تدبرِ قرآن
سورۃ البقرہ
نعمان علی خان
حصہ- 24
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عْبُدُوْا رَبَّكُمُ.
اب ہم عبادۃ کے مفہوم کو مختصراً سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا پہلا نام جو ہم نے سورۃ فاتحہ میں پڑھا وہ کیا تھا؟ "رب" .
الحمداللہ رب العالمین.
اب اللہ تعالٰی نے سورۃ بقرۃ میں اب تک اپنا تعارف نہیں کرایا تھا، یہاں آ کر اللہ تعالٰی نے اپنا ذکر کیا، اس سے پہلے اللہ تعالٰی نے وحی کا ذکر کیا، ان لوگوں کا ذکر کیا جو ایمان لائے اور ان کا جو ایمان نہیں لائے، اللہ کا نام آیا تو سہی مگر براہ راست واضح طور پر نہیں. اب یہاں آ کہ اللہ تعالٰی نے دو ایسے لفظوں کو جوڑا جو قرآن کا خلاصہ ہیں.
اب ہم عبادۃ کے مفہوم کو مختصراً سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا پہلا نام جو ہم نے سورۃ فاتحہ میں پڑھا وہ کیا تھا؟ "رب" .
الحمداللہ رب العالمین.
اب اللہ تعالٰی نے سورۃ بقرۃ میں اب تک اپنا تعارف نہیں کرایا تھا، یہاں آ کر اللہ تعالٰی نے اپنا ذکر کیا، اس سے پہلے اللہ تعالٰی نے وحی کا ذکر کیا، ان لوگوں کا ذکر کیا جو ایمان لائے اور ان کا جو ایمان نہیں لائے، اللہ کا نام آیا تو سہی مگر براہ راست واضح طور پر نہیں. اب یہاں آ کہ اللہ تعالٰی نے دو ایسے لفظوں کو جوڑا جو قرآن کا خلاصہ ہیں.
میرے
استاد نے کوئی 15 یا 16 سال پہلے مجھ سے سوال پوچھا اور مجھے نہیں پتہ کہ
مجھے صحیح جواب کا علم کیسے ہوا؟ شاید خوش قسمتی سے، جیسے کوئی استاد مشکل
سا سوال پوچھے اور آپ کا تکا لگ جائے. تو میں اپنے استاد سے عربی اور قرآن
دونوں سیکھ رہا تھا اور ہم نے قرآن کا مکمل دورہ کیا تو ایک دن میرے استاد
نے مجھے سامنے بٹھا کر پوچھا کہ نعمان! سارے قرآن کا خلاصہ ایک جملے کیا
بنتا ہے ؟ اور میں نے گڑبڑا کر کہا کہ آہم!...... سارے کا سارا قرآن.......
یا... کسی ایک سورۃ میں سے.... ؟ پوچھا کہ" نہیں مکمل قرآن کا خلاصہ صرف
ایک جملے میں "؟ میں نے کہا کہ "یہ قبول کرنا کہ اللہ ہمارا مالک ہے اور ہم
اس کے غلام ہیں. " انہوں نے کہا کہ " ہاں تم سمجھ گئے. " اور میں نے یہ
جواب اس لیے دیا تھا کیونکہ وہ اکثر یہی جملہ کہا کرتے تھے. لیکن پندرہ
سال گزرنے کے بعد، کئی تفاسیر پڑھنے کے بعد، تفاسیر المقارب اور مختلف
زبانیں پڑھنے کے بعد میں آپ کو بتا دوں کہ قرآن کا خلاصہ یہی ہے. اور اب
پہلے سے بڑھ کر یہ بات مجھے حقیقت لگتی ہے.
آئیڈیا یہ ہے کہ ہماری ساری زندگی تعلقات پر مبنی ہے. میرا اپنے بچوں سے، اپنے والدین کے ساتھ ایک تعلق ہے، لوگوں کا اپنے پڑوسی کے ساتھ، اپنے نصف بہتر سے' افسران سے، کاروباری شراکت داران سے ، غرض کہ زندگی میں ہر چیز تعلق سے پروان چڑھتی ہے. درحقیقت آپ کا خود سے بھی ایک تعلق ہوتا ہے اور اللہ کی یہ کتاب آپ کا اللہ سے تعلق جوڑتی ہے. ہر تعلق کے کچھ حقوق اور کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں. ایک استاد کے کچھ فرائض ہوتے ہیں تو ایک شاگرد کی بھی کچھ ذمہ رادیاں ہوتی ہیں. اسی طرح استاد و شاگرد دونوں کے حقوق ہوتے ہیں، اگر آپ کو حقوق و فرائض کا ادراک نہیں تو آپ کے تعلقات خراب ہو جانے کا خدشہ ہے. اللہ تعالٰی کے بہت سے نام ہیں جو ہمارا اللہ سے تعلق جوڑتے ہیں. مثال کے طور پر " الرحیم " وہ رحم کرتا ہے تو میں رحمت کا طالب ہوں. وہ " الھادی" ہے تو میں ہدایت کا طلب گار ہوں. اللہ تعالٰی کے بہت سے نام ہیں جو ان فرائض کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو مجھے نبھانے چاہئیں . لیکن ایسا کون سا ایک نام ہے جو میرا اللہ تعالٰی سے بنیادی تعلق ظاہر کرتا ہے، یہ الخالق نہیں ہے، " الخالق " کے معنی ہیں تخلیق کرنے والا اور یہ لفظ مجھے مخلوق میں شامل کرتا ہے لیکن یہ لفظ اللہ سے میرا بنیادی تعلق ظاہر نہیں کرتا. وہ پہلا بنیادی تعلق جو اللہ کا انسان سے قرآن پاک میں بیان ہوا ہے وہ ہے " رب " اور " عبد". اگر آپ یہ سمجھ جائیں تو سب سمجھ جائیں گے. لیکن اگر یہ نہ سمجھ سکیں تو باقی تمام لفظ، وہ الخالق تو آپ مخلوق، وہ الھادی تو آپ ہدایت کے طالب، وہ الرحیم تو آپ رحمت کے طلب گار، یہ سب باتیں ثانوی ہیں. جو بنیادی چیز ہے وہ ہے " رب " اور " عبد" . اور رب کہتے ہیں مالک کو، وہ جو خیال رکھتا ہے. وہ جو انعام دیتا ہے، وہ جو قائم رکھتا ہے، وہ جو بادشاہ ہے. جب آپ اللہ کو رب کہہ کر بلاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا اس پر کوئی حق نہیں. اور جب آپ اپنے آپ کو غلام کہتے ہیں، جب آپ کہتے ہیں " عبد"، تو اس کا مطلب کہ آپ کسی بھی چیز کے حقدار نہیں. ایک ملازم کو تنخواہ ملتی ہے، ایک کاروباری شراکت دار کو اس کا حصہ ملتا ہے، ایک بچے کے بھی ماں باپ کی طرف کچھ حقوق بنتے ہیں لیکن ایک غلام کو کچھ نہیں ملتا. بلکہ ایک غلام کو جو بھی ملے وہ تحفہ ہوتا ہے. ایک آقا کو اپنے غلام کو کچھ نہیں دینا ہوتا. لیکن بات یہ ہے کہ غلام اور آقا، انگریزی میں ان کے معنی نہایت برے سمجھے جاتے ہیں کیونکہ انگریزوں کی اس حوالے سے اپنی تاریخ نہایت بری ہے. لیکن اس سماجی اور فلسفیانہ زہر کے برعکس جو ہمارے ذہنوں میں ان دو الفاظ کے خلاف ڈالا جا چکا ہے اگر آپ اللہ کو اپنا مالک، اپنا آقا تسلیم کریں تو آپ کو سمجھنا ہو گا کہ " لیس کما مثله شئ ". اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں، ایسا آقا آپ کو کہاں ملے گا؟
استاد نعمان علی خان..
جاری ہے...........
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں