا ہے تو وہ کہے گا کہ
"میں اس بارے میں پریقین نہیں ہوں میں آپ کو پتا کر کے بتاؤں گا."
إِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کیا بھلا آپ نے اب تک اس بارے میں اپنے سکول میں پڑھا نہیں؟
تو وہ کہے گا "یہ موضوع ہمارے دین کا اہم حصہ نہیں ہے."
قرآن تو ان دونوں موضوعات پر بہت فوکس کرتا ہے. تو جب آپ ایسی باتیں سننے ماننے کے عادی نہیں ہوتے اور یہ مسلسل آپ کو سنائی جائیں تو یہ واقعی بجلی کی طرح ہی آپ پر گرتی ہیں. پھر بعض آیات آتی ہیں جن میں تھوڑی بہت امید نظر آتی ہے تو پھر اس ذرا سی روشنی میں ایسے لوگ کیا کرتے ہیں مانتے ہیں اور چل پڑتے ہیں اور پھر کوئی سخت تنبیہ آتی ہے تو پھر ڈر کر کھڑے ہو جاتے ہیں.
منافق کی بھی یہی صورتحال ہوتی ہے جو اسلام کی طرف اتنا ہی بڑھتا ہے جتنی اسے آسانی ہوتی ہے ورنہ تو اسے دین بہت ہی سخت لگتا ہے. اسے لگتا ہے کہ وہ اسلام پر چل ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ اس پر گرفت ہی نہیں کر سکتا. ویسے بہت خوبصورتی سے اس مثال کو بیان کیا گیا ہے.
وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٢٠﴾
یہ جو تصویر آپ دیکھ رہے ہیں یہ قرآن پاک کی پہلی دو مفصل مثالیں ہیں مگر اب میں آپ کو اب تک جو ہم نے پڑھا اس تمام کا خلاصہ دینا چاہتا ہوں. اگر آپ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں تو آپ کو لگے گا کہ یہ موضوع قرآن کے مختلف حصوں پر ادھر اُدھر پھیلا ہوا ہے. مگر آگر آپ باریک بینی سے دیکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ موضوع انتہائی مہارت سے ایسے حیرت انگیز انداز میں ترتیب دیا گیا ہے جو کسی اور کتاب میں نہیں ملے گا. اور ایسی مہارت ایسی چیز نہیں ہے کہ جسے صرف مسلمان ہی جان رہے ہیں بلکہ غیر مسلم بھی اس طریقہ گفتگو کو دریافت کر رہے ہیں اور آجکل کافی یونیورسٹیوں میں قرآن کی ترتیب و تنظیم پر بڑے پیمانے پر مطالعہ کیا جا رہا ہے. وہ لوگ ایسا قرآن پر منفی طور پر حملہ کرنے کے لیے نہیں کر رہے بلکہ اس لیے مطالعہ کر رہے ہیں کہ ایسی وسعت والی کتاب انہوں نے پہلے کبھی پڑھی ہی نہیں. ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے مغربی یونیورسٹیوں میں اس کتاب کا مطالعہ کیا اور انجام کار اسلام قبول کر لیا.
ریمنڈ فیرن جیسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اسلام قرآن کے مطالعے کے بعد قبول کر لیا وہ میرے دوست بھی ہی. وہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے عربی شاعری کے منظم طریقوں پر PHD کر رہے تھے اور انہوں نے قرآن کو بھی شاعری جیسی ہی عرب کی کوئی رسمی کتاب سمجھ رکھا تھا۔ انہوں نے قرآن اور اس کی تنظیم کا مطالعہ شروع کیا اور اس کے بارے میں ہم ساتھیوں سے بھی کوئی بات نہ کی. انہوں نے کچھ سورتوں کی ترتیب و تنظیم پر اس قدر حیرانی کا اظہار کیا اور سوچا کہ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے. انہوں بے مزید مطالعہ کیا اور بالترتیب سورتوں کی تنظیم دیکھ کر بالآخر وہ اس بات کی گواہی دے بیٹھے کہ لا الہ الا الله. وہ اب کویت کی یونیورسٹی میں عربی زبان کے پروفیسر ہیں. ایک امریکی جو عربوں کو عربی پڑھاتا ہے. نیو جرسی سے ایک گورا کویت میں 4th year طالبعلموں کو پڑھا رہا ہے اور جو ان کے طالبعلم ہیں وہ حیرت آمیز غصہ سے کہتے ہیں "ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم ایک امریکی سے عربی پڑھ رہے ہیں؟ " تو پھر وہ پروفیسر انہیں سمجھاتے ہیں "تو کیا ہوا ! عربی بھی تو یونیوسٹیوں میں انگریزی پڑھاتے ہیں تو ہم بھی عربی پڑھا سکتے ہیں."
خیر میں آپ کو اس سورہ کی پہلی آیات کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جو ایمان والوں کے بارے میں ہیں. آپ دیکیھں گے کہ ان آیات میں بھی ایک توازن ہے.
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾
اور جب یہ آیات ختم ہوتی ہیں تو
أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ پر ہوتی ہیں.
یعنی یہ ہدایت سے شروع ہو کر ہدایت پر ہی ختم ہوتی ہیں. اور ان کے درمیان میں دو آیات ہیں جن دونوں میں ایمان کا ذکر ہے.
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ...... ﴿٣﴾
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ....... ﴿٤﴾
شروع میں ہدایت، آخر میں ہدایت اور ان کے درمیان یومنون. یہ ایک مکمل توازن ہوا.
جب آپ دوسری آیات کی طرف آئیں آیت نمبر چھ سے آیت نمبر بیس یہ تمام آیات کفار کے بارے میں ہیں. میں کفار کا لفط اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ میں منافقین اور کفار کو ایک ہی گروہ کی صورت میں پیش کر رہا ہوں. منکر وہ بھی ہوتے ہیں جو کھلم کھلا انکار کرتے ہیں اور وہ بھی جو اس کو چھپاتے ہیں.
اگر آپ تصویر کے پہلے حصے گراف دیکھیں تو یہاں ان کا ذکر ہے جن کے بارے میں ہم نے اس آیت میں پڑھا تھا
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٦﴾
خواہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان لانے والے نہیں.
پھر ہم نےہم یہ بات کی تھی کہ
خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٧﴾
ان کے دلوں پر مہر ہے. مگر صرف ان کے دلوں پر ہی نہیں ان کی سماعت پر بھی مہر ہے اور ان کی آنکھوں پر بھی پردہ ہے اور ان کے لیے عظیم سزا ہے.
یہ لوگ بالکل بھی ایمان لانے والے نہیں ہیں. پھر الله پاک فرماتے ہیں
يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ﴿٩﴾
وہ الله اور ایمان والوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں. مگر ان کی کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کے علاوہ کسی اور کو دھوکا نہیں دے رہے ہوتے.
پھر اللہ پاک فرماتے ہیں
فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴿١٠﴾
ان کے دلوں میں بیماری ہے اور الله پاک اس بیماری کو بڑھا دیتے ییں اور ان کے لیے دردناک سزا ہے ان کے جھوٹ کی وجہ سے.
میں آپ کو ان آیات کے ترجمہ کا سرسری سا نمونہ پیش کر رہا ہوں برائے مہربانی ساتھ ساتھ سمجھنے کی کوشش کرئیے گا.. پھر الله پاک فرماتے ہیں
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ﴿١١﴾
اور جب ان سے کہا جاتا ہے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو وہ آگے سے کہتے ہیں ہم تھوڑی نہ فساد پھیلا رہے ہم تو اچھے لوگ ہیں ہم ہی تو بہتری لانا چاہتے ہیں.
أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ ﴿١٢﴾
آپ سب جان لیں وہی سب سے بڑے فسادی ہیں.
اب اگر آپ تصویر کے دوسری طرف دیکھیں تو گراف کا آغاز نیچے سے اوپر کو جا رہا ہے.
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾
اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لے آؤ تو وہ کہتے ہیں کیا ہمیں بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آنا چاہیے؟ نہیں سن لو بلکہ یہ ہی سب سے بڑے بے وقوف ہیں اور اس کا علم بھی نہیں رکھتے.
اب سورہ کے اگلے حصے میں کہا جا رہا ہے
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ﴿١٤﴾
جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں یم بھی ایمان لائے جب وہ اپنے شیاطین کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو آپ کے ساتھ ہیں ہم تو بس مذاق ہی کر رہے تھے.
اللَّـهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴿١٥﴾
الله پاک ان کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں اور وہ ان کو ان کی سرکشی میں بڑھا دیتے ییں اور وہ دل کے اندھے ہی رہ جاتے ہیں.
اب گراف کے آخری حصے میں کہا جا رہا ہے
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴿١٦﴾
انہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی پر ان کی تجارت ان کے کام نہ آئی اور وہ ہدایت لینے والے تھے بھی نہیں.
ان کی مثال اس انسان کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب آگ نے اردگرد روشنی کر دی تو الله پاک نے ان کی روشنی اچک لی اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا.
آپ اس تصویر کے رخ دیکھ چکے ہیں اب اس مزے کی بات کو سنیں. اگر آپ سب سے آخری حصے کو غور سے دیکھیں جو کہ یہ ہے أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى کہ یہ وہی ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی تب آپ اس گراف کی پہلی آیت کو سمجھ جائیں گے جب الله پاک فرماتے ہیں کہ اس بات سے جو ایمان لانے والے نہیں ہیں انہیں فرق نہیں پڑتا کہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہیں وہ ایمان لانے والے نہیں.
سوال یہ ہے کہ وہ اتنے ضدی کیوں ہیں؟ آخر ایسے لوگ کس طرح ایمان لائیں گے؟ تو آپ کو معلوم پڑے گا کہا اس سوال کا جواب آخر میں دیا گیا ہے کہ ایسا اس لیے ہے کہ انہوں نے ہدایت کو بیچ دیا ہے. الله پاک فرماتے ہیں ان کے دل مہر یافتہ ہیں. تصویر میں آپ نے دیکھا کہ اللہ پاک نے انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا ہے. روشنی کہاں ہوتی ہے؟ دل میں. پہلے گراف میں بتایا گیا ہے کہ الله پاک نے ان کے دلوں اور سماعت پر مہر لگا دی ہے.
کیا ان کے کانوں کی بارے میں گراف کے آخر میں کوئی بات کی گئی ہے؟ آخر میں الله پاک فرماتے ہیں صُمّ. اللہ پاک نے ان کے کانوں پر مہر کیوں لگائی؟ آپ کو معلوم ہے نا کہ اگر آپ اپنی ٹانگوں کا استعمال نہیں کریں گے تو آپ چلنے کے قابل نہیں رہیں گے. آپ کو کچھ بھی یاد ہے کہ انہوں نے اپنے کانوں سے سننا کیسے بند کیا؟ انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال دیں تھیں. اگر ایسا دیر تک کیا جائے تو آخر کار الله پاک سننے کی صلاحیت چھین لیتا ہے پھر احساس ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا.
مجموعی طور پر جو سوال گراف کے شروع میں اٹھے ان کے جوابات آخر میں دئیے جا رہے ہیں. شروعات میں اللہ پاک فرماتے ہیں
وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ
ان کی آنکھوں پر پردہ ہے. اور آخر میں بھی دکھایا جا رہا ہے کہ ہر طرف اندھیرا ہے اور وہ اندھے ہیں بوجہ اس پردے کے جو ان کی آنکھوں پر ہے. یہ پردہ اس اندھیرے کی وجہ سے بھی ہے اور ان کے اپنے اندھے پن کی وجہ سے بھی. سبحان الله
اب تصویر میں دوسرے اور پانچویں پیراگراف کو دیکھیں دونوں آمنے سامنے ہیں.
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ ﴿٨﴾
لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم الله اور آخرت پر یمان لائے.
جب کہ دوسری جانب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے. یعنی انہوں نے دو بار یہ بات کہی. ایک بار رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یقین دلانے کے لیے اور دوسری بار ایمان والوں کو متاثر کرنے کے لیے. جبکہ اللہ پاک فرما رہے ہیں وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ وہ ایمان لانے والے ہیں ہی نہیں. اب ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایمان والے نہیں؟ الله پاک ہمیں بتا دیں گے. الله پاک نے فرمایا "جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے". اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ "وہ واپس اپنے شیاطین کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں نہ نہ ہمارا وہ مطلب نہیں تھا ہم تو بس مذاق کر رہے تھے."
تو الله پاک جب آغاز میں فرماتے ہیں کہ وہ لوگ ایمان لانے والے نہیں تو ہم حیرانی سے کہتے ہیں واقعی وہ ایمان نہیں لائیں گے؟ اور آیات کے آخر تک آتے آپ خود ہی سمجھ جاتے ہیں کہ واقعی وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں کیونکہ وہ تو خود اس بات کا اقرار کرتے پھرتے ہیں کہ وہ ایمان نہیں لاتے وہ تو بس مذاق کرتے ہیں. الله پاک نے تو بس اس بات کو کھول کر سمجھا دیا ہے. سبحان و تعالیٰ.
قرآن پاک کا انداز بہت حیرت انگیز ہے. سبحان الله.
وہ لوگ دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر اصل میں خود کو ہی دھوکا دے رہے ہوتے ہیں. آخر میں وہ وہ دوسروں کا مذاق اڑانے کی کوشش کرتے ہیں إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ﴿١٤﴾ مگر مذاق تو خود ان ہی کا بن رہا ہے. آغاز میں بھی ان کا دھوکا انہی پر الٹ پڑتا ہے اور آخر میں ان کا مزاق بھی.
پھر آغاز میں الله پاک فرماتے ہیں
فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا
ان کے دلوں میں بیماری ہے اور اللہ اس بیماری کو بڑھائے دیتے ہیں.
ہم سوچتے ہیں کہ الله ان کی بیماری کو کیوں بڑھا دیتے ہیں؟ الله پاک بعد میں کھول کر بیان کرتے ہیں کہ
وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴿١٥﴾
الله پاک انہیں ان کے سرکشی میں بڑھا دیتے ہیں. جب وہ سرکشی پر آتے ہیں تو الله پاک انہیں ڈھیل دے دیتے ہیں. اگر آپ کو ٹھیک سے یاد ہو تو يَعْمَهُونَ کا مطلب دل کا اندھا ہونا ہے. اصل میں یہ اس بیماری کا ہی نام ہے جو ان کے دلوں میں ہے. پہلے الله پاک فرماتے ہیں ان کے دل بیمار ہیں یہاں فرما رہے ہیں کہ اصل میں ان کے دل اندھے ہیں کیونکہ روشنی چھین لی گئی ہے. یہی مطلب ہے يَعْمَهُونَ کا.
دوسرے پیراگراف میں بھی ایک دلچسپ حقیقت بیان کرتے ہوئے الله پاک ان کا قصہ ختم کر رہے ہیں کہ "الله انہیں ان کے جھوٹ کی وجہ سے سزا دے گا". ان کے جھوٹ کون سے تھے؟ ان کا جھوٹ یہ تھا کہ جب وہ آئے تو انہوں نے کہا کہ وہ ایمان لائے جبکہ حقیقت میں یہ ان کا مذاق تھا. الله پاک نے فرمایا ہے
وَ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ
کہ ہم ایسے ہی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں.
اور تصویر کے بالکل درمیان میں جہاں ایک طرف کہا جا رہا ہے
وَإِذَا قِيلَ لَھُم
"اور جب کہا جاتا ہے ان سے" تو دوسری جانب بھی یہی کہا جا رہا ہے
وَإِذَا قِيلَ لَھُم
ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ
لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ
تو دوسری طرف
آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ
ایک طرف انہیں کہا جا رہا ہے کہ فساد مت پھیلاؤ اور اگر تم دوسروں کی طرف دیکھ کر بھی چلنا چاہتے ہو تو اچھے رول ماڈل دیکھو. یعنی انہیں کہا جا رہا ہے اچھے لوگوں کی طرح ایمان لے آؤ جبکہ وہ پہلے سے ہی خود کو بہت بہتر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں.
إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ.
جبکہ اگلی آیت میں صحابہ کرام کے بارے میں یہ سوچ رکھتے ہیں کہ
أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاء
کیا ہم ان بےوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟
آخر میں ان آیات ۷-۱۰ تک میں الله پاک کا غضب نظر آتا ہے ب وہ فرماتے ہیں
ُأَلا ، أَلَا
سنو، دھیان کرو
إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ ﴿١٢}
إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾
عین وسط میں انتہائی متوازن انداز قرآن ہی کا ہو سکتا ہے. تصویر میں کلی طور پر چھ پیراگراف ہیں پہلا پیراگراف چھٹے سے جڑا ہے دوسرا پانچویں سے اور تیسرا چوتھے سے. ایک مکمل توازن جو کہ پورے قرآن کا ہی انداز ہے. ضروری نہیں کہ بالکل اسی طرح ہر جگہ توازن اختیار کیا گیا ہو الگ بھی ہو سکتا ہے. کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ قرآن پہلے صرف پڑھا جاتا تب لکھا نہیں گیا تھا. رسول الله پر جب یہ آیات نازل ہوتی تھیں تو انہیں لوگوں کو سنا دیتے تھے. اب اگر آپ دھیان سے قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ اس توازن کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے. ایسا کچھ جو اپنے آپ میں پرت در پرت حیرتیں رکھنے والا ہو. اس کے ساتھ ہی ہم آج کا لیکچر مکمل کرتے ہیں.
جاری ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں