اپنے درد کا اشتہار نہ بنائیے



ہم واقعی نہیں جانتے کہ ہمیں خدا کی کن کن نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے. ہم بہت سی نعمتوں کو فور گرانٹڈ لیتے ہیں (ہلکا لیتے ہیں، احساس اور قدر نہیں کرتے) اور اس کا ایک اظہار یہ ہے کہ ہم دوسروں پر تنقید اور نصیحتیں کرنے میں بہت بےرحمانہ عجلت سے کام لیتے ہیں.

ایسی ہی نعمتوں میں سے ایک نعمت جذباتی استحکام (emotional stability) ہے. اگر آپ جذباتی طور پر مستحکم رہتے ہیں تو اس پر اللہ کا شکر بنتا ہے. بہت سے لوگ اس معاملے میں آزمائش سے گزر رہے ہوتے ہیں.

"جذباتی عدم استحکام" (emotional instability)  کی ایک شکل تو (Mood Swings) کا ہونا ہے. مراد اس سے یہ ہے کہ یا تو بہت خوش یا بہت اداس یا بہت چڑچڑا رہا جائے، اور آپ ایک پنڈولم کی طرح ان دو انتہاؤں کی طرف جھولتے رہیں. اس کی دوسری شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ کے جذبات کی شدت آپ کو پریشان رکھے، مثلا آپ غمگین رہتے ہوں اور خود کو اداسی کے سمندر میں ڈوبتا محسوس کرتے ہوں، کسی سے محبت کریں یا چاہیں تو طبیعت پر اختیار نہ رہے اور دل کا قرار کھو جائے، یا اندیشے اور شکوک آپ کو بےانتہا مضطرب رکھتے ہوں.

ایسا عارضی طور پر بھی ہو سکتا ہے، نارمل بھی ہو سکتا ہے، اس قدر بڑھ بھی سکتا ہے کہ آپ کی روز مرہ کی زندگی اور معاملات کو متاثر کرنے لگے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کی شخصیت کا ہی حصہ ہو. کبھی اس حد تک تو نہ بڑھے کہ معاملات زندگی یا تعلقات بہت زیادہ متاثر ہونے لگیں، لیکن اتنا ضرور ہو کہ خود آپ کو اذیت میں مبتلا رکھے.

جو لوگ اس آزمائش سے محفوظ ہیں، انھیں خیال کرنا چاہیے کہ ان کے ذومعنی رویے، تنقید اور بےجا نصیحت انھیں "ignorant" اور "arrogant " بناتی ہے.

غمگساری کے لیے بہت ضروری ہے کہ آپ اپنی مسند سے اتر کر نیچے آئیے، بغور سنیے اور اس شخص کی نظروں سے اس کے معاملے کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی کوشش کیجیے. ہو سکتا ہے کہ آپ کے لیے ایک چیز یا ایک واقعہ اہم نہ ہو، اس لیے آپ کے لیے نصیحت کرنا آسان ہو جائے، لیکن اس شخص کے لیے وہ کیا معنی رکھتا ہے، یہ سمجھنا ضروری ہے اور اگر آپ محسوس نہیں کر سکتے، جو ایک بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے، تو کم از کم احترام کیجیے اور اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ آپ کو اس کیفیت میں مبتلا نہیں کیا گیا. اور کم از کم اپنی نادان دوستی سے اسے نقصان پہنچانے سے گریز کریں.

اور جو لوگ اس حالت سے گزرتے ہیں، ان کے لیے بھی کچھ باتیں مفید ہو سکتی ہیں.
سب سے پہلی بات
جذبات ایک دریا کی مانند ہیں، اور دریا اللہ کی نعمت ہے، اس کا بہاؤ انسان کی ضرورت ہے. دریا کا متلاطم ہونا اور بپھرنا کوئی انہونی بات نہیں. اس لیے اگر آپ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، تو آپ یہ سوچ کر خود کو مزید اذیت میں مبتلا نہ کریں کہ ایسا آپ کے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ اور شاید آپ واحد ہیں جس کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے. ایسا نہیں ہے.

دوسری بات
دکھی، مضطرب، خوفزدہ یا خوش ہونا کوئی بری بات نہیں. یہ ہمیں انسان بناتا ہے. کچھ مذہبی اور اخلاقی سدھار کے جوش میں مبتلا افراد ہمیں جتانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اچھے مسلمان، یا کامیاب اور مضبوط انسان غمزدہ نہیں ہوتے، انھیں خوف یا اندیشے نہیں ستاتے، وہ روتے بھی نہیں، انھیں بزدلانہ یا غیر اخلاقی خیالات بھی نہیں آتے. ایسا وہ اس لیے کہتے ہیں کہ شاید ان کے نزدیک اچھے مسلمان یا مضبوط انسان ہونے کا مطلب فرشتہ ہونا یا دیوتا ہونا ہے. یا شاید ان کو اپنے جذباتی استحکام کی قدر نہیں اور وہ اس کا شکر ادا نہیں کر پا رہے. یا وہ خود اپنی کمزوریوں کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں.

البتہ چند باتوں کی کوشش کی جاسکتی ہے.
آپ اوروں سے خفا نہ ہوں. آپ کو درد کی دولت ملی ہے، اس لیے آپ ان دوسرے لوگوں کی طرح نہ بنیے جو محض اس لیے دوسروں کو اپنے رویوں سے تکلیف دیتے ہیں کہ وہ ان کا درد سمجھ نہیں سکتے. آپ سمجھ سکتے ہیں؟ آپ کو اندازہ ہے، کہ ان کو آپ کے کرب کا اندازہ نہیں، اس لیے شان استغنا سے ان سے صرف نظر کرنے کی کوشش کیجیے. اس لیے کہ ان سے الجھنا اپ کو صرف مزید تکلیف پہنچائے گا. اور دوسروں سے لڑ جھگڑ کر اپ اپنی اس نعمت عرفان کا کفران کریں گے.
دوسری بات، اپنے وقار کا خیال رکھیں. ایک آزمائش نے آپ کی ساری قابلیتوں پر پانی نہیں پھیر دیا ہے. اس لیے خود پر اعتماد نہ کھونے دیں. اپنے درد کا اشتہار نہ بنائیے اور اسے اپنی کمزوری نہ بننے دیجیے. اپنی دوسری صلاحیتوں کو کام میں لانے کی کوشش کرتے رہیں. وہ آپ کا حوالہ بن جائیں گی. جس طرح دریا منہ زور ہو جائے تو اس سے نبٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے بہاؤ کو ذرا چوڑا کر دیا جائے، نہریں اور نالیاں نکالی جائیں، اس سے بجلی بنا لی جائے، ٹربائن چلائے جائیں، ان کا رخ موڑا جائے، اس طرح کے کچھ طریقوں سے جذبات کی طغیانی کو سنبھلنے کی کوشش کرنی چاہیے. لکھیں، باغبانی کریں، سلائی کڑھائی کریں، جانور پالیں، مصوری کریں، ورزش، یوگا اور چہل قدمی کریں. فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لیں.

آپ کے لیے سب سے اہم اپ کی اپنی ذات ہے. ہمارا دین بھی ہمیں تلقین کرتا ہے کہ اپنے نفس کی فکر کریں، اس کا حق ادا کریں، اسے بےجا اذیت میں مبتلا نہ کریں. اس لیے اگر ہمارے وجود کو مدد کی ضرورت ہے، تو کچھ تنگ دل اور تنگ نظر لوگوں کے ناگوار اور نادان رویوں کی وجہ سے اپنے وجود کو اس کے حق سے محروم نہ کریں. اپنے درد کو اپنی کمزوری نہ سمجھیے، اس کو جانیے، اس کو برتیے، اس کے مثبت استعمال کے لیے راستے نکالیے، یہ آپ کی طاقت بن جائے گا. ان شاء اللہ.

2 تبصرے:

  1. یہ mood کیا ہوتا ہے؟ اس کا استعمال 1956ء کے بعد شروع ہوا. 1960ء تک صورت حال یہ ہوئی. میرا موڈ نہیں ہے. اس کا موڈ خراب ہے. تمہارے موڈ کو کیا ہوا ہے. لیکن میں اس خوشبو سے بچا رہا

    جواب دیںحذف کریں
  2. اردو لغت کے مطابق "موڈ" کے معنی ہیں
    ١ - کسی کام کے لیے طبیعت کا موزوں یا نا موزوں ہونا، کیفیت مزاج، حالت، (طبیعت کی) لہر، موج، ترنگ۔
    اور گوگل بابا کی ڈکشنری بتاتی ہے کہ یہ دماغ یا احساسات کی ایک 'عارضی' کیفیت ہوتی ہے۔

    مجھے تو سجاد علی کا ایک گانا یاد آجاتا ہے اس پہ "ابھی موڈ نہیں ہے کل آنا"

    میرے خیال میں انسان کو موڈ پر حاوی ہونا چاہئیے نہ کہ موڈ انسان پر حاوی ہو جائے۔

    جواب دیںحذف کریں