چیزوں کو ان کی قیمت کے مطابق اہمیت دیجئے... خطبہ مسجد الحرام (اقتباس)


مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن إبراہیم الشریم 
جمعۃ المبارک 9 جمادی الاولی 1939ھ بمطابق 26 جنوری 2018 ء
ترجمہ : محمد عاطف إلياس

منتخب اقتباس:

لطیف وخبیر اللہ کے لیے ساری تعریف ہے، وہ فضل کبیر اور خیر کثیر کا مالک ہے۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ میں اللہ پاک کی ثنا بیان کرتا ہوں، اسی سے مدد مانگتا ہوں، اسی سے معافی کا سوال کرتا ہوں اور اسی کی طرف پلٹتا ہوں۔ اسکی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں اور جس چیز کو وہ روک دے اسے آگے بڑھانے والا کوئی نہیں۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

سمجھدار وہ ہے کہ جو خود کا محاسبہ کر لے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیئے تیاری کرے۔ اور بےوقوف وہ ہے جو خواہشات کی پیروی بھی کرتا رہے اور اللہ پر امید بھی باندھے رکھے۔ فرمان الٰہی ہے:
’لہٰذا جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو، اور سنو اور اطاعت کرو۔‘‘ (التغابن: 

اللہ کے بندو!
اخلاق انسانی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان ہی کے گرد انسان کے تمام اقوال اور اعمال گہومتے ہیں اور انہی کے ذریعے مختلف قسم کے لوگوں کے ساتھ تعامل کیا جاتا ہے۔
انسان کی زندگی سے اخلاق کو نکال دیا جائے تو لوگوں کا باہمی تعامل بے مقصد اور بے ضابطہ بن کر رہ جاتا ہے، جس میں ایک دوسرے پر اعتماد اور ایک دوسرے کے متعلق اچھا گمان نہیں ہوتا۔ دل محبت، الفت اور پاکیزگی سے ہاتھ دھو کر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر ان تک رسائی ممکن نہیں رہتی اور نہ ان کے ذریعے لوگوں کی عقلوں تک رسائی ممکن رہتی ہے۔
پھر بس بد اخلاقی اور برے گمان کا دور دورہ ہوتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر مختلف تہمتیں لگانے لگتے ہیں، برے الفاظ استعمال کرنے لگتے ہیں، شیطانی طریقوں کے استعمال پر اتر آتے ہیں، بات کا بتنگڑ بنانے لگتے ہیں اور چھوٹی غلطیوں کو مصیبت کا درجہ دینے لگتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں ایسا رویہ نظر آئے تو جان لیجئے کہ اس معاشرے میں اخلاق کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

انسان میں عقل اور حکمت ہو تو وہ اس مقام تک پہنچ سکتا ہے جہاں اس کے لیے اچھے اور برے میں تمیز کرنا آسان ہوجائے، جہاں وہ باآسانی یہ جان لے کہ کونسی چیز کو مقدم کرنا ہے اور کون سی چیز کو مؤخر، کس چیز کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہیں دینی اور کس چیز کی اہمیت کم نہیں کرنی۔
عقل و دانش مندی سے کام لیا جائے تو انسان ہر چیز کو مناسب اہمیت دینا سیکھ لیتا ہے اور پھر وہ ہر حقدار کو اس کا حق دیتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو یا تو وہ احساس سے خالی ہوتا ہے یا وہ چیزوں کو ان کی قدرو قیمت کے مطابق اہمیت دینا نہیں جانتا ہوتا۔ ظاہر ہے کہ احساس ختم ہونا اور چیزوں کو مناسب اہمیت نہ دینا، دونوں ہی بری چیزیں ہیں، مگر چیزوں کو ان کی حیثیت سے کم اہمیت دینا زیادہ برا ہے۔ اگر انسان چیزوں کی اہمیت جان ہی نہ سکے اور اس لیے انہیں مناسب اہمیت نہ دے سکے تو اسکا نہ جاننا بڑی مصیبت ہے اور اگر وہ جان کر بھی انہیں مناسب اہمیت نہ دے تو جان بوجھ کر چیزوں کو مناسب اہمیت نہ دینا زیادہ بڑی مصیبت ہے۔

اس مختصر وقت میں ہم دوسری قسم کے بارے میں بات کریں گے۔ یعنی علم کے باوجود چیزوں کو مناسب اہمیت نہ دینا۔ ایسا کرنے والا مصیبت کو خود دعوت دیتا ہے اور دوہرے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔
ایک گناہ یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر گناہ کرتا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ وہ گناہ کو گناہ جاننے کے باوجود اس پر بضد رہتا ہے۔
دوسروں کو مناسب اہمیت نہ دینے والا کبھی ذمہ دار ثابت نہیں ہوسکتا اور نہ وہ دوسروں کے حقوق صحیح طرح ادا کر سکتا ہے۔ کسی طور پر بھی دوسروں کو کم تر سمجھنے والے کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایسی بری صفت ہے جسے اپنانے والا بھی برا بن جاتا ہے۔

دوسروں کو کمتر سمجھنے سے بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں، جیسا کہ گالی گلوچ، دوسروں کو حقیر سمجھنا، ان کا مذاق اڑانا اور ان کی بےعزتی کرنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ وہ اسے رسوا کرتا ہے اور ‏ نہ وہ سے حقیر سمجھتا ہے۔ تقوی یہاں ہے۔ ‘‘
یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کہے اور یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔

جو اللہ کا حق اور لوگوں کا حق جانتا ہے وہ دوسروں کو کبھی حقیر نہیں سمجھتا، کیوں کہ جو آپ کو حقیر سمجھے گا وہ آپ کے ساتھ ناانصافی کرے گا اور اسی طرح جو کسی چیز کو حقیر سمجھے گا وہ یقینی طور پر وہ اس چیز کے مالک کو بھی حقیر ہی سمجھے گا۔
دوسروں کو حقیر سمجھنا اس وقت سب سے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے جب یہ انفرادی سطح سے بڑھ کر اجتماعی سطح پر آجاتا ہے اور معاشرے کے لوگ ایک دوسرے کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے لگتے ہیں کہ کون دوسرے کو زیادہ حقیر سمجھتا ہے۔

اللہ کے بندو! بندہ دوسروں کو حقیر اس وقت سمجھتا ہے جب وہ اپنے متعلق یہ گمان کرنے لگتا ہے وہ کامل ہے، پھر وہ اپنے گمان کے مطابق اپنی کامل تصویر میں کوئی نقص دیکھتا ہے، تو وہ اس نقص کو چھپانے کے لیے دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے تاکہ وہ اپنے آپکو اور دوسروں کو اپنے کمال کا دھوکا دے سکے، اور یہ ثابت کر سکے کہ وہ دوسروں سے بہتر ہے۔ کوئی شخص دوسروں کو اس وقت تک حقیر نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ بیک وقت کم عقلی اور ناسمجھی کا شکار نہ ہو جائے۔

لوگوں کو حقیر سمجھنا معاشرے میں اسی وقت رواج پاتا ہے جب قلم کی امانت اور زبان کی امانت اور عدل و انصاف کی امانت کا خاتمہ ہوجائے۔ اسی صورت میں دوسروں کو حقیر سمجھنا عام ہوتا ہے اور پھر معاشرے میں اس سے جڑی کئی اور بیماریاں پھیل جاتی ہیں، جیسا کہ خود پسندی، غرور اور لا پروائی۔ اور ان کی وجہ سے پھر تکبر سامنے آتا ہے جو کہ حق کو رد کرنے اور دوسروں کو برا بھلا کہنے کا نام ہے۔ تکبر کرنے والا بھی بد ترین شخص ہوتا ہے۔ اور لازمی نہیں کہ کوئی عزت والا یا مالدار ہی تکبر کرے، بلکہ یہ مرض ہر اس نفس میں آسکتا ہے جس میں بیماری ہو، چاہے وہ لوگوں میں کمتر اور عوام الناس ہی میں سے کیوں نہ ہو۔

اللہ کے بندو! دوسروں کو حقیر سمجھنا ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے انسان خود عیب والا بن جاتا ہے، اس کے اخلاق تباہ ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دنیا وآخرت تباہ ہو جاتی ہیں۔ سچا مسلمان کسی بھی شخص کو حقیر نہیں سمجھتا چاہے وہ کسی بھی حالت میں ہو۔ مومن نہ کسی کے نسب کو حقیر سمجھتا ہے، نہ کسی کے پیشے کو حقیر سمجھتا ہے، نہ کسی کو فقروفاقہ، یا کمزوری، یا کم عمری، یا جہالت کی وجہ سے حقیر سمجھتا ہے۔
اسی طرح سچا مسلمان اہم چیزوں کو ترتیب دینے میں کوتاہی نہیں کرتا۔ یعنی وہ اہم ترین چیز کو چھوڑ کر اہم چیز کی طرف نہیں جاتا یا بے قیمت اور بے فائدہ چیز کو دوسری چیزوں سے مقدم نہیں کرتا، چاہے وہ چیز عمل ہو یا کوئی بات۔

ہوشیار رہیے! کہیں آپ پر جہالت اور خواہشات نفس غالب نہ آجائیں، کہیں آپ اخلاق کے معاملے میں پیچھے نہ ہٹ جائیں یا ان کی اہمیت کم نہ کر دیں۔ فرمان الٰہی ہے:
’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔‘‘ (الاحزاب: 72)

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور یہ بھی جان لو کہ بہت سے لوگ اپنے گناہوں کو چھوٹا اور بے ضرر سمجھتے ہیں۔ وہ خطرناک سے خطرناک گناہ کو بھی ہلکا سمجھتے ہیں اور بڑی آسانی سے اس کا ارتکاب کر لیتے ہیں۔ گناہ کرتے وقت یہی کہتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بڑی دردناک سزا دینے والا بھی ہے۔ گناہ پر بضد قائم رہنے والوں کے لیے اللہ کا عذاب بڑا سخت ہوتا ہے۔ نجانے لوگ گناہوں کے معاملے میں کیوں اتنے بے پرواہ ہیں، وہ اپنے گناہوں کو بال سے بھی باریک سمجھتے ہیں اور انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے اور گناہ کرنے کے بعد اللہ سے معافی بھی نہیں مانگتے اور اپنے گناہ پر نادم بھی نہیں ہوتے۔
سمجھ دار انسان کسی چھوٹے گناہ کو چھوٹا نہیں سمجھتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پہاڑ بھی پتھروں سے بنتے ہیں اور سیلاب بھی قطروں سے بنتا ہے۔ جو صرف امید پر قائم رہتا ہے وہ بہت زیادہ گناہ کر بیٹھتا ہے اور جو صرف اللہ سے ڈرتا ہے وہ اپنے لیے بہت تنگی پیدا کرلیتا ہے۔ حالانکہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’خبردار ہو جاؤ! اللہ سزا دینے میں بھی سخت ہے اور اس کے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے۔‘‘ (المائدہ: 98)

اللہ سے امید اور اللہ کا ڈر یوں لازم اور ملزوم ہیں جیسے ایک پرندے کے دو پر کہ جن میں سے اگر ایک بھی ٹوٹ جائے تو پرندہ اڑ نہیں سکتا۔

یاد رکھیے کہ سچا مسلمان اپنے گناہ کو چھوٹا اور حقیر نہیں سمجھتا بلکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا گناہ اس کے ایمان کو کم کر دے گا اور اس کی وجہ سے اللہ تعالی اس سے ناراض ہو جائے گا اور صاحب توفیق وہ ہے کہ جو کسی بھی گناہ کو حقیر نہ سمجھے چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’مومن اپنے گناہوں کو یوں سمجھتا ہے، گویا وہ ایک پہاڑ ہے جو عنقریب اس کے اوپر گزرنے والا ہے اور فاجر اپنے گناہوں کو اتنا ہلکا سمجھتا ہے گویا کہ وہ اس کی ناک پر بیٹھی ایک مکھی ہے جیسے وہ بس ہاتھ ہلا کر اڑا سکتا ہے۔‘‘ اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے

اللہ ہمیں اور آپکو اپنی خوشنودی عطا فرماکر اپنے غصب سے بچا لے، عافیت دے کر سزا سے بچا لے، اور اپنی رحمت سے اپنے غصے سے بچائے۔ ہم اللہ کی کماحقہ ثنا بیان نہیں کرسکتے وہ ایسا ہے جیسا اس نے خود بتایا ہے۔
کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بے قیمت مت سمجھو اور اپنی زندگی کے معاملات کو انصاف کے ساتھ منظم کرو، اپنے دل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلا کر اس کی حفاظت کرو کیونکہ دلوں کی بیماریوں کی جڑ گناہوں کو حقیر سمجھنا ہے۔

’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔‘‘(البقرة: 201)

اللہ کے بندو!
اللہ عظیم و جلیل کو یاد کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا اس کی نعمتوں اور نوازشوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں مزید نوازے گا اللہ کا ذکر تو بلندتر ہے اور اللہ آپ کے اعمال سے باخبر ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں