تدبرِ قرآن- سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) حصہ دہم

حصہ دہم


سیاست دانوں کے متعلق ایک چیز تو واضح ہے کہ وہ تقریر بہت اچھی کرتے ہیں مگر، کیا وہ جنگ میں خود حصہ لیتے ہیں یا وطن کے لیے اپنے جوان بیٹے بیٹیاں بھیجتے ہیں؟ کیا وہ اپنے بچے بھیجتے ہیں؟ ہرگز نہیں.
وہ جنگ کیلئے غریبوں کے بچوں کو بھیجتے ہیں. اب جبکہ بدر کا واقعہ ہونے جا رہا تھا. عبداللہ بن اُبئی چونکہ ایک حقیقی سیاستدان تھا. کیا وہ بذات خود جنگ میں حصہ لینے کیلئے تیار بیٹھا تھا؟ ہرگز نہیں. اس کا مطمع ءنظر تو محض سیاست تھا نہ کہ قربانی.
قربانی تو نچلے طبقے کیلئے ہوتی تھی،اور وہ تو یثرب کے اعلٰی طبقے سے تعلق رکھتا تھا. لیکن اسلام آنے کے بعد کوئی اعلٰی اور ادنٰی طبقہ نہیں رہ گیا تھا. اب سب مسلم تھے.وہ بھی اب سب کے ساتھ ہی کھڑا تھا.
پہلے جب قبائل کے سربراہ آتے تھے تو لوگ ان کا شاندار استقبال کرتے تھے، ان کو اسپیشل نشستیں مہیا کرتے تھے. آج کے دور میں بھی ، یہاں تک کہ مسلم دنیا میں بھی، یہ طبقاتی فرق نمایاں طور پر نظر آتا ہے آپکو، ہر جگہ مخصوص نشستیں لگی ہوئی نظر آتی ہیں. آپ کبھی بھی ایک ٹرک ڈرائیور اور ایک چیف ایگزیکٹو آفیسر کو ایک ہی جگہ بیٹھا ہوا نہیں پائیں گے. افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ طبقاتی فرق ہمارے مسلم معاشرے میں بھی پایا جاتا ہےآپ کو کسی کلاسیفائیڈ سوسائیٹی میں جانے کا اتفاق ہو تو آپ امیر لوگوں کو دیکھیں گے(بہترین گاڑیوں کے مالک) ان کے ڈرائیوربھاگ کے آتے ہیں، تیزی سے ان کیلئے کار کا دروازہ کھولتے ہیں. وہ دولتمند اشخاص اپنے ڈرائیور کو سلام تک کرنا گوارہ نہیں کرتے. حالانکہ وہ بھی مسلم ہی ہے. یہ بہت توہین آمیز انداز ہے. میں ایک مسلم ملک میں گیا، نماز جمعہ کے دوران کیا دیکھتا ہوں کہ پہلی تین قطاریں حفاظتی حصار میں تھیں، جناب یہ وی آئی پی سیکشن تھا... الله الله !!!

رسول الله( صلي الله عليه وسلم) کے ہاں تو کوئی وی آئی پی سیکشن نہ تھا. نماز کے دوران قطار بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ تمام گورے/کالے، آزاد /غلام ، امیر/ غریب ، بیمار / صحت مند ،بوڑھے / جوان ، سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوں. باقی ہر چیز کو پیچھے چھوڑ دیں. یہی حقیقی مقصد تھا صف بندی کا. مگر کیا کیا جائے کہ کچھ لوگوں کے دماغ میں طبقاتی فرق گھسا ہوا ہوتا ہے. ان کیلئے یہ سب بہت مشکل ہوتا ہے، جیسےعبدالله بن اُبئی کا معاملہ ہے. اس کیلئے اور اس کے ساتھیوں کیلئے یہ بہت مشکل مرحلہ تھا. مدینہ میں ظہور اسلام کے بعد اب مہاجرین بھی برابر درجہ رکھتے تھے. مثلاً نماز میں ایک دن کسی جگہ پر اگر "وہ "کھڑا ہے تو دوسرے دن بلال کھڑے ہیں. اور اگلے دن ایک مہاجر، نہ صرف ایک مہاجر بلکہ ایک غلام (خادم )بھی.
یہ دوسرے طبقے کے لوگ نہ تھے بلکہ درجہ چہارم کے ملازم ان کے برابر کھڑے ہوتے تھے.یہ بات اس کیلئے ناقابل برداشت تھی. 

یہی بات حضرت نوح (عليه السلام)اور حضرت صالح( عليه السلام ) کی قوم نے (جنھوں نے کفر کیا) کہی تھی کہ ہم آپ کی بات سننا چاہتے ہیں. ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں. لیکن مسئلہ آپ کے ارد گرد موجود یہ غریب لوگ ہیں. جو ہر وقت آپ کو گھیرے رکھتے ہیں.
اگر آپ کسی فور سٹار ریستوران میں کسی ایگزیکٹو نشست پر بیٹھے ہوں، یا اپنے آفس میں ہوں اور آپ کا کوئی غریب ہمسایہ مل جائے تو آپ فوراً دوسروں کو بتاتے ہیں کہ یہ مجھ سے کمتر ہے. یا یہ میرے ماتحت ہے.
یہ منافقین کا ایک گروہ ہے جس سے میں آپکو متعارف کروانا چاہتا تھا.
ان لوگوں نے اسلام قبول تو کر لیا تھا. لیکن ان کے قبول اسلام کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ انھوں نے اس لئے نہیں اسلام قبول کیا تھا کہ وہ اسلام کے قائل ہوگئے تھے، ان کا اسلام قبول کرنا، اسلام سے محبت کا نتیجہ نہ تھا بلکہ قبول اسلام ہی ان کے لئے ایک ایسا رستہ تھا جس کے ذریعے وہ اپنا سیاسی کیرئیر بچا سکتے تھے. انھیں امید تھی کہ بالآخر چیزیں ان کے حق میں ہو جائیں گی.
ان کے رسول الله (صلى الله عليه وسلم) کے قریب آنے کی یہی وجہ تھی (وہ ان کو اپنا دشمن ہی سمجھتے تھے). تو یہ منافقین کی ایک قسم تھی

لیکن یہ آیات دوسری قسم سے متعلقہ ہیں. ان کے اسلوب کی خوبصورتی یہ ہے کہ الله عزوجل اپنے بیان میں بہت فصیح ہیں. وہ بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کر تے ہیں. ایک ہی وقت میں بہت سے گروہوں کی نشاندہی کرتے ہیں. یہی قرآن کی خوبصورتی ہے
.
هم ایک کلاس کی مثال لیتے ہیں: آپ کے کافی سارے شاگرد ہیں مختلف طالب علموں نے مختلف غلطیاں کی ہیں. ایک شاگرد ٹیسٹ میں فیل ہے. دوسرے نے ہوم ورک نہیں کیا. ایک اور طالب علم کلاس میں دیر سے آتا ہے. کچھ اور طلبہ کلاس کا ماحول خراب کر رہے ہیں اس طرح ایک ہی کلاس میں طلبہ مختلف جرائم میں ملوث ہیں. اب استاد کہتا ہے کہ "کچھ لوگ آج کلاس میں بڑی مشکل میں ہیں" جب استاد یہ کہتا ہے تو اس کا اشارہ کس کی طرف ہے؟ استاد نے واضح نہیں کیا. یہاں تک کہ اگر استاد یہ بھی کہہ دے کہ آپ میں سے ایک بڑی مشکل میں ہے. تو اس نے تب بھی خصوصی طور پر کسی ایک طالب علم کا نام نہیں لیا. کلاس میں ہر فرد یہ سوچے گا کہ یہ میرے لئے ہے. دوسرا سوچے گا یہ بات میرے لئے ہے. یعنی سب طالب علموں کی سوچ کچھ ایسی ہی ہو گی.
گفتگو میں عقلمندی یہی ہے کہ چیزوں کو جنرل رکھا جائے. ايسا طرز تخاطب ہو جو زیادہ لوگوں کا احاطہ کرتا ہو.
پہلی بات منافقین کے سرداروں سے متعلق تھی.
اب انھی لوگوں میں ایک اور گروہ بھی موجود ہے جنھوں نے اسلام تو قبول کر لیا ہے. لیکن انھیں اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ قبولِ اسلام کے ساتھ انہیں کچھ اہم ذمہ داریاں بھی سونپی گئی ہیں.
آج کے اسلام میں اور اُس دور کےاسلام میں بہت فرق ہے. آج کے دور میں جب کوئی اسلام قبول کرتا ہے تو اس کی کہانی کیا ہوتی ہے؟ ہوسکتا ہے کہ وہ شخص اپنے اپارٹمنٹ میں اکیلا رہتا ہو. اس کے والدین وفات پا چکے ہوں. اس نے کہیں سے اسلام کے بارے میں سنا ہو. وہ یوٹیوب سے اسلام سے متعلق ویڈیوز دیکھے گا. شیخ یوسف کو سنے گا. مفتی مینک کو سنے گا. سوچے گا کہ یہ ایک دلچسپ دین ہے. وہ مسلم بننا چاہے گا. پھر وہ گوگل سے مسجد کو تلاش کرے گا. وہاں جائے گا اور گواہی دے کر مسلمان ہو جائے گا.
اس کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟ اس کی روزانہ کی زندگی بدلی ہے: اس کی زندگی سے سؤر کا گوشت نکل گیا ہے، الکوحل نکل گئی ہے، اب وہ صبح سویرے فجر کے لئے جلدی بیدار ہونے لگ گیا ہے، یعنی کچھ تبدیلیاں اس کی زندگی میں لازمی طور نظر آتی ہیں
.
لیکن اسلام کے ابتدائی دور میں کسی شخص کے اسلام قبول کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا تھا کہ اس کی خوراک تبدیل ہوجائے گی ، یا روزے رکھنے پڑیں گے یا روزانہ پانچ وقت کی نماز ادا کرنی پڑے گی.
تو پھر ان کے قبول اسلام کا کیا مطلب تھا؟

اس دور میں اس کا مطلب تھا کہ آپ قریش کے خلاف ایک تحریک کا حصہ بننے جا رہے ہیں. آپ براہِ راست قریش کے جذبات کو مجروح کر رہے ہیں. آپ جزیرۂ عرب کے بڑے قبائل کو اپنا دشمن بنانے جارہے ہیں. صرف ایک گواہی دینے کے عمل سے وہ علاقہ کے طاقت ور ترین لوگوں کے خلاف اعلان جنگ کر رہے تھے. اسلام کے ساتھ اخلاص کا مظاہرہ درحقیقت قریش کے ساتھ اعلان جنگ تھا.
یہ سچ ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے مکہ میں اسلام قبول کیا تھا، انہیں بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا. حالانکہ ابھی تک حلال حرام خوراک کی وضاحت نہیں کی گئی تھی، اس وقت تک پانچ وقت نماز کا حکم بھی نہیں آیا تھا، ابھی تک سود کے قوانین کا نفاذ نہیں ہوا تھا، روزے کی فرضیت بھی نہیں تھی، ابھی تک پردے کے (لباس کے ) احکامات بھی نہیں آئے تھے. وہ ساری چیزیں جن کو آپ اسلام سمجھتے ہیں. مکہ میں ابھی تک ، ان میں سے کوئی بھی لازم نہ ہوئی تھی.  نہ پانچ وقت کی نماز، نہ روزہ، نہ عورتوں کیلئے لباس کی پابندی، اور نہ ہی ابھی شراب حرام ہوئی تھی، تو پھر قبول اسلام کے ساتھ وہ کس مشکل کا شکا ر ہوئے؟ انھوں نے ایک طرف تو رسول الله( صلى الله عليه وسلم)کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا، تو دوسری طرف دیگر قبائل کے ساتھ یہ غیراعلانیہ سرکشی کا قدم تھا۔
.
ان دنوں میں اسلام قبول کرنے کا مطلب تھا کہ آپ ایک ملٹری ( فوجی گروپ) میں شامل ہو رہے ہیں، آپ محض اسلام قبول نہیں کر رہے بلکہ آپ ایک تحریک کے رکن بن رہے ہیں. اب مسئلہ یہ تھا کہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ اس مذہب کامطلب ہے ایک الله پر ایمان، جس کا خوبصورت پیغام وحی کی صورت میں هے. متاثر کن الفاظ، جو پہلے کسی نے کبھی نہ سنےتھے، یہ سب ان لوگوں کے باطن کو متاثر کر رہا تھا، ان کے نفس کو متاثر کر رہا تھا۔
.
یہ ایسی چیز تھی جو ان کی روح میں اتر کر گونج رہی تھی. یہ ایک منطقی عہد وفاداری تھا، جو دلوں کو جوڑ رہا تھا، اب جبکہ انہوں نے دین اسلام قبول کرلیا تو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا پیغام آگیا.. جہاد کرنے کا پیغام آگیا.. ہجرت کا پیغام آگیا.. قریش جنگ بدر کے لیے نکل پڑے، اور اب انہیں ملٹری قائم کرنی تھی.
اس وقت رسول الله (صلى الله عليه وسلم) ان سب مسلمانوں سے فوج میں شامل ہونے کا کہتے ہیں جنہوں نے ابھی اسلام قبول کیا تھا، تو وہ (منافق )لوگ آگے سے منہ بناتے ہیں، کہ ہم تو نماز پڑھنے کیلئے آئے ہیں، ہم نماز پڑھنا چاہتے ہیں، ہم تلاوت کرنا چاہتے ہیں، کوئی کہتا میں تو اپنی تجوید درست کرنا چاہتا ہوں، لیکن جہاں تک یہ بدر کا معاملہ ہے، ہم اس کے لئے نہیں آئے، کوئی کہتا کہ میں تو کسان ہوں، میری لئے پہلے ہی پانچ نمازیں مشکل ہیں۔۔وغیرہ وغیرہ
آپ دیکھیں کہ بدر میں کل کتنی تلواریں تھیں؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان مجاہدین میں سے کتنے لوگوں کا فوجی پس منظر تھا؟
صرف ۳۱۳ کی ملیشیاء تھی، کوئی فوجی پس منظر نہ تھا. یہ لوگ بس ذہنی آمادگی کے ساتھ لڑنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے تھے. میں کہتا ہوں کہ یہ وہ لوگ تھے. جن کی روح تک میں اسلام اتر گیا تھا. انھوں نے اسلام کو پوری سچائی کے ساتھ قبول کر لیا تھا.
اور رہے منافقین، تو ان کو جب احساس ہوا کہ اسلام ہم سے بہت ساری قربانیاں چاہتا ہے، مالی اور جانی دونوں طرح سے، تو انھوں نے چند قدم پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا، کہ یہ سب ہمارے لئے نہیں ہے، یہ اچھی بات نہیں ہے. وہ سوچ رہے تھے کہ اسلام سے قبل یثرب میں زندگی نہایت آسان تھی، اب چیزیں مشکل ہوگئی ہیں،
اب ایسی کشمکش میں کون تھا جو ان لوگوں کو اکٹھا کرکے ان کے شک کو اور بڑھا رہا تھا؟
عبداللہ بن اُبئی
اس کےپاس منافقت کی سیاسی وجوہات تھیں. مگر وہ ان لوگوں کو شکار کرکے اپنے گرد اکٹھا کرنے لگ گیا. اس طریقے سے وہ لوگوں کا اعتماد جیتتا تھا.
اس طرح منافقین کے یہ دو گروہ ہوئے.
یہ ایمان کو کمزور کرتے ہیں. نفاق کو پھیلانے کا موجب ہیں.
دو گروہ اور ہیں جن کے بارے میں، میں بات کرنا چاہتا ہوں: ( اس سے قبل کہ ہم اگلی آیات کی طرف جائیں )
درحقیقت مدینہ کے یہود دو گروہوں میں بٹ گئے تھے: (عیسائیوں کا معاملہ الگ ہے )
ایک گروپ ربیوں (یہود کے علماء)کا تھا.
جنھوں نے رسول اللہ کو فوراً پہچان لیا تھا، اور جب انھوں نے پہچان لیا تو وہ خوفزدہ ہوگئے، آپ جانتے ہیں کہ وہ کیوں خوفزدہ ہوئے تھے؟ آپ اس منظر کو دیکھیں کہ جب یہ آیات تیزی سے ان کی طرف نازل ہورہی تھیں وہ اس کا سارا پس منظر پہلے سے جانتے تھے، ربی (تورات کے عالم ) وہ لوگ تھے جو لوگوں کو خطبہ دیتے تھے دینی اور مذہبی لیکچرز دیتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو فتویٰ بھی دیتے تھے. پس ہر وہ شخص جو یہود ازم کا پیروکار تھا. وہ ان کے پاس فتوی کیلئے، خطبہ کیلئے، مذہبی تعلیم کیلئے، غرض ہر بات کیلئے آتا تھا. اب اگر یہ ربی، رسول الله( صلى الله عليه وسلم) کو بحیثیت آخری پیغیمبر کے قبول کر لیتے تو کیا پھر وہ مزید فتاویٰ دے سکتے تھے؟ کیا اس کے بعد پھر کوئی شخص ان کا لیکچر سننے کنیسہ میں آتا؟
رسول الله (صلى الله عليه وسلم) کو ماننے کی صورت میں ان کی حیثیت ایک استاد سے بدل کر ایک شاگرد کی ہو جاتی اور شاگرد بھی کس کے؟
"رسول االله (صلي الله عليه وسلم) کے"
پھر انھیں اپنا منہ بھی بند رکھنا پڑتا کیونکہ یہ "سمعنا واطعنا" والا دین ہے. اب ذرا ایک نظر ان کی معاشرتی پروفائل پر ڈال لیں. اپنی کمیونٹی میں ان کی حیثیت ایک مذہبی عالم، ایک مفتی، ایک خطیب کی ہے. اسلام قبول کرنے کے بعد کیا ہوگا؟ ان کا ان سب حیثیتوں کے ساتھ جو کرئیر ہے وہ ختم ہو جائے گا. ان کی اہمیت ختم ہو کر رہ جائے گی. کسی بھی مذہب میں یہ مذہبی نفسیات ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو مذہبی طور پر نمایاں حیثیت کے حامل ہوں، جو لوگوں کو خطبہ دیتے ہوں، تعلیم دیتے ہوں، وہ متاثرکن حیثیت کے حامل ہوتے ہیں. یہ سیاست کے بہت قریب ہوتے ہیں. سیاست دان لوگوں کو متاثر کرتا ہے. یہی خاصیت مذہبی سکالر کی ہوتی ہے. جس کی وجہ سے کرپٹ مذہبی لوگ سیاست دانوں کے بہت قریب ہوتے ہیں. گویا کہ یہ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوتے ہیں. ان کا لوگوں پہ بہت اثر تھا، اور جب آپ کا کسی پہ اثر ہو تو آپ بلا جھجک ان سے پیسے بھی وصول کرلیتے ہیں. اور اگر وہ کرپٹ ہیں تو پیسہ ان کی جیب میں جاتا ہوگا. اس لیے وہ اس قسم کے فتاویٰ دیتے تھے جو لوگوں کے حسب منشاء ہوتے تھے. دین کو ایسے بدل دیں گے جیسا لوگوں کو پسند ہو.
اب جب آخری اور حقیقی پیغمبر آگئے. وہ جانتے تھے کہ اگر وہ ان کو قبول کر لیں گے. تو ان کے زیر سایہ سب لوگ بھی پیغمبر کو قبول کر لیں گے. اس کے نتیجے میں ان کا کاروبار بند ہو جائے گا. ان کا مذہب ان کیلئے ایک کاروبار ہی تھا. میں مدینہ کے یہود کا ذکر کر رہا ہوں. لیکن ہم اس کو صرف انھی تک ہی محدود نہیں کریں گے. بلکہ کسی بھی مذہب کے سکالر کی کرپشن اس کے مذہب کو بہت آسانی سے کاروبار ہی بنا دیتی ہے. اور آپ جانتے ہیں کہ کسی بھی کاروبار میں مقابلے کا رجحان ہوتا ہے. اگر آپ اس مقابلہ میں سب سے اوپر رہنا چاہتے ہیں. تو اس کیلئے صرف بہترین پراڈکٹ ہی ضروری نہیں. بلکہ آپکو اپنے کسٹمرز کو (اپنے ہاتھ میں رکھنے کیلئے) کبھی کبھی دوسرے لوگوں پہ بھی تنقید کرنی پڑتی ہے.. پھر آپ کے ليكچر میں یہ بات بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ دوسرے علماء کس طرح عوام کی غلط سمت میں رہنمائی کر رہے ہیں. کس طرح عوام کو بھٹکا رہے ہیں. یا یہ کہ وه گروہ راہ سے بھٹک گیا ہے اُن کی بات نہیں سننی چاہئے وغیرہ وغیرہ.
وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
اس لئے کہ وہ خوفزدہ ہیں کہ کہیں وہ اپنے کسٹمرز کھو نہ بیٹھیں.
اور کہیں ان کے کسٹمرز دوسری طرف نہ نکل جائیں. اسی لیے یہودی سکالرز نے اپنے خطبوں اور بحث ومباحث میں اس بات پرزور دینا شروع کردیا کہ "مسلمانوں سے بچ کر رہو، ان کی کوئی بات نہ سنو"
اب مدینہ کے یہود کی دوسری کیٹیگری ہے: مدینہ کا ہر یہودی ربی(عالم) نہ تھا جیسے ہر مسلمان عالم نہیں ہوتا اسی طرح یہود کمیونٹی کا ہر ممبر تورات کا عالم نہ تھا ان لوگوں کا اسلام کے بارے میں علم اپنے علماء کے خطبوں تک ہی محدود تھا وہ اسلام کو سنی سنائی باتوں کے ذریعے سے ہی جانتے تھے.
جیسے کہ آپ اسلام کے متعلق اتنا ہی جانتے ہیں جو کبھی خطبہ میں سن لیا ہو

مدینہ کے تمام یہود، تورات کے عالم نہیں تھے. ان کا مذہب اپنے علماء کے خطبات سننے تک محدود تھا. جیسا کہ مسلمانوں میں سے بہت سے لوگوں کا دینی علم اتنا ہی ہے جو انہوں نے خطبات میں اپنے علماء سے سنا ہے . تو جب ان یہود نے حضور صل اللہ علیہ والہ و السلام کو وعظ دیتے سنا، تو انہوں نے کہا کہ" یہی تو ہم نے بھی اپنے علماء سے سنا ہے. یہ واقعات اور یہ نشانیاں ظہور پذیر ہوں گی تو آخری نبی کا ظہور ہو گا. اور نبی صل اللہ علیہ والہ و السلام تو ان تمام نشانیوں پر پورا اترتے ہیں. اوہ خدایا! کیا یہ وہی آخری نبی ہیں..؟ اور انہوں نے حضور صل اللہ علیہ والہ و السلام کی محفل میں بیٹھنا شروع کیا، انہیں سنا اور وہ کہہ اٹھے " واہ! یہی تو ہمیں سکھایا تھا ہمارے علماء نے. یہ تو وہی آخری نبی ہیں. میں ابھی جا کر اپنے عالم کو مبارکباد دیتا ہوں، انہیں جا کے کہتا ہوں کہ جانتے ہیں میں کن سے مل کے آ رہا ہوں ؟ آخری نبی سے. "
لیکن وہ جب اپنے علماء کے پاس گئے اور کہا کہ" پتہ ہے ہم آخری نبی سے ملے. وہ وہی تعلیمات دے رہے ہیں جو آپ ہمیں سکھاتے رہے ہیں. آپ بارہا کہتے تھے کہ آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے. اور جو بھی نشانیاں آپ بتاتے تھے وہ سو فیصد ان پر پورا اترتے ہیں." تو ان کے علماء نے انہیں کیا جواب دیا.؟
أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْکُمْ لِيُحَاجُّوکُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّکُمْ أَ فَلا تَعْقِلُونَ
وہ علم جو اللہ نے تم پر کھولا اسے مسلمانوں سے بیان کرتے ہو، کہ اس سے تمہارے رب کے سامنے تمہیں پر حجت لائیں، کیاتم عقل نہیں رکھتے.
ان کے علماء نے کہا نہیں! مسلمانوں کے پاس مت جاؤ. ان سے بات بھی مت کرو. انہیں نہیں بتانا کہ رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام آخری نبی کی نشانیوں پر پورا اترتے ہیں. انہیں مت بتاؤ کہ یہی تعلیمات ہمارے علماء ہمیں دیتے رہے ہیں. اگر تم نے انہیں آخری نبی قبول کر لیا، تو تمہیں ان پر ایمان لانا ہو گا. پھر تمہیں جہاد میں بھی ان کا ساتھ دینا ہو گا. اور پھر اگر تم جنگ میں شریک ہو گئے تو مارے جا سکتے ہو. بہتری اسی میں ہے کہ تم کچھ کہو ہی نہ. ورنہ روز قیامت اللہ تعالٰی اسے تمہارے خلاف استعمال کریں گے. ایسا ظاہر کرو کہ تم کچھ جانتے ہی نہیں. ان کی طرف دوبارہ جانا ہی مت کیونکہ اگر تم نے دین اسلام قبول کر لیا تو تمہارے کندھوں پر نہایت بھاری ذمہ داری ڈال دی جائے گی.
اور جانتے ہیں آجکل بہت سے مسلمان ہیں جو کہتے ہیں "میں دینی تعلیم زیادہ حاصل نہیں کرنا چاہتا. کیونکہ اگر میرا دینی علم بڑھ گیا تو میرے دینی فرائض، میری ذمہ داری بھی بڑھ جائے گی. مجھ سے پوچھ گچھ زیادہ ہو گی . بہتر ہے کہ میں زیادہ پڑھوں ہی نہ، اور نہ ہی دینی علم حاصل کروں. بالکل یہی نصیحت یہودی علماء نے اپنے لوگوں کو کی. یہ دوسرا گروہ اصل میں مدینہ کے عام یہودی باشندوں میں سے تھا، انہوں نے جب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام کا پیغام سنا تو اسے اپنے علماء کی دی گئی تعلیمات سے ملتا جلتا پایا. وہ ایک دم سے اسے جھٹلا نہیں سکتے تھے، تو انہوں نے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ" سنو! ہم ایک ہیں، تم بھی اللہ پر ایمان لاتے ہو، ہم بھی اللہ پر ایمان رکھتے ہیں. تم آخرت پر یقین رکھتے ہو تو ہم بھی اسی قسم کے عقیدہ آخرت پر ایمان لاتے ہیں. ہم تو ایک خوش باش فیملی کی طرح ہیں. ہم میں اور تم میں بہت مماثلت ہے. ہم ایک فیملی ہیں، ہم سب جنتی ہیں. "
اور جانتے ہیں انہوں نے کیا چیز حذف کر دی.؟ کیا چھپا لیا؟ اللہ کے پیغمبر پر ایمان لانا. آخری نبی پر ایمان لانا. کیونکہ اگر وہ آخری نبی پر ایمان لے آئیں تو انہیں آپ صل اللہ علیہ والہ و السلام کے سارے احکامات ماننے ہوں گے. قربانی دینی ہو گی. تو بس نمایاں باتوں کو لے کر جو ہم میں، تم میں یکساں ہیں، ایک ایمان افروز کانفرنس منعقد کرتے ہیں مدینہ میں جس میں ہم غور کرتے ہیں کہ کون کون سی باتیں ہم میں اور آپ میں مشترک ہیں. اور ایک دوسرے سے راضی باضی رہتے ہیں. کیونکہ ہماری قوموں میں بہت مماثلت ہے. بس اتنا کافی ہے.
یہ بھی مدینہ میں منافقت کی ہی ایک قسم تھی. وہ ایمان کے ایک بنیادی عقیدہ کو حذف کرنے کی کوشش میں تھے. یہ آیات منکرین کے لیے ہی نہیں بلکہ منافقین کے لیے بھی تھیں. نہ صرف مدینہ کے یہود کے لیے بلکہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود ان منافقین کے لیے بھی جو سمجھتے تھے کہ جتنا وہ ایمان لائے، وہ ان کے لیے کافی ہے.
اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر ان آیات پر غور کریں.
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ
لوگوں میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے ہم ایمان لائے اللہ پر
وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ
اور ایمان لائے آخرت پر.
وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ
اور وہ مومن نہیں ہیں
وہ کسی طرح بھی مسلمانوں میں سے نہیں ہیں. وہ اہل ایمان میں شامل ہی نہیں ہیں.
یہ آیات نہایت وسیع ہیں . ہم ایک ایک کر کے اس کے تمام پہلوؤں پر تدبر کرتے ہیں.
پہلی بات یہ کہ کہا گیا وَمِنَ النَّاسِ. اللہ تعالٰی نے یہ نہیں کہا کہ ومن الذين آمنوا ، اللہ تعالٰی نے فرمایا وَمِنَ النَّاسِ. یہ الفاظ نہایت وسعت رکھتے ہیں. ان میں وہ منافقین بھی شامل ہیں جو ظاہری طور پر اسلام قبول کر چکے ہیں اور وہ لوگ بھی جو کھلے عام اپنی منافقت کا اظہار کرتے ہیں . یعنی وہ یہود جو آ کر آپ صل اللہ علیہ والہ و السلام سے کہتے ہیں کہ نہیں! ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے. ہم بھی اللہ پر ایمان لاتے ہیں. ہم آپ جیسے ہی ہیں. تو کہا گیا وَمِنَ النَّاسِ لوگوں میں سے کوئی ہے.
دوسری بات یہ کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا " مَنْ يَقُولُ ". عربی میں "من " اسم موصول مبح ہے. یعنی یہ دو معنوں میں استعمال ہو سکتا ہے. دوسرے لفظوں میں مَنْ يَقُولُ کے معنی ہیں لوگوں میں سے کوئی کہتا ہے یا لوگوں میں سے ایک گروہ کہتا ہے. اللہ تعالٰی نے یہ نہیں کہا کہ " الذی یقول " اگر الذی یقول کہا جاتا تو یہ کسی ایک کے لیے مختص ہو جاتا. یعنی اللہ تعالٰی نے ان منافقین کا پردہ رکھا ہے، اللہ تعالٰی نے انہیں ظاہر نہیں کیا. یہ اللہ عزوجل کی حکمت کا ثبوت ہے. قرآن میں کہیں بھی منافقین کا نام لے کر ان کی نشاندہی نہیں کی گئی. اللہ تعالٰی نے قرآن میں کفار کو نام لے کر نامزد کیا. تبت یدا ابی لہب. قرآن میں کافر کا نام ہے، فرعون کا نام ہے، لیکن قرآن میں کسی منافق کا نام شامل نہیں ہے. پتہ ہے اس میں کیا حکمت ہے ؟ اس میں نہایت زبردست حکمت ہے. یہ اللہ تعالٰی کا طریقہ ہے جو قیامت تک کے لیے ہے کوئی بھی مسلمان، کسی بھی دوسرے شخص کو، خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، منافق نامزد نہیں کر سکتا. مجھے کوئی حق ہے ہی نہیں کہ میں کسی کو منافق کہہ سکوں. اللہ تعالٰی نے فرمایا " فی قلوبھم مرض" ان کا مرض کہا تھا؟ دلوں میں. اور کون جھانک سکتا ہے کسی کے دل کے اندر ؟ کوئی بھی نہیں. آپ امراضِ دل کی ظاہری علامات دیکھ سکتے ہیں. مگر ان علامات کو دیکھ کر بھی آپ کی تشخیص غلط ہو سکتی ہے. کیونکہ جو دل میں ہے وہ یا تو اللہ جانتا ہے یا خود وہ شخص. مجھے کوئی حق ہے ہی نہیں، چاہے میں اپنی نظروں کے سامنے کچھ بھی دیکھوں، مجھے کوئی حق نہیں کسی کو منافق کہنے کا. اصل میں منافقت کے بارے میں آپ جو آیات پڑھیں ان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے ارد گرد لوگوں کو منافق نامزد کر دیں نہیں اس کا فائدہ صرف اور صرف یہ ہے کہ آپ شیشے میں اپنا عکس واضح طور پر دیکھ سکیں. بس یہی ایک مقصد ہے منافقت کے بارے میں تعلیمات دینے کا. تاکہ میں اور آپ شیشے میں اپنا عکس دیکھ سکیں کہ یہی مرض مجھے تو لاحق نہیں؟ جب رسول اللہ صل اللہ علیہ و السلام کہتے تھے کہ منافق کی یہ تین چار نشانیاں ہیں تو انہوں نے ہمیں یہ نشانیاں کیوں بتائیں؟ صرف اس لیے تاکہ ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ سکیں.

-نعمان علی خان
جاری ہے۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں