خطبہ جمعہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے18-ربیع الثانی-1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں "عقیدہ توحید اور اللہ تعالی سے خیر کی امید " کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ عبادات میں سب سے اہم ترین قلبی عبادات ہیں اگر کسی بدنی عبادت میں حضورِ قلبی شامل نہ ہو تو وہ مردہ اور بے روح ہوتی ہے، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کی سلامتی کو جسم کی سلامتی قرار دیا، پھر لوگوں کی اور ان کے اعمال کی درجہ بندی بھی قلبی ایمان کے مطابق ہوتی ہے۔ جس قدر معرفتِ الہی زیادہ ہو گی اللہ تعالی سے خیر کی امید بھی اتنی ہی بڑھ جائے گی۔ نبی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری لمحات میں اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن کی تاکید فرمائی ہے۔
منتخب اقتباس:
قیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!
عبادت کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جسے اللہ تعالی پسند فرمائے اور جس سے راضی ہو، چاہے وہ ظاہری اقوال ہوں یا افعال یا باطنی ا عمال۔ انہی کا تعلق صرف قلب سے ہے ، اور قلبی عبادات بدنی عبادات سے زیادہ ، عظیم اور دیر پا اثر رکھنے والی ہوتی ہیں۔
ایمان کا حصہ بننے کے لیے قلبی اعمال کا بدنی اعمال سے زیادہ حق ہے، یہی وجہ ہے کہ معرفت اور قلبی کیفیت پر قائم ایمان ہی در حقیقت اصل مقصود ہے چنانچہ ظاہری اعمال اسی قلبی کیفیت کے تابع اور ماتحت آتے ہیں بلکہ اگر دل سے بدنی عبادات نہ کی جائیں تو قبول ہی نہیں ہوں گی؛ اسی لیے یہی قلبی کیفیت بندگی کی روح اور مغز ہے، چنانچہ اگر ظاہری اعمال حضورِ قلبی سے خالی ہوں تو مردہ اور بے روح جسم کی مانند ہوتے ہیں۔
اگر دل ٹھیک ہو تو سارا جسم ہی ٹھیک رہتا ہے ، آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(خبردار! جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح ہے اور اگر وہی خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار !وہ لوتھڑا دل ہے۔) متفق علیہ
لوگوں کی درجہ بندی بھی ان کے دلوں میں موجود ایمان کی بنیاد پر ہے اور اسی ایمان کی وجہ سے اعمال کے درجات میں تفاوت پیدا ہوتا ہے، یہی قلبی ایمان پروردگار کی توجہ کا مرکز ہے، آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(بیشک اللہ تعالی تمہارے جسموں کو نہیں دیکھتا اور نہ ہی تمہاری شکلوں کو دیکھتا ہے، وہ تمہارے دلوں اور کارکردگی کو دیکھتا ہے) مسلم
قلبی عبادات میں سے مؤکد ترین عبادت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھیں، یہ ایک اسلامی فریضہ، عقیدہ توحید کا تقاضا اور واجب ہے، اس کا جامع مانع مطلب یہ ہے کہ : اللہ تعالی کی ذات اور اسما و صفات کے تقاضوں کے مطابق اللہ تعالی سے ایسا گمان رکھیں جیسا اس کی شان کے لائق ہے۔ لہذا اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن ؛ معرفتِ الہی اور ذات باری تعالی کے متعلق علم کا ثمرہ ہے، حسن ظن اس بات کی معرفت پر قائم ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت، قوت، احسان، قدرت اور علم بہت وسیع ہے ، نیز اس یقین پر قائم ہے کہ اللہ کے تمام فیصلے اچھے ہوتے ہیں؛ لہذا جب مسلمان انہیں اچھی طرح سمجھ لے تو انسان لازمی طور پر اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھنے لگتا ہے، بسا اوقات اللہ تعالی کے بعض اسما و صفات پر غور و فکر سے بھی دل میں حسن ظن پیدا ہو جاتا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالی کا مخلوقات پر فضل، کرم اور جلال و جمال بھی حسن ظن رکھنے کا موجب ہے، اللہ تعالی نے حسن ظن رکھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
{وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ}
اور حسن ظن رکھو، بیشک اللہ تعالی حسن ظن رکھنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ [البقرة: 195]
اس کی تفسیر میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یعنی اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھو"
رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند دن پہلے حسن ظن رکھنے کی خصوصی تاکید فرمائی ، چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں نے رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے تین دن پہلے کہتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے:" (تم میں سے کسی کو بھی موت آئے تو صرف اس حالت میں کہ وہ اللہ تعالی سے حسن ظن رکھتا ہو) مسلم
تمام رسولوں علیہم السلام کا معرفتِ الہی میں بہت بلند مقام تھا اسی لیے انہوں نے اللہ تعالی سے اچھی امید کی بنا پر اپنے تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دئیے تھے، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے سیدہ ہاجرہ کو بیت اللہ کے پاس تنہا چھوڑا؛ اس وقت مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں کوئی نہ تھا ، جب ابراہیم علیہ السلام انہیں چھوڑ کر چل دئیے تو سیدہ ہاجرہ بھی ان کے پیچھے چلتی ہوئی کہنے لگیں: "ابراہیم! آپ ہمیں اس وادی میں تنہا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ یہاں کوئی انسان ہے نہ کوئی اور چیز!؟ " سیدہ ہاجرہ نے ان سے کئی بار یہ پوچھا لیکن ابراہیم علیہ السلام نے ان کی جانب مڑ کر بھی نہیں دیکھا تو آخر کار سیدہ ہاجرہ نے پوچھا: "کیا اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے؟" تو انہوں نے جواب میں اپنا سر ہلا دیا، تو اس پر سیدہ ہاجرہ نے فرمایا : "تب تو وہ ہمیں رائگاں نہیں چھوڑے گا" بخاری
تو اللہ تعالی کے بارے میں سیدہ ہاجرہ کے حسن ظن کی بنا پر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے کہ بابرکت پانی کا چشمہ جاری ہوا، بیت اللہ کی آباد کاری ہوئی اور سیدہ ہاجرہ کا نام رہتی کائنات تک زندہ و جاوید ہو گیا، اسماعیل علیہ السلام نبی بن گئے، اور انہی کی اولاد میں سے خاتم الانبیاء اور امام المرسلین نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔
ایسے ہی یعقوب علیہ السلام کے دو بیٹے گم ہو گئے ؛ لیکن انہوں نے بھی صبر کیا اور اپنا معاملہ یہ کہتے ہوئے اللہ کے سپرد کر دیا کہ:
{إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ}
میں تو اپنا شکوہ اور غم اللہ کے سامنے ہی رکھتا ہوں۔ [يوسف: 86]
لیکن دل پھر بھی اللہ تعالی سے پر امید رہا کہ اللہ میرے بیٹوں کی مکمل حفاظت فرمائے گا اور اسی لیے کہہ بھی دیا:
{عَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ}
یقین ہے کہ اللہ تعالی ان سب کو میرے پاس لے آئے گا، بیشک وہی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔[يوسف: 83]
پھر اپنے بیٹوں کو بھی اسی بات کی امید دے کر بھیجا:
{يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ}
میرے بیٹو! جاؤ اور یوسف کے ساتھ اس کے بھائی کی خبر گیری بھی کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہونا؛ کیونکہ اللہ کی رحمت سے صرف کافر قوم ہی مایوس ہوا کرتی ہے۔[يوسف: 87]
اللہ تعالی کی بندگی اور اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھنے کے اعتبار سے سب سے افضل ترین شخصیت ہمارے نبی محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ کو لوگوں نے خوب اذیتیں دیں لیکن پھر بھی آپ اللہ تعالی سے پر امید تھے کہ اللہ اپنے دین کی ضرور مدد فرمائے گا، [طائف میں] آپ کو پہاڑوں کے فرشتے نے عرض کیا: "اگر آپ چاہیں تو اخشب نامی دونوں پہاڑوں درمیان انہیں کچل دوں؟" تو آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی انہی کی نسل میں سے ایسے لوگوں کو پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی بندگی کریں گے اور اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے) متفق علیہ
آپ کو جس قدر بھی اذیتوں، تکلیفوں اور جنگوں کا سامنا کرنا پڑا پھر بھی آپ ہر وقت دو ٹوک موقف رکھتے تھے کہ یہ دین دنیا کے کونے کونے تک پہنچے گا، آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن اور رات ہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالی مٹی یا اون کے بنے ہوئے گھروں میں بھی اس دین کو داخل کر کے چھوڑے گا؛ چاہے اس کی وجہ سے کسی کو عزت ملے یا ذلت۔) مسند احمد
انبیائے کرام کے بعد صحابہ اللہ تعالی کے بارے میں سب سے زیادہ حسن ظن رکھنے والے ہیں، اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا:
{الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ}
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں نے ان سے کہا کہ: "لوگوں نے تمہارے مقابلے کو ایک بڑا لشکر جمع کر لیا ہے لہذا ان سے بچ جاؤ" تو ان کا ایمان اور بھی زیادہ ہو گیا اور کہنے لگے: " ہمیں تو اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے" [آل عمران: 173]
سیدہ خدیجہ سارے جہان کی خواتین کی سربراہ ہیں، جس وقت آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ سیدہ خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا: (مجھے اپنی جان کا خدشہ ہے) تو اس پر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حسن ظن رکھتے ہوئے فرمایا تھا: "بالکل نہیں! اللہ کی قسم! اللہ تعالی آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، نادار لوگوں کو کما کر کھلاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور قدرتی آفات پر متاثرین کی مدد کرتے ہیں" متفق علیہ
چنانچہ تمام کے تمام اہل علم اور نیک لوگوں کا یہی وتیرہ رہا ہے، جیسے کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرا حساب کتاب[یعنی جزا یا سزا دینے کا معاملہ ] میرے والدین کریں؛ کیونکہ میرا پروردگار والدین سے زیادہ بہتر ہے"
مومن ہر حالت میں اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہے لیکن اللہ تعالی سے دعا اور مناجات کے وقت حسن ظن کی ضرورت مزید قوی ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالی مانگنے والوں کو ضرور دیتا ہے، اللہ سے امید رکھنے والا کبھی مایوس نہیں لوٹتا۔
توبہ کی قبولیت کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ تعالی سے حسن ظن رکھے، آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں کہ: (میرے بندے نے گناہ کیا پھر اسے علم ہوا کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہوں پر پکڑ بھی فرماتا ہے؛ لہذا جو بھی کرو میں نے تمہیں بخش دیا) مسلم
مشکل حالات اور کڑے وقت میں حسن ظن مزید نکھر کے سامنے آتا ہے، اور بدگمانیاں چھٹ جاتی ہیں، چنانچہ غزوہ احد میں اہل ایمان نے ثابت قدمی دکھائی جبکہ دوسروں نے اللہ تعالی کے بارے میں جاہلوں والے گمان رکھے۔
اللہ تعالی اپنے بندوں اور اولیا کی مدد کرنے پر قادر ہے کوئی بھی اس میں رکاوٹ اور حائل نہیں بن سکتا۔ اللہ کی مدد کے بارے میں پر اعتمادی بھی یقین کا حصہ ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ}
اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا۔ اور اگر وہ تمہیں بے یارو مدد گار چھوڑ دے تو پھر اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کر سکے ؟ [آل عمران: 160]
اگر کسی کی زندگی تنگ ہو جائے تو اللہ تعالی سے خیر کی امید فراخی اور راہ نجات بن جاتی ہے، جیسے کہ رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جس شخص کو فاقہ کشی کا سامنا ہو اور وہ اپنی فاقہ کشی لوگوں کے سامنے رکھے تو اس کی فاقہ کشی ختم نہیں کی جاتی، اور جو شخص فاقہ کشی آنے پر اسے اللہ تعالی کے سامنے رکھے تو عین ممکن ہے کہ فوری یا قدرے تاخیر کے ساتھ اللہ تعالی اسے رزق عطا فرما دے۔) ترمذی
اللہ تعالی وسیع مغفرت اور عنایت کرنے والا ہے، جو شخص بھی اللہ تعالی سے خیر کی امید رکھے اللہ کے فضل، کرم، اور مغفرت کا امید وار ہو تو اللہ تعالی اسے اس کی مرادیں عطا فرما دیتا ہے، (اللہ تعالی آسمان دنیا تک نازل ہو کر فرماتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو اسے بخش دوں، اس کے دونوں ہاتھ بھرے ہوئے ہیں، شب و روز کی عنایتیں بھی اس میں کمی واقع نہیں کر سکتیں)
انسان جس وقت اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھے تو یہ در حقیقت اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل ہے اور یہ عبادت بھی ہے، نیز انسان کو اپنے رب سے وہی ملتا ہے جس کی اللہ سے امید رکھتا ہے، آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(اللہ تعالی کا فرمان ہے: میں اپنے بندے کے ساتھ وہی کرتا ہوں جیسا وہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے، وہ جب بھی مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں) متفق علیہ
اگر اللہ تعالی کسی بندے کو حسن ظن کی نعمت عطا کر دے تو یہ اس کے لیے بہت بڑی دینی نعمت ہے؛ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں! کسی بھی مومن کو اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن سے بڑھ کوئی نعمت نہیں دی گئی۔"
لوگوں کی کارکردگی بھی اللہ تعالی سے حسن ظن کے مطابق ہوتی ہے؛ اسی لیے مومن اللہ تعالی سے حسن ظن رکھتا ہے تو کارکردگی بھی اچھی دکھاتا ہے، جبکہ کافر اللہ تعالی کے بارے میں سوء ظن کا شکار ہوتا ہے اور کارکردگی بھی نہیں دکھاتا، حسن ظن رکھنے کی عبادت سے اسلام کی امتیازی خوبی اور کمال ِ ایمان عیاں ہوتا ہے اور یہی انسان کے لیے جنت کا راستہ بھی ہے۔
حسن ظن رکھنے سے انسان کے دل میں اللہ تعالی پر توکل اور اعتماد پیدا ہوتا ہے، ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جس قدر آپ اپنے رب سے حسن ظن رکھیں گے، خیر کی امید لگائیں گے اتنا ہی آپ کا اللہ تعالی پر توکل ہو گا؛ یہی وجہ ہے کہ کچھ اہل علم نے توکل کو حسن ظن سے تعبیر کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حسن ظن انسان کو اللہ تعالی پر توکل کرنے کی دعوت دیتا ہے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ کسی ایسے شخص پر توکل کریں جس کے بارے میں آپ بد گمانی کرتے ہیں ایسے ہی جس سے امید نہ ہو اس سے آس نہیں لگاتے"
حسن ظن کی علامات میں یہ چیز شامل ہے کہ آپ کا دل مطمئن ہو گا، اور اللہ تعالی کی جانب متوجہ ہوں گے ، اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے۔
اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن بہترین زادِ راہ اور توشہ ہے۔ سلمہ بن دینار رحمہ اللہ سے کہا گیا: "ابو حازم! تمہاری جمع پونجی کتنی ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ تعالی پر مکمل بھروسا اور لوگوں کی دولت سے مکمل صرف نظری"
ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!
اللہ تعالی کریم، بہت بڑا، قوی اور عظیم ہے ، جس چیز کا ارادہ فرما لے تو اسے ہو جانے کا حکم دیتا ہے تو وہ چیز بن جاتی ہے، اللہ تعالی نے اپنی کتاب کے تحفظ اور دین کے غلبے کا وعدہ کیا ہوا ہے، آخر کار انجام متقی لوگوں کے حق میں ہو گا، وہ جسے چاہتا ہے بے حساب نوازتا ہے، اللہ اپنی پناہ لینے والوں کی مشکل کشائی فرماتا ہے، اللہ تعالی کے بارے میں جس کی معرفت جس قدر زیادہ ہو گی اللہ تعالی پر اس کا یقین بھی اتنا ہی قوی ہو گا۔ اللہ تعالی کے بارے میں بد گمانی معرفتِ الہی سے نا بلد ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، اور اللہ کی معرفت سے دوری اہل جاہلیت کی نشانی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ}
وہ اللہ کے بارے میں بغیر حق کے جاہلیت والے گمان کرتے ہیں۔[آل عمران: 154]
اللہ تعالی اور اللہ تعالی کے اسما و صفات پر ایمان کا نتیجہ حسن ظن ، توکل اور اپنی ہر چیز اللہ کے سپرد کرنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن کی حقیقت حسن کارکردگی میں پنہاں ہے، اگر آپ دل جمعی اور عمدگی سے عمل کر رہے ہیں تو آپ کی محنت بار آور ہو گی، چنانچہ سب سے اچھی کارکردگی کا حامل شخص ہی اللہ تعالی سے خیر کی امید رکھنے والا ہے، جس قدر انسان کا اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن ہو گا لازمی بات ہے کہ اس کی کارکردگی بھی اسی قدر عمدہ ہو گی، اور جو شخص بد عملی کا شکار ہو تو وہ اللہ تعالی کے بارے میں بد ظنی کا شکار ہو گا ۔
اگر کوئی شخص اپنی کارستانیوں پر بھی حسن ظن کرے تو وہ اللہ کی پکڑ سے بے خوف بنا بیٹھا ہے۔ اگر حسن ظن انسان کو نیکی پر ابھارے تو یہ مفید حسن ظن ہے، لیکن اگر حسن ظن میں کمی واقع ہوئی تو اعضا گناہوں میں ملوث ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں