میری آدھی عمر گزر گئی


یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں میری آدھی عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جائوں میں رائیگاں، میری آدھی عمر گزر گئی


کبھی سائبان نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم
کبھی بے مکاں، کبھی لا مکاں، میری آدھی عمر گزر گئ


تیرے وصل کی جو نوید ہے، وہ قریب ہے یا بعید ہے؟
مجھے کچھ خبر تو ہو جان جاں، میری آدھی عمر گزر گئ


کبھی مجھ کو فکر معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا میرے نکتہ داں، میری آدھی عمر گزر گئ


کوئی طعنہ زن میری ذات پر، کوئی خندہ زن کسی بات پر
پہءِ دل نوازی دوستاں، میری آدھی عمر گزر گئ


ابھی وقت کچھ میرے پاس ہے، یہ خبر نہیں ہے قیاس ہے
کوئی کر گلہ میرے بد گماں، میری آدھی عمر گزر گئ


اُسے پا لیا، اُسے کھو دیا، کبھی ہنس دیا، کبھی رودیا
بڑی مختصر ہے یہ داستاں، میری آدھی عمر گزر گئ


تیری ہر دلیل بہت بجا، مگر انتظار بھی تھا کُجا
میری بات سن میرے رازداں، میری آدھی عمر گزر گئ


کہاں کائنات میں گھر کروں، میں یہ جان لوں تو سفر کروں
اسی سوچ میں تھا نا گہاں، میری آدھی عمر گزر گئ

1 تبصرہ: