برکت کا مفہوم اور اسباب و ذرائع - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

برکت کا مفہوم اور اسباب و ذرائع - خطبہ جمعہ مسجد نبوی - Daleel.Pk

برکت کا مفہوم اور اسباب و ذرائع - خطبہ جمعہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 02 -جمادی اولی- 1439 کا خطبہ جمعہ " برکت کا مفہوم اور اسباب و ذرائع" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ  اس کائنات کو اللہ تعالی نے پیدا فرمایا اور اس میں تمام مخلوقات کی اشیائے ضروریات ودیعت کر دیں اور ان میں برکت بھی ڈالی، برکت سمیٹنے میں انبیائے کرام سب سے آگے ہوتے ہیں، اللہ تعالی نے ان کی ذات اور کردار و گفتار میں برکت ڈال دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کو صحابہ کرام نے کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اللہ تعالی نے قرآن کریم، بیت اللہ، مدینہ طیبہ، مسجد اقصی  ، امت محمدیہ،  اور صبح کے وقت کو بابرکت بنایا ہے۔

منتخب اقتباس:

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اسی نے اپنے مخلص بندوں کو نعمتِ اخلاص اور برکت سے نوازا ہے۔ میں صدقہ خیرات کو فضیلت عطا کرنے پر اللہ کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں، اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، اللہ تعالی نے مشرکوں اور کافروں کا ٹھکانا آگ بنایا، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے جادوگروں کا پردہ چاک فرمایا۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور فضائل مہارت رکھنے والے صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ۔

اللہ تعالی نے اس دھرتی کو لوگوں کے لیے زندگی گزارنے کی جگہ بنایا ، اس میں برکتیں ڈالیں اور اسے مال و دولت سے بھر دیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا}
 اللہ نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے، زمین میں برکت ڈالی اور اس کا صحیح تخمینہ لگایا۔[فصلت: 10]

اللہ تعالی نے انبیائے کرام کو اپنی چنیدہ شخصیات بنایا ، پھر ان کی زندگی اور کارکردگی دونوں میں برکت بھی ڈال دی، جیسے کہ اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
 {يَانُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ}
 اے نوح! اتر جا ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تجھ پر اور تمہارے ہمراہ امتوں پر نازل ہوئی ہیں۔ [هود: 48]

ایسے ہی اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: 
{وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ}
 اور میں جہاں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت بنایا ہے۔[مريم: 31]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت بھی ثابت شدہ ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی آنکھوں سے اس برکت کا مشاہدہ کیا تھا۔

قرآن کریم میں بھی برکت ہے، جو کہ قرآن کریم پر عمل کر کے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر حاصل ہوتی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ}
 یہ کتاب ہم نے اسے نازل کیا ہے یہ بابرکت ہے لہذا اس کی اتباع کرو اور اللہ سے ڈرو، تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔[الأنعام: 155]

برکت اضافے اور خوشحالی کا نام ہے؛ جب کسی تھوڑی سی چیز میں برکت ہو تو اسے زیادہ کر دیتی ہے، اگر برکت کسی جگہ ہو تو وہاں برکت کے اثرات واضح اور عیاں نظر آتے ہیں، جس چیز میں برکت ہو تو بہت سے لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مال و دولت، وقت، علم، اولاد، علم، کارکردگی اور اعضا ہر چیز میں برکت کے اثرات رونما ہو جاتے ہیں۔

اللہ تعالی نے بیت اللہ اور مدینہ طیبہ کو بابرکت بنایا، مسجد اقصی اور اس کے آس پاس والے علاقے کو مبارک بنایا، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ}
 بیشک سب سے پہلا گھر جو مکہ میں ہے وہ لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ بابرکت اور جہان والوں کے لیے ہدایت ہے۔[آل عمران: 96] 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
 (اَللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِيْنَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ
 [یا اللہ! مکہ میں جتنی برکت فرمائی ہے اس سے دگنی برکت مدینہ میں فرما]) 
اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے: 
{سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا} 
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد الحرام سے مسجد اقصی کی سیر کروا ئی اس  کے ارد گرد ہم نے برکت فرمائی، تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں۔ [الإسراء: 1]

اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو بابرکت بنایا تو یہ امت تمام امتوں سے آگے نکل گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (درختوں میں ایک ایسا درخت بھی ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے ، اس کے اوصاف مسلمان جیسے ہیں، مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟) راوی کہتے ہیں کہ لوگ جنگلوں اور صحراؤں کے درختوں میں تلاش کرنے لگے، تو صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی بتلائیے وہ کون سا درخت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ کھجور کا درخت ہے) بخاری

مومن اپنے گھر کے لیے بھی برکت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے لیے مومن گھر میں اللہ کا ذکر کرنے کی پابندی کرتا ہے اور گھر میں سورت البقرہ کی تلاوت کا اہتمام کرتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (سورت بقرہ کی تلاوت کیا کرو؛ کیونکہ سورت بقرہ کی تلاوت برکت ہے، اسے چھوڑنا باعث حسرت ہے، اور باطل لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے) مسلم، باطل لوگوں سے مراد جادو گر ہیں۔

استغفار کی پابندی سے بھی برکت حاصل ہوتی ہے، جیسے کہ سیدنا نوح علیہ السلام کی دعا اللہ تعالی نے بتلاتے ہوا فرمایا: 
{فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا}
 تو میں [نوح علیہ السلام]نے کہا: تم اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو، بیشک وہی بخشنے والا ہے (10) وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا (12)وہ دولت اور نرینہ اولاد کے ذریعے تمہاری امداد فرمائے گا اور تمہارے لیے باغات بنا کر تمہارے لیے نہریں بہا دے گا۔[نوح: 10- 12]

مومن شخص نماز فجر با جماعت ادا کر کے بھی برکت تلاش کرتا ہے؛ کیونکہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے، صبح کے وقت میں برکت رکھ دی گئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: 
(اَللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِيْ فِيْ بُكُوْرِهَا،
 [یا اللہ! میری امت کیلیے صبح کے وقت میں برکت فرما دے])،
 اسی لیے جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لشکر یا سریہ کو روانہ فرماتے تو انہیں اول وقت میں روانہ کرتے تھے، نیز صخر بن وداعہ غامدی رضی اللہ عنہ تاجر تھے وہ اپنی تجارت کے قافلے صبح کے وقت بھیجتے تھے تو ان کی دولت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔ ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا، نیز ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔

پابندی کے ساتھ ایک دوسرے کو سلام کرنے سے بھی برکت ملتی ہے، سلام کرنا اس بابرکت امت کا خاصہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً}
 پس جب تم گھروں میں داخل ہو جاؤ تو اپنے آپ پر سلام کہو، یہ اللہ تعالی کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔[النور: 61]

صلہ رحمی سے بھی عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور رزق میں برکت ہوتی ہے، چنانچہ بخاری اور مسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص کو اچھا لگتا ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ کر دیا جائے اور اس کی زندگی لمبی کر دی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے)

مسلم معاشرے کے کمزور افراد کی مدد در حقیقت متلاشیاں برکت کے لیے وسیع میدان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تمہارے کمزور افراد کی وجہ سے ہی تمہاری مدد کی جاتی ہے اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے) بخاری

جب مسلمان کی زندگی میں برکت آ جائے تو اللہ تعالی اسے پختہ عقل عطا فرما دیتا ہے، اسے سمجھ بھی دیتا ہے، اس کا دل علم اور ایمان سے منور ہوتا ہے۔
مسلمان کی زندگی میں برکت کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ اسے بہت زیادہ کام کرنے اور کامیابیاں حاصل کرنے توفیق ملتی ہے، تھوڑے سے وقت میں اتنا زیادہ کام کر دکھاتا ہے کہ اس کے ساتھی اس سے پیچھے رہ جاتے ہیں، یہ خاص نوعیت کی برکت انسان کیلیے اطاعت گزاری اور مثبت عملی اقدامات کے لیے ممد اور معاون ثابت ہوتی ہے۔

لمبی زندگی کے ساتھ زبانی اور بدنی نیکیاں بھی ہو تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے کامیاب لوگوں کو عطا کردہ برکت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (برکت تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے) صحیح ابن حبان

اللہ کی ناراضی کا باعث بننے والے کاموں میں دولت اڑا کر اللہ تعالی کا حق ادا نہ کیا جائے تو اس سے برکت مٹ جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ}
 اللہ تعالی سود مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور اللہ کسی بھی گناہ گار کافر سے محبت نہیں کرتا۔[البقرة: 276]

تمام مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے ملکوں ، سماج اور اقوام میں برکت تلاش کریں، برکت کے اسباب اور ذرائع پیدا کریں، اس کے لیے سب سے مؤثر ترین ذریعہ یہ ہے کہ اللہ کی دھرتی پر اللہ کا نظام رائج ہو، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ}
 اگر بستی والے ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کی کارستانیوں کی وجہ سے پکڑ لیا۔[الأعراف: 96]

کوئی بھی عقل مند اس بات کا انکار نہیں کرتا کہ منہجِ الہی سے اعراض برکت ختم ہونے کا سبب ہے، اس طرح خیر و بھلائی ختم ہوتی ہے، اللہ تعالی نے ہمارے لیے قوم سبا کا واقعہ بتلایا جنہیں عطا کردہ نعمتوں اور برکتوں کو جڑ سے نیست و نابود کر دیا گیا تھا، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتَانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمَالٍ كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ (15) فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ} 
قوم سبا کے لیے ان کے علاقے میں نشانی ہے، دو باغات دائیں اور بائیں [ان کے لیے تھے] تم اپنے پروردگار کا عطا کردہ رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، یہ [تمہاری رہائش کیلیے]پاکیزہ شہر ہے اور پروردگار بخشنے والا ہے (16) تو انہوں نے اعراض کیا ، پھر ہم نے ان پر بہت بڑا سیلاب بھیج دیا ، اور ہم نے ان کے دونوں باغوں کو ایسے دو باغوں سے بدل دیا جو بد مزہ  پھلوں، جھاؤ اور معمولی سی بیریوں پر مشتمل تھے۔[سبأ: 15، 16]

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں