حیا ایمان کا حصہ ہے...خطبہ مسجد الحرام (اقتباس)


مسجد الحرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد المعیقلی 
جمعۃ المبارک 2 جمادی الاول 1439ہجری بمطابق 19 جنوری 2018
ترجمہ: محمد عاطف الیاس

منتخب اقتباس:

الحمدُ للهِ! ہر طرح کی حمد و ثناء اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے، وہ بڑے فضل واحسان والا ہے اور اسی نے حیاء کو ایمان کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
’زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں سب اپنی حاجتیں اُسی سے مانگ رہے ہیں ہر آن وہ نئی شان میں ہے۔‘‘ (الرحمن: 29)

میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے ہیں اور جنوں اور انسانوں کے لیے اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر، صحابہ کرام پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔

بعدازاں! اے مومن معاشرے کے لوگو!
اللہ سے ڈرو اور اس سے حیا کرو۔ خوب ذہن نشین کر لو کہ اللہ تعالیٰ ہر حال میں اور ہر جگہ آپ کو دیکھتا ہے اور آپ کا حال جانتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔‘‘ (آل عمران :102)

اے امت اسلام!
بھلے اخلاق کی طرف بلانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اولین مقصد ہے۔ مسند امام احمد میں صحیح سند کے ساتھ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے تو اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘

اچھے اخلاق ہمیشہ ایمان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اہل ایمان میں کامل ترین ایمان اس کا ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہے۔

اللہ کے بندو! اچھے اخلاق سے ایمان مکمل اور مزین ہوتا ہے، اچھے اخلاق سے میزان پھرتا ہے، ایمان بڑھتا ہے اور انسان کمال کے مرتبے کو چھونے لگتا ہے۔

اچھے اخلاق میں سے حیا کو ایمان کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے جہاں حیا ختم ہوجائے وہاں ایمان بھی ختم ہوجاتا ہے اور جتنی حیاء کم ہوجائے اتناہی ایمان بھی کم ہوجاتا ہے۔
مستدرک امام حاکم میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’حیا اور ایمان ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ جب ان میں سے ایک ختم ہوجائے تو دوسرا خود بخود ختم ہو جاتا ہے ۔‘‘

حیا جس چیز میں پائی جائے وہ اسے مزین کر دیتی ہے اور جس چیز سے حیاء چین لی جائے وہ انتہائی بری ہو جاتی ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حیا ہر بھلائی کی جڑ ہے، یہ اخلاق میں افضل ترین، فائدہ مند ترین اور قیمتی ترین اخلاق ہے۔ اگر حیا کا اخلاق نہ ہوتا تو نہ وعدے پورے ہوتے، نہ امانتیں ادا ہوتیں، نہ کسی کی حاجت پوری ہوتی، کوئی بھلائی کو پسند نہ کرتا، کوئی برائی سے نہ رکتا اور کسی کی پردہ پوشی بھی نہ کی جاتی۔

اللہ کے بندو! حیا نبیوں اور رسولوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے صحابہ اور تابعین کا اخلاق ہے۔
یہ ہیں موسی ، جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’حضرت موسی انتہائی پاکباز اور حیا کرنے والے تھے، ان کی حیا کا یہ حال تھا کہ لوگوں کو ان کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔‘‘
اسی طرح ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حیا کے اخلاق میں سب سے آگے تھے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پردے کے پیچھے بیٹھی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرم و حیا کرنے والے تھے۔ جب وہ کسی چیز کو ناپسند کرتے تو ان کے چہرے کارنگ تبدیل ہوجاتا اور ہم اسی سے پہچان لیتے کہ آپ کو کوئی چیز ناگوار گزری ہے۔ یعنی وہ دوسروں کو ٹوکنے سے حیا کرتے تھے یہاں تک کہ ناگواری ان کے چہرے پر نظر آنے لگتی تھی۔

اسی طرح جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آجاتے اور دیر تک بیٹھے رہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تنگی محسوس ہوتی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حیا کرتے ہوئے انہیں کچھ نہ کہتے اور ناگواری کا اظہار تک نہ کرتے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یہ آیت نازل فرما دی:
’’جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو تمہاری یہ حرکتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے۔‘‘ (الاحزاب: 53)

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اپنے بچوں کو بھی حیا سکھاتے تھے اور ان کی تربیت بھی اسی اخلاق پر کرتے تھے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت اسی اخلاق پر فرمائی تھی۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ حیا اخلاق اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفات میں سے ہے اور اس سے جڑا ہوا اللہ تعالی کا ایک نام بھی ہے۔ اللہ کی حیا کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت دینے والا اور کرم نوازی کرنے والا ہے، نیکی کی قدر کرنے والا اور بہت بلند ہے۔ وہ عطا کرنے والا ہے جب اسکا بندہ ہاتھ اٹھا کر اس سے کچھ مانگتا ہے تو اللہ اسکے ہاتھ خالی لوٹ آنے سے حیا کرتا ہے۔ اللہ تعالی کسی ایسے بوڑھے شخص کو بھی سزا دینے سے حیا کرتا ہے جس کے بال دین اسلام کی خدمت میں سفید ہوگئے ہوں۔

حدیث قدسی میں آتا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
’’میرے بندے نے میرے ساتھ عدل نہیں کیا! مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا رد کرنے سے حیا کرتا ہوں اور جب وہ گناہ کرنے لگتا ہے تو وہ مجھ سے حیاء نہیں کرتا۔‘‘

اللہ کے بندو! سچا مسلمان اللہ سے حیا کرتا ہے اور وہ یاد رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے، وہ نیک کام میں دیر نہیں کرتا، نعمت کاشکر کبھی نہیں بھولتا، جہاں اللہ تعالی نے جانے سے منع کیا ہے، اللہ اسے وہاں کبھی نہیں دیکھتا اور جس جگہ جانے کا حکم دیا ہے، وہ اسے وہاں کبھی غیر حاضر نہیں پاتا۔ اللہ سب سے بڑھ کر اس چیز کا حقدار ہے کہ اس سے حیاء کی جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام کو یہی نصیحت کی تھی۔
امام ترمذی کی جامع میں حسن درجہ کی سند کے ساتھ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ ہو تعالئ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ سے یوں حیا کرو جیسے اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔‘‘
اس پر صحابہ کرام نے عرض کیا کہ الحمد للہ! ہم حیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں اس حیا کی بات نہیں کر رہا! حقیقی حیا یہ ہے کہ تم سرکی اور سر میں موجود چیزوں کی حفاظت کرو، پیٹ کی اور پیٹ میں موجود چیزوں کی حفاظت کرو اور موت اور فنا ہوجانے کو یاد کرو۔ جو آخرت کا طالب ہوتا ہے وہ دنیا کی زیب و زینت سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔ جو ایسا کرتا ہے وہی اللہ سے صحیح معنوں میں حیا کرنے والا ہے۔‘‘

حیا اہل تقویٰ کا شعار ہے، نیک لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہے اور مومنوں کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا پردہ ہے۔ جب انسان گناہوں میں بڑھ جاتا ہے اور توبہ کی طرف نہیں پلٹتا تو اس سے حیا چھین لی جاتی ہے اور جس سے حیاء چین لی جاتی ہے تو اس کی ہلاکت کا وقت آ جاتا ہے، پھر وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے، اس کی برائیاں واضح ہوجاتی ہیں اور نیکیاں چھپ جاتی ہیں۔ ایسا شخص اللہ کے ہاں بھی بے قیمت ہوتا ہے۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حیا کا لفظ حیات یعنی زندگی سے لیا گیا ہے۔ جس میں حیا نہیں ہوتی وہ دنیا میں مردوں کی مانند ہوتا ہے اور آخرت میں بدبخت ہوتا ہے۔ بے حیائی، بے غیرتی اور گناہوں کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو کھینچ لاتا ہے۔ جو گناہ کے وقت اللہ سے حیاء کرتا ہے اللہ تعالی قیامت کے دن اسے عذاب دینے سے حیا کرتا ہے اور جو اللہ سے حیا کیے بغیر گناہ کرتا جاتا ہے اللہ تعالی بھی اس سے قیامت کے دن حیا نہیں کرتا۔

اے امت اسلام!
برے الفاظ بولنا، برے کام کرنا، مردوں کا عورتوں کی مشابہت اور عورتوں کا مردوں کی مشابہت اختیار کرنا، جھوٹ بولنا، گمراہی پھیلانا، دوسروں کے احساسات کا خیال نہ کرنا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر آداب کا خیال نہ کرنا اور بھلے طریقے کو چھوڑنا بے حیائی کی وہ صورتیں ہیں جو ہمارے معاشرے میں رائج ہو رہی ہیں۔
اسی طرح بے حیائی کی صورتوں میں کھلے عام کیے جانے والے گناہ بھی شامل ہیں۔ ان گناہوں کی وجہ سے دنیا و آخرت کی عافیت ختم ہوجاتی ہے۔ 

نہیں خدا کی قسم زندگی میں کوئی خیر نہیں ہے بلکہ آگر حیا نہ ہو تو ساری دنیا میں کوئی خیر نہیں ہے۔ انسان جب تک حیا کو اپنائے رکھے اسی وقت تک وہ سلامت رہتا ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح درخت اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک جڑیں مضبوط ہوں۔

ے مومن معاشرے کے لوگو!
خوب ذہن نشین کرلو کہ دل میں حیا کی موجودگی تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک اللہ کی تعظیم اور اس سے محبت۔ دوسری اس چیز کے یقین سے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہمارے ہر حال سے واقف ہے۔ جب دل میں اللہ تعالی کے پیار اور تعظیم کے ساتھ یہ یقین موجود ہوگا کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہمارے ہر حال سے واقف ہے اور اس سے ہماری کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے تو دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے حیا خود ہی آ جاتی ہے۔

بعدازاں! اے مومنو!
جیسا کہ مردوں کے حق میں شرم و حیا کی موجودگی مردانگی اور اخلاق کا تقاضہ ہے اسی طرح یہ عورتوں کے حق میں زینت اور کمال ہے۔ مردوں کی نسبت عورتوں میں شرم و حیا کی اہمیت زیادہ ہے۔

اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اس پاکیزہ عورت کا ذکر فرما کر اسے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا ہے، جو مکمل حیا اور بہترین اخلاق اپناتے ہوئے موسی علیہ السلام کے پاس پاکیزہ چال چلتے ہوئے آئی اور چند الفاظ بولے کہ جن میں کسی قسم کا جھکاؤ یا نرمی نہیں تھی۔ اللہ تعالی نے ان کا ذکر فرماتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا:
’’ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی “میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں۔‘‘ (القصص: 25)

اے مومن معاشرے کا لوگو!
جب مسلمان معاشرے میں حیا عام ہوجاتی ہے تواس کے افراد کے اخلاق بہت بلند ہو جاتے ہیں، ان کی ادب آداب شاندار بن جاتے ہیں، ان میں نیک اخلاق اور بھلے رویے رائج ہو جاتے ہیں۔ حیا کا ان کو کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ اس سے ان کو خیر ہی ملتی ہے۔
صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’حیا سراسر بھلائی ہے اور اس سے بھلائی ہی حاصل ہوتی ہے۔''

اے اللہ! ہمیں بہترین اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرما، کیونکہ تو ہی بھلے اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرما سکتا ہے۔ ہمیں برے اخلاق سے بچا تو ہی ہمیں برے اخلاق سے بچا سکتا ہے۔
اے اللہ اے ارحم راحمین ہم تجھ سے ہدایت تقوی شرم و حیا اور بے نیازی کا سوال کرتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں