مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ شیخ ڈاکٹر خالد بن علی الغامدی حفظہ اللہ
جمعۃ المبارک 11 ربیع الثانی 1439 ھ بمطابق 29 دسمبر 2017
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
الحمدللہ! ہر طرح کی تعریفیں اللہ تعالی ہی کے لئے ہیں۔ اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے۔ اللہ ہی سب سے بڑا گواہ ہے۔ وہی اسلام کو آخری ملت بنانے والا اور اسے تمام ادیان پر غالب کرنے والا ہے۔ حساب کتاب لینے کے لیے وہی کافی ہے۔ میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں۔ اس کی بہت تعریف کرتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہی اپنے لشکر کو عزت دینے والا ہے، اپنے بندے کی مدد کرنے والا ہے اور احزاب کے لشکر کو خود ہی ہرانے والا ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالی نے انہیں ہدایت کے ساتھ مبعوث فرمایا اور بشارت دینے والا، خبردار کرنے والا اور اللہ تعالی کی مرضی سے اللہ کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا تھا۔ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زمین کا مشرق اور مغرب دکھایا۔ اب دین اسلام وہاں تک ضرور پہنچے گا جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر گئی، دین اسلام ہر اس جگہ پر پہنچے گا جہاں پر سورج کی کرنیں پہنچتی ہیں۔ اللہ کی رحمتیں اور ہمیشہ رہنے والی سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اہل بیت اور معزز صحابہ کرام پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
اے امت اسلام!
اللہ تعالی نے دین اسلام کے لئے ہمیشہ کی بقا لکھی ہے اور اس کے اندر ایسی خاصیتیں ڈالی ہیں کہ جن سے اس کی بقا ہمیشہ کے لیے ممکن بن گئی ہے۔ اللہ تعالی نے دین اسلام کو ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ فرمایا ہے۔ اسے واضح اور ثابت اصولوں پر قائم کیا ہے اور اس کی بنیادوں کو ایسا مضبوط بنایا ہے کہ پہاڑوں کی مضبوطی بھی کم نظر آتی ہے۔
ان اصولوں کی مضبوطی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دین اسلام پر بےشمار حملے ہونے کے باوجود یہ ابھی بھی قائم ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسے تباہ و برباد کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں، اسلام کے اولین دنوں سے لے کر آج تک اس میں ردوبدل کی کی کوششیں جاری رہیں، اور آج کے دور میں کہ جب دنیا کی مختلف قوموں کے افکار اور ان کی ثقافتیں ایک دوسرے سے مل گئیں ہیں اور میڈیا بہت ترقی کر گیا ہے، اس دور میں بھی بھرپور طریقے سے اس پر حملے کئے جا رہے ہیں اور ایسے حملے کیے جارہے ہیں کہ جو اس سے پہلے کبھی نہ کیے گئے تھے۔
آج میڈیا کی ترقی کی بدولت بہت سے گمراہ افکار، راہ حق سے ہٹانے والی آراء، دوسروں کی ثقافتیں اور بہت سی مغربی روایات سرحدیں عبور کرتی ہوئی مسلمانوں کے ملکوں میں پہنچ چکی ہیں۔ ظاہر ہے کہ لوگوں کے دلوں اور ذہنوں پر اس کا ایسا اثرہوتا ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی وجہ سے فکری اور جسمانی فتنوں کے دروازے کھل گئے ہیں اور انہوں نے امت اسلامیہ کے جسم کو دیمک کی طرح کھانا شروع کر دیا ہے۔ ان کی وجہ سے امت اسلامیہ میں کمزوری پیدا ہونی شروع ہو گئی ہے اور امت اسلامیہ اللہ تعالی کے اس عظیم وصف سے پیچھے ہٹنے لگی ہے کہ جس کی تعریف اس نے کلام پاک میں فرمائی ہے۔ فرمایا:
’’تم دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران: 110)
ان فکری اور ثقافتی اور میڈیائی حملوں سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ امت پوری سنجیدگی اور سچائی کے ساتھ دین کے ان عظیم اصولوں، مستحکم مبادیات اور اسلام کے کلی ضابطوں کی طرف لوٹ آئے کہ جن کی بدولت آج تک یہ دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رہ سکی ہے۔
چونکہ دین کے اصول و مبادی ہمارے بزرگوں کے ذہنوں میں بالکل واضح تھے، چنانچہ ان کے عقائد، اخلاق اور رسوم و روایات ثابت اور پختہ رہے۔ وہ فکری طور پر بھی امن میں رہے اور ان کے معاشرے میں بھی امن قائم رہا۔ وہ اغیار کی طرف سے آنے والی تمام چیزوں کے متعلق بڑے چوکنے تھے اور اس طرح وہ غلط تاویلیں کرنے والوں سے اور خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں سے اور اپنی خواہشات کے لئے دین میں ردوبدل کرنے والوں کے خطرے سے دین کو محفوظ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اور ان کی کوششوں کی بدولت ہم تک دین اسلام اپنی حقیقی اور واضح صورت میں پہنچ سکا ہے۔
اے مسلمانو!
دین کے اصول ہی وہ حقیقی سرمایہ اور شاندار ڈھال ہیں کہ جن سے اللہ تعالی کی توفیق کے بعد ہدایت پر قائم رہنا ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ اصول قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے ماخوذ ہیں۔ فرمان الہی ہے:
’’یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے۔‘‘ (ہود: 1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
سنو! مجھے قرآن کریم بھی دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کے برابر کی چیز بھی دی گئی ہے۔
اللہ کے بندو۔
دین اسلام کے اصول انتہائی مضبوط، پختہ اور جامع ہیں۔ ان میں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق رہنمائی موجود ہے اور یہ اللہ تعالی کی طرف سے محفوظ ہیں۔ نہ یہ مٹے ہیں، نہ ان میں کوئی تبدیلی آئی ہے، نہ کوئی ان میں تبدیلی کر سکتا ہے اور نہ کوئی انہیں ختم کر سکتا ہے۔
یہ اصول انتہائی واضح ہیں۔ شدید مخالفت کے باوجود آج تک کوئی ان کی غلط تاویل کرنے میں یا ان میں ردوبدل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
یہ مسلمانوں کا ایک شاندار ہتھیار ہیں جس سے وہ تمام شکوک وشبہات کا مقابلہ کرتے ہیں، ان کی طرف رجوع کیا جائے تو باطل کی غلطی واضح ہوجاتی ہے اور انہی کی بدولت مسلمان شکوک و شبہات اور خواہشات نفس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ خواہشات نفس کے پیچھے نہیں چلتے اور نہ گمراہی کے راستوں میں بھٹکتے ہیں بلکہ وہ ہر قسم کی غلط تشریح اور تاویل سے محفوظ رہتے ہیں۔
اللہ تعالی نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’وہی خدا ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے اِس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات جن لوگوں کے دلو ں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا بخلا ف اِس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں” اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (آل عمران :7)
اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح آیات کو دین کا اصول قرار دیا ہے اور انہیں قرآن کریم کی بنیادی آیات کی حیثیت دی ہے۔ رہی بات ان آیات کی کہ جنہیں سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے یا جن کا معنی واضح نہیں ہوتا تو وہ بہت کم ہیں اور انہیں بھی بعض لوگ سمجھنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور بعض کے لیے انہیں سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
جو اس طریقے کو چھوڑ دیتا ہے وہ خواہشات نفس کا پیروکار بن جاتا ہے اور وہ شریعت اسلامیہ کی بعض آیات کو چھوڑ کر ان آیات کے پیچھے لگ جاتا ہے کہ جن کی تاویل اور تشریح واضح نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا مقصد فتنے پیدا کرنا اور آیات کی غلط تاویلیں گڑھنا ہوتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ فرمایا:
جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو قرآن کریم کی غیر واضح آیات کی تاویل کے پیچھے لگے رہتے ہیں توجان رکھنا کہ اس آیت میں اللہ تعالی نے انہی لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ تو ان سے بچ کر رہنا۔
اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے
اے امت اسلام!
دین اسلام کی بنیادیں بہت ساری اور مختلف قسموں کی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق کوئی نہ کوئی اصول ضرور موجود ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کا کتنا خیال کیا ہے اور اس پر کتنی رحمت نازل کی ہے۔ اللہ تعالی نے امت اسلامیہ کے دین کے گرد یہ مضبوط احاطہ قائم کررکھا ہے تاکہ دین اسلام ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ رہے۔
دین کے طے شدہ اصولوں میں سے عظیم ترین اصول یہ ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ شرک کی تمام صورتوں کو حرام سمجھا جائے۔ یہ یقین کیا جائے کہ اللہ واحد ہے، اپنی ذات میں بھی واحد ہے۔ کائنات کو چلانے والا بھی وہ واحد ہے اور عبادت کے لائق بھی وہی واحد ہے۔ وہ اپنے اسماء و صفات کے لحاظ سے بھی بے مثال ہے۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہی سننے اور دیکھنے والا ہے۔ اسی طرح یہ ماننا بھی دین اسلام کا ایک عظیم اصول ہے کہ قرآن وحدیث ایسی بنیادیں ہیں کہ جن کے بارے میں کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہیں عربی اصولوں کے مطابق ویسے ہی سمجھنا لازمی ہے جیسے صحابہ کرام نے سمجھا تھا۔ اس بات سے یہ واضح ہوجاتا ہے شریعت بنانے والا ایک ہی ہے اور کسی کو شریعت میں ردوبدل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ شریعت بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کو اور اللہ تعالی کے رسول کو حاصل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی دین کے واضح اور مضبوط اصولوں میں سے ہے کہ:
جس نے ہمارے دین میں کوئی اضافہ کیا تو وہ اضافہ اسی پر مردود ہے
اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات پانے والے گروہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
وہ گروہ اسی طریقے پر قائم ہو گا جس پر میں اور میرے صحابہ قائم ہیں۔
اے مسلمانو! یہ حدیث تمام ایجاد کردہ عبادتوں کی نفی کرتی ہے اور ہر بدعت کے مقابلے میں ایک واضح ثبوت ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو عبادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں تھی اور صحابہ کرام کے دور میں نہیں تھی اس کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ بھی ایک طے شدہ اصول ہے کہ جو حدیث صحیح سند کے ساتھ روایت کی گئی ہے، چاہے اس کی سند کی ایک کڑی میں ایک ہی بندہ کیوں نہ ہو، وہ حجت ہے اور اس سے عقیدے بھی ثابت ہوتے ہیں اور شرعی مسائل بھی ثابت ہوتے ہیں۔ دین کی بنیادی چیزوں کے معاملے میں اجتہاد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر کسی مسلہ کے متعلق آیت یا حدیث موجود ہو تو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ مصلحت کا دائرہ کار بھی وہی ہے جو دین اسلام نے طے کیا ہے۔ اسے اپناتے ہوئے ہم دین اسلام کے خلاف نہیں جاسکتا۔
دین اسلام کے پیش کردہ اصولوں میں وہ دس وصیتیں ہیں جن کا ذکر سورۃ الانعام میں آیا ہے۔ وہ دس حرام چیزیں بھی ہیں جن کا ذکر سورۃ الاسراء میں آیا ہے، وہ دس مجمل چیزیں بھی ہیں جو سورۃ شوریٰ میں آئی ہیں، وہ 10 نصیحتیں بھی ہیں جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں، وہ عمومی اخلاق وآداب بھی ہیں جو سورہ النور، الاحزاب اور الحجرات میں آئے ہیں، جن میں پردے، پاکیزگی اور شرم و حیا کا درس دیا گیا ہے اور جن سے بہت سے فتنوں کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔
اللہ کے بندو! دین کے واضح اور ثابت اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ دین اسلام میں داخل ہوجاتا ہے اسے شک کی بنیاد پر کافر نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ جب تک کافر ہونے کی تمام شرطیں پوری نہ ہو جائیں اور کافر کا حکم لگانے سے منع کرنے والی تمام چیزیں دور نہ ہو جائیں اس وقت تک کسی شخص کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔
اے امت اسلام!
دین اسلام کے اصول گنتی سے زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ انہیں اللہ تعالی کی حجت مانا گیا ہے۔ یہی اللہ کا راستہ ہیں جو انسان کو گمراہی اور بے دینی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ فرمان الہی ہے:
’’اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم کج روی سے بچو۔‘‘ (الانعام :153)
ابن مسعود رضی اللہ ہو تعالئ عنہ فرماتے ہیں: ایک ایسا دور بھی آئے گا جس میں بہت بڑی مصیبتیں آئیں گی اور آپ کے لئے بہت سی چیزیں غیر واضح ہو جائیں گی، اس وقت صبروتحمل سے کام لینا، اور اپنے معاملے پر خوب غور کرنا، کیونکہ خیر کے معاملے میں ایک کارکن کی حیثیت سے رہنا شر کے معاملے میں امیر بننے سے بہتر ہے۔ اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے/
بعدازاں! اے مسلمانو!
دین اسلام کی بنیادوں پر اکٹھا ہو جانا، ان کی طرف دعوت دینا، بڑوں سے پہلے ان پر چھوٹوں کی تربیت کرنا اور لوگوں میں ان کے متعلق آگاہی پھیلانا آج کے ہر عالم، دعوت دینے والے، تربیت کرنے والے اور ہر میدان میں رہنمائی کرنے والے کی ذمہ داری ہے۔
اللہ کے بندو! آج امت کے عقیدے، فکر، ثقافت اور شناخت پر ایسے حملے کیے جارہے ہیں جو آج سے پہلے کبھی نہیں کیے گئے تھے۔ اگر دین کے اصول ومبادی دلوں میں راسخ ہو جائیں اور ہماری نسل انہیں جانتے ہوئے بڑی ہوں تو امت اسلامیہ کی شناخت محفوظ رہ سکتی ہے، درست رہنمائی جاری رہ سکتی ہے، اور خواہشات نفس سے حفاظت ہوسکتی ہے۔ اسی صورت میں ہمارا عقیدہ، ہمارے اصول اور ہمارا اسلامی طریقہ فسادیوں کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آسان دین اور واضح شریعت دے کر بھیجا گیا تھا تاکہ اچھے اخلاق اور صفات آداب کی تکمیل ہو جائے۔ یہ دین آسانی پر مشتمل ہے اور جو بھی اس میں سختی پیدا کرنے کی کوشش کرے گا وہ کبھی کامیاب نہ ہوسکے گا بلکہ یہ خود ہی اسے مغلوب کر دے گا۔
اگر امت کی تربیت دین اسلام کے واضح اصولوں پر کی جائے، تو ان شاء اللہ، امت اسلامیہ فکری اور اخلاقی برائیوں سے دور ہو جائے گی، انتہا پسندی ختم ہوجائے گی، دینداری کی غیر حقیقی شکل ختم ہوجائیگی، دین کے معاملے میں دو رنگی ختم ہوجائے گی، لوگ اہل علم کے اقوال کو لے کر خواہشات نفس کا پیچھا کرنا چھوڑ دیں گے۔ اور وہ ساری بیماریاں ختم ہو جائیں گی جن سے اسلام کے تعارف کو بہت نقصان پہنچا ہے۔
جب دین کے اصول دل میں بیٹھ جاتے ہیں تو دینداری کی حقیقی شکل سامنے آتی ہے، مسلمان کی شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے اور وہ اپنے دین پر فخر کرنے لگتا ہے۔ تو خوبصورت الفاظ کے دھوکے میں نہ آئیے، گمراہی پھیلانے کے طریقے سے متاثر نہ ہوئیے، اور زبان کو خوب جانے والے منافق سے متاثر نہ ہوئیے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا خدشہ ظاہر فرمایا تھا، فرمایا:
مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ ڈر اس منافق سے ہے جو زبان کا کھلاڑی ہو۔
اسے امام طبرانی نے اور امام بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے
اے مسلمانو!
دین اسلام کے اصول پر قائم رہو، یہی اللہ تعالی کی مضبوط رسی ہے، ان پر اکٹھے ہو جاؤ، انہیں سیکھو، اپنے گھر والوں اور بچوں کو سکھاؤ، کیونکہ انہی میں نجات، کامیابی اور فلاح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تھامے رکھو، آپ کی سیرت کا خوب مطالعہ کرو اور اس پر عمل کرو اسے پھیلاؤ اور اسے زندہ کرو، اپنی مجلسوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ذکر کرکے اپنی مجلسوں کو پر عطر بناؤ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کریم کی بہترین تفسیر ہے، یہ قرآن کی مجمل آیات کی تفصیل بیان کرتی ہے، اور اس کی عام آیات کو خاص مطلب دیتی ہے۔
نفع بخش علم حاصل کرو۔ اللہ کے متعلق جانو، اللہ کے احکام کے متعلق جانو اور بدعت، مبالغہ آرائی اور زیادتی سے بچو۔ دین اسلام پر ثابت قدم رہوں اور میانہ روی اور اعتدال کا راستہ اپناؤ۔
اللہ کے بندو! صحابہ کرام کی سمجھ سے فائدہ اٹھاؤ، ان کے طریقے پر چلو، انہی جیسے طور طریقے اختیار کرو کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں افضل ترین لوگ ہیں ان کے دل پاکیزہ ترین دل ہیں اور وہ تکلف سے پاک ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم اور جامع نصیحت پر غور کیجیے:
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز فجر کی نماز پڑھائی اور پھر پیچھے مڑ کر صحابہ کرام کو وعظ کیا۔ وعظ ایسا تھا کہ صحابہ کی آنکھیں نم ہوگی اور ان کے دل نرم ہو گئے۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! یہ نصیحت تو الوداع کہنے والے شخص کی نصیحت ہے! تو آپ ہمیں بتائیے کہ آپ ہمیں کس چیز کی نصیحت کرتے ہیں؟ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان! آپ نے فرمایا:
میں آپ کو خدا خوفی کی نصیحت کرتا ہوں، حکمران کی بات ماننے کی تلقین کرتا ہوں، چاہے وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ تم میں سے جسے طویل عمر ملے گی وہ میرے بعد بہت سے اختلافات دیکھے گا مگر تم میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر قائم رہنا۔ اسے اپنی داڑھوں سے پکڑے رکھنا۔ ایجاد کردہ عبادتوں سے بچنا کیونکہ ہر ایجاد کردہ عبادت بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
اسے امام احمد نے اور دیگر علمائے حدیث نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں