پرانے زمانے کی بات ہےایک بادشاہ کا گزر ایک کھیت پرسے ہوا جہاں پر اس کی ملاقات ایک کسان سے ہوئی۔ کسان نے بقدرِ استطاعت بادشاہ کو کچھ کھانے پینے کو پیش کیا۔ بادشاہ کسان کی مہمان نوازی سے کافی متاثر ہوا اور اس سےباتیں کرنے لگا:۔
بادشاہ:۔ کتنے پیسے کما لیتے ہو۔
کسان:۔ عالی جاہ۔ چار اشرفیاں آمدن ہوجاتی ہے۔
بادشاہ:۔ خرچ کیسے کرتے ہو؟
کسان:۔جناب۔ ایک اشرفی خود پر خرچ کرتا ہوں، ایک اشرفی قرض دیتا ہوں، ایک اشرفی قرض کی واپسی میں دیتا ہوں اور ایک اشرفی کنویں میں پھینک دیتا ہوں۔
بادشاہ:۔ میں سمجھا نہیں۔
کسان:۔ عالی جاہ ۔ایک اشرفی اپنے اور اپنی بیوی پر خرچ کرتا ہوں،
ایک اشرفی اپنی اولاد پر خرچ کرتا ہوں[قرض دیتا ہوں] تاکہ جب میں اور میری بیوی بوڑھے ہوجائیں تووہ ہماری خدمت کریں،
ایک اشرفی اپنے والدین پر خرچ کرتا ہوں [قرض کی واپسی] کیونکہ انہوں نے مجھے پال پوس کر بڑا کیا،
اور ایک اشرفی خیرات کرتا ہوں [کنویں میں پھینکتا ہوں] کیونکہ اس کا بدلہ اس دنیا میں نہیں چاہتا۔
یہ کسان تو ہم سے زیادہ پڑھا لکھا تھا
جواب دیںحذف کریںجی :) ۔۔۔ میرے خیال میں سمجھداری کا تعلق پڑھے لکھے سے نہیں ہوتا۔
حذف کریںکسی جگہ پڑھا تھا
"جن لوگوں کو ہم دیہاتی اور اَن پڑھ سمجھ کر بات کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اِن لوگوں میں ڈگری یافتہ لوگوں سے زیادہ کردار کی پختگی، رکھ رکھاﺅ اور سمجھ بوجھ پائی جاتی ہے۔"