تدبرِ قرآن۔۔۔ سورہ الرحمٰن۔۔۔ حصہ سوم

تدبرِ قرآن
سورہ الرحمٰن
(نعمان علی خان)
حصہ سوم


اعوذباللہ من اشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ
اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا.

صَلْصَالٍ اس مٹی کو کہتے ہیں جو بے کار ہو، کسی کام کی نہ ہو, آپ ایسی مٹی کو کاشت کے لیے استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ یہ خشک بنجر مٹی ہوتی ہے سڑے ہوئے گارے کی مانند . عربوں کے لیے بدترین تضحیک یہ تھی کہ ان کو سڑے ہوئے گارے کی مانند مٹی سے تشبیہ دی جائے .آج تک عربوں میں پاؤں زور سے زمین پہ مار کر کسی کے منہ پہ مٹی اڑانا نہایت بے عزتی کی بات اور گری ہو حرکت سمجھا جاتا ہے.
اللہ تعالٰی ہمیں ہماری اصلیت یاد دلاتے ہیں کہ ہمارا وجود ایک ٹھیکری جیسی مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے . اس سے پچھلی آیت میں اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ" تم دونوں"، یعنی انسان اور جنات دونوں کو مخاطب کیا گیا . لیکن اس آیت میں صرف انسانوں کی بات کی گئی . اس سورۃ میں ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے. اور آپ کو ہٹ دھرمی پر کون اکساتا ہے؟ شیطان . 

انسان انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں لیکن انسان شیاطین کو نہیں دیکھ سکتے. اللہ تعالٰی جانتے ہیں کہ شیطان کے کیا مقاصد ہیں. اللہ تعالٰی چاہتے ہیں کہ وہ یہ جان لیں کہ وہ کفر میں اکیلے نہیں ہیں. وہ غافل کافر، انسان ہیں جنہیں شیطان مزید کفر و سرکشی کی طرف دھکیل دیتا ہے. وہ ہیں حق کو جھٹلانے والے، سرکش، ناشکرے، اور ان کے سردار شیطان ہیں. 

وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ
اور اس نے جنوں کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔

ایک چولہا جو گیس سے چلتا ہے اس میں ایک نیلے رنگ کی آگ سی نکلتی ہے اور چولہے کے اندر ایک حصہ ہوتا ہے جو نظروں سے اوجھل رہتا ہے جسے مدرج کہتے ہیں. 

فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر تم (اے جن و انس) اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ 

تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے انعامات و کرامات اور لطف و کرم کو جھٹلاؤ گے؟

اٰلَآءِ اشارہ ہے ان تمام نعمتوں، رحمتوں، معجزات، کرامات، فضل طاقت، طعام و کرام اور اللہ کے انعامات کی طرف.
ان دونوں سے کیا مراد ہے؟ اللہ تعالٰی نے ابھی اس سورۃ میں جنات کا ذکر نہیں کیا تھا تو تُكَـذِّبَانِ کے کیا معنی ہوئے؟ اس کے لغوی معنی ہیں جھٹلانے کے. 

دوسرے لفظوں میں ایک شخص ہے جو نہایت عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے. لیکن پھر بھی وہ بالکل بھی شکر ادا نہیں کرتا. اس کے پاس سب کچھ ہے لیکن اسے کسی چیز کی قدر نہیں. اور اس کی سوچ بس اسی ایک چیز کے ارد گرد گھومتی ہے جو اس کے پاس موجود نہیں. ایسے شخص کے ایمان جھٹلانے کا یہی ثبوت ہے کہ جو اسے دیا گیا وہ اس پہ شکر ادا نہیں کرتا. وہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے. کیا یہ ناشکرے پن کی انتہا نہیں؟ کہ ہمیں جتنا بھی عطا کیا جائے، ہمارے اندر اس سے زیادہ حاصل کرنے کا لالچ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے. ان لوگوں کی طرف دیکھنے کے بجائے جن کے پاس آپ سے کم ہے آپ کی آنکھیں انہیں کو دیکھتی رہیں جنہیں اللہ نے آپ سے زیادہ عطا کیا ہے.

تو آپ اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائیں گے؟ خود سے یہ سوال پوچھیں : کہ مجھے اللہ نے ان نعمتوں سے کس وجہ سے نوازا ہے اور جو مشکلات کسی دوسرے کی زندگی میں ہیں وہ آپ کو کیوں نہیں ملی . یہ آپ پر اللہ کا فضل ہے اور کچھ نہیں. اللہ تعالٰی آپ کو آزماتے ہیں اپنی نعمتوں سے، اور دوسروں کا امتحان کسی اور طرح لیا جاتا ہے. آپ اس قابل نہیں ہوتے مگر یہ اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے کہ یہ نعمتیں آپ کو عطا کی جائیں. 

ایک چیز جس پر ہمیں بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اللہ کا رحم و کرم ان کے لیے نہیں ہے جو اس کے انعامات کو جھٹلاتے ہیں. اللہ تعالٰی ان لوگوں سے سخت ناراض ہوتے ہیں جو اللہ کی نعمتوں کا انکار کریں. آج کے نوجوان، اور بچے یا تو اپنی ذات میں مگن ہیں ، یا پھر مغرور ہیں یا خود ترسی کا شکار ہیں اور آسانی سے غصے میں آ جانے والے ہیں. آج کی نسل نہ جانے کس طرف جا رہی ہے. آپ جس قدر یہ ظاہر کریں کہ آپ کو کسی نصیحت یا وعظ کا اثر نہیں ہوتا، اسی قدر آپ اپنی کمزوری دوسروں پر عیاں کرتے ہیں.

ہمارے جوانوں کے لیے یہ مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اللہ کے آگے عاجزی سے گڑگڑا کر، رو کر دعا مانگ سکیں. آج کی تہذیب نوجوانوں کو اپنی ذات میں اس قدر مگن رہنے پر ابھارتی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو اللہ تعالٰی کے سامنے عاجزی سے پیش ہونے میں نہایت مشکل کا سامنا ہے. یہ ایک سنگین مسئلہ ہے. جب کوئی اللہ کی نعمتوں سے انکار کرتا ہے تو وہ اپنے غرور و تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے.

رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ
وہ دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے۔

قرآن میں تین جگہوں پر یی کہا گیا ہے کہ اللہ مشرق و مغرب کا مالک ہے. اس آیت میں کہا گیا کہ مشرق و مغرب دونوں کا رب، قرآن میں ایک اور آیت ہے وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ کہ مشرق اور مغرب اللہ ہی کے لیے ہے،
جب اللہ تعالٰی مشرق و مغرب کی بات کرتے ہیں تو اللہ تعالٰی نے کہیں انہیں الگ الگ مشرق و مغرب کہا، کہیں دونوں کا نام لیا ، اور کہیں جمع کے صیغہ میں کہا، سمجھنے کے لیے سب سے آسان جو ہے وہ ہے علیحدہ علیحدہ، مشرق اور مغرب. 

افق پر اگر دیکھا جائے تو ایک ہے جنوب مشرقی اور ایک ہے شمال مشرقی، تو جب اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ دونوں مشرق کا مالک تو اللہ تعالٰی مشرق کے دونوں حصوں کی بات کرتے ہیں، یعنی تمام تر مشرق، سارے کا سارا مشرق.
ایک اور طریقہ جو دونوں مشرق اور مغرب کو سمجھنے کا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالٰی موسموں کی بات کرتے ہیں. جو لوگ کاشتکاری کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جیسے جیسے موسم بدلتا ہے ویسے ہی سورج اپنی جگہ تبدیل کرتا ہے، تو اسی لیے سال میں دو مشرق ہوتے ہیں اور دو مغرب. 

اس سے پہلے کی آیات میں پودوں کی زندگی کی بات کی گئی تھی جن کا پروان چڑھنا موسموں کے آنے جانے سے ہے، اور اللہ تمام موسموں کا مالک ہے. یہ سورۃ ہمیں اللہ کا شکرگزار بندہ بننے پر اکساتی ہے. اس سورۃ کا مقصد ہی یہی ہے. اور یہ ہمیں کیوں شکرگزار بنانا چاہتی ہے؟ تاکہ ہم اللہ کے رحم و کرم کے قابل بن سکیں. اس سورۃ کے مطابق ہمیں قرآن کی زیادہ سے زیادہ تعریف کرنی چاہیے. 

اور اس کے بعد ہمیں سورج کے طلوع ہونے، موسموں کے آنے جانے پر اللہ کی تسبیح بیان کرنی چاہیے. اور جب ہم ان چیزوں کو دیکھیں تو ہمیں اللہ کی بڑائی بیان کرنے کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے. یہ آیات ہماری سوچ کا حصہ بن جانی چاہیے جو ہم اپنی زندگی کے متعلق سوچتے ہیں. کوئی وقت ایسا نہیں ہونا چاہیے جب آپ اپنے رب کے متعلق نہ سوچ رہے ہوں.

فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے

تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟ 

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ
اس نے دو سمندر ملا دیے جو باہم ملتے ہیں. 

اللہ تعالٰی دو مختلف سمندروں کی بات کرتے ہیں جو آپس میں باہم ملے ہوئے ہیں.

بَيْنَـهُمَا بَـرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ
ان دونوں میں پردہ ہے کہ وہ حد سے تجاوز نہیں کرسکتے۔

اللہ تعالٰی اپنی تخلیق کے بارے میں بتاتے ہیں جو ہر حال میں اللہ کے حکم کے تابع ہے، چاہے اس کو اللہ کے حکم کے برخلاف جانے کے لیے کتنی ہی کوئی قوت لگائے وہ اللہ کے حکم کے برخلاف نہیں جاتے. وہ حد سے تجاوز نہیں کرتے. تو ہم انسان ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ہم اللہ کی نعمتوں کو کیوں کر جھٹلاتے ہیں؟

وہ دو سمندر بالکل مختلف ہیں، ان کا پانی بھی الگ ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک واضح آڑ موجود ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے نہ ہی آپس میں مدغم ہوتے ہیں. رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام نے تاعمر سمندر کا سفر نہیں کیا لیکن اللہ تعالٰی انہیں یہ بتاتے ہیں. 

فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے

تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟ 

يَخْرُجُ مِنْـهُمَا اللُّـؤْلُـؤُ وَالْمَرْجَانُ
ان دونوں میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے.

مِنْـهُمَا سے مراد دونوں طرح کے پانی ہیں. ایک عیسائی مشنری نے قرآن کے خلاف لکھا اس نے کہا کہ قرآن غلطی پر ہے کیونکہ موتی صرف نمکین سمندر کے پانی سے نکلتے ہیں لیکن وہ غلط تھا کیونکہ موتی دنیا بھر میں کھارے اور میٹھے ہر قسم کے سمندر میں پائے جاتے ہیں. سمندر کی تہہ میں موتی ایک چھوٹی سی چیز ہے. 

فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے

تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟ 

وَلَـهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَاٰتُ فِى الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ
اور سمندر میں پہا ڑوں جیسے کھڑے ہوئے جہاز اسی کے ہیں. 

بڑے بڑے بحری جہاز سمندر کی سطح پر تیرتے ہیں، اور ایک چھوٹا سا موتی سمندر کی تہہ میں ڈوبا ہوا رہتا ہے. جسے تم سوچتے ہو کہ وہ تیر سکے گا وہ ڈوب جاتا ہے اور جس کے بارے میں تم خیال کرتے ہو کہ وہ ڈوب جائے گا اسے اللہ سمندر کی سطح پر رکھتا ہے اور ڈوبنے نہیں دیتا. 

َالْاَعْلَامِ کا مطلب جہاز اور پہاڑ دونوں ہو سکتے ہیں. جب آپ بڑے بڑے بحری جہازوں کو ساحلِ سمندر پر لنگر انداز ہوتے دیکھیں تو آپ کو اللہ کی بڑائی بیان کرنی چاہیے. 

فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ
پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے

تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا، کتنے ہی معجزات کا انکار کرو گے، کتنے انعامات و کرامات اور لطف و کرم کوجانتے بوجھتے جھٹلاؤ گے؟ 

كُلُّ مَنْ عَلَيْـهَا فَانٍ
جو کوئی زمین پر ہے فنا ہوجانے والا ہے. 

فَان اس چیز کو کہتے ہیں جو ایک دن فنا ہو جانے والی ہو. جو چیزیں انسانوں کی تخلیق کردہ ہیں ان کا موازنہ اللہ کی تخلیق کی گئی چیزوں سے کر کے دیکھیے. اللہ تعالٰی نے انسانی جسم تخلیق کیا، اور انسانوں نے گاڑیاں، کمپیوٹر، اور بہت سی ایجادات کی ہیں جنہیں مستقل مرمت کی، یا نئے سرے سے بنانے کی، جدت کی نوبت آتی رہتی ہے. حتی کہ جو عمارتیں بھی ہم تعمیر کرتے ہیں ان کی ایک خاص مدت ہوتی ہے. جب انسانی جسم کمزور ہونے لگتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ، اللہ کی تخلیق میں کسی قسم کی کمی ہے بلکہ ہمیں ان کمزوریوں کے ساتھ تخلیق کیا گیا ہے، ان کا سامنا کرنے کے لیے. اور یہ یاددہانی ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے.
فرعون کا خیال تھا کہ وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کی بادشاہت کو کبھی زوال نہ آئے گا اور آج اس کا مقبرہ، اہرامِ مصر، سیاحوں کے لیے ایک تفریح گاہ ہے. 

یہ اصول تمام اقوام پر تمام انسانوں پر اور تمام تہذیبوں پر لاگو ہوتا ہے. ہر عروج کو زوال ہے. ہمارے ارد گرد کی دنیا اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ ہم یہ دیکھنے سے ہی قاصر ہیں کہ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے. کیونکہ اس بڑی دنیا میں بہت کچھ ہو رہا ہے، اور ہمارا ذہن اس کا احاطہ نہیں کر سکتا. 

وَيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِكْـرَامِ
اور آپ کے پروردگار کی ذات باقی رہے گی جو بڑی شان اور عظمت والا ہے. 

وَجْهُ عربی میں چہرے کو کہتے ہیں اور یہ لفظ قرآن میں بہت دفعہ اللہ تعالٰی کے لیے استعمال ہوا ہے کیوں, جب لوگوں میں سے کسی کو اقتدار حاصل ہوتا ہے تو ان کو عزت سے بلایا جاتا ہے . اور جب اقتدار کھو جاتا ہے تو ساتھ ہی عزت و احترام بھی کھو جاتا ہے.
اس دنیا میں عزت کوئی ایسی چیز نہیں جو آپ خود سے خرید لیں، یہ دوسرے آپ کو دیتے ہیں. اگر سب مر جائیں، سب تباہ ہو کر ختم ہو جائیں تو اللہ عزوجل شانه کی عبادت کون کرے گا؟ کوئی بھی نہیں؟ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں آپ کے پروردگار کی ذات باقی رہے گی وہ مالک ہے تمام شان و عظمت کا . اور اللہ عزوجل کو کسی کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ اسے عزت دیں، عزت اللہ کے ہی لیے ہے. 

یہ فلسفہ کے اعتبار سے بھی نہایت اہم آیت ہے، کسی نے پوچھا کہ اللہ تعالٰی کیوں چاہتے ہیں کہ میں ان کی تعریف کروں؟
ہمارا تعلق اللہ کے ساتھ ایسا ہے ہی نہیں کہ اسے کسی چیز کی ہم سے ضرورت ہے لیکن صرف اس لیے کہ وہ الرحمان ہے.
اللہ کی عبادت سے، اللہ کی تعریف و تعظیم سے ہمیں فائدہ ہے. 

فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ.
پھر( اے گروہِ جن و انس ) تم ِ اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے. 

يَسْاَلُـهٝ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِىْ شَاْنٍ.
جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اسی سے مانگتے ہیں ، ہر روز وہ ایک نئی شان میں ہے۔

دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، شکر گزار اور غافل، اللہ تعالٰی کہتے ہیں کہ تمام لوگوں کو چاہے وہ اس کے شکر گزار ہوں یا غافل، انہیں اللہ کی ضرورت ہے. اللہ تعالٰی بے نیاز ہیں، انہیں ہماری نہیں بلکہ ہمیں ان کی ضرورت ہے. آسمان اور زمین میں جو بھی ہیں وہ ہمہ وقت اللہ تعالٰی سے مانگتے ہیں. ہر روز اللہ تعالٰی کی شان ہے.
ہو سکتا ہے کہ آپ اللہ سے پانی نہ مانگتے ہوں مگر کیا آپ کو اس کی ضرورت نہیں؟ بالکل ہے. ایک کافر اللہ تعالٰی سے پانی نہیں مانگتا مگر اسے ضرورت تو پڑتی ہے پانی کی. وہ چاہے یہ نہ مانے لیکن اسے اللہ کی ضرورت ہے. جب وہ پانی مانگتا ہے تو وہ اصل میں اسی سے مانگتا ہے جس نے پانی آسمان سے زمین پر اتارا. یہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں اللہ کی ہی عطا کردہ ہے چاہے ہمیں اس کا احساس ہو یا نہ ہو.
سورۃ المرسلات میں یہ زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے. اگر آپ کا کتا آپ پر بھونکتا ہو اور آپ کی بات نہ مانے تو آپ اسے ڈربے میں بند کر دیں گے اور اسے کھانے کو خوراک نہیں دیں گے. کچھ دن بعد آپ اپنے ہاتھ میں پانی ڈال کر اندر اس کے ڈربے میں کریں گے تو کتا خاموشی سے پانی پیے گا کیونکہ وہ پیاس سے مر رہا ہو گا.
اسی طرح انسان اگر یہ کہے کہ اسے اللہ کی ضرورت نہیں، وہ نہیں مانتا کسی خدا کو، اور زندگی بس اس کے اپنے اردگرد گھومتی ہے تو ایک ایسا آقا جو اپنے کتے کو بھوکا پیاسا رکھے وہ الرحمٰن نہیں ہے، تو اللہ تعالٰی انسان کو ڈھیل دیتے ہیں، اور یکے بعد دیگرے بیشتر مواقع فراہم کرتے ہیں. انسان اس کا شکر ادا نہیں کرتے لیکن اللہ تعالٰی انہیں نوازتے چلے جاتے ہیں. 

شَاْنٍ کا غلط ترجمہ مصروف رہنے کے معنوں میں کیا جاتا ہے. ایسے جیسے اس کا مطلب ہو کہ آپ نہایت مصروف ہیں اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھ سکتے. اللہ تعالٰی کے لیے ایسا کہنا مناسب نہیں. شَاْنٍ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالٰی کچھ ایسا کرتے ہیں جو ان کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا. وہ اللہ کی ہی شان ہے. 

فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ.
پھر( اے گروہِ جن و انس ) تم ِ اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے. 

سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَ الثَّقَلَانِ
"اے جن و انس ہم تمہارے لیے جلد ہی فارغ ہو جائیں گے"

پچھلی آیت میں اللہ تعالٰی نے کہا کہ اللہ تعالٰی کسی ایسے کام میں مصروف ہیں جو اللہ کی ہی شان ہے، جو اس کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا. اب اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ جس کام میں وہ مصروف ہیں، ہمیں نوازنے میں، وہ جلد ختم ہو جائے گا. یہ ایک طرح سے دھمکانے کا انداز ہے. 

جب ایک استاد چلا رہا ہو کہ " تم سب نے کام ختم نہیں کیا؟ تم سب نالائق ہو." تو آپ کو برا نہیں لگتا کیونکہ استاد سب کو ڈانٹ رہے ہوتے ہیں. لیکن اگر ایک شاگرد کو کھڑا کر کے استاد ڈانٹیں تو استاد محترم کی ڈانٹ سے پہلے ہی شاگرد پریشان ہو جاتا ہے. 

اللہ تعالٰی ہر ایک کو واضح دھمکی دے رہے ہیں. الثَّقَلَانِ کے معنی ہیں "  انسانوں اور جنات کی بڑی قوم". الثَّقَلَانِ کے ایک اور معنی یہ بھی ہیں کہ جب لوگ گناہ کرتے ہیں تو زمین ان گناہوں کی گواہ ٹھہرائی جاتی ہے اور تمام تر انسانیت کے گناہوں کا بوجھ ایک دن یہ زمین سہار نہیں پائے گی. 
تم زمین کا بوجھ اپنے گناہوں سے بڑھائے چلے جا رہے ہو. یہ روزِ قیامت کی طرف اشارہ ہے. 

فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ.
پھر( اے گروہِ جن و انس ) تم ِ اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے.

اب تک یہ سوال اس دنیا میں پوچھا گیا تھا لیکن اب یہاں یہ سوال آخرت میں پوچھا گیا ہے. اب اس سوال کے پوچھمے کا انداز مختلف ہے 

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُـمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۚ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطَانٍ
اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ، تم بغیر زور کے نہ نکل سکو گے (اور وہ ہے نہیں)

لوگ نہایت کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کسی طرح جزا و سزا کے دن سے بچ نکلیں. انسان زمین کے اندر چھپنے کی کوشش میں ہیں اور جنات آسمان کی سرحدوں سے نکل کر کہیں دور بھاگ جانا چاہتے ہیں.

اللہ تعالٰی نے آسمانوں کا ذکر کیا. اور اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ سب سے نچلے آسمان کو ستاروں سے سجایا گیا ہے. کائنات میں ہم جہاں تک نظر دوڑاتے ہیں ہمیں ستارے ہی نظر آتے ہیں یعنی ہم ابھی تک پہلے آسمان سے آگے جا ہی نہیں سکے. یہ گفتگو روزِ جزا و سزا کے متعلق ہے. 

نعمان علی خان

جاری ہے۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں