تدبرِ قرآن ۔۔۔ سورہ البقرۃ (نعمان علی خان) ۔۔ حصہ 21

تدبرِ قرآن
سورۃ البقرۃ
(حصہ-21)

السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تو اللہ تعالٰی نے انہیں لوگوں میں اپنا کلام نازل کیا. وہ لغت  میں، ماہر تھے.
پہلا منظر یہ تھا کہ ایک شخص نے اندھیرے میں آگ روشن کی. رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام جب چالیس برس کی عمر کو پہنچے تو انہیں ابھی تک نبوت نہیں ملی تھی، لیکن پھر بھی وہ اپنے ارد گرد حالات کو دیکھ کر پریشان تھے انہیں دکھ ہوتا تھا کہ ان کے اردگرد کے لوگ بتوں کو پوجتے تھے، جن کو رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام کبھی نہیں پوجتے تھے. وہ نہایت دکھی ہوتے تھے لوگوں پر ظلم ہوتا دیکھ کر. یتیموں کو دھکے دیے جاتے تھے. ضرورت مندوں کی کوئی مدد نہ کرتا تھا، بوڑھے حضرات کو سنبھالنے کے لیے کوئی تیار نہ تھا. اور رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام نبوت ملنے سے پہلے بھی فلاحِ عامہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے. وہ ہمہ وقت لوگوں کی مدد کو تیار رہتے تھے. اور حضرت خدیجہ رضی اللہ کی دولت کا بڑا حصہ انہی فلاحِ عامہ کے کاموں کے لیے وقف تھا. لیکن وہ اس سے مطمئن نہ تھے کہ وہ مظلوم کی مدد کرتے ہیں اور ظلم ہے کہ بڑھتا ہی چلا جاتا، وہ غریبوں کی مدد کرتے تھے لیکن غربت ختم ہی نہیں ہو رہی تھی. وہ کرپشن ختم کرنے کے لیے سرگرداں تھے مگر کرپشن بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی. اور یہ دنیا میں اس قدر برائیاں کیوں ہیں؟ یہ سب ان پر گراں گزرتا تھا . اور انہیں سکون کے لیے تدبر کے لیے وقت چاہیے تھا تو وہ کیا کرتے تھے کہ وہ مکہ چھوڑ کر ایک پہاڑ پر موجود ایک غار میں جایا کرتے تھے اور وہاں بیٹھ کر تدبر کیا کرتے تھے. اس پہاڑ کو جبل النور کہا جاتا ہے. روشنی کا پہاڑ. یہ نام جبل النور دیا اس لیے ہے کیونکہ اسی پہاڑ پر ایک پر نور فرشتے نے ان کو وحی کی روشنی عطا کی. پرانے دور میں بھی اس پہاڑ کو یہی نام دیا گیا تھا کیونکہ چاند کی روشنی اس پہاڑ کو منور کرتی تھی. اور لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہاں اگر  آگ روشن کی جائے تو وہ ہر طرف سے دیکھی جا سکتی ہے. اب ایسی کوئی روایت تو نہیں ہے کہ رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام اوپر پہاڑ پر جا کر آگ روشن کیا کرتے تھے. لیکن یہ نہایت مشکل ہے کہ آپ پہاڑ کے اوپر جائیں اور اندھیرا ہونے پر آگ ہی نہ جلائیں. واللہ اعلم. ہاں وہ تنہا ضرور جایا کرتے تھے، لیکن کیا آپ کو  اس سے کوئی اور بھی یاد آتا ہے جو اوپر پہاڑ پر آگ لینے گیا ہو ؟ 
حضرت موسی علیہ السلام.
  دو گروہ ہیں جو یہاں قابلِ ذکر ہیں، پہلے تو مدینہ کے یہود، جو چھ سو سال سے آخری نبی کا انتظار کر رہے تھے. اور دوسرے اہل مکہ، عربی زبان کے ماہرینِ لغت، جو ان کا فخر تھا، کہ وہ اپنی زبان کو اچھے سے جانتے ہیں. تو رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام ان لوگوں کے پاس قرآن کی آیات لے کر آئے. اور جب انہوں نے قرآن کی یہی آیات سنائیں تو جن دو گروہوں نے سب سے زیادہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا وہ کون تھے؟ پہلے تو عرب کے سب سے بڑے ماہرین، وہ پہلے لوگ تھے جو جانتے تھے کہ یہ کلام انسانی نہیں ہے. وہ سب سے زیادہ بہتر حال میں تھے کہ قرآن پاک کے کلام برحق ہونے کی گواہی دے سکیں. لیکن ان کے غرور نے ان کو ایسا نہ کرنے دیا. اخمس ابن شریق کی روایات پڑھ لیجیے کہ ابو سفیان اور ابوجہل،صرف یہ کلام سننے کی خاطر چھپ چھپ کر رات کے وقت رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام کے گھر کے باہر آیا کرتے تھے، وہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام کی زبان سے قیام الیل کے دوران یہ کلام سننے کے نہایت شوقین تھے. لیکن وہ یہ کسی کو بتانا نہیں چاہتے تھے. ایک رات ان سب نے ایک دوسرے کو چوری چھپے قرآن سنتے دیکھ لیا، ڈر گئے اور پوچھا "تم یہاں کیا کر رہے ہو؟" "اوہ........  میں.... وہ، تم خود یہاں کیوں آئے ہو؟ " پھر انہوں نے آپس میں قسم کھائی کہ وہ دوبارہ قرآن سننے نہیں آئیں گے. لیکن انہوں نے اگلی ہی رات اور پھر اس سے اگلی رات اور پھر اس سے اگلی رات بھی ایک دوسرے کو پھر سے قرآن سنتے ہوئے پایا. وہ اپنے آپ کو قرآن سننے سے روک ہی نہیں سکتے تھے. لیکن پھر انہوں نے سنجیدگی سے آپس میں فیصلہ کیا کہ اگر مکہ کے جوانوں کو خبر ہو گئی کہ ہم رات کو شوق سے قرآن سننے آتے ہیں اور دن کے وقت اس کی تکذیب کرتے ہیں تو ہم اپنا وقار کھو بیٹھیں گے. اور ابو سفیان نے خود مسلمان ہونے کے بعد یہ واقعہ بتایا کہ ہم یوں کیا کرتے تھے.

میں آپ کو ایک نہایت زبردست اور دلچسپ واقعہ بتانا چاہوں گا. ولید بن مغیرہ، عرب کے نامی گرامی شعراء میں سے تھا. اس نے لوگوں سے کہا، تم لوگ کچھ نہیں جانتے، یہ شاعری  میرا شعبہ ہے، میرے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے، تم سب تو قرآن پر تنقید کر ہی نہیں سکتے. میں جا کے قرآن سن کر آتا ہوں اور پھر بتاتا ہوں کہ اس کی تکذیب میں کیا الفاظ استعمال کیے جائیں. تو وہ قرآن سننے گیا اور واپس آیا تو وہ بالکل  خاموش تھا. لوگوں نے اس سے کہا کہ کچھ تو بولو، ہمیں بتاؤ، وہ قرآن پہ تنقید کیا ہوئی جو تم ہمیں سکھانے والے تھے ؟ تو یہ ولید کے خود کے الفاظ تھے.

فو اللہ ما فی کم من رجل اعلم بالاشعار منی

"میں قسم کھا کر کہتا ہوں، تم میں سے کوئی بھی مجھ سے بہتر شاعری نہیں جانتا."

ولا اعلم رجزه ولا بالقصیدة و لا بالاشعار الجن منی

"اور تم میں سے کوئی بھی اشعار کے وزن کے متعلق یا قصیدہ و ہجو کے متعلق کچھ نہیں جانتا، حتی کہ جنات بھی یہ سب نہیں جانتے. "

واللہ ما یشبھون الذی یقول شيئاً من ھذا

"قسم خدا کی، ایسا کچھ نہیں ہے جو تم کہتے ہو."

واللہ ان لقوله الذی یقول حلاوةو ان علیه لا تلاوة

" خدا کی قسم! جو میں نے سنا ہے اس کلام میں نہایت مٹھاس ہے، حلاوت ہے جو کسی کلام میں نہیں دیکھی."

و انه لا مسئله اعله و انه لا يعلى و ما يعلى

" اور اس کے الفاظ کسی لے کی مانند دل میں اترتے چلے جاتے ہیں "

" و مغدق اسئله"  

اور تم لوگ نہیں جانتے

یہ کسی مسلمان کے نہیں بلکہ اسلام کے اولین دشمن ولید بن مغیرہ کے الفاظ ہیں. 

لوگوں نے اسے جواباً کہا کہ سنو جو تم یہ سب کہہ رہے ہو یہ کیا تنقید ہوئی؟ تمہاری یہ شاعری تو لوگوں کو پسند نہیں آنے والی. تم سے تو کچھ اور ہی توقعات تھیں، تو اس نے کہا اچھا مجھے سوچنے دو، پھر اس نے کہا اچھا لوگوں سے کہو کہ یہ جادو ہے، کیونکہ جادو محصور کر دیتا ہے، مغلوب کر دیتا ہے، جادو کی وضاحت نہیں دینی پڑتی، لوگ جانتے ہی نہیں زیادہ جادو کے بارے میں. جادو کیا ہے؟ ایمان لانا ان چیزوں پہ جنہیں آپ نہیں دیکھ سکتے، اور اس کے برعکس ایک ایمان بالغیب ہے جس میں اللہ اور اس کی کتابوں پر ایمان لایا جاتا ہے تو چلو لوگوں کو غلط قسم کے ایمان بالغیب کی طرف دھکیل دو. 

کیا ان لوگوں نے آ کر کہا کہ قرآن نہایت خوبصورت کلام ہے؟ انہوں نے لوگوں کو یہ نہیں بتایا. ایک طرف انہوں نے قرآن سننے سے ہی انکار کر دیا. "صم" بہرے ہیں. لیکن اگلی بات نہایت عجیب ہے، "بکم " وہ گونگے ہیں، وہ بولتے ہی نہیں، اور کیا نہیں بولتے؟ وہ جو ان کے دل میں ہے. کہ یہ اللہ ہی کا کلام ہے اور کلام برحق ہے.

"صُمٌّ"سے اگلا طنز کیا ہے؟
 نہائیت عجیب!  ُبکْمٌ۔۔۔ وہ بول ہی نہیں سکتے۔
 کیا نہیں بول سکتے؟
جو ان کے اندر ہے. ان کے دل میں ہے. ان کے اندر کیا ہے؟
الله تعالٰى کے الفاظ جو سچے ہیں. یہ تو وہ کہہ سکتے ہیں ناں...
جیسے پرائیویٹ میڈیا میں تو آپ خوب بول سکتے ہیں کیونکہ الفاظ آپ کے منہ میں ڈالے جاتے ہیں. اور اس سے باہر  کی دنیا میں آپ گونگے ہیں." بکم" یعنی کچھ نہیں کہہ سکتے.
اس کے بعد ہے " عُمُی " وہ اندھے ہیں. اس طرح یہ ساری ترتیب سمجھ میں آجاتی ہے.
اگر آپ الله تعالٰى  کی باتوں کو سن رہے ہوں،  تو یہ ایک لازمی امر ہے کہ آپ مزید جاننا چاہیں گے.
جب کوئی شخص آپ سے کچھ سیکھنا چاہتا ہے. تو وہ آپ کے پاس آئے گا. اور سوالات اور دوسرے لوگوں سے باہم گفتگو سےسیکھنے کے عمل کو بڑھائے گا.
صحابہ کرام رضوان الله عليهم أجمعين ہر وقت آپ سے سوالات کرتے تھے.  ما ھذا؟ (کہ یہ کیا ہے؟) پس کوئی بھی چیز سیکھنےکیلئےپہلے سننا ضروری ہے. پھر سوالات کی باری آتی ہے، یعنی بولنے کی.
صم:  ان کی سننے کی حس پر مہر لگا دی گئی ہے.
بکم : ان کی بولنے کی صلاحیت صلب کر لی گئی ہے.
عُمْيٌ: اندھے ہیں۔
اگر وہ سن رہے ہوتے، بول رہے ہوتے، اور سیکھ رہے ہوتے تو،  ان کی چیزوں کو دیکھنے کی، مشاہدہ کرنے کی صلاحیت مختلف ہوتی. وہ بصیرت کے حامل ہوتے. لیکن اس وقت اس صورت حال میں، وہ مکمل طور پر اندھے ہیں. ان کے اندھے پن میں کوئی حیرانی کی بات نہیں.

  (صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (18)

اب ہم آتے ہیں اس آیت کے خوبصورت حصے کی طرف 
       
  " فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ"
وہ نہیں ہیں واپس آنے والے. 

کس جگہ واپس آنے والے؟ کس کی طرف واپس نہیں آنے والے؟
اب ان كي اس جگہ، اس فطرت کی طرف واپسی، جس پر اللہ نے ان کو بنایا ہے، نا ممکن ہے.
ان کی سب سے پہلی چیز جو اللہ نے چھین لی ہے وہ ہے روشنی، ان کی بینائی، ان کا نور.
آپ جانتے ہیں كہ جب ایک انسانی بچے کی ڈیویلپمنٹ ہوتی ہے، تو اس کے اندر جو روح ڈالی جاتی ہے،  وہ بھی نور کہلاتی ہے.
 رسول الله صلى الله عليه وسلم  نے فرمایا کہ
    "اول ما خلق الله نوري "
پہلی روح جو اللہ نے بنائی، وہ میری روح تھی.
آپ  صلي الله عليه وسلم  نے بھی یہاں لفظ نور استعمال کیا ہے،. یہ ہمارے اندر/ ہمارے دل میں رہتی ہے اور "نور" کہلاتی ہے.

قرآن پاک بھی نور ہے. جیسے ہم یہ دعا مانگتے ہیں :
         " اللہم نور قلوبنا بنور القرآن"
اے اللہ ہمارے دلوں کو قرآن کے نور سے منور فرما دے۔
اسی طرح سورت النور اللہ تعالٰى ایک تمثیل میں  فرماتے ہیں کہ الله  نے ان کے دلوں سے نور نکال دیا ہے.
تو وہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ الله  نے ان کے دلوں میں نور ( روشنی) رکھا  تھا، تاکہ وہ وحی کی روشنی کو پہچان لیں اور یہ اس پہچان کیلئے کافی تھا. لیکن ان لوگوں نے وحی کو ماننے سے انکار کیا، تب ان کے غرور نے ان کی اندرونی روشنی کو بھی ڈھانپ دیا اوراس اندرونی روشنی کو باہر نہیں نکلنے دیا. پھر اس وقت الله تعالى نے فیصلہ کیا کہ اگر تم لوگوں کو اس ودیعت کردہ نور کی ضرورت نہیں تو میں اس کو نکال باہر کیے دیتا ہوں.
یہ الله تعالي  کا اصول پیدائش ہے کہ اگر آپ الله  کی دی ہوئی چیزوں کو یا صلاحیتوں کو استعمال نہ کریں. تو الله  اسے واپس لے لیتے ہیں. الله  تعالٰى نے مجھےہاتھ دئیے ہیں، آنکھیں دی ہیں. لیکن اگر میں اپنی آنکھوں پر ایک سال کیلئے بلائنڈز لگا لوں، تو کیا ہوگا؟ اندازہ کریں!!! جب میں بلائنڈز کو ہٹاؤں گا تو میں سمجھوں گا کہ میں اندھا ہو چکا ہوں.
 اسی طرح اگر میں ایک سال تک اپنی ٹانگوں کواستعمال نہ کروں، بستر پر لیٹا رہوں تو کیا ہوگا؟
بھئ جب میں نے پورا سال ٹانگیں استعمال ہی نہیں کیں تو کیا میں کھڑے رہنے کے قابل ہوں گا؟
ہرگز نہیں یہ سب کیا ہے؟ ایٹروفی.(اعضاء کا ناکارہ پن)
الله تعالٰى  طبعی دنیا میں بھی یہی سب کچھ پیدا فرماتے ہیں۔
اگر آپکو کوئی صلاحیت دی گئی ہے اور آپ اس کو بروئے کار نہیں لاتے.  تو آپ اس صلاحیت کو کھو دیتے ہیں.الله  آپ سے اس صلاحیت کو دور لے جاتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی ہماری روحانیات کے ساتھ بھی ہے. الله عزوجل نے سچائی قبول  کرنے کی صلاحیت دی ہے. لیکن اگر آپ سالہا سال سچ کو دیکھتے رہیں ، مگر قبول نہ کریں تو کیا ہوگا؟
الله آپ سے سچ قبول کرنے کی صلاحیت ہی واپس لے لے گا۔ 
  ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ (17) 
     الله ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیتا ہے.
دوسری طرف یہود ہیں جو پیغمبر کا انتظار کر رہے تھے.
وہ روشنی / وحی کے منتظر تھے. لیکن جب وہ وحی / روشنی آگئی تو؟ ان کا رویہ ملاحظہ کیجئے:
قرآن کہتا ہے:
       
 الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (146)
    
 وہ اس کو ایسے پہچانتے تھے جیسے اپنے بچوں کو پہچانتے تھے.

وہ قرآن کو ایسے پہچانتے تھے جیسے اپنے بچوں کو.

اب بظاہر کوئی اندھیرا نہ رہ گیا تھا، شک کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ یہ وہی وحی ہے جس کے وہ صدیوں سے منتظر تھے لیکن ان کا نسلی غرور ان کو یہ قبول نہ کرنے دیتا تھا. وہ کہتے تھے ہم کس طرح ان مغضوب لوگوں کو قبول کر سکتے ہیں؟  جو وراثتی طور پر بھی ہم سے کم تر ہیں. اوران کم تر لوگوں میں سے ہی پیغمبر، جو لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتا.

( آپ گزشتہ آیات میں جان چکے ہیں کہ وہ ان ایمان لانے والے عربوں کو کیا کہتےتھے؟ سفھا= بےوقوف۔ فول)
وہ کہتے تھے کہ ان مغضوب لوگوں کی بات ہم کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ کبھی بھی نہیں۔
 تب االله تعالى  فرماتے ہیں: ٹھیک ہے! میں نے تو تمہیں تمہاری اپنی روشنی دی تھی، یعنی تورات تمہارے پاس موجود تھی۔ اس کے ذریعے سے تم قرآن کی سچائی کو جان سکتے تھے، تم نے اس کو دیکھا بھی مگر دیکھنے کے بعد کیا چیز تھی،  جو تمہارے دل میں رہ گئی؟
 اگر آپ سچائی کو دیکھنے کے بعد بھی قبول نہیں کر رہے، اپنی صلاحیت کو بروئے کار نہیں لا رہے تو کیا ہوتا ہے؟  
   
   ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ (17) 
  (صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (18)
 

 اب تو وہ بہرے بھی ہیں۔ جتنا بھی قرآن سن لیں۔ اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا، کیونکہ وہ ان کے دلوں تک تو پہنچ ہی نہیں رہا۔ وہ سچائی کو سن رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں، مگر ان کے اندر اس وحی سے گونج پیدا نہیں ہورہی۔ اس لئے وہ کچھ بھی نہیں کہہ پا رہے۔
اگر وہ صحیح معنوں میں سنتے اور اس کو سمجھتے ہوتے تو ان کو کہنا چاہئیے تھا کہ ہم نے اس کو اپنی کتاب میں پڑھا ہے۔
 مگر وہ اس کو کنفرم کرنے کیلئے بھاگے بھاگے اپنے علماء کے پاس جاتے تھے جو ان کو جواب دیتے کہ اس بات کے بارے ہم  کچھ نہیں کہہ سکتے، اس بات کو اپنے تک ہی محدود رکھو
چلو چلو. اس کو چھوڑو۔  کسی اور موضوع پر بات کرتےہیں. اس لفظ  سے آگے چلتے ہیں۔
 وہ نہ صرف الفاظ کو ہذف کر دیتے تھے، بلکہ وہ الفاظ کو ان کی مقرر کردہ جگہوں سے بدل بھی دیتے تھے.
اللہ نے ان کے اس عمل کیلئے "فعل حال" استعمال کیا ہے. کہ وہ آج بھی الفاظ کو ان کی جگہوں سے مسلسل بدل رہے ہیں
 .وہ یہ سب صرف ماضی میں ہی نہیں کرتے رہے. بلکہ وہ آج بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔
 پچھلی صدی کے ایک مشہور سکالر حمید الدین فراہی رحمتہ اللہ علیہ جو میرے لئے ایک رول ماڈل ہیں انھوں نے ایک امیزنگ کتاب لکھی.
 ’’الرائی الصحیح فی من ھو الذبیح‘‘ اس کتاب میں پہلے قربانی کی حقیقت اور اسلام میں اس کی اہمیت پر بحث کی گئی ہے۔ اس کے بعد تورات اور قرآن  سے دلائل ہیں.
ان کی تحقیق  قابل تحسین ہے. وہ عربی زبان کے ایک  ذہین عالم تھے. وہ عبرانی کے بھی ماسڑز تھے.  انھوں نے آٹھ سال تک عبرانی سیکھی محض ایک مسئلہ کی تحقیق کیلئے۔  وہ مسئلہ کیا تھا؟ کہ حضرت ابراہیم عليه السلام  کے کون سے صاحبزادے کی قربانی پیش کی گئی تھی؟
 یہود کہتے ہیں کہ وہ اسحاق عليه السلام ہیں.
 .جبکہ زیادہ تر مسلمان کہتے ہیں کہ وہ اسماعیل عليه السلام  ہیں
یہود کیوں حضرت اسحاق پر زور دیتے ہیں؟ اس لئے کہ وہ ان کی نظر میں  مبارك /خوش قسمت  بچے ہیں. اور اسماعیل مغضوب /ملعون ( نعوذبالله) بچے ہیں. اس سے اگلی بات یہ کہ تمام عرب بھی ملعون  ہیں. ان کا مذہب یعنی اسلام بھی کرسڈ ہے. کیونکہ وہ ملعون لوگوں کی طرف آیا تھا.
 یہود کا یہ مسئلہ کہاں سے شروع ہوا تھا؟ قربانی سے. 
حمیدالدین فراہی صاحب نے فیصلہ کیا کہ اس کی تحقیق کی جائے۔
آپ دیکھیں گے کہ ان کی لکھی گئی کتاب کا پہلا حصہ در حقیقت تورات سے متعلقہ ہے. محض عبرانی تورات پر۔ یعنی ان کی کتاب کا ابتدائی حصہ مکمل طور پر تورات کی عبارتوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد انھوں نے تقابلی جائزہ پیش کیا۔ كه یہود نے کہاں کہاں تبدیلیاں کی ہیں؟؟؟ مثال کے طور پر: 

۱- ابراہیم علیہ السلام شفاء اور مورہ کے درمیان گئے.
  اب ذرا یہ الفاظ ملاحظہ کریں صفاء اور مروہ کی جگہ پر شفا اور مورہ.

۲- پانی کے چشمے والی، بنجر وادی میں، سلیمان علیہ السلام کی عبادت گاہ کے پاس.
 اوہ میرے خدایا! کیا اس وقت سلیمان عليه السلام کی عبادت گاہ موجود تھی؟
  یہ واقعہ ابراہیم عليه السلام کے دور کا ہے جبکہ سلیمان علیہ السلام  کی عبادت گاہ تو کئی سو سال بعد میں تعمیر ہوئی.
محترم مصنف نے ان کی اس طرح کی کافی باتوں کو بے نقاب کیا ہے.

 ۳- اور قربان گاہ کہاں تھی؟
     مقدس وادی "وادئ  ثقہ"میں.  واہ بھئ! کیا بات ہے؟ مکہ سے محض تھوڑی سی تبدیلی ہی ناں. کوئی زیادہ بڑی بات تو نہیں (طنز)

اس طرح  حمیدالدین صاحب نے ان کی تحریفات پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح یہود نے ایک منظم طریقے سے یہ تصویر پیش کی ہے کہ قربانی اسماعیل علیہ السلام کی نہیں. بلکہ اسحاق عليه السلام کی پیش کی گئی، یعنی ذبیحہ والا واقعہ اسماعیل کا نہ سمجھا جائے۔

اب عرب نسلی طور پر کون ہیں؟ حضرت اسماعیل عليه السلام کی اولاد. ( تو وہ اہل یہود کو کیسے پسند آسکتے تھے)....
  یہود قرآن پاک کی آیات کو پہچانتے تھے۔ وہ آیات کی تعریف بھی کرتے تھے۔
پھر سوال یہ ہے کہ اللہ نے کیوں ان کی بصارت، گویائی اور سماعت چھین لی ہے؟  ان کو کیوں کچھ دکھائی نہیں دے رہا؟
 ان کے پاس پہلے بصارت تھی. تو جب انھوں نے وحی کو پہچاننے سے انکار کیا، اپنی بصارت کو استعمال نہیں کیا، تو اللہ نے کہا: ٹھیک ہے! اگر تمہارا یہی رویہ ہے تو یہی صحیح.
           " وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ"
اللہ نے ان کو ان کی سرکشی میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیا ہے.
ان کے دل اندھے ہوچکے ہیں.

اب ہم اس تصویر کے دوسرے بڑے پہلو کی طرف آتے ہیں.
     
 أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ (19)

آسمان سے موسلا دھار برستی بارش کو دوبارہ سوچیں۔
رات کا وقت ہے بارش کے ہر قطرے کا سائز مٹھی برابر ہے ( صیب)
یہ بہت شدید ہے. عین اوپر سے برس رہی ہے. جب ایسی شدید بارش ہو تو کیا آپ ڈرائیو کر سکتے ہیں؟
چلیں یہ بتائیے کہ کیا آپ کو ایسی موسلا دھار بارش میں کچھ سجھائی دیتا ہے؟ آپ واقعی اپنے آپ کو اندھا محسوس کرتے ہیں.
اس آیت میں "من السماء یعنی آسمان سے" کیوں استعمال ہوا ہے؟ بارش تو ظاہری بات ہے کہ آسمان سے ہی برستی ہے تو پھر اس لفظ کی کیا ضرورت تھی؟
 اس کا مقصد یہی بتانا ہے کہ یہ عین آپ کے اوپر سے برس رہی ہے، سیدھی اوپر سے، یہ بہت خوفناک بات ہے. 
.اللہ فرماتے ہیں:
      " فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ"
اس بارش میں اندھیروں کی تہیں ہیں، یہ محض رات کا اندھیرا نہیں ہے. بلکہ ساتھ گہرے بادلوں کا اندھیرا بھی ہے، پھر بادلوں سے اوپر اور اندھیرا.
جب کہیں آگ جلائی جائے اور اس پر بارش گر ے تو وہ بجھ جائے گی. یعنی آگ جلانا محال ہے.
    یہ ہے ظلمات، اندھیرے پر اندھیرا.
    اب ساتھ کچھ اور بھی ہے:
   الرعد (دھماکے)
  والبرق (بجلی چمکنا)
اب جبکہ آپ بمشکل دیکھ پا رہے ہیں یعنی بصارت کم ہے،
ساتھ ہی تیز بارش کی آواز میں، بجلی کی گرج اور کڑک کی آواز کانوں کو بہرا کرنے کو کافی ہے( یعنی قوت سماعت بھی کام نہیں کر پارہی)،  ایسے میں ان لوگوں کا فوری ردعمل کیا ہے؟
    " یجعلون اصابعھم فی اذانھم"
وہ اپنی "انگلیاں" اپنے کانوں میں ڈال لیتے ہیں "انگلی کی پور" کو عربی میں "انامل" کہتے ہیں. اب دیکھئے کہ یہاں اللہ نے انگلی کی پور کا ذکر نہیں کیا، بلکہ"پوری انگلی" کا ذکر ہے. کیونکہ وہ ان دھماکوں سے بہت زیادہ خوفزدہ ہو رہے ہیں.
   "صواعق" کیا ہے؟
بجلی زمین پر گرنے سے ہونے والا دھماکہ، جس سے خوفزدہ ہو کر وہ انگیاں کانوں میں ڈال رہے ہیں، اگر تھوڑی سی بھی آواز کان کے اندر جاتی ہے. تو وہ اور زور سے دبا لیتے ہیں. کیونکہ دھماکے مسلسل ہورہے ہیں.
اس لئے "اصابعھم فی اذانھم" استعمال ہوا ہے.
     "حذرالموت"
وہ یہ کان بند کرنے کی احتیاط کیوں کررہے ہیں ؟
یہ سب وہ موت کے خوف سے کر رہے ہیں، یاد رہے موت سے بچنے کیلئے نہیں، بلکہ موت کے خوف سے۔
آپ تصور کریں کہ بجلی چمک رہی ہے.آپ کے ارد گرد دھماکوں کی آوازیں آرہی ہیں۔ آپ کا غیر ارادی فعل کیا ہو گا؟
کیا کانوں میں انگلیاں ڈالنا آپکو ان سب سے بچاسکتا ہے؟بالکل  نہیں۔
 یہ ردعمل اس وقت ہوتا ہے جب ایک شخص کسی جذبے کے تحت بہت زیادہ مغلوب ہو جائے، بے بس ہو جائے۔ 
جب وہ شدید دباؤ والے حالات میں ہو. وہ کوئی جائے پناہ نہ پاتا ہو. اسے کچھ نظر نہ آرہا ہو. کہ میں کیا کروں ؟ کدھر جاؤں؟اور وہ اعصابی طور پر وہ ٹوٹ چکا ہو..۔
تو اس وقت وہ اس طرح کا احمقانہ ردعمل (یعنی انگلیاں کانوں میں ٹھونسنے کا) اپناتا ہے. اسی جگہ کھڑے رہنا اور گمان کرنا کہ کچھ بھی نہیں ہورہا۔

اب اللہ فرماتے ہیں. " والله  محیط بالکافرین"
اللہ کافروں کو واپس کھینچ لیتا ہے، اللہ ان کو احاطہ کئے ہوئے ہے.
یہ کوئی تمثیل، یا تشبیہہ نہیں ہے. بلکہ یہ اصل حقیقت ہے۔

( آپ دوبارہ اسی ماحول میں آجائیے، کیونکہ تصویر ابھی مکمل نہیں ہوئی)

یہاں ان آیات میں کون سے کافر مراد ہیں؟ کس کٹیگری کا ذکر ہے؟ تھوڑا سا یاد کریں.
پہلی مثال مختصر تھی۔
دوسری وسیع ہے۔
پہلے میں رات کا وقت ، صحرا، اور روشنی چلی گئی.
دوسرے میں صحرا، موسلا دھار بارش، بجلی کے دھماکے، جب بجلی چمکتی ہے تو وہ تقریبا تقریبا ان کی بینائی چھین لیتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اندھیرے میں وہ کچھ بھی نہیں دیکھ پاتے۔ 

-نعمان علی خان

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں