تدبرِ قرآن- سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) حصہ نہم

حصہ نہم


جب اللہ کہتے ہیں
 لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَم
ہم نے آدم کی اولاد کو عزت عطا کی.
ہاں مشرکوں کو ذلیل کیا گیا تھا. ہاں کفار سے قرآن میں نفرت کی گئی ہے. مگر سب کفار سے نہیں. اس دین کے سب سے برے دشمنوں سے کی گئی ہے. ہم ان کے سخت خلاف ہیں جنہوں نے اسلام کے لیے نفرت کا اظہار کیا اور زہر اگلا لیکن پھر بھی جس گھڑی وہ شہادت دیں (اللہ، اسلام کو مانیں) تو
 فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ

وہ شخص جو آپ کو دیکھنا پسند نہ کرتا تھا، جس لمحے اس نے شہادت دی، وہ آپ کا دینی بھائی بن جائے گا.
 میں کچھ سال پہلے پِیس کنوینشن پر تھا اور ایک سوئس سیاستدان جو رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلا کرتا تھا اس نے اسلام قبول کر لیا. میری اس سے ملاقات ہوئی. اور اب وہ اپنے بیٹے کو لے کر آیا تھا، اور اس کے بیٹے نے بھی وہی اسلام قبول کرلیا.
فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّين

 اور یہ وہی انسان ہے کہ جس کی یوٹیوب پر دو، تین سال پہلے کی وڈیوز دیکھیں تو ان (وڈیوز)  کے نیچے مسلمان اسے بد دعائیں دے رہے ہوتے تھے کہ  "اے اللہ اسے جہنم میں ڈال، اسے جلا دے وغیرہ"
 اور اللہ نے کیا کیا؟
 اللہ نے قبل اسلام کے عمر کو بعد از اسلام کا عمر بنادیا. یہ اللہ کی حکمت ہے.

*خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ
اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے.

لفظ خَتَمَ قرآن کے ان دو لفظوں میں سے ایک ہے جو لفظ مہر کے لیے استعمال ہوئے ہیں. دوسرا لفظ طَبَع ہے
َطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ
لفظ تطبع النھار کا مطلب ہے جب دریا خوب بھر جاتا ہے، مزید کی گنجائش نہیں رہتی. مثال کے طور پر، آپ کسی بوتل میں پانی بھرتے ہیں، اور وہ مکمل بھر جائے، اور پانی کی گنجائش نہ بچے تو اسے طبع کہتے ہیں.
 مکلمل بھرا ہوا ہونا. طبع بمنی الملاء او الامتلا مکمل بھرا ہونا.
لیکن لفظ ختم کا ایسا مطلب نہیں ہے. ختم بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے. ختم انگوٹھی پر مہر یا سٹامپ کے لیے استعمال ہوتا ہے. پرانے دور میں جب ای-میل، ٹائپبگ وغیرہ کا رواج نہ تھا تو لوگ خط لکھ کر لفافے میں ڈالتے تھے، اور اس لفافے پر پگھلی ہوئی مائع لگا کر اسے بند کیا کرتے تھے. اس طرح بند کرنے کو بھی ختم کہتے ہیں.. آپ خط کو تب تک بند نہیں کرتے جب تک وہ مکمل نہ لکھا گیا ہو. یعنی بھرا ہوا نہیں بلکہ کام کا مکمل ہوجانا. تو یہ سوچ ہےلفظ ختم کے پیچھے.
لفظ ختم کا لفظی مطلب ہے
الختم حقيقته السد على الإناء
اس لفظ کا اصل مطلب ہے ایک ڈبے پر ڈھکن رکھنا. جیسے آپ چاول ابال رہے ہیں اور جب وہ پک جاتے ہیں تو آپ اسے ٹھنڈا نہیں ہونے دینا چاہتے تو آپ اس پر ڈھکن رکھ دیتے ہیں اس کا اصل مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ بھرا ہوا ہے اس لیے آپ نے ڈھکن دے دیا بلکہ اس کا مطلب ہے کہ یہ پک چکا ہے. چاہے مکمل بھرا ہوا نہ ہو. پر جو کرنے والا کام تھا وہ ہو چکا تھااس لیے اس پر ڈھکن دے دیتے ہیں. یہی نظریہ ہے اس لفظ کا. جیسے اب آپ کو خط میں اور لکھنے کی ضرورت نہیں تو آپ اس کو بند کر دیتے ہیں.

تمثیلی طور پر ختم لفظ تب استعمال ہوتا ہے جب کام مکمل ہو چکا ہو مزید کی ضرورت نہ ہو. اللہ تعالی کہتا ہے
خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِم
اللہ نے ان کے دلوں پر تقریباﹰ ایک مہر لگا دی ہے.
  اس کا مطلب ہے کہ ان میں موجود اچھائی کا انہوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا. اور اب انہیں موقع فراہم کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں،جو کام تھا وہ مکمل ہوچکا ہے، وہ باز نہ آئیں گے.  اسلیے اللہ نے ان کے دلوں پہ مہر لگادی.

میں نے پچھلی آیت میں اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ لوگ ضدی تھے. یاد ہے؟  اللہ کسی کے دل پر مہر نہیں لگاتا جب تک وہ (دل،انسان) خود اپنا اڑیل پن نہ دکھا دیں. اللہ ایسے ہی فیصلے نہیں کرتا کہ فلاں کا دل مہر شدہ ہے، اللہ ایسے ہی جسے چاہے جنت یا جہنم میں نہیں پھینکتا . اصل میں لوگ ہی اپنے دلوں کے حال کے ذمہ دار ہیں، وہ ایسا رویہ ظاہر کرتے ہیں، اور پھر کہیں جا کر اللہ ایسا ہو جانے کی اجازت دیتا ہے.  محمد راتب النابلسي نے کہا، ایک گاڑی پٹرول پہ چلتی ہے، پر اگر آپ اس میں کھانے کا تیل ڈال دیں، اور نمک چینی ڈال کر کہیں کہ اللہ چاہتا ہی نہیں تھا کہ یہ چلے، تو مسئلہ آپ کے ساتھ ہے.
اس گاڑی کو چلانے کا ایک مخصوص طریقہ تھا، اگر آپ اس طریقے کے خلاف چلیں گے تو ظاہر ہے وہ کیسے چلے گی؟ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ نے نہیں چلائی. یہ آپ کی اپنی وجہ سے ہوا.
آپ کو شوگر اس لیے نہیں ہوئی کہ اللہ نے کسی فرشتے کو بھیج کر آپ کو اس کا انجیکشن لگوادیا تاکہ آپ کو شوگر ہو جائے بلکہ آپ نے خود پرہیز نہیں کیا. یہ آپ نے خود اپنے ساتھ کیا ہے. جب انسان اس دنیا میں جسمانی نتائج بھگتتا ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ایسا ہماری ہی وجہ سے ہے. کچھ چیزیں ہیں جو ہمارے قابو میں نہیں ہوتیں،مگر اکثر آپ کو جو آزار رسائیاں پہنچتی ہیں وہ آپ ہی کی وجہ سے ہوتی ہیں. لوگ خود اپنا کولیسٹرول نہیں چیک کرتے، صحت مند کھانا نہیں کھاتے، بیٹھے رہتے ہیں، ورزش نہیں کرتے اور پھر دل کا دورہ پڑتا ہے تو کہتے ہیں " قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ یہ اللہ ہے جو ہمارا امتحان لے رہا ہے."
 جاؤ بھائی جا کر واک کرو پھر اللہ کی قدر پر الزام ڈالنا.
دنیا کی زندگی میں کچھ اصول کارفرما ہیں، جیسے آپ دل کی پرواہ نہیں کرو گے تو اللہ اسے واپس لے لے گا، آپ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھو گے تو اللہ آپ کو بیمار پڑنے دے گا، یہی اصول روحانی دنیا میں بھی لاگو ہوتے ہیں.  جب آپ اللہ کو یاد کرنے کی کوشش نہیں کرتے، جب آپ اللہ کے اصولوں پر عمل نہیں کرتے، آپ اللہ کو بھلائے رکھتے ہیں تو اس سب کا انجام آپ کے دل پر ہی ہوگا.. ظاہر ہے پھر  اللہ اس پر مہر لگنے کی اجازت دے ہی دے گا..
آپ خود پرہیز نہیں کرتے، اپنا خیال نہیں رکھتے، اللہ کہ عطا کردہ نعمتوں کی پرواہ نہیں کرتے، تو پھر ظاہر ہے بیمار تو ہوں گے ہی.

اب دل کے متعلق کچھ بات کرتا ہیں..
دل میں کیا ہوتا ہے؟ ہم قرآن میں کیا سیکھتے ہیں کہ دلوں میں کون سے جذبات ہوتے ہیں؟ دل میں محبت ہوتی ہے. جب اللہ دلوں پر مہر لگا دیتا ہے تو ہم ان چیزوں سے محبت کرنے کے قابل نہیں رہتے جن سے کرنی چاہیے.
 جو چیزیں محبت کے قابل ہوتی ہیں ہم ان سے نفرت کرتے ہیں. بجائے ایمان والوں سے محبت کرنے کے ہم ان سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں. سچ سے محبت کرنے کی جگہ سچ سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں. انصاف کے لیے محبت کی جگہ انصاف سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں.
دل میں جذبہ رحم بھی ہوتا ہے پر جب دل پر مہر لگتی ہے تو رحمت نکل جاتی ہے. ایسے لوگ شدید ظالمانہ باتیں کہہ بھی سکتے ہیں اور ایسے کام کر بھی سکتے ہیں کیونکہ دل پر مہر جو لگ چکی ہے.
شکر گزاری کی جگہ بھی دل میں ہوتی ہے. پر پھر شکر بھی دل سے نکل جاتا ہے. اور جب دل مہر یافتہ ہوتا ہے تو ایسے لوگ شکرگزاری محسوس نہیں کرتے. وہ کسی کا شکر ادا کرنا ضروری نہیں سمجھتے اور خود کو ہر چیز کے لائق سمجھتے ہیں. دل میں خوف بھی ہوتا ہے. اور جب دل مہر یافتہ ہو تو نہ  وہ کوئی غلط کام کرتے ڈرتے ہیں نہ ہی  اپنے  کسی عمل کے انجام سے ڈرتے ہیں.
امید کی جگہ بھی دل میں ہوتی ہے. ایسے لوگ جو بالکل مایوس ہوتے ہیں انہیں آخرت کی کوئی امید نہیں ہوتی، کسی اور سے اچھائی کی بھی امید نہیں ہوتی، وہ اپنے لیے بھی کسی اچھائی کی امید نہیں رکھتے. وہ بس ہر چیز کو فانی سمجھتے ہیں کہ جو مرضی کرنا ہے کرو جیسے بھی کرو کیونکہ زندگی تو ہے ہی بے کار. ان کی سوچ ایسی ہوتی ہے.
شرمندگی کا احساس بھی دل میں ہوتا ہے کیونکہ جب آپ کچھ غلط کرتے ہیں تو آپ کو برا محسوس ہوتا ہے کیونکہ اللہ نے آپ کے اندر فطری طور پر نفس لوامہ رکھا ہے. مگر جب دل پر مہر ہو تو آپ سب سے گھٹیا عمل کر کے بھی اس پر فخر محسوس کرتے ہیں.
َزَﯾﱠﻦَ ﻟَﮭُﻢُ اﻟﺸﱠﯿْﻄَﺎنُ أَﻋْﻤَﺎﻟَﮭُﻢْ
ایسا تب ہوتا ہے جب دلوں پر مہر ہو. شیطان ان کے کاموں کو ان کے لیے سجادیتا ہے.
 جو کچھ اللہ نے ان کے لیے بدصورت بنایا ہوتا ہے،وہ لوگ اپنے لیے اسے خوبصورت بنالیتے ہیں. دل میں ذمہ داری کا احساس بھی ہوتا ہے. آپ اپنے ہمسائے، بچوں، ازواج، والدین کے لیے خود کو زمہ دار محسوس کرتے ہیں. جب دل مہر یافتہ ہو تو کسی زمہ داری کا احساس نہیں رہتا.
میرے نزدیک دل میں سب سے اہم جگہ عزت کی ہوتی ہے. اللہ عزوجل نے لوگوں کو باوقار بنایا ہے. عزت کی جگہ دل میں ہے جیسے آپ اپنے لیے اور اپنے آس پاس موجود لوگوں کی عزت کرتے ہیں، مگر جب میر لگ جائے تو نہ انسان اپنی عزت کرتا ہے نہ کسی اور کی.
لوگوں کے دلوں پر مہر لگ جانا کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں ہے. یہ بہت بڑی بات ہے. جو نیک عمل دل کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے وہ باقی نہیں رہتا. سب کھو جاتا ہے. ہماری فطرت کھو جاتی ہے. اور ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے.
اب آپ تسلسل پر دھیان دیں.
عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ ۖ
اس نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی سماعت پر بھی.
دل چونکہ پہلے ہی مہر یافتہ تھے اس لیے انہیں کچھ سننے یا نہ سننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا.. کیونکہ جو کچھ بھی وہ سنیں گے اب اس کا اثر دل پہ نہیں ہوگا. کیونکہ جب لوگوں کے دلوں پر مہر ہو اور وہ کچھ اچھا سنیں تو انہیں زحمت لگتی ہے کیونکہ وہ  نیک پیغام اس مہر کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے. وہ کہتے ہیں "رکو، کیا ہم چینل بدل لیں؟چلو کچھ اور سنتے ہیں، کیا ہم موضوع بدل لیں؟ ہم یہ نہیں سن سکتے."
 اللہ نے ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے. وہ خواہ بہت ہی اعلی مجلس میں بیٹھے ہوں جہاں اللہ کا ذکر ہورہا ہو، جہاں اللہ کی محبت، رحمت، اور امید کے لیے لوگ رو رہے ہوں، مگر ان لوگوں کو فرق نہیں پڑتا وہ کہتے ہیں ہم یہاں کیا کر رہے ہیں، ہم کب یہاں سے جائیں گے؟ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی. کیونکہ کانوں کا براہ راست تعلق دل سے ہوتا ہے.
 یہ الفاظ آیت میں آگے پیچھے رکھے گئے ہیں. دلوں پر مہر ہو تو کوئی تعجب نہیں کہ کانوں پر بھی مہر ہے.
اور پھر اللہ کہتا ہے
وَعَلَى أَبْصَارِهِم غِشَاوَةٌ
اور آخرکار ان کی آنکھوں پر پردہ ہے.
اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اندھے ہیں. اللہ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال یا ہے.
 سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ جب وہ سچائی، رہنمائی کو دیکھنے سے انکاری ہوتے ہیں جب وہ اپنے ارد گرد دنیا دیکھنے سے انکاری ہوتے ہیں ، یہ خوبصورت آنکھیں جو اللہ نے ہمیں دیں ہیں اس لیے کہ ہم اللہ کی تخلیق کو دیکھیں اور سوچیں. جب آپ اس صلاحیت کو استعمال کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو اللہ آپ کو دنیا تو دیکھنے دیتا ہے مگر اس میں جو رہنمائی ہے وہ نہیں. تمام مخلوقات جو اس نے ہمارے گرد پیدا کیں ہیں اللہ کہتا ہے فيهِ آياتٌ، إنَّ في ذَلكَ لَآيَاتٍ ان میں نشانیاں ہیں. درخت، آسمان ،پرندوں میں نشانی ہے. پر جب آنکھوں پر پردہ ہو تو آپ پرندہ، آسمان، درخت تو دیکھیں گے پر کوئی نشانی نہیں.  یہ ایسا ہی ہے کہ جیسےآپ دروازہ تو دیکھیں پر یہ نا دیکھیں کہ دروازے کے پیچھے کیا ہے. یہ آپ کی نظروں سے اوجھل ہے. یہ ہوا مطلب عَلَى أَبْصَارِهِم غِشَاوَة کا.
کچھ لوگ بحث کرتے ہیں کہ یہ آیت اصل میں قیامت کے مناظر میں سے ہے. کچھ بحث کرتے ہیں یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب لوگ قیامت کی دن اٹھائے جائیں گے ان کے دل مہر یافتہ ہوں گے، ان کے کان کام نہیں کر رہے ہوں گے اور ان کی آنکھیں اندھی ہوں گی کیونکہ قرآن میں اور جگہوں پر بھی اللہ نے فرمایا کے لوگ اندھے اٹھاۓ جائیں گے.
وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا
(انسان کہے گا) آپ نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا میں تو دیکھ سکتا تھا. وہ قیامت کے دن (یہ) شکایت کریں گے.
پر زیادہ غالب گمان یہ ہے کہ یہ (آیت)اس دنیا کی طرف ہی اشارہ کر رہی ہے.
اب یہاں ایک بات بہت دلچسپ ہے، تین چیزوں کا ذکر ہوا ہے، دل، کان، اور آنکھیں.
دلوں پر مہر ہے،  سماعت پر مہر ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے.
 لیکن سمع ہی کو بس واحد صیغہ میں بتایا گیا ہے. آنکھیں جمع کا صیغہ ہے ،دل بھی جمع کا صیغہ ہے مگر سماعت ہی بس واحد صیغہ میں ہے. اسے ایک مثال سے سمجھاتا ہوں..  
 مثال کے طور پر آپ سب میری طرف  دیکھ رہے ہیں، آپ سب الگ الگ جگہوں پر بیٹھے ہیں، آپ سب کے سوچنے کا انداز الگ ہے، ہر کوئی ایک دوسرے سے الگ دیکھتا ہے. ہر کسی کا اپنا سوچنے کا انداز ہے. تو یہ ایک سوچ ہی نہیں مختلف سوچوں کے انداز ہیں. ہمارے دل ایک ہی حالت میں ہیں یا الگ حالتوں میں؟ الگ حالتوں میں.
 کیونکہ دیکھنے کے انداز بھی الگ اور دلوں کی حالتیں بھی الگ ہیں. کچھ دل بہت شوق سے سننا چاہتے ہیں کچھ بالکل بھی نہیں. کچھ دل متوجہ ہیں کچھ نہیں. ہر طرح کے تغیرات ہیں. مگر جب بات سننے کی ہوتی ہے تو ہمارے کان ایک جیسا ہی سن رہے ہوتے ہیں. جو آوازیں ہم تک الگ الگ آتی ہیں وہ دراصل ایک جیسی آوازیں ہی ہوتی ہیں. ہم سب سنتے ہوئے مکمل اتحاد میں ہوتے ہیں. اصل میں یہ قرآن کا اثر/طاقت ہے. یہ سب کی طرف رہنمائی کے لیے آتا ہے خواہ ان کے  نظریے مختلف ہی کیوں نہ ہوں یا ان کے دل کسی بھی حالت میں ہوں مگر پیغام ایک ہی ہے.  اور یہ کس طرح لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے وہ مختلف ہوتا ہے.  بالکل جیسے بارش ایک ہی ہوتی ہے مگر ہر جگہ مختلف چیزیں اگاتی ہے.  یہ ایک ہی پانی ہوتا ہے مگر اس سے مختلف مخلوقات پیدائش پاتی ہیں. سب لوگ ایک ہی بات سنتے ہیں مگر اثر الگ ہوتا ہے. آپ سب جو یہاں بیٹھے درس سن رہے ہیں اگر آپ ان آیات پر غور کر رہے ہیں تو اس کا اثر یہاں بیٹھے ہر شخص پر مختلف ہوگا.
پیغام وہی ہے مگر اثر سب پر مختلف ہے.
یہی قرآن کی خوبصورت عکاسی ہے.

وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے(ان کے انتظار میں).
اللہ لوگوں کو سزا دینا پسند نہیں کرتا. میں اس کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ اللہ پاک سزا دینا بالکل پسند نہیں کرتا.
 مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ
اللہ کو آپ کو سزا دینے سے کیا مل جائے گا؟

اللہ نے انسانیت اس لیے تخلیق کی کہ وہ ان پر رحمت کر سکے. مگر برے اور بد بخت لوگ واقعی بڑی سزا کے مستحق ہیں. اور سزاؤں میں سب سے بڑا عذاب اسی آیت میں بتایا گیا ہے. جب آپ کا دل مہر یافتہ ہو جائے اس سے بڑی کوئی سزا نہیں. جب آپ کے کان قرآن سے فائدہ نہ حاصل کر سکیں تو اس سے بڑی کوئی سزا نہیں. اور میں یہ بھی کہوں گا کہ یہ آیت اصل میں جن لوگوں نے پہلی بار سنی ان کے پاس نہ صرف اپنے دلوں کو اور کانوں کو  پاک کرنے کا موقع ملا تھا بلکہ انہیں اپنی آنکھوں سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا موقع بھی ملا تھا اور وہ پھر بھی اندھے رہے.  وہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو دیکھ بھی سکتے تھے پھر بھی ان کی آنکھوں پر پردہ تھا اس سے بڑا نقصان کیا ہو گا؟
اللہ پاک ہمیں ایسے نقصان سے بچائے.
آمین..
اب ہم ایک ایسی کیٹگری کے متلعق پڑھیں گے، جنہیں پڑھیں گے تو لگے گا کہ یہ متقین اور کافروں کے درمیان کوئی گروہ ہے مگر اللہ کے مطابق یہ کافروں کی ہی ایک کیٹگری ہے جنہیں ہم "منافق" کہتے ہیں. منافق، جو کہتا کچھ، اور کرتا کچھ اور ہے.
پچھلے دو گروہ کی ہر بات واضح تھی. جو ایمان لایا اس کا ایمان واضح تھا، اور جس نے کفر کیا، اس کا کفر بھی واضح تھا. کیونکہ وہ اپنے ایمان یا کفر کا صاف مظاہرہ کرتے تھے.
مگر یہ کیٹگری جن کے متعلق اب ہم پڑھیں گے، پیچیدہ ہے.

اگر ہم پچھلی آیات میں دیکھیں تو ایمان لانے والوں اور کفر کرنے والوں کے متعلق چند ہی آیات میں بتادیا گیا تھا. ان کا کیس چند ہی آیات میں واضح کردیا گیا پر جب ہم منافقون کے متعلق پڑھیں گے تو دیکھیں گے کہ ان کے لیے کافی آیات نازل ہوئیں، اور کافی پیچیدہ مثالوں سے اس گروہ کے متعلق سمجھایا گیا.  کیونکہ یہ ایک بہت ہی پچیدہ گروہ ہے.
اللہ نے بھی قرآن میں  ان کے متعلق بہت پیچیدگی سے بیان کیا کیونکہ پہلی بات تو یہ گروہ ہے ہی پیچیدہ، اور دوسری بات اس گروہ کے لوگوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے. نا وہ ایک طرف ہیں، نہ دوسری طرف، کہیں درمیان میں تذبذب کا شکار ہیں. ان کے لیے کوئی دن اچھا ہوتا ہے اور کوئی بُرا، ان میں اُتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے.
یہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی مریض ہے جو کچھ دن تو صحت یاب نظر آتا ہے، مگر پھر اگلے دن اس کی ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے بستر سے بھی اُٹھ نہیں پاتا. اور اس کی اس حالت کا معائنہ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے.

ان آیات پہ بات کرنے سے پہلے میں "نفاق" کے ایک  منظر کے بارے میں بتانا چاہوں گا. کیونکہ اللہ نے یہ لفظ بہت خاص جگہوں پے، خاص حالات میں کسی کے لیے استعمال کیا اور آج ہم مسلمان بہت ہی آرام سے کسی کو بھی منافق کہہ دیتے ہیں. جبکہ یہ ایک بہت سنگین اصطلاح ہے.
ہم آج منافقت پر خطبہ سن رہے ہوتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں چل رہا ہوتا ہے "ہاں! میرا وہ فلاں کزن، وہ سچ میں ایک منافق ہے"
ہم فوراً سے دوسروں کو لیبل کرنے لگ جاتے ہیں.
قرآن میں ایسا کوئی گروہ نہیں جس کے لیے سخت عذاب کا ذکر کیا گیا ہو سوائے اس گروہ کے.
"منافق جہنم کے سب سے نچلے حصے میں ہوں گے" اور جتنا نیچے ہوگا اتنا بدترین عذاب ہوگا..اور سب سے نچلا حصہ منافقین کے لیے رکھا گیا ہے.
سو جب ہم کسی کو ایسے ہی منافق کہہ دیتے ہیں وہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہوتی. وہ کسی کو کافر کہنے سے بھی بدترین ہے.

اب ایک اور بات کا فرق جاننا بہت بہت ضروری ہے.
وہ شخص جس کا ایمان کمزور ہے، وہ خود کو بہتر کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، مگر کچھ گناہ سرزد ہوجاتے ہیں، اس شخص میں اور منافق میں فرق ہے. یہ دونوں الگ مسائل ہیں..

دوسری بات جو میں کرونگا وہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے وقت نفاق، اور آج ہمارے وقت کے نفاق کا موازنہ ہے.
اس بات کو میں کچھ ایسے سمجھاتا ہوں،
کیا آپ اپنے ایمان، یا میرے ایمان کا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان سے موازنہ کرسکتے ہیں؟
نہیں! ہمارا اور ان کا کوئی موازنہ نہیں ہے.
جو قربانیاں حضرت عمر، علی، عثمان، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے دیں، جنہوں نے اپنی زندگی قرآن کے مطابق گزاری، جن حالات کا سامنا انہوں نے کیا، جس طرح انہوں نے زندگی گزاری ہم گمان بھی نہیں کرسکتے. وہ بہترین جنریشن تھی، وہ بہترین لوگ تھے.
بالکل ویسا ہی کفار کے لیے بھی ہے. جیسے ابو لہب، ابو جہل، یا پھر فرعون. ہمیں اب دوبارہ کوئی فرعون نہیں ملے گا. کچھ لوگ ہوں گے جو اس کے قریب ترین ہوں گے، مگر وہ بھی فرعون جیسے نہیں ہوں گے.
سو بُرے لوگ ہوں گے، مگر پچھلے کفار جیسے نہیں ہوں گے، کہ ان کے لیے پوری سورہ نازل ہو. جیسے ابو لھب کے لیے ہوئی. اب ایسا نہیں ہوگا.
تو اُس وقت کے بدترین بھی ہمارے وقت سے زیادہ بدترین ہیں. دونوں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا.
 ویسے ہی، اُن کے منافقین اب آنے والے منافقین سے بدتر ہیں.  کیونکہ ان کے حالات ہمارے حالات سے بالکل مختلف ہیں.
اللہ نے انہیں نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم سے براہ راست تعلیم لینے کا موقع فراہم کیا، یہ ہی نہیں بلکہ  وہ بہترین جنریش کی کمپنی میں تھے، انہوں اس سے  بھی فائدہ نہیں حاصل کیا.
آپ اور میں قرآن کو کتاب کی طرح پڑھتے ہیں. انہوں نے قرآن پڑھا نہیں تھا بلکہ "سُنا" تھا. اور وہ بھی اللہ کے رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کی آواز میں.
یہ ایسے ہے جیسے دو الگ سیارے ہوں.
میں یہ نہیں کہہ رہا کے نفاق ختم ہوگیا، یہ جاری رہا، مگر اُس لیول کا نہیں جو اُس زمانے میں تھا.

سو جب آپ بغیر صحیح علم کے آیت کو دیکھتے ہوئے کسی پر منافق کا لیبل لگاتے ہیں یہ اس ڈگری سے لاگو نہیں ہوتا. ہمیں ایسے معاملات میں دھیان کرنا چاہیے.

تیسری بات،
اللہ تعالی نے کوشش کی ہے کہ منافقوں کو راز رکھا جائے. یہاں تک کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے بھرپور کوشش کی کہ ان (منافقوں) کا نام نہ لیا جائے. ان کے نام راز رکھے.
بدترین منافق، عبدللہ ابن اُبئی، کے متعلق ہر کوئی جانتا تھا. ہر کسی کو معلوم تھا کہ وہ نہ صرف منافق ہے بلکہ سب سے بڑا دشمن ہے.
وہ خود کو مسلمان کہتا تھا، مسلمانوں کی صفوں میں حصہ لیتا تھا.
یہ مدینہ کا شہری تھا. اور مدینہ کے دو قبیلے تھے. اوس اور خزرج. خزرج اوس سے بڑا تھا، اوس کے آٹھ کاؤنٹیر تھے، اور دوسرے کے چار. کُل ملا کر بارہ. عبدللہ بن اُبئی خزرج سے تھا، اور سب سے بڑے کاؤنٹیر کا گورنر تھا. یعنی سب سے بڑے قبیلے میں سب سے بڑے کاؤنٹیر کا. یہ اسلام سے قبل کا واقعہ ہے، مدینہ کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ہم دونوں قبیلوں کو ملا کر، کاؤنٹیر کو متحد کر کے ایک شہر "یثرب" بنالیں. اور اس کا ایک بادشاہ مقرر کریں.
سو اب وہ بادشاہ کے لیے لوگوں کو منتخب کرنے لگ گئے اور فیصلہ ہوا کہ سب سے بڑے کاؤنٹیر کے گورنر کو ہی بادشاہ بننا چاہیے. اور وہ عبدللہ بن اُبئی تھا. اب وہ لوگ اپنے بادشاہ یعنی عبدللہ بن اُبئی کے لیے ایک تخت بنانے لگ گئے، اور ایک تقریب منعقد کی گئی اپنے پہلے بادشاہ کی مقرری کی خوشی میں. اور افتتاح کے لیے..یہ مدینہ کے حالات تھے.  کچھ ہی دنوں کے بعد عبدللہ بن اُبئ نے بادشاہ ہونے کا حلف اُٹھانا تھا،مگر اس سے قبل رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ میں تشریف لے آئے. اور ان کی آمد سے یہ ساری تقریب، یہ بادشاہ کی مقرری ختم ہوگئی، سیاسی کیمپین کا اختتام ہوگیا، کیونکہ اب مدینہ کے متفقہ گورنر رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم تھے. عبدللہ بن اُبئی کا تمام سیاسی کریئر منٹوں میں ختم ہوگیا.
اور جب کوئی جیت کر ہار جائے تو بہت صدمہ پہنچتا ہے انسان کو، اور جس شخص کی وجہ سے یہ ہوتا ہے، ظاہر ہے پھر آپ اسے بھی ناپسند کرنے لگ جاتے ہیں.
اب اس کے پاس دو اختیارات تھے،
پہلا، کہ وہ ان کا کھلا دشمن بن جائے، اپنی پارٹی تخلیق کرے اور ان سے مقابلہ کرے.
مگر اس نے سوچا کہ پہلے اکثریت میرے ساتھ تھی، مگر اب ایسا نہیں ہے. اب اکثریت رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہے سو ان کی مخالفت کرنا ایک ہاری ہوئی جنگ لڑنا ہوگا.
اگر میں ان کے خلاف ہوجاؤں گا تو میں کبھی بھی نہیں جیتنے والا.
سو جب آپ انہیں ہرا نہیں سکتے، آپ انہیں جوائن کرلیتے ہو.
یہی کام اس نے کیا. اس نے اسلام قبول کرلیا کیونکہ یہ واحد طریقہ تھا جیتی ہوئی پارٹی کے قریب رہنے کا..وہ اس امید میں تھا کہ اگر میں ایوان صدر نہیں بن سکا تو شاید میں نائب صدر منتخب کرلیا جاوں.
مگر مسئلہ یہ تھا کہ رسول اللہ کے قریب وہ لوگ تھے جنہوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں تھیں. جیسا کہ ابو بکر،عمر رضی اللہ عنہ. آج بھی عرب میں یہ اصول ہے کہ کسی خطے کے بادشاہ کا تعلق اسی خطے سے ہونا چاہیے مگر نا صرف رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم مکہ سے تھے بلکہ ان کے قریبی لوگ بھی مہاجر تھے. اب مدینہ کی صدارت مہاجروں کے ہاتھ میں تھی..اور وہ خود کو ان کے درمیان ملانے کی کوشش کررہا تھا مگر ادھر اسے جگہ ہی نہیں ملتی تھی. کیونکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے قریب ہونے کا طریقہ تھا زیادہ سے زیادہ قربانی، آپ کو پہلے خود کو ثابت کرنا پڑتا تھا.
سو وہ کیا کیا کرتا تھا کہ وہ ہر نماز کے لیے سب سے پہلے، وقت سے پہلے پہنچ جاتا، اور ہر نماز میں پہلی صف میں موجود ہوتا، خاص طور پر فجر کے وقت، اور اگر کبھی رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کوئی اعلان فرمانے لگتے تو وہ ان سے پہلے فوراً کھڑا ہوجاتا اور کہتا "لوگوں! دھیان سے سنو، رسول اللہ فرمانے لگے ہیں".

-نعمان علی خان

جاری ہے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں