حق پر ثابت قدمی ۔۔۔ خطبہ مسجد الحرام (اقتباس)


مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید حفظه الله

جمعہ المبارک 25 ربیع الثانی 1439 ہجری بمطابق 12 جنوری 2018


ترجمہ: محمد عاطف الیاس

منتخب اقتباس:

اللہ آپ پر رحم فرمائے! میں اپنے آپکو اور آپ سب کو اللہ تبارک تعالیٰ سے ڈرنے اور اچھے اخلاق اپنانے کی تلقین کرتا ہوں! کیونکہ ساری اولاد آدم غلطیاں کرنے والی ہے، جب آپ سے غلطی ہو جائے تو گناہ چھپایا کرو، انہیں لوگوں کے سامنے بیان مت کیا کرو، اللہ سے معافی مانگا کرو اور گناہ پر بااصرار نہ رہا کرو۔  پھر گناہ کے بعد نیکی کرنے کی کوشش کیا کرو۔ خوش قسمت وہی ہے جو اپنے ماضی سے سبق سیکھتا ہے اور اپنا محاسبہ کرتا ہے اور محروم وہ ہے جو دوسروں کے لیے مال جمع کرتا ہے اور خود اپنے اوپر خرچ کرنے سے کنجوسی کرتا ہے۔ بہترین عمل اس کا ہے جو آج کا کام کل تک موخر نہیں کرتا۔

اے مسلمانو!

دل کا نام قلب اسی لیے رکھا گیا ہے کہ یہ متردد اور متقلب رہتا ہے۔ حالات اور ماحول اس کا حال تبدیل کر دیتے ہیں۔ ایک طرف اسے بھلائ کھینچ رہی ہوتی ہے اور دوسری طرف برای اپنی طرف لے جانے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے۔ ایک طرف فرشتہ ثابت قدم کررہا ہوتا ہے اور دوسری طرف شیطان ورغلا رہا ہوتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:

’’ہم ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر رہے ہیں۔‘‘    (الانعام: 110)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دل کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے بڑا ہی انوکھا اور شاندار بنایا ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا میں ’’ اے دلوں کو پھیرنے والے‘‘ کہہ کر یہ واضح کیا ہے کہ دل اللہ تبارک وتعالیٰ پھیرتا ہے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا بھی فرمائی: کہ اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما! اس پر صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپکو بھی دل کے پھر جانے سے ڈر لگتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

میں اس حوالے سے امن میں کیسے رہ سکتا ہوں۔ دل تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے انہیں پھیرتا رہتا ہے۔

اللہ کے بندو!

دل کبھی ایک طرف مائل ہوتا ہے اور کبھی دوسری طرف مگر اللہ تبارک وتعالیٰ کی مدد شامل حال ہو تو ثابت قدمی بھی اسی بدولت ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: کہ اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو دین پر ثابت قدمی نصیب فرما۔ اسے امام ابن ماجہ اور امام ترمذی نے سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے۔

قول و عمل میں ثابت قدمی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے۔ انسان اپنی ساری زندگی میں اس نعمت کا پھل کھاتا رہتا ہے اور پھر سب سے بہتر پھل تو اسے قبر میں ملتا ہے۔ فرمان الہی ہے:

’’ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے۔‘‘             (ابراہیم: 27)

اللہ آپکی نگہبانی فرمائے! ثابت قدمی یہ ہے کہ انسان فتنوں، خواہشات نفس اور مختلف ورغلانے والی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے حق اور ہدایت پر قائم رہے۔

اللہ کے بندو!

ثابت قدمی کا اسی وقت پتہ چلتا ہے جب انسان ایسے دور اور معاشرے میں رہتا ہے جس میں ہر کوئی کنجوسی کا قیدی اور خواہشات کا غلام ہوتا ہے۔ جہاں ہر شخص اپنی ہی راہ کو حق سمجھتا ہے۔

بزرگ فرماتے ہیں: ثابت قدمی کی نشانی یہ ہے کہ انسان آخرت کی طرف متوجہ ہو جائے اور دنیا سے بے نیاز ہو جائے اور موت کے آنے سے پہلے ہی موت کی فکر کرنے لگے۔

چونکہ دل کی ثابت قدمی انتہائی اہم ہے، اسی لیے اہل علم نے ان اسباب ووسائل کا ذکر کیا ہے کہ جن سے ثابت قدمی حاصل ہوسکتی ہے اور جن سے انسان فتنوں اور مشکلات کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

ان اسباب و وسائل میں سب سے پہلا اور اہم سبب اللہ تعالی کی توحید کا اقرار کرنا ہے۔ ایسی توحید کہ جو انسان کے دل میں بھی ہو، اس کی زبان پر بھی ہو اور اس کے عمل میں بھی نظر آتی ہو۔ توحید کے لئے اللہ تعالی کو پہچاننا بھی لازمی ہے۔ اللہ کے متعلق کتاب کے پاس جتنا زیادہ علم ہوگا اتنا ہی آپ اللہ سے زیادہ ڈرنے والے ہونگے۔ فرمان الٰہی ہے:

’’اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں۔‘‘           (فاطر: 28)

اللہ کے بندو! ثابت قدمی کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ انسان نیکی پر قائم رہے اور نیک اعمال کرتا رہے، اپنی بساط کے مطابق بھلائی کے کام کرتا رہے، دین کی راہ پر قائم رہے، لوگوں کی مدد کرتا رہے اور تمام کاموں کا مقصد اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی اور اسی سے اچھی جزا کی طلب بنائے۔

ثابت قدمی کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ علماء کے ساتھ رہا جائے اور دینی مسائل جاننے کے لیے انہی کی طرف رجوع کیا جائے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔‘‘                (النحل: 43)

اسی طرح ثابت قدمی کا ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت اپنائی جائے، کیونکہ مومن اپنے بھائی کا آئینہ ہوتا ہے اور بھائی ہوتا ہے، اسے گھاٹے سے بچاتا ہے اور اس کی غیر موجودگی میں اس کے مال اور حقوق کی حفاظت کرتا ہے، اس کا دفاع کرتا ہے اور اسے ثابت قدمی کی تلقین کرتا ہے۔

ثابت قدمی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعائیں مانگی جائیں، اس کی طرف لپکا جائے، اس کے ذکر میں وقت گزارا جائے اور اس کے ساتھ تعلق کو بڑھایا جائے۔

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے یہ لازمی ٹھہرایا ہے کہ وہ ہر رکعت میں اس سے ہدایت کا سوال کریں۔ فرمان الٰہی ہے:

’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔‘‘    (الفاتحہ: 6)

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر بندے کو دن رات، ہر وقت ہدایت کا سوال کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تو اللہ تعالی اس پر یہ لازمی نہ ٹہراتا۔ مگر حقیقت یہ ہے انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہر لمحہ ضرورت رہتی ہے، کہ وہ اسے ہدایت پر قائم رکھے، ثابت قدمی نصیب فرمائے، ہدایت کی پہچان نصیب فرمائے اور ہدایت کی راہ پر چلنے کی ہمت نصیب فرمائے۔ انسان خود اپنا نفع کرنے اور نقصان سے بچنے سے تو قاصر ہے۔

ثابت قدمی کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب سے جڑا جائے۔ فرمان الہی ہے:

’’دیکھو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آ گئی ہیں۔‘‘      (الانعام: 104)

اللہ کی نگہبانی فرمائے! غور کیجئے کہ کتاب اور بصیرت میں کتنا گہرا تعلق ہے۔ اگر انسان کو بصیرت مل جائے تو حق و باطل، بھلائی اور برائی اور سنت اور بدعت کے درمیان فرق کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ آج فتنوں کے دور میں تو مسلمان کو سب سے بڑھ کر بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بصیرت کا نور ہی فتنوں کے اندھیروں کو مٹا دیتا ہے۔

اسی طرح ثابت قدمی کا ایک ذریعہ حاصل کردہ علم پر عمل کرنا ہے۔ یعنی شرعی مسائل، احکام اور آداب میں سے آپ کو جن جن چیزوں کا علم ہے ان پر عمل کیا جائے۔

جو شخص اپنے علم پر عمل کرتا ہے اللہ تعالی اسے مزید علم عطا فرماتا ہے اور پھر اسے سب سے بڑی عطا، تقوی دے دیتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

’’اے ایمان لانے والو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔‘‘  (الانفال: 29)

ثابت قدمی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ زبان کو شکایت سے روکا جائے، صبر کیا جائے اور نفس کو قابو میں رکھا جائے۔ جلد بازی، غصہ، لالچ، اکتاہٹ، بے ضابطگی اور حرص سے بچا جائے۔ ان کاموں سے بچنے سے دل کو ہدایت ملتی ہے، اللہ تعالی کی محبت میں نصیب ہوتی ہے اور لوگوں کی محبت بھی مل جاتی ہے۔

ان سارے اسباب کو جمع کرنے والی چیز اللہ تبارک وتعالیٰ کے متعلق اچھا گمان رکھنا ہے اور اس کے ساتھ تعلق کو مضبوط بنانا ہے۔ مومن مایوس ہونے والا نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ اللہ تعالی سے اچھی توقع رکھنے والا ہوتا ہے۔ مگر خیال رہے کہ نیک اعمال کرنے، اللہ کی طرف متوجہ ہونے، اطاعت گذاری پر قائم رہنے اور فرماں برداری کے بغیر اللہ تعالی کے متعلق اچھا گمان رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

مومن جب اللہ تبارک وتعالیٰ کے متعلق اچھا گمان رکھتا ہے تو اس کا دل مطمئن ہو جاتا ہے اور اس کے نفس کو سکون مل جاتا ہے، اسے انتہا درجہ سعادت نصیب ہو جاتی ہے۔ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوجاتاہے اور اپنے رب کے سامنے جھک جاتا ہے۔

پیارے بھائیو!

ثابت قدمی کے عظیم اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ دل میں یہ یقین ہو کی عاقبت پرہیزگار لوگوں ہی کی ہے اور اللہ کا وعدہ حق ہے۔ جب یہ یقین دل میں ہوتا ہے تو مومن تمام مشکلات پر صبر کرتا ہے اور دین پر قائم رہتا ہے۔ پھر وہ جان لیتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے دین کی حفاظت ضرور کرے گا اور اپنے لشکر کی مدد لازمی فرمائے گا۔

بہت سے لوگوں کا رویہ یہ ہے کہ جب وہ اہل اسلام کے حالات بدلتے دیکھتے ہیں تو وہ نوحہ کرنے لگتے ہیں اور یوں رونے لگتے ہیں جیسے بڑی مصیبت والے روتے ہیں، جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس چیز سے منع فرمایا ہے اور لوگوں کو صبر، توکل اور ثابت قدمی کی تلقین فرمائی ہے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ یقین رکھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ پرہیزگارلوگوں اور احسان کرنے والوں کا ساتھی ہے، اس پر بھی یقین رکھے کہ اس پر جو بھی مصیبت آ رہی ہے وہ اس کے گناہوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے آرہی ہے اور اللہ کا وعدہ حق ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور صبح و شام اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے۔

خوب جان رکھو کہ جس نے آپ کو منہ کھولنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے وہ آپکو کبھی بھولنے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالی جب بھی اپنی حکمت سے کوئی دروازہ بند کرتا ہے تو اس کی جگہ رحمت کا ایک دروازہ ضرور کھولتا ہے۔

اللہ جسے چاہتا ہے ان اسباب کو اپنانے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے جو اس کے فضل و کرم سے فتنوں اور مصیبتوں کے وقت ثابت قدمی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ جو فائدہ انسان کے حق میں لکھ دیا گیا ہوتا ہے، وہ اسے مل کر رہتا ہے چاہے وہ اس فائدے کو ناپسند کرتا ہو اور جو فائدہ اس کے حق میں نہیں لکھا گیا ہوتا وہ اسے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا چاہے وہ کتنی ہی تگ ودو کیوں نہ کر لے۔

ثابت قدمی کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالٰی سے راضی ہوجائے۔ اللہ کی رضا مندی اللہ تعالی کے متعلق اچھے گمان سے جڑی ہوئی ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے  اس صفت کا ذکر قرآن کریم میں چار مرتبہ فرمایا ہے۔ فرمایا:

’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے۔‘‘                (المائدہ: 119، التوبہ: 100، المجادلہ: 22، البینہ: 8)

تو اے اللہ کے بندے! اپنے حال پر غور کر۔ کیا تو واقعی اللہ سے راضی ہے؟

اللہ آپکے نگہبانی فرمائے! اللہ تعالی سے راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی لکھی ہوئی ہر چیز پر راضی رہا جائے۔ یہ یقین رکھا جائے کہ اچھے اور برے حالات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے لیے بھلائی ہی لکھی ہے۔ جب آپ اللہ سے راضی ہو جائیں گے تو آپ لوگوں کے سامنے شکایتیں بھی کم کریں گے اور حلات سے تنگی کا اظہار بھی کم ہی کریں گے۔

اللہ سے راضی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان اسباب پر عمل کرنا چھوڑ دے اور مشکلات کو حل کرنے کی کوشش سے ہاتھ دھو لے، اس کا معنیٰ یہ بھی نہیں ہے کہ کسی مصیبت پر آپ کو پریشانی نہیں ہوگی یا کسی مشکل میں آپکو درد نہیں ہوگی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ سے راضی رہتے ہوئے بھلائی کی تگ و دو جاری رکھی جائے۔

اللہ سے راضی ہو جانے سے اللہ بھی انسان سے راضی ہو جاتا ہے۔ ہم اللہ سے رب کے طور پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نبی کے طور پر اور اسلام سے دین کے طور پر راضی ہوگئے۔

اے اللہ! ہمیں اپنے متعلق اچھا گمان کرنے والا بنا، صحیح معنوں میں توکل کرنے کی توفیق عطا فرما، اپنی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارا یقین پختہ فرما یہاں تک کہ ہمیں قرآن وحدیث میں بتائی گئی باتوں پر ان چیزوں سے زیادہ یقین ہو جائے جو ہمیں نظر آتی ہیں۔

ہمیں امید کے ساتھ عمل کرتے رہنا چاہیے، اور ثابت قدمی کے ساتھ محنت کرنی چاہیے کیونکہ فتح قریب ہے، اجر بہت زیادہ ہے، ہر معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ ھر چیز پر غالب ہے مگر اکثر لوگ اس کا علم نہیں رکھتے۔

اے اللہ ہم تیری ہی ایک مخلوق ہیں ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمیں اپنے فضل وکرم سے محروم نہ فرما۔

’’ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا، اے ہمارے رب، ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا۔‘‘ (یونس: 85)

’’اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔‘‘          (الاعراف: 23)

’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔‘‘           (البقرہ: 201)

’’ پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ اور سلام ہے مرسلین پر۔ اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے۔‘‘


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں