تدبر القرآن ۔۔۔۔ سورۃ الکوثر از نعمان علی خان.. حصہ اول

تدبر القرآن
سورۃ الکوثر
از استاد نعمان علی خان
حصہ اول

روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر اٹھایا اور مسکرانے لگے اور فرمایا :
"میرے پاس بالکل ابھی ایک سورہ آئی ہے"، اور عام طور پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قرآن آتا تو آپ اسے لینے کے بعد اسکی تلاوت فرما دیتے اور بہت کم موقعوں پر پہلے اعلان فرمایا کہ میرے پاس (خاص) وحی آئی ہے۔ ویسے تو ہمارے لیے سارا قرآن ہی خاص ہے مگر قرآن کے اندر بھی چند لمحات ایسے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ امت سمجھے کہ یہ ان میں خاص اہمیت ہے۔ کیونکہ اگر رسول االلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ویسے بھی تلاوت فرماتےتو ہم اسے سنجیدگی سے ہی لیتے کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے مگر جب وہ عام طریقے سے ہٹ کر کہتے ہیں کہ "کیا تمہیں احساس ہے کہ ابھی ایک سورہ نازل ہوئی ہے" اسکی تلاوت سے بھی پہلے۔ تو اس میں کچھ خاص ہوتا تھا۔

روایات میں آپ صلی اللہ وآلہ وسلم کی مسکراہٹ کا بھی ذکر آتا ہے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت مسکرا رہےتھے ۔)سو یہ قرآن اور سنت کے درمیان ایک رشتے کا حصہ ہے کہ یہ سورۃ الکوثر رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کی مسکراہٹ کے ساتھ منسلک ہے ۔یہ انکی اپنی ذاتی خوشی کے ساتھ منسلک ہے ۔اس بات کو سمجھنا بہت اہم ہے رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کی زندگی بہت مشکل لمحات سے بھرپور ہے حتی کے پیغمبر بننے سے پہلے بھی۔ مثال کے طور پر اللہ تعالی ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کا ذکر فرماتے ہیں تو لفظ عَائِلًا استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ عایلا سے نکلا ہے جسے ہم میں سے کئی لوگ جانتے بھی ہیں عایلا فیملی۔ مگر الا یا اولا سے مراد ہے آپ کو کسی کی ضرورت ہے۔ جب آپ کسی پر تکیہ کریں۔ مایوس کن حالات میں جیسے بچہ امید سے بالکل خالی ہو کر ماں کی طرف دوڑتا ہے تو اس مقام پر وہ اسکی عائلہ ہیں۔ اور گھر کے ایک سربراہ کی حثیت سے آپکے باقی خاندان کے لیے آپ عائلہ ہیں۔ کیونکہ وہ آپکی طرف رجوع کرتے ہیں ۔انہیں آپکی ضرورت ہے۔ تو یہاں اللہ تعالی ایسے شخص کے بارے میں بیان کرتے ہیں جو ضرورت مند ہے۔ جو شخص ضرورت مند ہے وہ عائل کہلاتا ہے۔اور اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کو ایسے شخص کے طور پر بتایا ہے جو عیلا میں ہیں ۔عیلا ؟ یعنی جب آپ (امید سے خالی ،مایوس کن )ضرورت میں ہوں ۔

روسرے لفظوں میں ایک بچے کو اپنے باپ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ایسے ہی اپنی ماں کی بھی ۔مگر وہ اپنے باپ کو جان بھی نہیں پاتا اور کھو دیتا ہے ۔اور اول عمری میں ہی اپنی ماں کو بھی کھو دیتا ہے ۔اور پھر دادا کو بھی جو اسے اپنے بیٹوں کی طرح چاہتے تھے۔پھر جس وقت انہیں ابو طالب کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ بھی دنیا سے کوچ فرما جاتے ہیں ۔اور پھر قریش کی طرف سے بیر بڑھتا ہی جا رہا ہے تو وہ ضرورت کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع فرما تے ہیں وہ بھی دنیا سے رخصت ہو جاتیں ہیں۔ وہ مسلسل ضرورت کے حالات میں اکیلے چھوڑ دیے جاتے ہیں ۔

تمام انسان جذباتی سہارے کی ضرورت میں ہوتے ہیں۔ یہ بات رسول اللہ  رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کے لیے بھی صحیح ہے ۔انہیں بھی جذباتی سہارا درکار تھا۔

حدیبیہ کے موقع پر جب صحابہ نے احرام اتارنے سے آنکار کر دیا تب آپ  صلی اللہ وآلہ وسلم کی نافرمانی ہوئی، ان لوگوں کی طرف سے ہوئی جو ایمان نہیں لائے تھے، منافقوں کے ہاتھوں، مگر وہ بھی اسلئے کہ صحابہ چونکہ قدرے مایوسی کی حالت میں تھے۔ وہ سو کی تعداد میں تھے۔ اٹھارہ سو کئی روایات کے مطابق۔وہ وہاں حج کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں ۔انھوں نے اس کے لیے اتنا سفر کیا ہے ۔بلکہ انہیں یہاں تک پہنچنے کے لیے ایسا راستہ اختیار کرنا پڑا جہاں سے انسان نہیں گزرا کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں خطرہ تھا اگر وہ عام راستے سے گزرے تو ان پر حملہ کر دیا جائے گا۔ تو انہیں حدیبہ تک پہنچنے کے لیے بھی اس راستے سے گزرنا پڑا جہاں سے جانور بھی نہیں گزرا کرتے تھے ۔اور اسی وجہ سے ان میں سے کئی کے احرام نیچے سے خون سے لبریز تھے کیونکہ انکے پاؤں زخمی تھے۔یہ راستہ ایک صحابی نے تجویز کیا تھا ۔یہ وہاں تک پہنچنے کے استعمال کیا جانے والا عام راستہ نہیں تھا۔ سو وہ وہاں پہنچتے ہیں فائنلی مذاکرات شروع ہوتے ہیں ۔اور یہ مذاکرات بھی آسان نہیں تھے۔ یہ خطبہ حدیبیہ سے متعلق نہیں ہے مگر میں آپ کو صحابہ کے جذبات کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔

سارے مذاکرات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ ہم حج نہیں کر رہے ۔اور انہیں پہنچنے والہ صدمہ اتنا شدید ہے کہ اگر وہاں صحابہ کے علاوہ عام لوگوں کو گروہ ہوتا تو وہاں فساد کھڑا ہو جاتا ۔

آپ تصور کر سکتے ہیں آپ نے اپنے حج کے لیے پیسے دیے۔احرام خریدا۔ گھر والوں کو خیر آباد کہا۔ معذرت کی سب سے۔ تین فلائیٹس لے کر جدہ پہنچے ۔اور پاسپورٹ آفس پہ آپکو آدمی کہتا ہے آپ واپس چلے جائیں کیونکہ آپ امریکہ سے ہیں۔

اگر گروپ میں کچھ سو لوگ بھی ہیں تو بھی ائیر پوٹ پر کافی مسئلہ ہو گا۔
آپ وہاں خاموشی سے نہیں بیٹھ جائیں گے۔ صحابہ کے بارے میں آپ خیال کریں گے یہ نافرمانی کا موقع تھا ۔ مگر یہ انکی غیر معمولی فرماں برداری ہے کہ وہ اس موقعے پر خاموش رہے اور کچھ کہا نہیں۔ ان میں سے ایک دو نے قدرے زبانی حملے کیے مگر باقی سب خاموش رہے۔ مگر انھوں نے اپنے احرام نہیں اتارے۔ پہلی بار انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کی بات نہیں سنی کیونکہ وہ حج نہ کر پانے پر شدید افسردہ تھے اور کنفیوژن سے مغلوب تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ وہ حج کریں گے۔ اور اب وہ کہہ رہے ہیں واپس چلو ہم حج نہیں کر رہے۔ حتی کہ حضرت عمر صدمے میں تھے۔ مگر میں یہ آپکو اس لیے بتا رہا ہوں کہ دُکھ کے اس لمحے میں صحابہ کو دکھ تھا مگر رسول اللہ کو کہیں زیادہ دکھ کا سامنا تھا۔ وہ امہات المومنین سے رجوع کرتے ہیں ۔
تو یہ آپ صلی اللہ وآلہ وسلم کے رجوع کرنے میں تسلسل ہے ۔
ہمیں بھی ماں باپ ،زوج کی ،بچوں کی ضرورت ہوتی۔

آپ ماں باپ اور بچوں کے رشتے کے بارے میں سوچیں۔۔ بچے کو ماں باپ کی ضرورت ہوتی ہے مگر دوسری طرف ماں باپ کو بھی بچوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم جب اپنے بچے کو اٹھاتے ہیں ہمارا ذہنی تناؤ کہیں دور چلا جاتا ہے ۔انہیں خوش دیکھنا ہمارے لیے خوشی کا سبب ہوتا ہے۔ اور یہ بہت گہرا تعلق ہے خاص طور پر جب کسی شخص نے بار بار اپنے خاندان کوکھویا ہو تو پھر سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز جو تصور میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے بچے کو کھو دینا۔ خاص طور پر جب آپ کے پاس کوئی اور بھی نہ ہو اور اب اولاد کی نعمت ملتی ہے تو آپ اس رشتے کی قدر کریں گے کیونکہ آپ خود اس رشتے سے محروم تھے ۔

رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم ماں باپ کے رشتے سے محروم تھے اور جب انہیں بیٹا عطا ہوتا ہے تو وہ اپنی پوری کوشش کریں گے کہ وہ بیٹے کو بہترین پیار دے سکیں جوانہیں خود کو میسر نہیں آسکا اس کے لیے بھی تلافی کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ چاہیں گے وہ چیز میرے بچے کو ضرور ملے۔

جیسے بہت سے لوگ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے انکا سب سے بڑا خواب یہ ہوتا ہے کہ میرا بچہ تعلیم حاصل کر لے۔ وہ اپنے بچوں کو وہ دینا چاہتے ہیں جو انہیں خود کو میسر نہیں تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ وہ دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کے زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا۔ اور ایک رنج کی کیفیت گھر کو گھیرے میں لیے ہوئے تھی ۔اور اس حالت میں لوگوں سے بات تک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگ آتے ہیں تعزیت کرتے ہیں مگر پھر ایک وقت میں آپ صرف اکیلے رہنا چاہتے ہیں ۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم ابولہب کے ہمسائے ہیں ۔اسلام کےبدترین دشمنوں میں سے ایک۔ اور بالکل ساتھ والے ہمسائے ۔

جب بچہ فوت ہوتا ہے تو یہ خبر، بلکہ گھر والوں کی آواز بھی ابولہب ساتھ والے ہمسائے کو جا رہی تھی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کا چچا بھی ہے۔ اور چچا ہونے کی با جود رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم اسکے ہنسنے کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ آپ اسکو خوشی سے باہر ہوتا ہوا سن سکتے ہیں اس وقت جب رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے اپنے مردہ بیٹے کو اٹھایا ہوا ہے ۔اور آپ اسکو
بتر محمد ۔۔ بتر محمد  کہتے ہوئے سن سکتے ہیں ۔گھر سے نکل کر گلیوں میں خوشی سے چیختے ہوئے سن سکتے ہیں، وہ شخص اس موقعے پر چیخ رہا تھا کہ "محمد کا نام آگے نہیں بڑھے گا"(کوئی مِشن کو آگے بڑھانے والا نہیں ہو گا) کیونکہ بیٹیاں نام نہیں بڑھاتیں۔ انکی رفاقت انکے شوہر کے ساتھ ہوتی ہے۔ سو بیٹے نام بڑھاتے ہیں ۔اور وہ خوش تھا کوئی محمد کا نام لیوا نہیں رہ جائے گا۔ اور وہ یہی بات اونچی آواز میں دہرا رہا تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم اور انکا خاندان انہیں سن رہا ہے۔اور یہ سخت صدمے کا موقع ہے رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کے لیے، اور اس موقع پر یہ سورہ نازل ہوئی تھی۔

اور میں نے آپکو کیا بتایا اس سورہ کے بارے میں ؟
آپ ﷺنے اپنا سر مبارک اٹھایا اور مسکرائے۔اور فرمایا میرے پاس ابھی ایک سورہ آئی ہے ۔

قرآن صرف ہمارے اعمال اور عقائد کو درست کرنے کے لیے ہی نہیں محض آخرت،اللہ اور فرشتوں کے بارے میں عقائد ہی نہیں ہے۔ قرآن ان عقائد کی درستگی کے لیے بھی ہے کہ کیا حرام ہے یا حلال ہے مگر قرآن ہمارے جذبات کی رہنمائی کے لیے بھی ہے ۔ہمارے دکھ کی راہنمائی خوشی تک کےلیےبھی۔ غصے کو واپس سکون تک رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ ہمارے جذبات کوگائیڈ کرنے کے لیے۔
"جس کا اللہ پر سچا ایمان ہو گا اللہ اسکے دل کی راہنمائی فرماے گا(القران)"
اگر آپ کے دل میں حسد ہے تو قرآن اسکی واپسی کے لیے رہنمائی کرے گا ۔اسی طرح لالچ بھی۔ آپ قران کو رہنمائی کرنے دیں یہ لالچ کے حوالے سے بھی آپکی مدد کرے گا اور آپکو واپس صدقہ دینے والا شخص بنا دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم اس موقعے پر دکھ سے گھرے ہوئے ہیں۔ اور جب قرآن نازل ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے سر اٹھایا اور آپ ان کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھتے ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔
-استاد نعمان علی خان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں