لیس منا ( ہم میں سے نہیں ہے)



لیس منا سے کیا مراد ہے؟

احادیث نبویہ میں ایسی صحیح احادیث کی تعداد 30 کے قریب ہے جہاں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”لیس منا“ کے الفاظ ارشاد فرمائے ہیں، یعنی ”ہم میں سے نہیں ہے“. علمائے کرام نے اس کے مختلف اقوال بیان کیے ہیں لیکن سب سے افضل اور ارجح قول یہی ہے کہ

ھذہ الافعال والاخلاق ھي التي عليھا الكفار ليس من أفعالنا

یعنی اس کے یہ اعمال اور اخلاقی برائیاں ایسی ہیں جو کفار سے مستعار ہیں اور امت محمدیہ کے اعمال میں سے نہیں ہیں، کچھ لوگوں نے اس کے معانی یہ بیان کیے کہ وہ امت محمدیہ سے خارج ہوگیا یا پھر ایمان سے محروم ہو گیا۔ یہ معنی خوارج نے بیان کیا ہے جبکہ اہل السنہ کے ہاں اس کا معنی یہی ہے کہ کسی ایمان کے دعویدار کا ”لیس منا“ والا عمل نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کے عمل پر نہیں ہے بلکہ کفار کے طریقے پر ہے لیکن یہ عمل اس کا امت محمدیہ سے خارج کرنے کا سبب نہیں ہے۔ امام نووی اور قاضی عیاض رحمہما اللہ نے ان احادیث کی شرح میں ”لیس منا“ کے معانی یہی بیان کیے ہیں کہ ایسا شخص جو یہ اعمال کرتا ہے وہ ایمان کے اعلی درجے پر پہنچنے سے محروم ہو گیا، اور اس کا ایمان ناقص ہے۔ لیکن ان احادیث میں مذکور اعمال منہیہ میں سے کچھ صریحا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔ اس سلسلے کی احادیث سلسلہ وار مختصر شرح کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں۔

غیراللہ کی قسم کھانے والا
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ليس منا من حلف بالامانۃ
جو لفظ امانت کی قسم اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں۔

حدیث مذکور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کی قسم اٹھانے کی ممانعت فرمائی ہے۔ محدثین کرام نے اس سے مراد سب عبادات اور اپنے نیک اعمال لیے ہیں اور اسی طرح اللہ تعالی کی ذات، صفات اور اسماء کے علاوہ کسی بھی چیز کی قسم اٹھانا یا اس پہ حلف لینا جائز نہیں ہے۔ اسی سلسلے میں ایک اور حدیث وارد ہوئی ہے. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے، اس وقت وہ گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے، آپ ﷺنے فرمایا خبردار اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع فرماتا ہے کہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ، جس شخص کو قسم کھانا ہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔
اللہ تعالی کے نام و صفات کے علاوہ کسی چیز کی قسم اتنا سنگین معاملہ ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ایک شخص کو سنا وہ کہہ رہا تھا کہ نہیں، قسم ہے کعبہ کی۔ (یعنی وہ کعبہ کی قسم کھا رہا تھا) تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ جس نے غیراللہ کی قسم کھائی، اس نے شرک کیا۔ آج کل ہمارے کچھ بھائی انجانے میں ماں باپ، اولیاء اللہ کی قسم کھاتے ہیں، یہ سب ممنوع اور حرام ہے۔

بیوی کے خلاف اکسانے والا
سید المرسلین ﷺ نے فرمایا:

ليس منا من خَبَّبَ امراۃ على زوجِھا
وہ ہم میں سے نہیں جس نے بیوی کو اس کے شوہر کے متعلق اکسایا (بدظن کیا).

اس حدیث مبارکہ میں جناب رسول اللہ نے فیملی سسٹم ٹوٹنے کا بنیادی اصول بیان فرما دیا ہے۔ عموما دو افراد میں تعلقات اس وقت ہی خراب ہوتے ہیں جب کوئی تیسرا فرد ان کو ایک دوسرے کے خلاف بدظن کرتا ہے اور اس طرح یہ بدگمانی آہستہ آہستہ تعلقات کو پھیکا کر کے ان کو ختم کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ جب یہی معاملہ زوجین کے متعلق ہو تو مزید سنگین ہو جاتا ہے. بہت سے علمائے کرام نے اسی بنیاد پر اسے گناہ کبیرہ شمار کیا ہے، اس کی وجہ وہ حدیث ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے ایسے شخص کو ملعون قرار دیا جو میاں کے بارے بیوی کو بدظن کرے۔ اگرچہ اس حدیث کو صرف امام ذہبی ؒ نے الکبائر میں روایت کیا ہے، اسی گناہ کی مزید سنگینی میں اضافے کا باعث وہ حدیث مبارکہ ہے جس میں جناب رسول اللہ ﷺ نے شیطان کی مجلس کا حال بیان کیا ہے کہ شیطان کے سب چیلے اسے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں، وہ کسی سے اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا اس سے جو کہتا ہے کہ آج میں نے میاں بیوی میں جھگڑا کروا دیا تو وہ اسے شاباش دیتا ہے اور اپنے پاس جگہ دیتا ہے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں بگاڑ اور فیملی سسٹم کمزور ہونے کی بہت بڑی وجہ یہی خرابی ہے کہ بیوی کے سامنے اس کے شوہر کے نقائص بیان کیے جاتے ہیں جو میٹھا زہر بن کر آہستہ آہستہ اس مقدس رشتے کو نفرت کے رشتے میں بدل دیتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان تعلقات کا اختتام دو افراد کے تعلقات ہی ختم نہیں کرتا بلکہ یہ دو خاندانوں میں تعلقات اور ہمیشہ کی تلخیاں گھول دیتا ہے اور دونوں کی اولاد کو زندگی بھر کے نفسیاتی مسائل سے دوچار کر دیتا ہے۔

مسلمانوں پہ اسلحہ تاننے والا
جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من حملَ علينا السِّلاحَ فليسَ منَّا
جس نے ہم پہ اسلحہ تانا، وہ ہم میں سے نہیں ہے.

آج امت مسلمہ کثیر مسائل سے دوچار ہے جن میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا خون ہے۔ اس کی بنیادی وجہ جہالت اور دین سے دوری ہے جبکہ اسلام دین رحمت ہے اور ایک مؤمن کی عزت و حرمت کو رسول خدا ﷺ نے خانہ کعبہ سے زیادہ مقدس بیان کیا ہے، اسی معنی میں کئی مزید احادیث بھی وارد ہوئی ہیں کہ جس نے ہم پر تلوار لہرائی، وہ ہم میں سے نہیں ہے، جس نے ہم پہ تیراندازی کی، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیمات اس بارے میں اتنی سخت ہیں کہ سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے مسلمان بھائی کی طرف لوہے کی چیز سے اشارہ کیا تو بلاشبہ وہ فرشتوں کے ہاں ملعون ٹھہرتا ہے، اگرچہ وہ اس کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو.
اسی طرح نبی کریم ﷺ نے اسلحہ کی بلاوجہ نمائش سے بھی منع فرمایا ہے اور کہا کہ مبادا اس سے کسی مسلمان کو نقصان پہنچے۔ غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ہم اسلحہ لہرائیں اور اپنے مسلمان بھائی پر اسے استعمال کریں۔ لہذا اولین ترجیح تو یہ ہو کہ اسلحہ پاس رکھیں ہی ناں اور اگر رکھ لیا تو اس کی نمود و نمائش سے مکمل احتراز برتیں۔ واضح رہے ہماری سلامتی کے ادارے پولیس اور افواج بحالت ڈیوٹی اسلحے کی نمائش سے مبرا ہیں کیونکہ ان کا اسلحہ مجرم پیشہ اور اسلام دشمن عناصر پہ رعب بٹھانے کے واسطے ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں