تدبرِ قرآن- سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) حصہ چہارم

حصہ چہارم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم.

اسلام علیکم
آخری لیکچر میں ہم نے ھدًی للمتقین کے متعلق پڑھا تھا. میں وہیں سے آج کے لیکچر کا آغاز کرونگا، جہاں اللہ رب العزت نے قرآن کریم کو ہدایت کہا، ایک جیتی جاگتی ہدایت ان لوگوں کے لیے جو خود کی حفاظت کرتے ہیں.
 لفظ متقین عربی میں اسم ہے. اسے اسم فاعل کہا جاتا ہے عربی زبان میں. لیکن انگریزی میں اس کا ترجمہ کرتے ہوئے مجھے فعل  استعمال کرنا پڑتا ہے، میں اسم (ناؤن) کا استعمال نہیں کرسکتا. کچھ ایسا ترجمہ بنے گا اس کا وہ جو خود کی حفاظت کرتے ہیں جب میں اسے انگریزی میں کہونگا تو حفاظت فعل بن جائے گا.
عربی میں فعل اور  اسم میں ایک بنادی فرق ہے.. فعل عارضی  ہوتے ہیں،
مثال کے طور پر، جب آپ کہتے ہیں وہ کھاتا ہے کھانا فعل ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اب ہر وقت کھاتا ہی رہے گا. اس کا یہ عمل عارضی ہے.  فعل یا تو فعل ماضی میں ہوتا ہے، یا فعل حال میں یا پھر فعل مستقبل. یہ ہر وقت رہنے والا عمل نہیں ہوتا. ٹائملیس نہیں ہوتا. عارضی ہوتا ہے. اس کے برعکس، اسم مستقل (پرماننٹ) ہوتا ہے. مثال کے طور پر، ایک درخت، یا گاڑی. یہ اسم ہیں. یہ مستقل ہوتے ہیں.
 اس لیے جب آپ اسم کا استعمال کرتے ہیں تو آپ کسی ایسی چیز کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں جو مستقل، ہروقت رہنے والی شے ہوتی ہے.
یہ جاننا اس لیے ضروری ہے کہ انگریزی میں ترجمہ کرتے ہوئے اسم اور فعل مکس ہو جاتے ہیں، کوئی لفظ اسم کا ہوتا ہے مگر کیونکہ اس کا ترجمہ ویسا نہیں ہوپارہا ہوتا تو ہم اسے فعل بنا کر ترجمہ کردیتے ہیں.
اور ایسا کرنے اسے  اس لفظ کی اصل خوبصورتی، اس کی گہرائی گم جاتی ہے. اور پھر آپ کو خود سے اس کی وضاحت دینی پڑتی ہے کہ یہ فلاں لفظ اسم تھا اور یہ مستقل ہے. اور ھدًی للمتقین کے معاملے میں یہ بہت ضروری ہے، کیونکہ جب اللہ عزوجل فرماتے ہیں المتقین. وہ لوگ جو اپنی حفاظت کرتے ہیں، تب اللہ لوگوں کے ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں جو ہمیشہ رہیں گے
اللہ یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ گروہ ایسا ہے جو ماضی میں ہوا کرتا تھا، اور اب حال میں نہیں ہے.  بلکہ کہا جارہا ہے کہ وہ ہمیشہ رہیں گے.
اور یہ بہت بڑا شفٹ ہیں، اللہ نے سورہ الفاتحہ میں نیک لوگوں کے متعلق بات کی تھی، فرمایا تھا صراط الذین انعمت علیھم
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا
ترتیب سے دیکھیں تو اب تک کے قرآن میں وہ متقین سے پہلے ان نیک لوگوں کا ذکر ہے. 
تو وہ لوگ جن پر تُو نے انعام کیا، 
یہاں پر ماضی کا استعمال ہوا ہے، جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنے رول ماڈلز کو ماضی میں تلاش کرنا چاہیے. کیونکہ جن لوگوں پر اللہ نے انعام کیا، وہ اسلام کے ہیرو ہیں، وہ ماضی میں تھے. جو کہ انبیاء تھے، الصدیقین تھے، الشہداء، الصالحین، جیسے کہ صحابہ کرام تھے، عظیم علماء جن کے متعلق ہم آج پڑھتے ہیں، اور وہ عظیم لوگ جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے جبکہ وہ نبی یا صحابہ میں سے  بھی نہ تھے. جیسے کہ اصحاب الکہف.  وہ انبیا نہیں تھے. بس اچھے لوگ تھے.  اس لیے رول ماڈلز کے لیے ماضی میں دیکھنا چاہیے.
اور یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ آج کے زمانے میں آپ کا کوئی رول ماڈل ہوسکتا ہے مگر وہ ہمیشہ ایک حد تک ہوگا، کیونکہ ابھی وہ زندہ ہیں، جس کا مطلب ہے شیطان انہیں وسوسہ میں مبتلا کرسکتا ہے، جس کا مطلب ہے وہ اب بھی بہک سکتے ہیں. مگر وہ لوگ جو گزرچکے ہیں اور اللہ انہیں گریجویشن سرٹیفیکیٹ عطا کرچکے ہیں کہ وہ کامیاب ہوگئے ہیں وہ صحیح رول ماڈلز ہیں ہم سب کے لیے.
جب میں یہ بات سمجھاتا ہوں تو اکثر کالج کے طالبات کی مثال دیتا ہوں. اگر آپ اکاونٹنگ، یا بزنس پڑھ رہے ہیں تو آپ اپنی ہی کلاس کے کسی طلباء سے مشورہ نہیں لیتے اس مضمون کے متعلق، چاہے وہ بہت ہی لائق کیوں نہ ہو. آپ کسی ایسے شخص سے مشورہ لیتے ہیں جو گریجویٹ کرچکا ہوں اس ڈگری میں اور اب جاب کر رہا ہو. کیونکہ وہ اس راہ سے گزرچکے ہوتے ہیں اس لیے وہ بہتر صلاح دیں سکتے ہیں کہ یہ مضمون بہتر ہے آپ کے لیے یا نہیں.
میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ الفاتحہ میں ہم رول ماڈلز کو ماضی میں تلاش کرتے ہیں. مگر پھر ایک بات ہمیں پریشان بھی کردیتی ہے، شاید اس سے کچھ لوگ یہ بھی سوچنے لگ جائیں کہ سب ہی نیک لوگ گزرچکے ہیں، اور صرف ہم ہی پیچھے رہ گئے ہیں، یعنی کے ہمارے لیے کوئی امید باقی نہیں رہی. کیونکہ جن پر اللہ نے انعام کیا وہ تو پہلے کے لوگ تھے.
اور اب سورہ البقرہ آغاز میں ہی المتقین کا لفظ استعمال کر کے ہمیں بتادیتی ہے کہ "وہ لوگ جو تقوٰی اختیار کرتے ہیں، جن کے لیے ہدایت کے راستے کھلے رہیں گے، وہ لوگ ماضی میں بھی تھے، حال میں بھی ہیں، اور مستقبل میں بھی رہیں گے.
چاہے جتنے بھی برے حالات ہوجائیں، زمانہ ماڈرن ہوجائے، مسلمانوں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ کاش میں رسول اللہ کے وقت میں ہوتا، کیونکہ نیک لوگ تو وہی تھے، اب تو کوئی نیک رہا ہی نہیں اور کچھ لوگ تو اپنے بارے میں ایک رائے ہی قائم کرلیتے ہیں کہ وہ برے ہیں، اور وہ تقوٰی والے لوگ بن ہی نہیں سکتے. یہ بالکل ہی غلط بات ہے.
لفظ متقین یہ بات سمجھا دیتا ہے.
تقوٰی کا تصور سمجھنے کیلیے ہمیں ایک بہت نازک پوائنٹ کو سمجھنا ہے. 
قرآن میں کچھ لوگوں کا ذکر ہے جن کے تقوٰی کا ذکر ان کے مسلمان ہونے کے بعد کی گئی. کہ کوئی مسلمان ہوگیا، اور اب وہ تقوٰی اختیار کرتے ہیں. مثال کے طور پر، اب وہ نماز قضاء نہیں ہونے دیتے، حرام نہیں کماتے، غض بصر کرتے ہیں. یعنی وہ بہت احتیاط برتتے ہیں ہر کام میں. یعنی ایمان جے بعد ان کا تقوٰی قائم ہوتا ہے.
مگر ایک تقوٰی ایمان سے پہلے بھی ہوتا ہے.
کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو جھوٹ نہیں بولتے تھے، دھوکہ نہیں دیتے تھے، لوگوں کو تکلیف نہیں پہنچاتے تھے. جیسا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے. ابھی ایمان میں داخل نہ ہوئے تھے، مگر ان میں ایک لیول کا تقوٰی موجود تھا.
اللہ عزوجل نے یہ لفظ استعمال کر کے مسلمان اور اچھے غیر مسلمانوں کے لیے دین کا دروازہ کھول دیا ہے. دنیا میں جو کوئی بھی اس کتاب کی طرف ہدایت کی تلاش میں آئے گا، اگر ان میں خود کو شر سے محفوظ کرنے کی صلاحیت ہوگی، جو خود کو برائی اور ناکامی سے محفوظ رکھنا چاہتے ہوں گے، تو بے شک وہ مسلمان ہو، عیسائی ہو یا یہودی انہیں اس کتاب میں ہدایت مل جائے گی.
سب ہی کو دعوت دی گئی ہے.
مگر اس کے لیے بھی کچھ لازمی شرائط ہیں، جو ہمیں اگلی آیت میں ملتی ہیں.
کس قسم کے لوگ اس کتاب سے ہدایت حاصل کرتے ہیں؟
اللہ تعالی نے تمام مدنی کمیونٹی کے لیے ہدایت کے راستے کھول دیے ہیں، اور اس سے بڑھا کر پوری دنیا کے لیے.
کیونکہ مدینہ میں نہ صرف مسلمان مقیم تھے بلکہ یہودی اور عیسائی بھی تھے. انہیں بھی اب دعوت دی جارہی تھی. کیونکہ اللہ نے یہاں ھدًی للمتقین فرمایا،کہ جن میں بھی تقوٰی ہے ان سب کے لیے ہدایت ہے اس قرآن میں. اللہ نے  ھدی للمسلمین نہیں فرمایا، یا پھر ھدی للمومنین نہیں. ھدی للمتقین کہا گیا، جو کہ زیادہ وسیع لفظ ہے.
آل عمران میں اللہ نے اھل الکتاب کے کچھ لوگوں  کے متعلق فرمایا ہے جو کہ یہود یا عیسائی تھے. فرمایا: اولئک من الصالحین کہ وہ بھی صالح لوگوں میں سے ہیں. اللہ نے ان میں موجود نیک خصوصیات کو بیان کیا.
یہ قرآن پاک کی رحمت ہے، اور اسی طرح یہ پوری دنیا کے لیے کھلی ہدایت ہے.
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ مکی قرآن کی توجہ کا مرکز مکہ کے مشرکین کو دعوت دینا تھا. اور مدنی قرآن مسلمانوں کا،مدنی قرآن میں صرف مدینہ کے مسلمانوں کے لیے قوانین، شریعت، اور احکامات نافذ کیے گئے. لیکن ایسا نہیں ہے.
ہاں! اسلام کے قوانین مدنی قرآن میں ہی نازل ہوئے مگر اھل کتاب اور ساری دنیا کے لیے دعوت جاری رہی مدنی قرآن میں بھی، مدنی قرآن میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا تھا.
پھر اللہ نے فرمایا:
 الذین یومنون بالغیب
وہ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں
اس پر ایمان رکھتے ہیں جسے دیکھ نہیں سکتے.
یہ آیت آج کے دور کیلیے نہایت موذوں ہے جہاں سائنس،  فلاسفی وغیرہ کے ذریعے ہر چیز کو ثابت کیا جاتا ہے. 
جس دور میں ہم رہتے ہیں وہ سائنس کا دور ہے، یہاں ہر چیز کا معائنہ کیا جاتا ہے، جب تک آپ کسی چیز کو سائنس سے ثابت نہیں کرسکتے، اس کی تفصیلات سے بخوبی واقف نہیں ہوتے آپ اسے نہیں مانتے. مثلاً درجہ حرارت, کشش ثقل وغیرہ معلوم کیے جاسکتے ہیں سو ہم مانتے ہیں کہ کشش ثقل ہے. 
مگر خدا، جنت، جہنم، فرشتے.. ان سب کے لیے کوئی سائنسی پیمانہ یا آلہ نہیں موجود جس کے ذریعے ان کی موجودگی کا ثبوت دیا جاسکے.
آج کی ذہنیت یہ ہے کہ جب تک کسی چیز کو سائنس سے ثابت نہیں کیا جاتا اس کے متعلق بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے.
اور اس ذہنیت، اس سوچ کو بنانے کے لیے بہت سا پیسہ خرچ ہوا ہے. یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ نا صرف مسلمان، یہودی یا عیسائی بلکہ دوسرے فلسفی،ماہر سماجیات،  ارتقاء پڑھنے والے ، وغیرہ نے بھی  اس تصور کی تردید کی ہے..وہ کہہ چکے ہیں کہ یہ نظریہ کہ ہر چیز سائنس سے ہی آئی ہے یہ ممکن نہیں ہے. یہ غلط ہے.
اگر ایسا ہی ہے تو پھر لٹریچر کی بنیاد کیا ہے؟
کوئی نظم پڑھ کر کہتا ہے واؤ، بہت خوبصورت ہے یہ
کیا آپ سانئس سے ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ خوبصورت ہے؟
بہت سے لوگ گانے سن کر جھوم رہے ہوتے ہیں کہ یہ کمال کا ہے. مگر کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے کہ وہ گانا سچ میں کمال کا ہے.
انسانی رویے ایسی چیزوں پہ مبنی ہیں جن کا سانئنس سے کوئی ثبوت نہیں ملتا. یہ صرف آواز کی کچھ لہریں ہیں جو سفر کرتی ہیں،  یہ بات سائنسی طریقے سے بتائی جاسکتی ہے.. لیکن اس آواز کی کوالٹی سائنس سے ثابت نہیں ہے. 
لیکن پھر بھی نوجوان اتنا پیسا خرچ کرکے ایم پی تھری خریدتے ہیں اور اپنا اتنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں یہ سب سننے میں.  یعنی انسان بہت سی ایسی چیزیں کر رہا ہے جو سائنس سے ثابت نہیں ہیں.  سو سائنس سے ثابت شدہ چیز کو ہی ماننے کا تصور اپنی موت آپ یہیں مر جاتا ہے. 
بالکل جیسے آپ اپنی والدہ سے کہتے ہیں کہ مجھے آپ سے محبت ہے،
کیا آپ اسے سائنس کے ذریعے ثابت کرسکتے ہیں؟
نہیں!
لیکن پھر بھی اس ایک احساس محبت پر کس حد تک ہماری زندگی انحصار کرتی ہے.
آپ کو کس طرح کی گاڑی پسند ہے؟
کیسے ہمسائے پسند ہیں؟
اور ایسی چیزیں...ہماری زندگی کے کتنے ہی فیصلے محبت یا نفرت پر مبنی ہوتے ہیں.
اور یہ پسند سراسر غیر سائنسی ہے.
اس لیے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک حقیقت ہماری آنکھوں سے چھپی ہوئی ہے.
جب وہ اس بات کو مان لیتے ہیں، تب وہ اس ایمان کے لیے تیار ہوتے ہیں جس کے متعلق یہ دین بات کر رہا ہے.
اللہ عزوجل نے یہ نہیں کہا جو اللہ پہ ایمان لائے اللہ نے اپنی بات نہیں کی اب تک. بس فرمایا کہ اس بات کو مانو کہ ایک ایسی حقیقت موجود ہے جو آپ کی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں. جسے آپ چھو نہیں سکتے، محسوس نہیں کر سکتے.
اللہ نے ایمان کے لیے یہاں زمانہ حال کا استعمال کیا.
قرآن میں آپ کو الذین امنوا (جو لوگ ایمان لائے) بھی ملتا ہے، جو زمانہ ماضی ہے.
زمانہ حال استمرار کی طرف اشارہ کرتا ہے. تسلسل کی طرف اشارہ کرتا ہے. اور مشقت کی طرف بھی، کوئی ایسی شے جو نامکمل ہے. یہ فعل غیر تعام ہے، نامکمل ہے.
آسان لفظوں میں سمجھاتا ہوں، اگر میں کہوں میں نے کھانا کھایا اس کا مطلب ہے، میں کھا چکا ہوں.
جب میں کہتا ہوں میں کھانا کھا رہا ہوں
کیا اس کا مطلب ہے کہ میں کھا چکا ہوں؟
نہیں. اس کا مطلب ہے میرا کام ابھی نامکمل ہے.
سو زمانہ حال کو استعمال کرنے کا آئیڈیا یہ ہے کہ ان لوگوں میں ایمان ہے، مگر وہ اب بھی اپنے ایمان کے لیے مشقت کر رہے ہیں، اس پر کام کر رہے ہیں، کیونکہ وہ مطمئن نہیں ہوتے کہ ان کا ایمان مکمل ہوچکا ہے. اس لیے وہ اس پہ محنت کرتے رہتے ہیں. اور وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ اکثر ان کا ایمان کمزور پڑجاتا ہے اور اکثر بہت مضبوط ہوتا ہے. (اُتار چڑھاو ہوتا رہتا ہے)
اور وہ ہمت نہیں ہارتے،اگر ایک دن ان کا برا گزرتا ہے تو وہ تھک کر بیٹھتے نہیں بلکہ اور ہمت کرتے ہیں.
جیسا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے: ایمان میں اُتار چڑھاو  آتا جاتا رہتا ہے، بعض اوقات آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ بہت مضبوط ہے، اور اکثر آپ بالکل کم محسوس کرتے ہیں
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ نماز میں کھڑے ہوتے ہیں اور آپ کو محسوس ہوتا ہے آپ کی زندگی بدل گئی ہے، آپ نماز کے دوران رو پڑتے ہیں،  اور اکثر آپ نماز میں کھڑے ہوتے ہیں، وہی آیات پڑھ رہے ہوتے ہیں مگر کچھ نہیں ہوتا. یہ آتا جاتا رہتا ہے.
اللہ اس بات کو سمجھا رہے ہیں کہ متقین کے ایمان میں بھی اتار چڑھاو آتا رہتا ہے. اس لیے اگر کوئی متقی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں وہ پرفیکٹ ہے. ان کا ایمان بھی اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتا رہے گا.  اللہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جن کا ایمان کا لیول نیچے جائے تو وہ اسکو واپس اوپر لانا جانتے ہوں اور اس کیلیے محنت کرتے ہوں.  آمین.  

- نعمان علی خان

جاری ہے.....

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں