خشیت الٰہی (مقتبس خطبہ جمعہ مسجد نبوی)

Image result for ‫مسجد نبوی‬‎
خشیت الٰہی
بتاریخ 17 فروری 2017 ( 20 جمادی الاول 1438)

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں وہ قبول کرنے والا، نگران اور حساب رکھنے والا ہے، وہ ہر ایک کے ضمیر سے باخبر ، رازوں کو جاننے والا اور سینوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہے، تمام معاملات اسی کی گرفت میں ہیں، اسی نے اپنے بندوں کی تمام حرکات شمار اور ان کی موت کا وقت مقرر کیا ہوا ہے، میں اپنے رب کے بے شمار اور لا تعداد فضل و کرم پر اسی کی حمد بیان کرتا ہوں اور شکر بجا لاتا ہوں ، شرکاء اور ہم سروں سے کہیں بلند ذات ہی پاک ہے، اس کے تسلط کے سامنے تمام سرکردہ اور سربراہ ہیچ ہیں، اس کی عظمت کے سامنے جگر بھی چاک ہو گئے اور اس کے ڈر اور خوف سے ٹھوس اور سنگلاخ پہاڑ بھی پھٹ گئے۔

سائنسی انقلاب، نت نئی ٹیکنالوجی اور لوگوں کیلیے آفاقی رسائی کی وجہ سے ثقافتی کشمکش پیدا ہو چکی ہے اور سماجی رابطے کے ذرائع سے ہم اپنے گھرانوں میں نبرد آزما ہیں، سوشل میڈیا تک ہر چھوٹے بڑے، مرد اور عورت کو رسائی حاصل ہے، ان حالات میں مسلمان کو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی تربیت کیلیے ایک عظیم صفت اور جلیل القدر عبادت کی اشد ضرورت ہے جو کہ انتہائی عظیم الشان عبادت اور نیکی ہے، وہ صفت اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں اور گناہوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے، اس کی وجہ سے انسان حرام چیزوں سے بچ کر نیکیوں کی جانب راغب ہو سکتا ہے، بلکہ یہ ہر نیکی اور اچھے کام کی ترغیب دلاتی ہے، نیز اس کی وجہ سے دلوں میں اللہ تعالی کی ہیبت بھی پیدا ہوتی ہے۔

وہ صفت یہ ہے کہ خلوت اور جلوت میں خشیت الہی اپنائیں، اللہ کی قسم! یہ جتنی بلند خوبی ہے اس کی ہمیں اتنی ہی ضرورت بھی ہے ،اس سے اصلاح ہوتی ہے اور تقوی حاصل ہوتا ہے، یہ ایمان کی دلیل نیز عقیدہ توحید اور اخلاص کا ثمر ہے، اس سے اخلاق پروان چڑھتا ہے ، ایک مکمل انسان کی صورت میں زندگی گزارنے کیلیے انسان کو خشیتِ الہی کی عملاً ضرورت ہے ۔

تنہائی میں اللہ تعالی سے ڈرنا صفتِ احسان کا تقاضا ہے، اور احسان کا مطلب یہ ہے کہ : (تم اللہ تعالی کی بندگی ایسے کرو کہ گویا تم اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اللہ تعالی کو نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے)

دل میں یہ احساس پیدا ہونا خشیتِ الہی کا لازم ہے کہ اللہ تعالی ہمارا نگران ہے، اور اس بات کا علم ہو کہ اللہ تعالی ہر چیز پر گواہ ہے، لوگوں کے دلوں اور ان کے اعمال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے، وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے، اور اس کے بندے جہاں بھی ہوں وہ ان کے ساتھ ہے، 
{مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا} 
تین آدمی سرگوشی کریں تو وہ چوتھا ہوتا ہے اور پانچ کریں تو ہو چھٹا ہوتا ہے، اس سے کم لوگ کریں یا زیادہ لوگ وہ ان کے ساتھ ہی ہوتا ہے، چاہے وہ جہاں بھی ہوں[المجادلہ: 7]

اب جو شخص یہ جان لے کہ اللہ تعالی اسے ہر جگہ دیکھ رہا ہے، اللہ تعالی اس کے ظاہر و باطن ، خفیہ اور اعلانیہ ہر چیز سے واقف ہے، اور یہی بات خلوت اور تنہائی میں بھی اجاگر رہے تو تنہائی میں بھی انسان گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔

تنہائی میں خشیتِ الہی مغفرت کے دروازوں کی چابی ہے، اور اس میں خیر ہی خیر کے ساتھ اجر عظیم بھی ہے،
 {إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ}
 بیشک جو لوگ اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں ان کیلیے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔[الملك: 12]
  
  • خشیت الہی متقی لوگوں کی صفت ہے
  • خشیتِ الہی دلوں کو بھلائی کیلیے تیار کرتی ہے اور انہیں پند و نصائح قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے  
  • خشیتِ الہی کی وجہ سے پند و نصائح اور وعظ و نصیحت کا دلوں اور احساسات پر اثر مزید بڑھ جاتا ہے 
 پتھر جو کہ جمادات ہیں سننے کی طاقت نہیں رکھتے وہ بھی اللہ تعالی کے ڈر سے گر جاتے ہیں اور پھٹ پڑتے ہیں، ان کا جمود ، بے عقلی اور لا شعوری بھی خشیتِ الہی کے اثرات کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکی، پتھروں کی مضبوطی ، ٹھوس پن اور سنگلاخی بھی پتھروں کو متاثر ہونے سے نہیں بچا سکی، 
{وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ} 
پتھروں میں سے تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں۔ اور کچھ ایسے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلنے لگتا ہے۔ اور کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے ڈر سے (لرز کر) گر پڑتے ہیں۔ [البقرة: 74]

تو-اللہ کے بندو- ہمیں چاہیے کہ ہم بھی نصیحت پکڑیں، اپنے دلوں میں خشوع پیدا کریں اور ان پتھروں سے ہی عبرت حاصل کر لیں،
 أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ:{أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ}
جو لوگ ایمان لائے ہیں کیا ان کے لئے ایسا وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر سے اور جو حق نازل ہوا ہے، اس سے ان کے دل نرم ہو جائیں ؟ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ۔ [الحديد: 16]

یہ بات ذہن نشین کر لو کہ تمہارے اعضا ہی تمہارے نا قابل تردید گواہ ہیں، اس لیے ان کا بھر پور خیال کرو خلوت و جلوت میں تقوی الہی اپناؤ؛ کیونکہ کوئی پوشیدہ سے پوشیدہ چیز بھی اس کے سامنے مخفی نہیں ہے، بلکہ ہر چیز اس کے سامنے عیاں ہے۔

تنہائی میں بھی خشیت الہی اپنانا سعادت مندی اور سکون کا باعث ہے، اس سے راحت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، یہ فتنوں سے بچاؤ کا باعث بھی ہے، لذتِ خشیت کا اسی کو علم ہے جس نے اس کی لذت چکھی ہے؛ لہذا نفس کو خشیت الہی کا پابند بنانے کیلیے پورے عزم اور کوشش سے محنت کرو کہ نفس برائیوں سے رک جائے، اور بڑھاپے سے پہلے اسے نکیل ڈل جائے، کیونکہ اگر دل خوف، ڈر اور اللہ تعالی کے جلال سے معمور ہو تو اعضا گناہوں کے ارتکاب سے باز رہتے ہیں۔

نبی ﷺ سے یہ صحیح ثابت ہے کہ:
 (تین چیزیں باعث نجات ہیں: غضب اور خوشی ہر دو حال میں عدل کرنا، امیری اور فقیری میں میانہ روی اختیار کرنا، خلوت و جلوت میں اللہ کا خوف قائم رکھنا) 

حصولِ خشیتِ الہی کیلیے دعائیں کرو، اس کام میں تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ بہترین نمونہ ہیں:
 (اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ)
[یا اللہ! ہمیں تیری اتنی خشیت عطا فرما جو ہمارے لیے تیری نافرمانی کے سامنے رکاوٹ بن جائے]

(اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ، وَكَلِمَةَ الْعَدْلِ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا ، وَنَسْأَلُكَ الْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى ، وَنَسْأَلُكَ نَعِيمًا لَا يَبِيْدُ ، وَقُرَّةَ عَيْنٍ لَا تَنْقَطِعُ ، وَنَسْأَلُكَ الرِّضَاءَ بَعْدَ الْقَضَاءِ ، وَنَسْأَلُكَ بَرْدَ الْعَيْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَنَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ ، وَنَسْأَلُكَ الشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ ، فِي غَيْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ ، وَلَا فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ ، اَللَّهُمَّ زَيَنَّا بِزِيْنَةِ الْإِيْمَانِ، وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مُّهْتَدِيْنَ، يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ!)
[یا اللہ! ہم تجھ سے تنہائی اور بھرے مجمعے میں خشیت کا سوال کرتے ہیں، غضب ناکی اور رضا مندی ہر دو حالت میں عدل و حق پر مبنی بات کا سوال کرتے ہیں، اور ہم تجھ سے فقیری اور امیری میں میانہ روی مانگتے ہیں، ہم نہ ختم ہونے والی نعمتوں کا سوال کرتے ہیں، آنکھوں کی دائمی ٹھنڈک چاہتے ہیں، تیرے فیصلوں پر رضامندی کے طلب گار ہیں، ہم تجھ سے مرنے کے بعد خوشحال زندگی کی درخواست کرتے ہیں، نیز تجھ سے تیرے چہرے کے دیدار کی لذت مانگتے ہیں، تجھ سے ملنے کا شوق چاہتے ہیں، یا اللہ! ہمیں یہ سب چیزیں بغیر کسی تنگی اور تکلیف کے عطا فرما، کسی بھی گمراہ کن آزمائش کے بغیر عطا فرما، یا اللہ! ہمیں زینتِ ایمان سے مزین فرما، اور ہمیں ہدایت یافتہ رہنما فرما، یا رب العالمین]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں