تدبرِ قرآن
سورۃ البقرہ
نعمان علی خان
حصہ- 24
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الناس کے ایک اور معنی بھی ہیں، وہ یہ کہ لفظ الناس، " ناس" سے
نکلا ہے اور " ناس " عربی میں کہتے ہیں ان لوگوں کو جن کا ادراک کیا جا
سکے، یا جنہیں سمجھا جا سکے. اس بات کا جنات سے تعلق ہے کہ جنات کا لفظ "
جنة " سے نکلا ہے. یعنی چھپا ہوا، " جنة " جنت کو بھی کہا جاتا ہے. کیونکہ
جنت دنیا کی نظروں سے ڈھکی چھپی ہے، جنات کو جن کہا ہی اس لیے جاتا ہے
کیونکہ آپ انہیں دیکھ نہیں سکتے. ماں کے رحم میں موجود بچے کو جنین کہا
جاتا ہے. رحمِ مادر کو بھی جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بچے کو چھپا کر رکھتا
ہے. اس کے برعکس انسانوں کو دیکھا جا سکتا ہے. اس لیے انسان کا لفظ " ناس "
سے ہے یعنی وہ جنہیں دیکھا جا سکے .
الناس کا ایک تیسرا معنی بھی ہے جس پہ زیادہ تر لوگ متفق ہیں اور یہ مفہوم نہایت مشہور و معروف ہے کہ لفظ الناس اصل میں " انس" سے نکلا ہے، اور لفظ " انس" عربی میں لفظ " وحشی " کا متضاد ہے. لفظ " وحشی" اردو بولنے والوں کو آسانی سے سمجھ آئے گا یعنی وحشی جانور، وحش کا مطلب ہے جنگلی پن، جن کے کوئی اصول و ضوابط نہ ہوں، ایک بھیڑیا شکار کرنے سے پہلے کوئی دسترخوان نہیں بچھاتا، وہ بس اپنی خواہش و بھوک کے مطابق جانور چیر پھاڑ کر کھا جاتا ہے لیکن ایک انسان سلیقے سے کھاتا ہے. اور جانور انسانوں کی طرح ہمدردی کا اظہار نہیں کر سکتے. لیکن کوئی شک نہیں کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ انسان جانوروں سے بدتر سلوک کرتے ہیں. ایک وقت آتا ہے جب اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ
بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے۔
ثُـمَّ رَدَدْنَاهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ
پھر ہم نے اسے سب سے نیچے پھینک دیا ہے۔
الناس کا ایک تیسرا معنی بھی ہے جس پہ زیادہ تر لوگ متفق ہیں اور یہ مفہوم نہایت مشہور و معروف ہے کہ لفظ الناس اصل میں " انس" سے نکلا ہے، اور لفظ " انس" عربی میں لفظ " وحشی " کا متضاد ہے. لفظ " وحشی" اردو بولنے والوں کو آسانی سے سمجھ آئے گا یعنی وحشی جانور، وحش کا مطلب ہے جنگلی پن، جن کے کوئی اصول و ضوابط نہ ہوں، ایک بھیڑیا شکار کرنے سے پہلے کوئی دسترخوان نہیں بچھاتا، وہ بس اپنی خواہش و بھوک کے مطابق جانور چیر پھاڑ کر کھا جاتا ہے لیکن ایک انسان سلیقے سے کھاتا ہے. اور جانور انسانوں کی طرح ہمدردی کا اظہار نہیں کر سکتے. لیکن کوئی شک نہیں کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ انسان جانوروں سے بدتر سلوک کرتے ہیں. ایک وقت آتا ہے جب اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ
بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے۔
ثُـمَّ رَدَدْنَاهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ
پھر ہم نے اسے سب سے نیچے پھینک دیا ہے۔
کہ ہم نے انسان کا درجہ بدتر سے بھی بدتر کر دیا، تو جانوروں سے بھی بدتر
طرزِ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے. حتی کہ جانور بھی بغیر وجہ کے شکار نہیں
کرتے، جانور تب دوسرے کو مارتے ہیں جب انہیں بھوک ہو یا جب انہیں اپنی جان
خطرے میں محسوس ہو. جب ان کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو یا ان کا پیٹ
بھرا ہو تو وہ بغیر کسی کو نقصان پہنچائے چل پڑتے ہیں. جانور کسی کو نفرت
کے باعث قتل نہیں کرتے. جانور بغیر وجہ کے بھی قتل نہیں کرتے تو جب انسان
ایسا طرزِ عمل اختیار کریں تو وہ جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں. یہ ہے
اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ. اسی لیے اللہ تعالٰی قرآن میں کہیں انسانوں کا
مویشی کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں. اور کہتے ہیں کہ بعض ان میں سے بدترین ہیں.
وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں، جانور بھی کم از کم اپنی فطرت کے خلاف نہیں
جاتے. لیکن انسان جو کچھ کرتے ہیں وہ تو ان کہ فطرت میں ہی نہیں ہے.
انسانوں کا یہ وحشی پن اپنانا غیر فطری ہے .
تو الناس کے تین معنی ہیں، جن میں سب سے مشہور و معروف مفہوم یہ ہے کہ انسان ایک رحم دل مخلوق ہے . انسانوں کی فطرت میں ، رحمدلی، محبت و نرمی کا جزبہ تمام جانوروں سے بڑھ کر ہے. اس لیے انسان نہ صرف اپنے گھر والوں سے بلکہ اپنے ہمسایوں اور حتی کہ اجنبی لوگوں سے بھی رحمدلی و نرمی کا اظہار کرتے ہیں. حتی کہ جانوروں اور پودوں سے بھی ہم انسان محبت رکھتے ہیں.
آپ رحمدلی کا اظہار کرتے ہیں جب راستے کا پتھر سڑک سے ہٹا دیتے ہیں، یہ آپ کی انسانیت ہے. دوسرے لفظوں میں انسانوں کو انسان کہا ہی تب جاتا ہے جب وہ دوسرے لوگوں کی پرواہ کرتے ہیں . اور جب یہ کوالٹی ان سے چھن جائے تو وہ انسان بھی نہیں رہتے.
اب اللہ تعالٰی اس لفظ "الناس" کا استعمال کرتے ہیں، کوئی اور لفظ بھی کہا جا سکتا تھا لیکن اللہ تعالٰی نے یہی جملہ چنا. " يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُو رَبَّکُمْ"
تو اس لفظ کا استعمال اہم ہے اور یہ انسانوں کی آپس میں محبت و یگانگت کی طرف اشارہ کرتا ہے. یہ پہلا بلاوا ہے اللہ کی طرف، پہلا تعلق ہے ہمارے اور اللہ کے درمیان، اللہ تعالٰی کے ساتھ میرا تعلق، میرا انسانیت کے ساتھ ہمدردی کے تعلق پر منحصر ہے. جانتے ہیں ، جب ہم شہادت دیتے ہیں، اپنا اللہ سے تعلق جوڑتے ہیں تو کہتے ہیں، " لا اله الا اللہ "، ہم" اله " کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور لفظ " اله " نکلا ہے الہی سے جس کے معنی ہیں کسی سے بہت زیادہ محبت رکھنے والا، وہ جس پر بھروسہ کیا جا سکے، وہ جس پر انحصار کیا جا سکے. عرب اپنے وقتوں میں محبت کے دس درجے بتایا کرتے تھے، ان درجوں کی تفصیل میں آیت الکرسی پر تدبر کرتے ہوئے پھر کبھی بتاؤں گا لیکن ابھی کے لیے مختصراً یہ کہ عربوں کے مطابق محبت کے دس درجے ہیں اور ان میں سے نواں درجہ " اله " کا ہے، محبت کا وہ مقام جہاں آپ خالی ہو جاتے ہیں، آپ کو کوئی درد محسوس نہیں ہوتا کیونکہ محبت آپ کی تمام حسوں پر حاوی ہوتی ہے. آپ کو بھوک مسحوس نہیں ہوتی کیونکہ محبت آپ کی غذا ہوتی ہے . ایسی محبت " اله " ہے اور اس سے آگے محبت کا دسواں درجہ ہے، وہ جو آپ کو موت کی نیند سلا دے. تو یہ محبت کی سب سے طاقتور شدت ہے جو ہم اللہ کے لیے محسوس کر سکیں. اور ہم اس محبت کے لائق ہیں کیونکہ ہم اہلِ انس ہیں. ہم محبت و ہمدردی سے بھرپور ہیں. اللہ عزوجل کے ساتھ تعلق کی بنیاد ہی اس جذبے پر رکھی گئی ہے. محبت کی تلاش و خواہش. یہ صرف آقا و غلام کا ہی تعلق نہیں ہے، یہ ایک محبت بھرا تعلق ہے
" يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُم"
اے اہلِ انس، اپنے رب کی بندگی اختیار کرو
اے اہلِ انس، اپنے رب کی بندگی اختیار کرو
اپنے رب کی عبادت کرو، اس جملے کی تفسیر بیان کرنا چاہوں گا جو میں کافی
عرصے سے آپ کو بتانا چاہ رہا ہوں اور وہ ہے قرآن کا ادبی تسلسل . یہ قرآن
کی دوسری سورۃ مبارکہ ہے، پہلی سورۃ کون سی تھی؟ سورۃ الفاتحہ. یہ دوسری
دفعہ ہے کہ ہم لفظ عبادۃ پڑھ رہے ہیں. " يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا
رَبَّكُم ، یہاں دوسری دفعہ عبادۃ کا لفظ استعمال ہوا، پہلی دفعہ سورۃ
الفاتحہ میں یہ استعمال ہوا تھا جب کہا گیا ایّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیّاکَ
نَسْتَعین، وہاں ہم نے اللہ تعالٰی سے براہ راست کہا تھا کہ یا اللہ! ہم
تیری ہی عبادت کرتے ہیں ، ہم تیری بندگی پر راضی ہیں، ہم فیصلہ کرتے ہیں
اللہ العزیز کی بندگی کا اور اب سورۃ بقرہ کی 23 ویں آیت میں اللہ تعالٰی
ہم سے بات کرتے ہیں تو یہ دراصل ہماری بات کا جواب ہے. وہاں ہم اللہ
تعالٰی سے کچھ کہہ رہے تھے، ایک جملہ ہم نے کہا کہ ہم اللہ کی عبادت کرتے
ہیں اور اس آیت میں اللہ تعالٰی ہم سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں " اعْبُدُوا
رَبَّكُم" ،جو کہا وہ پورا کرو، لیکن ان دونوں جملوں کے درمیان جو آیات ہیں
وہ اس قدر خوبصورت ہیں کہ بیان سے باہر ہیں .
سورۃ فاتحہ میں تین گروہوں کا ذکر آیا تھا،
1. وہ جن پر اللہ نے انعام کیا، جو ہدایت کے راستے پر ہیں.
2. وہ جن پر اللہ تعالٰی نے غضب کیا کیونکہ وہ اسی لائق تھے
3. وہ جو راستہ کھو بیٹھے تھے.
اب سورۃ بقرۃ میں اللہ تعالٰی نے کس گروہ سے کلام کا آغاز کیا؟ پھر سے آغاز ان سے ہوا جو ہدایت کے راستے پر ہیں. ۛ "هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ " ، أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ. یہ وہی لوگ ہیں سورۃ فاتحہ میں جن کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا تھا " صِراطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ".
پھر دوسرا
گروہ ان لوگوں کا تھا جن سے اللہ اس قدر ناراض ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ان کے
دلوں پر مہر لگا دی، اور وہ اندھے ہیں، گونگے ہیں، بہرے ہیں اور وہی لوگ
گمراہ ہیں، روشنی ہے آگ بھڑک رہی ہے لیکن وہ اسے دیکھنے سے، محسوس کرنے سے
قاصر ہیں اور اس روشنی سے دور جا چکے ہیں. یہ ہیں بدترین لوگ،
"الْمَغْضُوبِ عَلَیْهِمْ".
اور پھر تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو
ان لوگوں میں تو شامل نہیں جن پر غضب ہوا لیکن وہ گمراہ ہیں. جب ان پر
روشنی پڑتی ہے تو وہ چل پڑتے ہیں اور جب اندھیرا ہو تو کھڑے کے کھڑے رہ
جاتے ہیں. تو یہ لوگ بھٹک رہے ہیں
تو یہ تین گروہ جن
کا ذکر سورۃ فاتحہ کے اختتام پر تھا، ان کی تفصیل سورۃ بقرۃ کے آغاز میں
بیان کی گئی ہے. اور نہایت خوبصورت بات یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں اللہ
تعالٰی نے عبادۃ سے آغاز کیا اور پھر ان تین گروہوں کا تذکرہ کیا جبکہ سورۃ
بقرۃ میں اللہ تعالٰی نے پہلے تین گروہوں کا ذکر کیا اور پھر عبادۃ کا
تذکرہ کیا. " يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُم" ،یہ تصویر کو
مکمل کرتا ہے، سبحان اللہ. شروع میں ہم اللہ تعالٰی سے بات کر رہے تھے اور
اب اللہ تعالٰی ہم سے مخاطب ہیں، اور گفتگو مکمل ہوتی ہے.
اس سورۃ مبارکہ کی ایک اور خوبصورتی التفات ہے. پچھلی آیات سے آخری منظر جو آپ کو یاد ہو گا وہ اس شخص کا تھا جو صحرا میں تاریکی میں بھٹک رہا ہے اور اللہ تعالٰی نے اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے. وَلَوْ شَآءَ اللّـٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِـمْ وَاَبْصَارِهِـمْ ۚ "وَ تَرَکَھُمْ فِی ظُّلُمَات" یہ آیات پڑھ لر قرآن کے قاری کے ذہن میں جو تصور ابھرتا ہے وہ اس انسان کا ہے جسے اکیلا بے یار و مددگار، تنہا بھٹکنے کو چھوڑ دیا جائے اور اس سے ہمیں خوف آتا ہے کیونکہ اس وقت تک سورۃ بقرۃ میں تین گروہوں کو تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے،
1. اہلِ ایمان
2. شدت سے انکار کرنے والے، نہایت کٹر کفار
3. وہ لوگ جو منافقت میں بھٹک رہے ہیں.
لیکن جانتے ہیں کیا اس وقت قرآن کا قاری خود سے پوچھتا ہے کہ میں ان میں سے کس گروہ کا مسافر ہوں؟ کچھ لوگ ہیں جو ان میں سے کسی بھی گروہ میں شامل نہیں. کچھ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن سنا مگر ایمان نہ لائے لیکن وہ کٹر کفار میں سے بھی نہیں ہیں اور نہ ہی وہ منافق ہیں. وہ کسی گروہ میں شامل نہیں. تو جب وہ قرآن کو غور سے سنتے ہیں تو اب ان کو کوئی نہ کوئی راستہ چننا لازم ہے. اب ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں. پہلے انہوں نے قرآن سن نہ رکھا تھا اور وہ کسی کے خلاف نہ تھے، پر اب قرآن سن لیا تو اب انہیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ کہاں شامل ہونا ہے.
اور وہ کون سا گروہ ہو گا جو محفوظ
رہے گا؟ وہ کون سا گروہ ہے جس کی حفاظت کا وعدہ ہے؟ وہ لوگ جو ہدایت کے
راستے پر ہیں. اسی لیے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا
رَيْبَ ۖ فِيْهِ ۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ.
تو آپ دیکھیں کہ یوں یہ ساری گفتگو ایک دائرے کی شکل میں مکمل ہوتی ہے، جب اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
تو آپ دیکھیں کہ یوں یہ ساری گفتگو ایک دائرے کی شکل میں مکمل ہوتی ہے، جب اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
" يٰٓـاَ يُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ "
اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ۔
تاکہ تم پہلے گروہ میں شامل ہو سکو، تاکہ تم فلاح پا سکو. یہ ان لوگوں لے لیے دعوت ہے جنہیں اب یہ پیغام دیا گیا کہ تمہیں کوئی راستہ چننا ہے. ہمارا دین محض فلاسفی نہیں ہے. یہ محض اچھے خیالات کا مجموعہ نہیں ہے یہ طرزِ زندگی بدلنے کے لیے دعوت ہے. بہت سے لوگ ہیں جو تھیولوجی، اور فلسفہ پڑھتے ہیں، وہ اس کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں . الغیب، جس کا ذکر اس سورۃ کے آغاز میں تھا. کچھ لوگ فلسفہ میں PHD کر لیتے ہیں، وہ سوچتے ہی الغیب کے بارے میں ہیں لیکن ان کی زندگی میں کوئی بدلاؤ نہیں آتا. ان کا الغیب کا علم انہیں کسی عمل پر آمادہ نہیں کرتا. درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جو خلا میں خود کو کھو چکے ہیں. آپ انہیں دیکھیں بھی تو وہ آپ کو غیر حاضر لگیں گے. لیکن ہمارا ایمان بالغیب ہمیں نیک عمل پر مجبور کرتا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ ایمان بالغیب رکھیں اور اپنا طرزِ زندگی نہ بدلیں،
تاکہ تم پہلے گروہ میں شامل ہو سکو، تاکہ تم فلاح پا سکو. یہ ان لوگوں لے لیے دعوت ہے جنہیں اب یہ پیغام دیا گیا کہ تمہیں کوئی راستہ چننا ہے. ہمارا دین محض فلاسفی نہیں ہے. یہ محض اچھے خیالات کا مجموعہ نہیں ہے یہ طرزِ زندگی بدلنے کے لیے دعوت ہے. بہت سے لوگ ہیں جو تھیولوجی، اور فلسفہ پڑھتے ہیں، وہ اس کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں . الغیب، جس کا ذکر اس سورۃ کے آغاز میں تھا. کچھ لوگ فلسفہ میں PHD کر لیتے ہیں، وہ سوچتے ہی الغیب کے بارے میں ہیں لیکن ان کی زندگی میں کوئی بدلاؤ نہیں آتا. ان کا الغیب کا علم انہیں کسی عمل پر آمادہ نہیں کرتا. درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جو خلا میں خود کو کھو چکے ہیں. آپ انہیں دیکھیں بھی تو وہ آپ کو غیر حاضر لگیں گے. لیکن ہمارا ایمان بالغیب ہمیں نیک عمل پر مجبور کرتا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ ایمان بالغیب رکھیں اور اپنا طرزِ زندگی نہ بدلیں،
استاد نعمان علی خان
جاری ہے.......
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں