محبت کے درجے


 محبت کے درجے
اقتباس از نمل ۔۔۔۔ نمرہ احمد

شیخ نے آہستگی سے گیلے چپو نکال کر کشتی کے اندر رکھے۔ ہوا ہولے سے خود ہی سنہرے پانی پہ کشتی کو آگے بڑھانے لگی۔
’’تمہارے زمانے میں ‘ لڑکی ‘ سب سے مہلک بیماری کون سی ہے؟‘‘
’’ڈینگی !‘‘فوراََ بولی، پھر گڑبڑائی۔’’سوری۔کینسر۔ سرطان۔‘‘
’’تو اگر سرطان کا مریض اپنی بیماری بھول جائے تو کیا تندرست ہو جائے گا؟‘‘
’’لیں۔ بیماری بھولنے سے کون شفا یاب ہو سکتا ہے؟‘‘
’’تو میری بیٹی ‘ مریض کیسے ٹھیک ہو گا؟جسم سے اس سرطان (کینسر) کے نکلنے سے؟ یا یادداشت سے سرطان کا خیال نکلنے سے؟ اور جب وہ ٹھیک ہو جائے گا ‘ تو کیا وہ سرطان کو بھول جائے گا؟‘‘
وہ ایک عجیب انکشاف کا لمحہ تھا۔ حنہ نے دم بخود ان کو دیکھتے نفی میں سر ہلایا۔
’’نہیں۔ اسے ساری عمر سرطان یاد رہے گا۔‘‘
’’لیکن اگر وہ تندرست ہو چکا ہے تو وہ یاد اسے تکلیف نہیں دے گی۔‘‘
’’تو کیا...تو کیا مجھے اپنے محبوب کو بھولنے کی ضرورت نہیں؟‘‘ وہ بے یقین تھی۔ بھولے بغیر مووآن کرنا...یہ کیسا علاج تھا؟
’’وہ تمہیں کبھی نہیں بھول سکتا۔تم بھولنے کی کوشش ترک کر دو۔ علاج تم نے اپنے دل کا کرنا ہے ‘ یادداشت کا نہیں۔ اسے دل سے نکالنا ہے ‘ دماغ سے نہیں۔ اس مقام تک آنا ہے جہاں اس کی یاد پہ تم بے حس ہو جاؤ۔ تمہیں فرق پڑنا ختم ہو جائے۔نہ نفرت ہو نہ محبت!‘‘
’’مگر یہ کیسے ہو گا؟‘‘
’’اس کے لئے پہلے تمہیں ’’محبت ‘‘ کو سمجھنا پڑے گا۔‘‘ انہوں نے چپو اٹھا لئے اور پھر سے پانی میں چلانے لگے۔ کشتی کی رفتار تیز ہوئی۔ سنہری کرنوں سے چمکتا پانی اب تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ گویا دریا کے دو دہانے قریب آ رہے تھے۔ دونوں اطراف میں اگا سبزہ بھی گھنا اور گنجان تھا۔
’’اور اس کو سمجھنے کے لیے پہلے عشق اور محبت میں فرق کرنا سیکھو لڑکی!‘‘ دریا مزید تنگ ہو کر کسی نہر میں بدلتا جا رہا تھا۔ وہ جیسے شام سے دور ‘ امیزون کے جنگلات کے درمیان بہتی کوئی نہر تھی۔
’’مجھے پتہ ہے ۔‘‘ وہ جلدی سے بولی ۔’’پہلے پسند یدگی ہوتی ہے‘ پھر محبت ‘ پھر عشق ‘ پھر جنون ‘ پھر دیوانگی!‘‘ شیخ کے تاثرات دیکھ کر وہ چپ ہوئی۔وہ افسوس سے مگر مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا رہے تھے۔’’یہ درجے تمہارے ملک میں رائج ہوں گے‘ مگر جس زبان سے تمہاری زبان نکلی ہے ‘ اس میں معاملہ ذرا مختلف ہے۔ محبت درمیان میں نہیں ہے ‘ بلکہ محبت کے یہ سب درجے ہیں۔ محبت خودکوئی درجہ نہیں ہے۔‘‘

’’تو کتنے درجے ہیں محبت کے؟‘‘
’’سات۔ سنو گی؟‘‘ وہ مسکرائے۔ کشتی اب اس سر سبز تنگ نہر کے درمیان داخل ہو چکی تھی۔ وہاں جابجا کنول کے پھول پانی پہ تیرتے دکھائی دے رہے تھے۔ سورج گھنے درختوں کے ورے چھپ گیا تھا۔ٹھنڈی میٹھی سی چھایا ہر سو چھا گئی تھی۔
’’محبت کا پہلا درجہ ’’علاقہ‘‘ ہے ‘ کیونکہ اس میں انسان کا اپنے محبوب سے’’ تعلق ‘‘قائم ہوتا ہے۔ علاقہ کے بعد’’ الصبابہ‘‘ ہے‘ اس میں انسان کا دل پوری گرویدگی کے ساتھ محبوب کی طرف جھک جاتا ہے ‘ وہ اس کے سحر میں گھر جاتا ہے۔ تیسرا درجہ ’’الغرام‘‘ ہے۔ قرآن میں پڑھا ہو گا تم نے ’’ان عذابہا کان غراما‘‘ (بلاشبہ اس کا عذاب لازم ہونے والا ہے) سو الغرام میں محبت قلب کے اندر ہمیشہ کے لئے لازمی طور پہ جا بیٹھتی ہے اور اس سے نکل نہیں پاتی۔‘‘ وہ ذرا دیر کو سانس لینے رکے۔ ’’پھر ’’عشق‘‘ ہے۔ محبت کی ایک انتہا ۔اور ایک بات کہوں‘ برا تو نہیں مانو گی؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘
’’یہ کیا تمہارے ملک کے لوگوں نے الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ’’عشق‘‘ کا لفظ جوڑنا شروع کر رکھا ہے؟ تمہاری زبان جس زبان سے نکلی ہے ‘ اس میں عشق کا لفظ مرد عورت کی ایسی محبت کے لئے استعمال ہوتا ہے جو معتبر نہیں سمجھی جاتی۔ اس لفظ میں شرافت نہیں ہے۔خود سوچو‘ کبھی کہہ سکتی ہو کہ اپنے ماں باپ سے عشق ہے تمہیں؟ عجیب لگتا ہے نا؟ الله کی محبت کے لئے ‘ رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت کے لئے یہ لفظ قطعاً درست نہیں۔‘‘

’’آہستہ بولیں۔کسی ٹی وی پہ مداری نما سوڈو اسکالر نے سن لیا نا‘ تو مجھے الٹا لٹکا دے گا۔ آپ کو کیا پتہ آج کل ’’عاشقِ رسول‘‘ کے ٹائٹل کی ٹی وی پہ کتنی ڈیمانڈ ہے۔‘‘ شیخ نے مسکرا کر آہ بھری۔

’’کسی اور کو اگر حق بات کہنے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ ہے ‘ اور وہ غیرجانبدار رہنا چاہتا ہے ‘ تو رہے ۔ مگر نہ میں غیرجانبدار رہوں گا‘ نہ غلط چیز کو روکنے کے لئے کسی ملامت یا فتوے کی پرواہ کروں گا۔ عربی ادب کے ماہرین اور اہلِ زبان سے جا کر پوچھ لو‘ اور نہیں تو قرآن پڑھنے والوں سے پوچھ لو‘ الله نے اپنے اور رسول کے لئے ’’محبت ‘‘ کا لفظ استعمال کیا یا عشق کا؟ میں تمہارے ملک کے مفتیوں اور ’’عاشقوں‘‘ سے نہیں ڈرتا۔ جو لفظ مجھے الله کے رسول نے نہیں سکھایا‘ جو لفظ ایک اچھا لفظ ‘ ایک شریف لفظ نہیں سمجھا جاتا‘ میں اس کو الله اور رسول کے ساتھ جوڑنے کی مخالفت کرتا ہوں‘ اور مجھے کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں ہے۔‘‘

’’ابنِ قیم والا حوصلہ اور جگر میرے اندر نہیں ہے ‘ اس لئے ہم آگے چلتے ہیں شیخ!‘‘ اس نے موضوع کی طرف توجہ مبذول کروائی۔وہ سر جھٹک کر چپو چلانے لگے۔کشتی تیزی سے پانی کو چیرتی تیرنے لگی۔
’’عشق کے بعد’’شوق‘‘ ہے۔ یہ دل کے اس سفر کا نام ہے جو پوری تیزی سے محبوب کی طرف شروع کیا جائے۔ پروردگارِ عالم کے متعلق اس کا اطلاق ہوتا ہے۔الله کو معلوم ہے کہ اس کے دوست ا س کی ملاقات کا شوق رکھتے ہیں اس لئے اس نے ایک وقت مقرر کر دیا ہے کہ جب وہ لوگ جو اپنے دکھوں اور مسئلوں میں صرف اسی سے مدد مانگا کرتے تھے ‘ وہ اس وقت اس سے ملاقات کر لیں گے اور ان کے دل میں موجود جذباتِ محبت کو قررار ملے گا۔‘‘

پانی پہ چمکتے کنول کے پھول خودبخود ایک طرف ہٹ کر کشتی کو راستہ دینے لگے۔

’’اس کے بعد 'التتیم' ہے۔ یعنی کہ انسان اپنے محبوب کی عبادت کرنے لگ جائے۔محبوب کی عبادت کرنے والا اس کا ’’عبد‘‘ (غلام) بن جاتا ہے۔ وہ اپنی ساری انا‘ ساری عزتِ نفس ‘ سب اس محبوب کے قدموں میں ڈال دیتا ہے ‘ کسی انسان سے ایسی محبت کی جائے‘ مجبوری میں نہیں‘ ظلم میں نہیں‘ بلکہ صرف محبت میں خود کو اس کے قدموں میں بے توقیر کر دیا جائے‘ تو یہ شرک ہے۔ مگر الله سے ایسی محبت کرنا ‘ خود کو اس کے سامنے جھکانا‘ اپنے چہرے کا ہر نقاب اتار کر ‘ ہر انا پسِ پشت ڈال کر ‘ اس سے اپنے دل کا حال بیان کرنا‘ اس کے آگے دعا میں گڑگڑانا‘ یہ’’ عبادت‘‘ ہے ‘ اور عبادت محبت کی معراج ہے۔ جو الله کی عبادت نہیں کرتا‘ وہ اس سے محبت نہیں کرتا۔‘‘

اب ان کے چپو چلاتے ہاتھوں میں روانی آ گئی تھی۔ ہوا بھی ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ دریا نہر کی مانند درختوں کی تنگ گلی سے گزر کر آگے بڑھتا ہی بڑھتا جا رہا تھا۔

’’اس کے بعد...کمالِ محبت...محبت کا آخری درجہ ..."خلت" ہے۔ یہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس میں محبوب کے سوا نہ کسی کی گنجائش ہوتی ہے ‘ نہ دل کسی شراکت کو برداشت کرتا ہے۔ اسی خلت سے خلیل ہے ‘ اور یہ منصب الله تعالیٰ نے صرف دو انسانوں کو عطا کیا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام اور محمد صلی الله علیہ وسلم۔ اس خلت کو حاصل کرنے کے لئے ان دو عظیم انبیآء نے بہت کچھ قربان کیا تھا۔ ہم اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے ‘ مگر التتیم....یعنی ’’عبادت‘‘ تک تو پہنچ سکتے ہیں نا۔‘‘ جیسے اسے تسلی دی۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں