تدبرِ قرآن
سورہ الرحمٰن
(نعمان علی خان)
حصہ چہارم
اعوذباللہ من اشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے
انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟
يُـرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ وَّنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَان.
تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم بچ نہ سکو گے.
جب جنات آسمان کے راستے سے بھاگنے کی کوشش کریں گے تو ان پر آگ کے شعلے
پھینکے جائیں گے. یہ آگ کی برسات اوپر آسمان سے ہو گی. اور وہ اپنی کوئی
مدد نہ کر پائیں گے. نہ ہی بچاؤ کی کوئی اور صورت ہو گی.
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر( اے گرہ جن و انس ) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے
انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟
فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ
پھر جب آسمان پھٹ جائے گا اور پھٹ کر گلابی تیل کی طرح سرخ ہو جائے گا.
َالدِّهَانِ دو چیزوں کو کہا جاتا ہے.
١. جب کسی جانور کی کھال اتاری جائے تو اسے َالدِّهَانِ کہتے ہیں.
٢. جب آپ ہانڈی پکاتے ہوئے کچھ بھونتے ہیں اور تیل کے سرخ قسم کے چھینٹے اڑیں تو انہیں َالدِّهَانِ کہتے ہیں.
١. جب کسی جانور کی کھال اتاری جائے تو اسے َالدِّهَانِ کہتے ہیں.
٢. جب آپ ہانڈی پکاتے ہوئے کچھ بھونتے ہیں اور تیل کے سرخ قسم کے چھینٹے اڑیں تو انہیں َالدِّهَانِ کہتے ہیں.
تو آسمان گلابی تیل کی طرح سرخ رنگ کی مانند ہو جائے گا. اور آسمان پھٹ جا گا اور اس کی کھال اتر جائے گی.
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر( اے گرہ جن و انس ) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے
انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟
فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُسْاَلُ عَنْ ذَنْبِهٓ ٖ اِنْـسٌ وَّلَا جَآنٌّ
پس اس دن اپنے گناہ کی بات نہ کوئی انسان اور نہ کوئی جن پوچھا جائے گا.
قرآن میں بہت سی جگہوں پر اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ روزِ قیامت لوگ اپنے
اعمال کے لیے جواب دہ ہوں گے. لیکن اس آیت میں کہا گیا کہ کسی سے کوئی
سوال نہ کیا جائے گا. کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی کہ کون مجرم ہے
کیونکہ یہ ان کے چہرے سے ظاہر ہو گا.
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر( اے گرہ جن و انس ) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے.
يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمَاهُـمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِىْ وَالْاَقْدَامِ
مجرم اپنے چہرے کے نشان سے پہچانے جائیں گے پس پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑے جائیں گے.
مجرموں کو ان کے سروں اور پاؤں سے پکڑ لیا جائے گا. اس دنیا میں جب جانور
کو ذبح کرنا ہو تو اس کا سر اور پاؤں پکڑ لیے جاتے ہیں تو روزِ سزا و جزا
مجرموں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک ہو گا.
کچھ علمائے کرام نے اس پر اور غور و فکر کیا ہے. کچھ کا خیال ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ سر، جسم کا وہ حصہ ہے جہاں آپ برے فیصلے لیتے ہیں جیسا کہ جھوٹ. جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو وہ یہ غلط فیصلہ کرنے کے بعد اپنے پیروں سے چل کر دوسروں کے پاس اپنا جھوٹ بولنے جاتا ہے.
کچھ علمائے کرام نے اس پر اور غور و فکر کیا ہے. کچھ کا خیال ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ سر، جسم کا وہ حصہ ہے جہاں آپ برے فیصلے لیتے ہیں جیسا کہ جھوٹ. جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو وہ یہ غلط فیصلہ کرنے کے بعد اپنے پیروں سے چل کر دوسروں کے پاس اپنا جھوٹ بولنے جاتا ہے.
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر( اے گرہ جن و انس ) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے
انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟
هٰذِهٖ جَهَنَّـمُ الَّتِىْ يُكَذِّبُ بِـهَا الْمُجْرِمُوْنَ
یہی وہ دوزخ ہے جسے مجرم جھٹلاتے تھے.
"جہنم" فارسی کا لفظ ہے جو عربی میں آیا اور اس کے معنی ہیں" عقوبت خانہ".
یہ ہے وہ عذاب جسے مجرمین جھٹلاتے تھے. اللہ تعالٰی کہتے ہیں کہ اللہ کی
عنایات کو جھٹلانا، اپنے انجامِ کار کو جھٹلانے کے ہی برابر ہے. ان غافلوں
نے کبھی یہ سوچا ہی نہ تھا کہ ان کا یہ انجام ہو گا. ہمارے دور میں لوگ اس
سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں اور عذابِ الہی و جہنم کو مذاق سمجھ کے فلموں و
ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے.
هٰذِهٖ اور تِلْكَ میں کیا فرق ہے؟
"هٰذِهٖ" استعمال ہوتا ہے ایسی چیز کے لیے جو قریب ہو، یہ سامنے کی چیز،
جبکہ تِلْكَ یعنی وہ، کچھ ایسا جو دور ہو. اللہ تعالٰی نے یہاں "هٰذِهٖ" کا
لفظ استعمال کیا تاکہ ہمیں اندازہ ہو جائے کہ قیامت دور نہیں، نزدیک ہی
ہے.
يَطُوْفُوْنَ بَيْنَـهَا وَبَيْنَ حَـمِيْـمٍ اٰنٍ
گناہ گار جہنم میں اور کھولتے ہوئے پانی میں تڑپتے پھریں گے.
اللہ تعالٰی یہ منظر بیان کرتے ہیں کہ دوزخ میں لوگ پانی کو دیکھیں گے.
طُوْف کہتے ہیں آگے پیچھے ہونے کو. وہ پانی کو ابلتے ہوئے دیکھیں گے .
اٰنٍ یعنی پانی ابل کر جل رہا ہو گا. تو وہ واپس آگ کی طرف دوڑیں گے کہ
شاید یہ ٹھنڈی ہو اور پھر اسی طرح وہ آگ اور پانی کے درمیان مسلسل طواف
کرتے دوڑتے پھریں گے.
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر(اے گرہ جن و انس) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے.
یہ جہنمیوں کے لیے طنز بھی ہو سکتا ہے. کہ اگر تم یہ جہنم کا منظر فرض
کرو اور اس کے اثرات پہ غور کرو تو تم کیسے اللہ کی آیات سے انکار کر سکتے
ہو؟
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّـتَانِ
اور اس کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے دو باغ ہوں گے.
اگر کوئی ڈرتا ہے اللہ سے، تو اس کے لیے دو باغ ہیں. اس سے پہلے اس سورۃ
میں اللہ کا شکر ادا کرنے پہ زور دیا گیا تھا. اس آیت میں اللہ سے ڈرنے پر
انعام کا ذکر ہے. اس میں اور پچھلی آیات میں کیا فرق ہے؟ پہلی چیز جو ایک
اچھے انسان کو اللہ کا معبود بننے پر ابھار سکتی ہے وہ ہے اللہ کا فضل و
کرم. لیکن ایک ضدی نافرمان شخص کو اللہ کی طرف خوف لے کر جاتا ہے.
یہ نیکی کی طرف اکسانے والی آیات ہیں ، آیات البر، اللہ تعالٰی نے ہمیں
ہمارے اعمال کے نتائج بتا دیے ہیں. اولین وجہ جو اللہ کی بندگان اختیار
کرنے کے لیے ہونی چاہیے وہ ہے اللہ کا فضل و کرم. اللہ اسی قابل ہے کہ اس
کی عبادت کی جائے. نیک اعمال کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہونی چاہیے کہ آپ
اللہ کے شکر گزار بندے ہیں. ہر کوئی اس مقام پہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر کسی
پہ اللہ کا یہ احسان ہے.
اللہ تعالٰی کہتے ہیں کہ اللہ کی بندگی
اختیار کرنے کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جیسے کہ روزِ قیامت. جو دو اور
بڑی وجوہات ہیں اللہ کی بندگی اختیار کرنے کے لیے وہ ہیں جنت کی خواہش،
اور جہنم کا خوف. یہ دونوں اللہ تعالٰی کی طرف جانے کے لیے انسان کو
ابھارتی ہیں. اس سورۃ کا آغاز اللہ تعالٰی نے ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنے کی
ترغیب دیتے ہوئے کیا تھا. آپ کو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنی چاہیے اور یہ
کافی ہے آپ کے لیے. بعد میں جب مجرموں کا ذکر کیا گیا تو بہتر یہی ہے کہ
آپ اللہ سے ڈریں. اللہ تعالٰی جانتے ہیں کہ اس دنیا میں مختلف قسم کے لوگ
پائے جاتے ہیں.
دو جنتوں کا وعدہ کیوں کیا گیا؟ عام خیال یہی ہے کہ
ایک انسانوں کے لیے اور ایک جنت ان جنات کے لیے جنہوں نے اللہ کی خاطر
اپنی خواہشات کو دبا ڈالا. دوسرے علماء کا خیال ہے کہ شاید دو جنتوں کا ذکر
اس لیے کیا گیا کیونکہ دو چیزیں انسان کو کامیاب کراتی ہیں. اللہ کا شکر
اور اللہ کا خوف. کچھ لوگ نیک کام کرتے ہیں اور کچھ لوگ برائی سے دور رہتے
ہیں. کچھ لوگ نیک اعمال میں مصروف رہتے ہیں، اللہ کی عبادت کرتے ہیں لیکن
برے کاموں سے دور نہیں رہ پاتے. جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ ہیں جو زیادہ برے
کام نہیں کرتے لیکن نیک اعمال کرنے میں سستی برتتے ہیں.
اگر آپ
واقعی اللہ تعالٰی سے ڈرتے ہیں تو آپ کو دو چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے، نیک
اعمال میں خود کو مصروف رکھیں اور برے کاموں سے خود کو دور رکھیں. کچھ لوگ
سمجھتے ہیں کہ ان کے نیک اعمال ان کے برے کاموں کو ڈھانپ لیں گے لیکن یہ
ان کی خام خیالی ہے. آپ کو محنت کرنی لازمی ہے. آپ کو مجرم نہیں بننا اور
آپ کو ایک اچھا انسان بننا لازم ہے.( خود کو ان کاموں میں مصروف کرنا جن کا
اللہ نے حکم دیا ہے. )
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر( اے گرہ جن و انس ) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے.
اس آیت میں کن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے؟ پچھلی کچھ آیات جہنمیوں کے
متعلق تھیں. لیکن یہ آیت مختلف ہے. وہ انسان جو جنت میں داخل ہو گیا اس نے
دین کو شاید ترجیح دی ہو لیکن جنت میں داخل ہونے کے بعد اسے یہی لگے گا کہ
اس نے اللہ کی عبادت کا حق ٹھیک سے نہیں ادا کیا. اللہ کے دین کی خدمت، نیک
اعمال، توبہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہمارے لیے مواقع تھے. جتنا کچھ انہیں
جنت میں ملے گا وہ اس قدر ہی اس پر اللہ کا اتنا زیادہ شکر ادا کریں گے اس
کے لیے بھی جو کچھ انہیں دنیا میں ملا. انہیں جنت میں کیا چیز لے گئی؟ ان
کا دین، ان کے اساتذہ، وہ مسلمان جنہوں نے اس راہ میں ان کی مدد کی، جو ان
کے لیے اللہ کا تحفہ تھے.
ذَوَاتَـآ اَفْنَانٍ
جن میں بہت سی شاخیں ہوں گی.
جنت کے باغ میں بہت سے درخت ہیں جن کی شاخیں نہایت گھنی ہیں. کسی بھی
علاقے کے گھنے سایہ دار درخت اس علاقے کی پراپرٹی کی مالیت، خوبصورتی اور
پوش ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں. درخت کسی جگہ کو پراسرار بناتے ہیں. کیونکہ
درخت منظر کو چھپا دیتے ہیں.
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے
انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟
فِـيْهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ
ان دونوں میں دو چشمے جاری ہوں گے
کسی بھی آبشار کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی آپ اس کی آواز سن لیتے ہیں.
انسانوں کو آبشار، رواں پانی اور چشموں کے پاس جا کر ویسے ہی اچھا لگتا ہے.
جب آپ کسی خوبصورت جگہ چھٹیوں میں جائیں تو آپ ان لوگوں کے ساتھ جانا
چاہتے ہیں جن سے آپ محبت رکھتے ہیں. جنت میں ایک لطف آپ کے ساتھ آپ کے دوست
احباب کا ہونا بھی ہے. ان باغات کا اصل لطف ہی ہمارے ساتھ موجود ہمارے
اپنوں کا ہونا ہے.
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے
انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟
فِـيْهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ
ان دونوں میں ہر میوہ کی دو قسمیں ہوں گی.
ہر باغ میں دو چشمے جاری ہوں گے اور ہر باغ میں ہر قسم کے پھل دو طرح کے ہوں گے. ہمارے لوگوں کو تبدیلی، ورائٹی نہایت پسند ہے.
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے
انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟
سورۃ
بقرۃ میں اللہ تعالٰی نے ہم بتایا کہ ہم جنت کے پھل کھائیں گے تو کہیں گے
کہ یہ تو وہی ہے جو ہم دنیا میں کھایا کرتے تھے. لیکن بخدا اس کا ذائقہ
بالکل مختلف ہے.
مُتَّكِئِيْنَ عَلٰى فُرُشٍ بَطَـآئِنُهَا مِنْ اِسْتَبْـرَقٍ ۚ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ
ایسے فرشوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے کہ جن کا استر مخملی ہوگا اور دونوں باغوں کا میوہ جھک رہا ہوگا.
رگ ،قالین وغیرہ گھروں کے اندر رکھے جاتے ہیں باہر نہیں کیونکہ باہر یہ
خراب ہو جائیں گے. جنت میں قالین، تکیے، تخت باہر باغات میں ہوں گے.
کیونکہ دنیا میں یہ تکیے غلاف وغیرہ وہ چیزیں ہیں جنہیں سامنے سے دیکھا
جائے تو قیمتی لگتی ہیں مگر ان کے اندر سستا مٹیریل استعمال ہوتا ہے. اللہ
تعالٰی ان تکیوں اور غلافوں کے اندر کی بات کرتے ہیں کہ وہ اندر سے بھی
مہنگے قیمتی کمخواب اور ریشم کے بنے ہوئے ہیں.
پھل جو درختوں کی
شاخوں پہ لدے ہوں گے وہ نہایت اونچے ہوں گے. لیکن وہ شاخیں جھک جائیں گی کہ
آپ تخت پہ بیٹھے بیٹھے ہی انہیں پکڑ لیں. دوسرے لفظوں میں شاخیں اس قدر
جھکی ہوں گی کہ آپ کو پھل توڑنے کے لیے تگ و دو نہ کرنی پڑے گی.
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے
انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟
فِـيْهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِۙ لَمْ يَطْمِثْـهُنَّ اِنْـسٌ قَبْلَـهُـمْ وَلَا جَآنٌّ
ان میں نیچی نگاہوں والی عورتیں ہوں گی، نہ تو انہیں ان سے پہلے کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے چھوا ہوگا.
لفظ " شریکِ حیات " ایک اسم ہے لیکن آیات میں صفت کے طور پر استعمال کیا
گیا ہے : وہ جو اپنی نظریں جھکائے رکھیں، اپنی نظروں کی حفاظت کریں. جب
اللہ تعالٰی شریکِ حیات کے متعلق جنت کا ذکر کرتے ہیں تو اللہ تعالٰی ہمیں
اس دنیا میں ایک مثالی شریکِ حیات کے بارے میں اشارہ دیتے ہیں. جب اللہ
تعالٰی آپ کو ایک مثالی و کامل شریکِ حیات کے متعلق بتاتے ہیں تو وہ آپ کو
سکھا رہے ہیں کہ اس دنیا میں آپ کا کردار کیسا ہونا چاہیے. دوسرے لفظوں
میں وہ اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے شریکِ حیات کے علاوہ کسی کو
نظر بھر کہ نہیں دیکھتے.
دوسرا مفہوم بھی نہایت خوبصورت ہے. اگر آپ
اپنی شادی کے پہلے ہفتے کے متعلق سوچیں بھی تو آپ کو بےچینی اور خوشگوار
گھبراہٹ سی محسوس ہوتی ہے، تب شوہر اور بیوی کے مابین حیا کا رشتہ ہوتا ہے.
جنت میں یہ محبت، خوشی و بے تابی کبھی ختم نہ ہو گی. یہ آیت دوبارہ سے یہ
واضح کرتی ہے کہ ایک جنت انسانوں کے لیے ہے اور ایک جنات کے لیے.
اسکے علاوہ آج کے دور میں جس قدر شادیاں ختم ہو رہی ہیں اور معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں ہم اس کے بارے میں جانتے ہیں. نوجوانوں کے لیے خود کو پاکیزہ رکھنا مشکل ہو گیا ہے. اگر آپ شادی سے پہلے خود کو پاک نہیں رکھتے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ شادی کے بعد آپ خود کو پاک رکھ پائیں. شادی کوئی جادو نہیں ہے جو آپ کو ایک دم سے صالح انسان میں بدل دے گا.
نہایت اعلی منظر کشی کی جا رہی ہے، درخت، چشمے، ایک خوبصورت شریکِ حیات، جن کی حیا کی صفت کو نمایاں کیا گیا ہے.
اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مردوں کے لیے جنت میں خوبصورت بیویوں کا ذکر ہے لیکن خواتین کے لیے ان کے شوہر کے ساتھ کا جنت میں ذکر کیوں نہیں؟
علمائے کرام کی اس بارے میں بہت سی مختلف آراء ہیں. میری ذاتی رائے اور
جس سے ہرگز یہ ضروری نہیں کہ آپ متفق ہوں کہ اللہ تعالٰی سورۃ ال عمران میں
مردوں کی خواہشات کے متعلق نہایت تفصیل سے بات کرتے ہیں. خواتین کا ذکر جب
بھی قرآن میں آیا ہے تو گفتگو کھلے لفظوں میں ہے مگر واضح نہیں ہے، جو یہ
ظاہر کرتا ہے کہ خواتین کی خواہشات مرد حضرات سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں.
ایک عورت کی سب سے بڑی خواہش، ایک خوبرو شوہر کا ساتھ ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ہو سکتی. اہلِ ایمان کو اطمینان حاصل ہونا چاہے کیونکہ اللہ تعالٰی قرآن میں فرماتے ہیں "تمہیں وہ دیا جائے گا جس سے تم راضی ہو جاؤ گے. "
اور یہ آیت صرف مرد یا عورت کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے ہے۔
نعمان علی خان
جاری ہے۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں