حصہ ششم
آگے جانے سے پہلے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے (ینفقون) پر میں اور بھی تفصیل میں جانا چاہتا ہوں.
ایک پرانی مثال ہے مگر آج کے دور میں بھی مفید ہے:
بچے بہت خود غرض ہوتے ہیں. میری بیٹی حسنہ چاکلیٹ کی بہت شوقین ہے. میں چاکلیٹ کھا رہا تھا، وہ مجھے دیکھ رہی تھی. مجھ سے کہنے لگی.
ابا کیا مجھے مل سکتی ہے؟؟
میں نےکہا: نہیں.
ابا کیا تھوڑی سی بھی نہیں ؟
اس پر میں نے اس کو دے دی اور کہا کہ صرف دس سیکنڈز کیلئے. اس کے بعد تم اسے مجھے واپس کر دوگی. اس نے چاکلیٹ پکڑی اور تیزی سے کھانا شروع کردی. وہ اس کو ختم کرنے کی کوشش میں تھی.
۱۰ سیکنڈ بعد چاکلیٹ ختم نا ہوئی سو میں نے اس سے واپس مانگی. تو پتا ہے اس نے کیا کیا؟
اس نے کہا 'یہ میری ہے.' اور یہ کہہ کر بھاگ گئی.
اسی طرح جب آپ کے بچے کسی کے گھر جاتے ہیں یا کوئی آپ کے گھر آئے، تو کیا کرتے ہیں؟
بچے کبھی بھی اپنے کھلونوں سے نہیں کھیلتے. صرف اسی وقت کھیلتے ہیں، جب کسی دوسرے کے بچے آپ کے گھر آئے ہوئے ہوں. تب وہ کہتے ہیں کہ یہ میرا کھلونا ہے، یہ میرا ہے. جیسے ہی مہمان بچے چلے جائیں،تو کھلونا وہ پھینکا اور یہ جا وہ جا.
مہمان بچے منتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ کیا مجھے کھیلنے کی باری مل سکتی ہے؟
کیا میں ایک دفعہ اس سے کھیل سکتا ہوں؟
آخر کار میزبان بچہ اس کو وہ کھلونا بہت برے انداز میں عنائیت کر دیتا ہے.
اب وہ بچہ تھوڑی دیر ہی اس سے کھیل پاتا ہے کہ گھر جانے کا وقت ہو جاتا ہے،تو جس بچے نے کھلونا (کھیلنے کیلئے) ادھار لیا ہوتا ہے،،،کیا وہ آسانی سے واپس کر دیتا ہے؟ کیا آسانی سے گھر چلا جاتا ہے؟
نہیں ،ہرگز نہیں.. وہ کھلونا دینے سے منع کردیتا ہے یہاں تک کہ میزبان بچے کی ماں آ کر کہتی ہے کہ چلو تم لے جاؤ.
یہاں اب بچوں سے تھوڑا آگے آئیں.
یہ انسانی نفسیات ہے، جب ہمیں وہ چیزیں دی جائیں جو ہماری نہ ہوں تو ہم بہت جلدی بھول جاتے ہیں کہ یہ ہماری چیز نہیں ہے. ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ہمیں دی گئی ہے اور یہ سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ ہماری ہی ہے. اور ہم اسکو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں. جب کوئی مانگے تو ہم کہتے ہیں نہیں نہیں یہ ہماری ہے.
اب اللہ عزوجل کیا کہہ رہے ہیں؟ اللہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ"۔۔ینفقون۔۔"وہ خرچ کرتے ہیں".
لیکن اللہ کہتے ہیں.
"مما رزقنا ھم ینفقون"۔۔وہ خرچ کرتے ہیں اس میں سے ،جو ہم ان نے ان کو دیا ہے۔"
ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہمارا کچھ بھی نہیں ہے. بینک میں پیسے ہمارے نہیں ہیں، کار جس کو ہم چلا رہے ہیں ،وہ ہماری نہیں ہے، ہم ہر وقت کہتے ہیں میری قمیض، میری کار، میرا والٹ، میرا اکاؤنٹ، میرا گھر. ہم لفظ 'میرا' اتنا زیادہ استعمال کرتے ہیں کہ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ اللہ کی ملکیت ہیں. میرا جسم، میری آنکھیں، میرے کان، میری ناک سب اللہ کا دیا ہوا ہے.
"انا لله وانا اليه راجعون"
هم سب سارے کے سارے اللہ کے ہیں. اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں. ہم کس طرح اپنی جائیداد کی بات کر سکتے ہیں جب ہمارا جسم ہی اللہ کی پراپرٹی ہے. ہماری جائیداد دراصل اللہ کی جائیداد کی ہی ایکسٹینشن ہے. اسی لئے یہاں اس بات کی خصوصی تلقین کی گئی ہے.
"مما رزقنا ھم ینفقون۔"
جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا ہے.
گرائمر کے طالب علموں کی دلچسپی کی بات ہے کہ اس آیت میں صرف 'رزقنا' ہی فعل ماضی ہے.
باقی سب فعل حال ہے. ایمان لانا. نماز قائم کرنا،اور خرچ کرنا.
جبکہ صرف "رزقنا" (ہم نے دیا) فعل ماضی ہے. رزق فعل حال یا فعل مستقبل کے ساتھ نہیں ہے.
اللہ نے یہ نہیں کہا کہ مما نرزقھم ینفقون کہ میں تم کو دوں گا تو تم خرچ کرنا.
تو اسکا یہ مطلب ہے کہ آپ نے اللہ کی طرف سے آئیندہ زندگی میں دینے کا انتظار نہیں کرنا کہ اللہ آپکو دے گا تو پھر آپ خرچ کریں گے. نہیں ہر گز نہیں.
کچھ لوگ کہتے ہیں ناں کہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں جب اللہ مجھے دے گا تب کروں گا.
وہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے رزق تو دیا ہوا ہے اسی میں سے خرچ کرنا ہے.
یہ خرچ کرنے کی بات اللہ ہر ایک انسان سے کہہ رہے ہیں کہ میں نے تمہیں دیا ہے خرچ کرنے کیلیے. اگر تمہارے پاس دو دن ہے تو اس میں سے ایک مجھے دو. اگر ایک سیب ہے تو اسکا ایک ٹکڑا مجھے دو. اگر تمہارے پاس توانائی ہے تو اسکو میرے لیے خرچ کرو. اگر ٹیلنٹ ہے تو مجھے دو. ہر انسان کو کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے. اگر کچھ نہ دیا ہوتا تو آپ آج اس دنیا میں سانس نہ لے رہے ہوتے. اللہ نے یہ آیت صرف ارب پتی لوگوں کے لیے نہیں اتاری. اسکو اس بات کی پرواہ نہیں کہ آپ کتنا خرچ کرتے ہیں. اسکو بس یہ دیکھنا ہے کہ آپ کیسا خرچ کرتے ہیں. جو خرچ کررہے ہیں اسکا معیار اسکی کوالٹی دیکھی جاتی ہے مقدار نہیں. اس سے فرق نہیں پڑتا کوئی بیس ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے یا بس دو ڈالر خرچ کرتا ہے. ہوسکتا ہے جس نے بیس ہزار دیے ہوں اسکے پاس بیس لاکھ ہوں. اور جس نے دو ڈالر دیے ہوں اس کے پاس بس دس ڈالر ہوں. تو دیکھیں وہ دو ڈالر زیادہ قیمتی ہوئے نا. ہم کہتے ہیں اوہ واؤ بیس ہزار کا چیک. اور دو ڈالر کوئی خیرات دے تو اس سے اتنے خوش نہیں ہوتے. لیکن ان دو ڈالرز میں بیس ہزار سے زیادہ برکت ہوسکتی ہے اس نیت اور قربانی کی وجہ سے جو اس کے دینے والے کی ہے.
اللہ عزوجل قرآن میں فرماتے ہیں۔۔سورہ التوبہ 41
"انفرو خفافا وثقالا"
آگے بڑھئیے کم یا زیادہ جو بھی ہے خرچ کریں. اپنے آپ کو کبھی بھی انڈرایسٹیمیٹ نہ کریں کہ آپ نے کم دیا.
مثال کے طور پر چھوٹے بچے سکے جمع کرنے کے شوقین ہوتے ہیں. ان کے پاس پیسے ہوتے ہیں. اور یہی پیسے وہ صدقہ باکس میں ڈال دیتے ہیں. آپ کے لیے شاید یہ سکے اتنے اہم نہ ہوں. بعد میں جو چندہ باکس کھولتے ہیں وہ بھی سوچتے ہوں یہ ایک دو روپے کے سکے کس نے ڈالے. لیکن جس نے یہ چند سکے دیے ہیں اس کے لیے تو یہ سکے اہم تھے ناں. اس کی جمع پونجی تھی یہ. اور اس نے اپنی جمع پونجی اللہ کو دے دی.
سو اپنے صدقہ کو کم نا سمجھیں. یہی ہے مما رزقنھم ینفقون
اب اس سے اگلی آیت ہے..
والذين يومنون بما انزل اليك وما انزل من قبلك وبالا خرة هم يوقنون
اور وہ لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل ہوا آپ پر اور جو اس سے پہلے نازل ہوا. اور وہ یوم آخرت پر یقین رکھنے والے ہیں. یہ آیت بہت مزے کی ہے.
امام فخرالدین الرازی کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک اور گروہ کے لوگوں کے بارے میں ہے. پچھلی آیات ساری انسانیت کے لیے تھیں. لیکن اب اگلی آیت ان لوگوں کے لیے ہے جن پر پہلے انبیاء کرام یا وحی آچکی تھی. یعنی یہود و نصارٰی.
اس آیت کو حصوں میں پڑھتے ہیں کیونکہ اس میں بہت گہری باتیں ہیں.
پہلے یہ تھا کہ جو بھی کوئی غیب پر ایمان لائے، جو بھی کوئی نماز قائم کرے، اور جو کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرے. سو یہ سب کی بات ہورہی ہے.
لیکن اب اہل الکتاب کی بات ہورہی ہے. یہاں کچھ پس منظر بہت اہم ہے.
پہلی چیز جو آپ نوٹس کریں گے وہ ہے کہ
ما انزل الیک
جو آپ پر نازل کیا گیا.
یہاں آپ سے مراد آپ صلٰی الله علیہ وسلم ہیں. تو اللہ نے بتایا کہ الل نے وحی نازل کی اور ساتھ اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ کس پر یہ نازل کی. محمد صلٰی اللہ علیہ وسلم پر... لیکن اگر آپ آیت کے اگلے حصے کو دیکھیں.
وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ
اور جو کچھ آپ سے بہت پہلے نازل کیا گیا.
اب یہاں اللہ نے یہ تو بتایا کہ آپ سے پہلے وحی نازل کی گئی لیکن کیا اللہ نے یہ بتایا کہ یہ پر کس پر نازل کیا گیا؟ نہیں.... تو اگر آپ دیکھنا چاہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا دیا گیا تو آپ کس سے پوچھ سکتے ہیں؟ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ سکتے ہیں. انہوں نے ہی اسے وصول کیا. تو آپ جا کر پوچھ سکتے ہیں اور جو دیا گیا وہ اس میں سے آپ کو پڑھ کر سنا سکتے ہیں.
مگر جو اس سے پہلے وحی اتری اس کے بارے میں اللہ پاک کہتا ہے کہ یہ بہت پہلے کہ زمانے میں نازل ہوئی مگر وہ (اللہ) یہ نہیں بتاتا کہ یہ کس پر نازل ہوئی. کیوں نہیں؟ کیونکہ جن (انبیاء) پر وحی نازل کی گئی تھی وہ بھلائے جا چکے تھے. انہیں یاد نہیں رکھا گیا تھا. اور وہ کلام (وحی) میں سے کچھ یا تو زبانی کلامی روایتوں کا حصہ بن کر رہ گئی تھیں یا کچھ یہاں وہاں لکھے گئے حصوں پر مبتلا تھیں. انہوں نے زمانے کے فاصلے طے کیے حتٰی کہ جب کبھی وہ کسی کے ہاتھ لگتیں تو کوئی یقین سے بتا نہیں سکتا تھا کہ یہ کہاں سے آئیں ہیں. جبکہ جب ہم قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا. لیکن بد قسمتی سے جو لوگ ہم سے پہلے تھے خاص طور پر یہودیوں میں جو بھی بہت کچھ پہلے نازل ہوا اس کی تبدیلی کی وجہ سے اس کے اوریجن تک پہنچنا ممکن نہیں رہا. یہاں تک کہ آج کل کے نئے زمانے کے بہت سے تعلیم یافتہ یہود اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو انہیں پرانا عہد نامہ پڑھایا جاتا یہ یا جو عبرانی بائبل آجکل جس شکل میں ہے اس کا لکھا انبیاء سے نہیں جوڑا جا سکتا. ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے. اسکی تمام نقلوں (کاپیوں) کو جلا دیا گیا تھا اور انہیں پھر سے زندہ کیا گیا تھا(لکھا گیا تھا). بائبل کے جمع کی جانے کی تاریخ بہت پیچیدہ ہے. لیکن یہ سمجھ لیں کہ صدیوں تک اس کے کچھ نہ کچھ حصے میں کہیں نہ کہیں کچھ سچ بہرحال زندہ بچ گیا. اوراگر کسی میں ذرا سا بچا کچھا ایمان تھا وہ اتنا کافی تھا کہ اگر کوئی قرآن سنتا تو کہتا کہ میں نے یہ پہلے پڑھ رکھا ہے. یہی ہے وہ جو مجھ تک آیا تھا(میری کتاب میں). تو ان کے پاس ان کی اصل تعلیمات کا بہت تھوڑا حصہ رہ گیا تھا.
اس موقع پر میں آپ سے پچھلے صحیفوں کے بارے میں کچھ شئیر کرنا چاہتا ہوں. بنیادی طور پر عبرانی بائبل اور نئے عہد نامے کے بارے میں، یعنی جو تعلیمات ابتدائی طور پر موسیٰ علیہ السلام کو تورات میں دی گئیں اور پھر انجیل جو عیسیٰ علیہ السلام کو دی گئی یہ دو بنیادی کلام ہیں جو نازل کیے گیے. .اگرچہ داؤد علیہ السلام کو زبور دی گئی پر دو اہم کلام تورات اور انجیل ہیں. تورات کے بارے میں بات کرتے ہیں.
تورات کسے دی گئی؟ موسیٰ علیہ السلام کو. موسیٰ علیہ السلام پہاڑ پر جاتے ہیں اللہ کے سامنے اور یہ پہلا موقع ہے کہ وہ اللہ سے بات کرتے ہیں. جب وہ اللہ سے بات کرتے ہیں تو سب سے پہلی چیز جو اللہ پاک انہیں بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ الله کہتا ہے
إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى (15) طہ
قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے (دھیان سے سنیں) میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے.
گھڑی کا کیا مطلب ہے؟ قیامت کا دن. سب جانتے ہیں. تو موسٰی کو بتایا جاتا ہے کہ قیامت کا دن قریب آ رہا ہے مگر میں (اللہ) اسے تقریبًا مخفی رکھ رہا ہوں یعنی کچھ علامات ہیں مگر میں سب علامات تمہارے سامنے نہیں عیاں کر رہا.
لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى
تاکہ ہر ایک انسان کو اس کی کوشش کے مطابق دیا جائے.
اس آیت کو آپ کے سامنے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو دی جانی والی ابتدائی تعلیمات میں سے پہلی تعلیم یہ ہے کہ قیامت کا دن قریب آ رہا ہے اور اللہ نے کہا کہ قیامات کی کچھ علامات ہیں اور اللہ نے یہ بھی کہا کہ قیامت کے دن سب سے اہم کام اس دن کا یہ ہو گا کہ ہر انسان کو اس کی کوشش کا بدلہ دیا جائے گا.
اب جب آپ یہودیوں کی روایات پر نظر ڈالیں اور اگر آپ کچھ صدیاں حتٰی کہ عیسی علیہ السلام سے بھی پہلے کے زمانے میں چلے جائیں تو یہودیوں کی بہت سی روایات ابھی بھی دہرائی جارہی ہیں .آپ کو پتا چلے گا کہ یہودی اصل میں دو بڑے مذہبی فرقوں میں بٹ گئے تھے.
the Sadducee and pharisees
(صدوقی اور فریسی)
شاید آپ نے ان کے بارے میں پہلے نہ سنا ہو، میں بھی اسکی گہرائی میں نہیں جاؤں گا میں بس آپ کو ایک مجموعی جائزہ دینا چاہتا ہوں یہ بہت دلچسپ مواد ہے اور یہ آپ کو اس آیت کی پذیرائی کے کام آئے گا. اس (موضوع) کو آپ سے بیان کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ یہ آپ کو اس آیت کی تعلیمات کو گہرائی سے سمجھنے میں مدد کرے گا.
یہودی عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے پانچ،چھ یا اس سے بھی زیادہ صدیوں پہلے دو گروہوں میں بٹ چکے تھے. صدوقی بنیادی طور پر اپنے قبلے کے رکھوالے تھے.ان کا قبلہ کیا ہے؟ یروشلم.
یہ مذہبی لوگ بھی تھے. یہ لوگ رسموں پر عمل کرتے , عبادات کرتے تھے. ان کا ماننا تھا کہ پورے مذہب کا بنیادی مرکز اپنی عبادت گاہ (کنیسہ) کی عبادت کرنا اور اس کے سامنے قربانیاں کرنا تھا. اور مزے کی بات کہ یہ صدوقی آخرت کو نہیں مانتے تھے. وہ مانتے تھے کہ وہ مٹی میں تبدیل ہو جائیں گے اور یہی آخری انجام ہے. اسکے بعد کوئی زندگی نہیں. یہ اللہ کے گھر کے رکھوالے جو آخرت میں یقین نہیں رکھتے تھے.
دوسرا گروہ فریسیوں کا تھا. یہ لوگ راہب (ماہر/استاد) تھے. آجکل راہب یا آرتھوڈاکس یہودی پائے جاتے ہیں. ان کے آباؤاجداد فریسیوں میں سے تھے. وہ لوگ قیامت کے دن پر یقین رکھتے تھے اور وہ تورات کے اس حصے پر بھی یقین رکھتے تھے جو لکھا نہیں گیا تھا بس زبانی کلامی ان تک پہنچا تھا. یہ ایک چھوٹا مگر اہم گروہ تھا جو آخرت پر یقین رکھتا تھا. لیکن آپ کو معلوم ہے کہ یہ لوگ ہر ایک نفس کے لیے آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے. یہ سمجھتے تھے کہ لوگوں کا نہیں بلکہ قوموں کا مجموعی محاسبہ ہو گا. سو آخرت کا بہت مختلف تصور تھا ان کے درمیان. کیا یہ وہ تعلیمات ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کو اس رات اللہ کی طرف سے دی گئی تھی؟ بالکل نہیں . تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ صدیوں کی طویل مدت میں بہت کچھ بدل چکا تھا. حتٰی کہ جو گروہ آخرت کا تصور رکھتا تھا وہ تصور ہی بے ڈھنگا تھا.
جب ان کی عبادت گاہ کو تباہ کیا گیا. بہت سی دشمن قومیں آئیں اور انہوں نے یہودیوں کی عبادت گاہوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور یہودیوں کو جلا وطن کر دیا. کونسا گروہ یقین رکھتا تھا کہ ان کا مذہب مندر کے گرد گھومتا ہے؟ صدوقیوں کا. تاریخ دان کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا تقریبًا صفایا ہو گیا تھا .اور جو باقی بچے تھے وہ دوسرا گروہ فریسیوں کا تھا جو آخرت کا کچھ تصور رکھتے تھے اگرچہ بہت کمزور.
اگر آپ عبرانی بائبل کو پڑھیں تو آخر تک اپ کہیں آخرت، یوم القیامت ،جنت کا یا ایسی کسی چیز کا کوئی ذکر نہیں پائیں گے. جو کہ قرآن کا مرکزی تصور ہے. کیا آپ ایسا سوچ بھی سکتے ہیں؟ قرآن میں ہر دوسری جگہ کسی نا کسی طرح آخرت کے متعلق ہی ذکر ہے. اور یہودیوں کی روایات میں تو یہ تقریبا ناپید ہو چکی ہے.
پھر دوسری کتابیں ہیں جیسے کہ بک آف جوب (ایوب علیہ السلام) یا پھر بک آف اکلیزیاسٹیس (سلمان علیہ السلام) جو کہ سیدھا سیدھا کہتی ہے کہ ہم مٹی میں مل جائیں گے کوئی آخرت نہیں ہے. ان کی کتابوں میں آخرت سے مکمل انکار کیا گیا ہے کہ آخرت جیسی کوئی چیز ہی نہیں ہے. اگرچہ الله کے حکم سے یہ تصور زبانی رسومات میں بہت تھوڑا ہے مگر پھر بھی ہے ور عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے کچھ عرصہ پہلے اس نے واپس اپنا رستہ بنایا اور آہستہ آہستہ یہودیوں کے کچھ گروہوں نے آخرت کی زندگی پر یقین کرنا پھر سے شروع کیا. درحقیقت بائبل یا بائبل کے نام سے جو بھی مواد ہمارے پاس ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ عیسٰی علیہ السلام نے صدوقیوں سے اس بارے میں مناظرہ بھی کیا. یاد رکھیں کی صدوقی وہ تھے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے. عیسیٰ علیہ السلام ان سے آخرت کے وجود کو لے کر بحث و مباحثہ کرتے ہیں. تو عیسیٰ علیہ السلام اصل میں اس وقت کے مسلمانوں سے بات کرتے ہیں جو آخرت میں یقین نہیں رکھتے. دوسرے لفظوں میں ہمارے عقیدے کی بنیاد اللہ پر ایمان، وحی پر ایمان اور آخرت پر ایمان ہے. ان تینوں میں سے سب سے زیادہ جسے انہوں نے بھلا دیا، نظر انداز کیا یا خراب کیا وہ آخرت پر ایمان ہے. اب آپ اس آیت کی حکمت کو سراہیں گے.
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ
اب جو ہمیں بھیجا گیا اور جو ہم سے پہلوں پر بھیجا گیا اس میں اللہ پر ایمان، انبیاء کے قصے، قوانین، احکامات شامل ہیں. مگر الله پاک نے اس آیت کے آخر میں تمام عقیدوں..... میں سے کس پر زیادہ زور دیا؟
وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ.
یعنی خاص طور پر جب بات آتی ہے حتمی زندگی کی تو وہ مکمل یقین رکھتے ہیں.وہ مکمل طور پر اس بات پر یقین رکھتے ہیں.
در حقیقت بائبل میں یا جو بھی اس کا ایسا حصہ باقی رہ گیا ہے جس پر ہم انحصار کر سکتے ہیں، عیسیٰ علیہ السلام نے جنت کا لفظ استعمال کیا ہے جسے بائبل میں فردوس بھی کہا گیا ہے. جیسا کہ میں نے بتایا یہ تصور کچھ صدیوں پہلے ہی اس (قوم) میں پھر سے زندہ ہوا تھا ان کے پاس دو حوالے ایسے تھے جو قرآن سے مماثلت رکھتے تھے "گیہینا" اور "گین" . جہنم کے لیے "گیہینا" اور جنت کے لیے عبرانی لفظ گین ہے. یہ دونوں الفاظ دوبارہ سے شامل (زندہ) ہوئے. پر تب بھی یہ بہت غیر واضح معنی رکھتے تھے. قرآن میں جو الفاظ ہیں جنت وغیرہ کے لیے وہ یا ان الفاظ سے مماثلت نہیں رکھتے.
اس لیے جب وہ اس کتاب کے قریب آئے تو جس چیز نے انہیں سب سے زیادہ تکلیف/غصے میں ڈالا وہ آخرت کا ذکر تھا. یہی ایسی چیز (تصور) تھی جس کا ان پر تقریبًا کوئی اثر نہیں تھا یا بہت غیر واضح تھا. ان کی سوچیں ایسی تھیں کہ ہم (مرنے کے بعد) بھوت نما شکل کے ہوں گے یا سایہ نما ہوں گے اور جسم کو نہیں اٹھایا جائے گا مگر بس روح کو . اور ان میں افلاطون کی فلاسفی کے بھی اثرات پائے جاتے تھے کہ ہمارے جسم تو سڑ ،مر جاتے ہیں تو ہم کیسے پھر سے اٹھیں گے. شاید کچھ روحیں باقی رہ جاتی ہوں اور جسم ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے. ہم جانتے ہیں کہ جسم بھی اٹھائیں جائیں گے. یہ ہمارا ایمان ہے.
میں آج جس چیز کے ساتھ نتیجہ پر پہنچنا چاہتا ہوں وہ ہے آخرت پر ایمان. کہ انسان کو موت کا تجربہ کرنا ہی ہے اور اس دنیا کی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جو قبر میں شروع ہو جاتی ہے. اور وہ زندگی جب صور پھونکا جائے گا تب ایک اور شکل لے گی اور آدم کی اولاد پھر سے اٹھے گی اور ان کا باری باری کر کے فیصلہ کیا جائے گا ہر اس چیز کے لیے جو انہوں نے کیا اور تب وہ اس رستے پر چلیں گے جو یا تو انہیں جنت لے جائے گا یا جہنم کی طرف.یہ زندگی کا تمام دور ، جس پر مسلمان پہلے سے یقین رکھتے ہیں، ہر بچہ جانتا ہے. الله پاک نے اِس قرآن پاک کو اُس ایمان کو واپس بحال کرنے ، آخرت میں ایمان کو زندہ کرنے کو بھیجا.
ان دو منٹ میں، میں آپ سے اس آیت کی اہمیت شئیر کروں گا. اللہ پاک نے اس سے پچھلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو بالغیب پر ایمان لاتے ہیں.
یُؤمِنونَ بِالغَیبِ
وہ غیب کے کس حصے کو بھول بیٹھے تھے؟ وہ آخرت کو بھول گئے تھے. اور جب وہ آخرت کو بھول گئے تب اعمال کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ آپ اچھے کام کیوں کرتے ہیں؟ آپ برے کاموں سے کیوں رکتے ہیں؟ آپ کے پاس کوئی اصل مقصد نہیں رہ جاتا جب آپ آخرت پر ایمان ہی نا رکھیں. تب کیا إقامة الصلاة ہو پائے گی؟ اگر اپ آخرت کا کوئی تصور نہیں رکھتے یا نماز چھوڑنے جیسے اعمال کے نتائج کا نہیں سوچتے تو کیا آپ نماز پڑھنے کی پرواہ کریں گے؟ نہیں. اور جب آپ خرچ کریں گے (کچھ بھی) اور یہ ایمان نہیں رکھیں گے کہ خرچ کرنا آپ کو دنیا اور آخرت میں بھلائی دے گا تو خرچ کرنے کا کیا تصور باقی رہ جاتا ہے؟
تقویٰ کی بنیاد ایمان بالغیب، نماز قائم کرنا اور خرچ کرنا ہے. یہ سب غائب ہو جاتا ہے اگر آخرت کا تصور غائب ہو جائے. یہ ہمارے ایمان کا بنیادی عقیدہ ہے. ہمارا ایمان اسی سے جُڑا ہوتا ہے.
وَبِالاٰخِرَةِ همْ یُوْقِنُوْنَ
اب دیکھیں لفظ "یومنون" استعمال ہوا ہے ان کے پاس ایمان تھا. اور آخر کار "یوقنون" استعمال ہوا "یقین". "یقین" کا عربی میں مطلب ہے " مکمل ثبوت،یقین رکھنا" . ان تمام چیزوں میں سے جن پر وہ ایمان لاتے ہیں ایک چیز جو وہ کبھی نہیں بھولتے وہ ہے آخرت کی زندگی. اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا خیال.
اور اس شعوری کوشش کے ساتھ انشاء اللہ و تعالی جیسے جیسے ہم یہ سورہ پڑھیں گے آپ اس سورہ کا مختلف رنگ دیکھیں گے . کیونکہ یہ لوگوں کے اس گروہ سے مخاطب ہے جو آنے والی زندگی کے بارے میں بھول چکے ہیں. قرآن کے طالبعلم کا ایک مقصد یہ سمجھنا بھی ہے کہ اللہ تعالی کیسے سب کچھ قرآن میں ایک طرح یا دوسری طرح سے وہ سکھاتا ہے جو ہمیں اللہ سے ملاقات کی یاس دلاتا ہے. یہ زندگی اللہ سے قرب پانے کے لیے ہے اور اگلی زندگی وہ ہے جب آپ آخرکار قرب پا لیں گے. تو یہ زندگی دراصل اگلی زندگی کی تیاری کے لیے ہے جب ہمیں اصل میں اللہ سے ملنا ہے، ہر نماز قیامت کے دن کے لیے ایک یاد ہے، ہر جمعہ کا اجتماع یوم الحساب کی طرح ہے ،حج اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کی ریہرسل ہے جیسے ہم قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے. اسلام میں عبادت کا ہر ایک عمل ہمیں کسی نہ کسی طرح اللہ تعالی کے سامنے اس دن کھڑے ہونے کی یاد دلاتا ہے .
اللہ پاک ہم سب کو اس دن کھڑے ہونے کی تیاری کی توفیق دے.آمین
-نعمان علی خان
جاری ہے
ایک پرانی مثال ہے مگر آج کے دور میں بھی مفید ہے:
بچے بہت خود غرض ہوتے ہیں. میری بیٹی حسنہ چاکلیٹ کی بہت شوقین ہے. میں چاکلیٹ کھا رہا تھا، وہ مجھے دیکھ رہی تھی. مجھ سے کہنے لگی.
ابا کیا مجھے مل سکتی ہے؟؟
میں نےکہا: نہیں.
ابا کیا تھوڑی سی بھی نہیں ؟
اس پر میں نے اس کو دے دی اور کہا کہ صرف دس سیکنڈز کیلئے. اس کے بعد تم اسے مجھے واپس کر دوگی. اس نے چاکلیٹ پکڑی اور تیزی سے کھانا شروع کردی. وہ اس کو ختم کرنے کی کوشش میں تھی.
۱۰ سیکنڈ بعد چاکلیٹ ختم نا ہوئی سو میں نے اس سے واپس مانگی. تو پتا ہے اس نے کیا کیا؟
اس نے کہا 'یہ میری ہے.' اور یہ کہہ کر بھاگ گئی.
اسی طرح جب آپ کے بچے کسی کے گھر جاتے ہیں یا کوئی آپ کے گھر آئے، تو کیا کرتے ہیں؟
بچے کبھی بھی اپنے کھلونوں سے نہیں کھیلتے. صرف اسی وقت کھیلتے ہیں، جب کسی دوسرے کے بچے آپ کے گھر آئے ہوئے ہوں. تب وہ کہتے ہیں کہ یہ میرا کھلونا ہے، یہ میرا ہے. جیسے ہی مہمان بچے چلے جائیں،تو کھلونا وہ پھینکا اور یہ جا وہ جا.
مہمان بچے منتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ کیا مجھے کھیلنے کی باری مل سکتی ہے؟
کیا میں ایک دفعہ اس سے کھیل سکتا ہوں؟
آخر کار میزبان بچہ اس کو وہ کھلونا بہت برے انداز میں عنائیت کر دیتا ہے.
اب وہ بچہ تھوڑی دیر ہی اس سے کھیل پاتا ہے کہ گھر جانے کا وقت ہو جاتا ہے،تو جس بچے نے کھلونا (کھیلنے کیلئے) ادھار لیا ہوتا ہے،،،کیا وہ آسانی سے واپس کر دیتا ہے؟ کیا آسانی سے گھر چلا جاتا ہے؟
نہیں ،ہرگز نہیں.. وہ کھلونا دینے سے منع کردیتا ہے یہاں تک کہ میزبان بچے کی ماں آ کر کہتی ہے کہ چلو تم لے جاؤ.
یہاں اب بچوں سے تھوڑا آگے آئیں.
یہ انسانی نفسیات ہے، جب ہمیں وہ چیزیں دی جائیں جو ہماری نہ ہوں تو ہم بہت جلدی بھول جاتے ہیں کہ یہ ہماری چیز نہیں ہے. ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ہمیں دی گئی ہے اور یہ سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ ہماری ہی ہے. اور ہم اسکو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں. جب کوئی مانگے تو ہم کہتے ہیں نہیں نہیں یہ ہماری ہے.
اب اللہ عزوجل کیا کہہ رہے ہیں؟ اللہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ"۔۔ینفقون۔۔"وہ خرچ کرتے ہیں".
لیکن اللہ کہتے ہیں.
"مما رزقنا ھم ینفقون"۔۔وہ خرچ کرتے ہیں اس میں سے ،جو ہم ان نے ان کو دیا ہے۔"
ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہمارا کچھ بھی نہیں ہے. بینک میں پیسے ہمارے نہیں ہیں، کار جس کو ہم چلا رہے ہیں ،وہ ہماری نہیں ہے، ہم ہر وقت کہتے ہیں میری قمیض، میری کار، میرا والٹ، میرا اکاؤنٹ، میرا گھر. ہم لفظ 'میرا' اتنا زیادہ استعمال کرتے ہیں کہ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ اللہ کی ملکیت ہیں. میرا جسم، میری آنکھیں، میرے کان، میری ناک سب اللہ کا دیا ہوا ہے.
"انا لله وانا اليه راجعون"
هم سب سارے کے سارے اللہ کے ہیں. اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں. ہم کس طرح اپنی جائیداد کی بات کر سکتے ہیں جب ہمارا جسم ہی اللہ کی پراپرٹی ہے. ہماری جائیداد دراصل اللہ کی جائیداد کی ہی ایکسٹینشن ہے. اسی لئے یہاں اس بات کی خصوصی تلقین کی گئی ہے.
"مما رزقنا ھم ینفقون۔"
جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا ہے.
گرائمر کے طالب علموں کی دلچسپی کی بات ہے کہ اس آیت میں صرف 'رزقنا' ہی فعل ماضی ہے.
باقی سب فعل حال ہے. ایمان لانا. نماز قائم کرنا،اور خرچ کرنا.
جبکہ صرف "رزقنا" (ہم نے دیا) فعل ماضی ہے. رزق فعل حال یا فعل مستقبل کے ساتھ نہیں ہے.
اللہ نے یہ نہیں کہا کہ مما نرزقھم ینفقون کہ میں تم کو دوں گا تو تم خرچ کرنا.
تو اسکا یہ مطلب ہے کہ آپ نے اللہ کی طرف سے آئیندہ زندگی میں دینے کا انتظار نہیں کرنا کہ اللہ آپکو دے گا تو پھر آپ خرچ کریں گے. نہیں ہر گز نہیں.
کچھ لوگ کہتے ہیں ناں کہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں جب اللہ مجھے دے گا تب کروں گا.
وہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے رزق تو دیا ہوا ہے اسی میں سے خرچ کرنا ہے.
یہ خرچ کرنے کی بات اللہ ہر ایک انسان سے کہہ رہے ہیں کہ میں نے تمہیں دیا ہے خرچ کرنے کیلیے. اگر تمہارے پاس دو دن ہے تو اس میں سے ایک مجھے دو. اگر ایک سیب ہے تو اسکا ایک ٹکڑا مجھے دو. اگر تمہارے پاس توانائی ہے تو اسکو میرے لیے خرچ کرو. اگر ٹیلنٹ ہے تو مجھے دو. ہر انسان کو کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے. اگر کچھ نہ دیا ہوتا تو آپ آج اس دنیا میں سانس نہ لے رہے ہوتے. اللہ نے یہ آیت صرف ارب پتی لوگوں کے لیے نہیں اتاری. اسکو اس بات کی پرواہ نہیں کہ آپ کتنا خرچ کرتے ہیں. اسکو بس یہ دیکھنا ہے کہ آپ کیسا خرچ کرتے ہیں. جو خرچ کررہے ہیں اسکا معیار اسکی کوالٹی دیکھی جاتی ہے مقدار نہیں. اس سے فرق نہیں پڑتا کوئی بیس ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے یا بس دو ڈالر خرچ کرتا ہے. ہوسکتا ہے جس نے بیس ہزار دیے ہوں اسکے پاس بیس لاکھ ہوں. اور جس نے دو ڈالر دیے ہوں اس کے پاس بس دس ڈالر ہوں. تو دیکھیں وہ دو ڈالر زیادہ قیمتی ہوئے نا. ہم کہتے ہیں اوہ واؤ بیس ہزار کا چیک. اور دو ڈالر کوئی خیرات دے تو اس سے اتنے خوش نہیں ہوتے. لیکن ان دو ڈالرز میں بیس ہزار سے زیادہ برکت ہوسکتی ہے اس نیت اور قربانی کی وجہ سے جو اس کے دینے والے کی ہے.
اللہ عزوجل قرآن میں فرماتے ہیں۔۔سورہ التوبہ 41
"انفرو خفافا وثقالا"
آگے بڑھئیے کم یا زیادہ جو بھی ہے خرچ کریں. اپنے آپ کو کبھی بھی انڈرایسٹیمیٹ نہ کریں کہ آپ نے کم دیا.
مثال کے طور پر چھوٹے بچے سکے جمع کرنے کے شوقین ہوتے ہیں. ان کے پاس پیسے ہوتے ہیں. اور یہی پیسے وہ صدقہ باکس میں ڈال دیتے ہیں. آپ کے لیے شاید یہ سکے اتنے اہم نہ ہوں. بعد میں جو چندہ باکس کھولتے ہیں وہ بھی سوچتے ہوں یہ ایک دو روپے کے سکے کس نے ڈالے. لیکن جس نے یہ چند سکے دیے ہیں اس کے لیے تو یہ سکے اہم تھے ناں. اس کی جمع پونجی تھی یہ. اور اس نے اپنی جمع پونجی اللہ کو دے دی.
سو اپنے صدقہ کو کم نا سمجھیں. یہی ہے مما رزقنھم ینفقون
اب اس سے اگلی آیت ہے..
والذين يومنون بما انزل اليك وما انزل من قبلك وبالا خرة هم يوقنون
اور وہ لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل ہوا آپ پر اور جو اس سے پہلے نازل ہوا. اور وہ یوم آخرت پر یقین رکھنے والے ہیں. یہ آیت بہت مزے کی ہے.
امام فخرالدین الرازی کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک اور گروہ کے لوگوں کے بارے میں ہے. پچھلی آیات ساری انسانیت کے لیے تھیں. لیکن اب اگلی آیت ان لوگوں کے لیے ہے جن پر پہلے انبیاء کرام یا وحی آچکی تھی. یعنی یہود و نصارٰی.
اس آیت کو حصوں میں پڑھتے ہیں کیونکہ اس میں بہت گہری باتیں ہیں.
پہلے یہ تھا کہ جو بھی کوئی غیب پر ایمان لائے، جو بھی کوئی نماز قائم کرے، اور جو کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرے. سو یہ سب کی بات ہورہی ہے.
لیکن اب اہل الکتاب کی بات ہورہی ہے. یہاں کچھ پس منظر بہت اہم ہے.
پہلی چیز جو آپ نوٹس کریں گے وہ ہے کہ
ما انزل الیک
جو آپ پر نازل کیا گیا.
یہاں آپ سے مراد آپ صلٰی الله علیہ وسلم ہیں. تو اللہ نے بتایا کہ الل نے وحی نازل کی اور ساتھ اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ کس پر یہ نازل کی. محمد صلٰی اللہ علیہ وسلم پر... لیکن اگر آپ آیت کے اگلے حصے کو دیکھیں.
وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ
اور جو کچھ آپ سے بہت پہلے نازل کیا گیا.
اب یہاں اللہ نے یہ تو بتایا کہ آپ سے پہلے وحی نازل کی گئی لیکن کیا اللہ نے یہ بتایا کہ یہ پر کس پر نازل کیا گیا؟ نہیں.... تو اگر آپ دیکھنا چاہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا دیا گیا تو آپ کس سے پوچھ سکتے ہیں؟ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ سکتے ہیں. انہوں نے ہی اسے وصول کیا. تو آپ جا کر پوچھ سکتے ہیں اور جو دیا گیا وہ اس میں سے آپ کو پڑھ کر سنا سکتے ہیں.
مگر جو اس سے پہلے وحی اتری اس کے بارے میں اللہ پاک کہتا ہے کہ یہ بہت پہلے کہ زمانے میں نازل ہوئی مگر وہ (اللہ) یہ نہیں بتاتا کہ یہ کس پر نازل ہوئی. کیوں نہیں؟ کیونکہ جن (انبیاء) پر وحی نازل کی گئی تھی وہ بھلائے جا چکے تھے. انہیں یاد نہیں رکھا گیا تھا. اور وہ کلام (وحی) میں سے کچھ یا تو زبانی کلامی روایتوں کا حصہ بن کر رہ گئی تھیں یا کچھ یہاں وہاں لکھے گئے حصوں پر مبتلا تھیں. انہوں نے زمانے کے فاصلے طے کیے حتٰی کہ جب کبھی وہ کسی کے ہاتھ لگتیں تو کوئی یقین سے بتا نہیں سکتا تھا کہ یہ کہاں سے آئیں ہیں. جبکہ جب ہم قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا. لیکن بد قسمتی سے جو لوگ ہم سے پہلے تھے خاص طور پر یہودیوں میں جو بھی بہت کچھ پہلے نازل ہوا اس کی تبدیلی کی وجہ سے اس کے اوریجن تک پہنچنا ممکن نہیں رہا. یہاں تک کہ آج کل کے نئے زمانے کے بہت سے تعلیم یافتہ یہود اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو انہیں پرانا عہد نامہ پڑھایا جاتا یہ یا جو عبرانی بائبل آجکل جس شکل میں ہے اس کا لکھا انبیاء سے نہیں جوڑا جا سکتا. ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے. اسکی تمام نقلوں (کاپیوں) کو جلا دیا گیا تھا اور انہیں پھر سے زندہ کیا گیا تھا(لکھا گیا تھا). بائبل کے جمع کی جانے کی تاریخ بہت پیچیدہ ہے. لیکن یہ سمجھ لیں کہ صدیوں تک اس کے کچھ نہ کچھ حصے میں کہیں نہ کہیں کچھ سچ بہرحال زندہ بچ گیا. اوراگر کسی میں ذرا سا بچا کچھا ایمان تھا وہ اتنا کافی تھا کہ اگر کوئی قرآن سنتا تو کہتا کہ میں نے یہ پہلے پڑھ رکھا ہے. یہی ہے وہ جو مجھ تک آیا تھا(میری کتاب میں). تو ان کے پاس ان کی اصل تعلیمات کا بہت تھوڑا حصہ رہ گیا تھا.
اس موقع پر میں آپ سے پچھلے صحیفوں کے بارے میں کچھ شئیر کرنا چاہتا ہوں. بنیادی طور پر عبرانی بائبل اور نئے عہد نامے کے بارے میں، یعنی جو تعلیمات ابتدائی طور پر موسیٰ علیہ السلام کو تورات میں دی گئیں اور پھر انجیل جو عیسیٰ علیہ السلام کو دی گئی یہ دو بنیادی کلام ہیں جو نازل کیے گیے. .اگرچہ داؤد علیہ السلام کو زبور دی گئی پر دو اہم کلام تورات اور انجیل ہیں. تورات کے بارے میں بات کرتے ہیں.
تورات کسے دی گئی؟ موسیٰ علیہ السلام کو. موسیٰ علیہ السلام پہاڑ پر جاتے ہیں اللہ کے سامنے اور یہ پہلا موقع ہے کہ وہ اللہ سے بات کرتے ہیں. جب وہ اللہ سے بات کرتے ہیں تو سب سے پہلی چیز جو اللہ پاک انہیں بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ الله کہتا ہے
إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى (15) طہ
قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے (دھیان سے سنیں) میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے.
گھڑی کا کیا مطلب ہے؟ قیامت کا دن. سب جانتے ہیں. تو موسٰی کو بتایا جاتا ہے کہ قیامت کا دن قریب آ رہا ہے مگر میں (اللہ) اسے تقریبًا مخفی رکھ رہا ہوں یعنی کچھ علامات ہیں مگر میں سب علامات تمہارے سامنے نہیں عیاں کر رہا.
لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى
تاکہ ہر ایک انسان کو اس کی کوشش کے مطابق دیا جائے.
اس آیت کو آپ کے سامنے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو دی جانی والی ابتدائی تعلیمات میں سے پہلی تعلیم یہ ہے کہ قیامت کا دن قریب آ رہا ہے اور اللہ نے کہا کہ قیامات کی کچھ علامات ہیں اور اللہ نے یہ بھی کہا کہ قیامت کے دن سب سے اہم کام اس دن کا یہ ہو گا کہ ہر انسان کو اس کی کوشش کا بدلہ دیا جائے گا.
اب جب آپ یہودیوں کی روایات پر نظر ڈالیں اور اگر آپ کچھ صدیاں حتٰی کہ عیسی علیہ السلام سے بھی پہلے کے زمانے میں چلے جائیں تو یہودیوں کی بہت سی روایات ابھی بھی دہرائی جارہی ہیں .آپ کو پتا چلے گا کہ یہودی اصل میں دو بڑے مذہبی فرقوں میں بٹ گئے تھے.
the Sadducee and pharisees
(صدوقی اور فریسی)
شاید آپ نے ان کے بارے میں پہلے نہ سنا ہو، میں بھی اسکی گہرائی میں نہیں جاؤں گا میں بس آپ کو ایک مجموعی جائزہ دینا چاہتا ہوں یہ بہت دلچسپ مواد ہے اور یہ آپ کو اس آیت کی پذیرائی کے کام آئے گا. اس (موضوع) کو آپ سے بیان کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ یہ آپ کو اس آیت کی تعلیمات کو گہرائی سے سمجھنے میں مدد کرے گا.
یہودی عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے پانچ،چھ یا اس سے بھی زیادہ صدیوں پہلے دو گروہوں میں بٹ چکے تھے. صدوقی بنیادی طور پر اپنے قبلے کے رکھوالے تھے.ان کا قبلہ کیا ہے؟ یروشلم.
یہ مذہبی لوگ بھی تھے. یہ لوگ رسموں پر عمل کرتے , عبادات کرتے تھے. ان کا ماننا تھا کہ پورے مذہب کا بنیادی مرکز اپنی عبادت گاہ (کنیسہ) کی عبادت کرنا اور اس کے سامنے قربانیاں کرنا تھا. اور مزے کی بات کہ یہ صدوقی آخرت کو نہیں مانتے تھے. وہ مانتے تھے کہ وہ مٹی میں تبدیل ہو جائیں گے اور یہی آخری انجام ہے. اسکے بعد کوئی زندگی نہیں. یہ اللہ کے گھر کے رکھوالے جو آخرت میں یقین نہیں رکھتے تھے.
دوسرا گروہ فریسیوں کا تھا. یہ لوگ راہب (ماہر/استاد) تھے. آجکل راہب یا آرتھوڈاکس یہودی پائے جاتے ہیں. ان کے آباؤاجداد فریسیوں میں سے تھے. وہ لوگ قیامت کے دن پر یقین رکھتے تھے اور وہ تورات کے اس حصے پر بھی یقین رکھتے تھے جو لکھا نہیں گیا تھا بس زبانی کلامی ان تک پہنچا تھا. یہ ایک چھوٹا مگر اہم گروہ تھا جو آخرت پر یقین رکھتا تھا. لیکن آپ کو معلوم ہے کہ یہ لوگ ہر ایک نفس کے لیے آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے. یہ سمجھتے تھے کہ لوگوں کا نہیں بلکہ قوموں کا مجموعی محاسبہ ہو گا. سو آخرت کا بہت مختلف تصور تھا ان کے درمیان. کیا یہ وہ تعلیمات ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کو اس رات اللہ کی طرف سے دی گئی تھی؟ بالکل نہیں . تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ صدیوں کی طویل مدت میں بہت کچھ بدل چکا تھا. حتٰی کہ جو گروہ آخرت کا تصور رکھتا تھا وہ تصور ہی بے ڈھنگا تھا.
جب ان کی عبادت گاہ کو تباہ کیا گیا. بہت سی دشمن قومیں آئیں اور انہوں نے یہودیوں کی عبادت گاہوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور یہودیوں کو جلا وطن کر دیا. کونسا گروہ یقین رکھتا تھا کہ ان کا مذہب مندر کے گرد گھومتا ہے؟ صدوقیوں کا. تاریخ دان کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا تقریبًا صفایا ہو گیا تھا .اور جو باقی بچے تھے وہ دوسرا گروہ فریسیوں کا تھا جو آخرت کا کچھ تصور رکھتے تھے اگرچہ بہت کمزور.
اگر آپ عبرانی بائبل کو پڑھیں تو آخر تک اپ کہیں آخرت، یوم القیامت ،جنت کا یا ایسی کسی چیز کا کوئی ذکر نہیں پائیں گے. جو کہ قرآن کا مرکزی تصور ہے. کیا آپ ایسا سوچ بھی سکتے ہیں؟ قرآن میں ہر دوسری جگہ کسی نا کسی طرح آخرت کے متعلق ہی ذکر ہے. اور یہودیوں کی روایات میں تو یہ تقریبا ناپید ہو چکی ہے.
پھر دوسری کتابیں ہیں جیسے کہ بک آف جوب (ایوب علیہ السلام) یا پھر بک آف اکلیزیاسٹیس (سلمان علیہ السلام) جو کہ سیدھا سیدھا کہتی ہے کہ ہم مٹی میں مل جائیں گے کوئی آخرت نہیں ہے. ان کی کتابوں میں آخرت سے مکمل انکار کیا گیا ہے کہ آخرت جیسی کوئی چیز ہی نہیں ہے. اگرچہ الله کے حکم سے یہ تصور زبانی رسومات میں بہت تھوڑا ہے مگر پھر بھی ہے ور عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے کچھ عرصہ پہلے اس نے واپس اپنا رستہ بنایا اور آہستہ آہستہ یہودیوں کے کچھ گروہوں نے آخرت کی زندگی پر یقین کرنا پھر سے شروع کیا. درحقیقت بائبل یا بائبل کے نام سے جو بھی مواد ہمارے پاس ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ عیسٰی علیہ السلام نے صدوقیوں سے اس بارے میں مناظرہ بھی کیا. یاد رکھیں کی صدوقی وہ تھے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے. عیسیٰ علیہ السلام ان سے آخرت کے وجود کو لے کر بحث و مباحثہ کرتے ہیں. تو عیسیٰ علیہ السلام اصل میں اس وقت کے مسلمانوں سے بات کرتے ہیں جو آخرت میں یقین نہیں رکھتے. دوسرے لفظوں میں ہمارے عقیدے کی بنیاد اللہ پر ایمان، وحی پر ایمان اور آخرت پر ایمان ہے. ان تینوں میں سے سب سے زیادہ جسے انہوں نے بھلا دیا، نظر انداز کیا یا خراب کیا وہ آخرت پر ایمان ہے. اب آپ اس آیت کی حکمت کو سراہیں گے.
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ
اب جو ہمیں بھیجا گیا اور جو ہم سے پہلوں پر بھیجا گیا اس میں اللہ پر ایمان، انبیاء کے قصے، قوانین، احکامات شامل ہیں. مگر الله پاک نے اس آیت کے آخر میں تمام عقیدوں..... میں سے کس پر زیادہ زور دیا؟
وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ.
یعنی خاص طور پر جب بات آتی ہے حتمی زندگی کی تو وہ مکمل یقین رکھتے ہیں.وہ مکمل طور پر اس بات پر یقین رکھتے ہیں.
در حقیقت بائبل میں یا جو بھی اس کا ایسا حصہ باقی رہ گیا ہے جس پر ہم انحصار کر سکتے ہیں، عیسیٰ علیہ السلام نے جنت کا لفظ استعمال کیا ہے جسے بائبل میں فردوس بھی کہا گیا ہے. جیسا کہ میں نے بتایا یہ تصور کچھ صدیوں پہلے ہی اس (قوم) میں پھر سے زندہ ہوا تھا ان کے پاس دو حوالے ایسے تھے جو قرآن سے مماثلت رکھتے تھے "گیہینا" اور "گین" . جہنم کے لیے "گیہینا" اور جنت کے لیے عبرانی لفظ گین ہے. یہ دونوں الفاظ دوبارہ سے شامل (زندہ) ہوئے. پر تب بھی یہ بہت غیر واضح معنی رکھتے تھے. قرآن میں جو الفاظ ہیں جنت وغیرہ کے لیے وہ یا ان الفاظ سے مماثلت نہیں رکھتے.
اس لیے جب وہ اس کتاب کے قریب آئے تو جس چیز نے انہیں سب سے زیادہ تکلیف/غصے میں ڈالا وہ آخرت کا ذکر تھا. یہی ایسی چیز (تصور) تھی جس کا ان پر تقریبًا کوئی اثر نہیں تھا یا بہت غیر واضح تھا. ان کی سوچیں ایسی تھیں کہ ہم (مرنے کے بعد) بھوت نما شکل کے ہوں گے یا سایہ نما ہوں گے اور جسم کو نہیں اٹھایا جائے گا مگر بس روح کو . اور ان میں افلاطون کی فلاسفی کے بھی اثرات پائے جاتے تھے کہ ہمارے جسم تو سڑ ،مر جاتے ہیں تو ہم کیسے پھر سے اٹھیں گے. شاید کچھ روحیں باقی رہ جاتی ہوں اور جسم ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے. ہم جانتے ہیں کہ جسم بھی اٹھائیں جائیں گے. یہ ہمارا ایمان ہے.
میں آج جس چیز کے ساتھ نتیجہ پر پہنچنا چاہتا ہوں وہ ہے آخرت پر ایمان. کہ انسان کو موت کا تجربہ کرنا ہی ہے اور اس دنیا کی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جو قبر میں شروع ہو جاتی ہے. اور وہ زندگی جب صور پھونکا جائے گا تب ایک اور شکل لے گی اور آدم کی اولاد پھر سے اٹھے گی اور ان کا باری باری کر کے فیصلہ کیا جائے گا ہر اس چیز کے لیے جو انہوں نے کیا اور تب وہ اس رستے پر چلیں گے جو یا تو انہیں جنت لے جائے گا یا جہنم کی طرف.یہ زندگی کا تمام دور ، جس پر مسلمان پہلے سے یقین رکھتے ہیں، ہر بچہ جانتا ہے. الله پاک نے اِس قرآن پاک کو اُس ایمان کو واپس بحال کرنے ، آخرت میں ایمان کو زندہ کرنے کو بھیجا.
ان دو منٹ میں، میں آپ سے اس آیت کی اہمیت شئیر کروں گا. اللہ پاک نے اس سے پچھلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو بالغیب پر ایمان لاتے ہیں.
یُؤمِنونَ بِالغَیبِ
وہ غیب کے کس حصے کو بھول بیٹھے تھے؟ وہ آخرت کو بھول گئے تھے. اور جب وہ آخرت کو بھول گئے تب اعمال کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ آپ اچھے کام کیوں کرتے ہیں؟ آپ برے کاموں سے کیوں رکتے ہیں؟ آپ کے پاس کوئی اصل مقصد نہیں رہ جاتا جب آپ آخرت پر ایمان ہی نا رکھیں. تب کیا إقامة الصلاة ہو پائے گی؟ اگر اپ آخرت کا کوئی تصور نہیں رکھتے یا نماز چھوڑنے جیسے اعمال کے نتائج کا نہیں سوچتے تو کیا آپ نماز پڑھنے کی پرواہ کریں گے؟ نہیں. اور جب آپ خرچ کریں گے (کچھ بھی) اور یہ ایمان نہیں رکھیں گے کہ خرچ کرنا آپ کو دنیا اور آخرت میں بھلائی دے گا تو خرچ کرنے کا کیا تصور باقی رہ جاتا ہے؟
تقویٰ کی بنیاد ایمان بالغیب، نماز قائم کرنا اور خرچ کرنا ہے. یہ سب غائب ہو جاتا ہے اگر آخرت کا تصور غائب ہو جائے. یہ ہمارے ایمان کا بنیادی عقیدہ ہے. ہمارا ایمان اسی سے جُڑا ہوتا ہے.
وَبِالاٰخِرَةِ همْ یُوْقِنُوْنَ
اب دیکھیں لفظ "یومنون" استعمال ہوا ہے ان کے پاس ایمان تھا. اور آخر کار "یوقنون" استعمال ہوا "یقین". "یقین" کا عربی میں مطلب ہے " مکمل ثبوت،یقین رکھنا" . ان تمام چیزوں میں سے جن پر وہ ایمان لاتے ہیں ایک چیز جو وہ کبھی نہیں بھولتے وہ ہے آخرت کی زندگی. اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا خیال.
اور اس شعوری کوشش کے ساتھ انشاء اللہ و تعالی جیسے جیسے ہم یہ سورہ پڑھیں گے آپ اس سورہ کا مختلف رنگ دیکھیں گے . کیونکہ یہ لوگوں کے اس گروہ سے مخاطب ہے جو آنے والی زندگی کے بارے میں بھول چکے ہیں. قرآن کے طالبعلم کا ایک مقصد یہ سمجھنا بھی ہے کہ اللہ تعالی کیسے سب کچھ قرآن میں ایک طرح یا دوسری طرح سے وہ سکھاتا ہے جو ہمیں اللہ سے ملاقات کی یاس دلاتا ہے. یہ زندگی اللہ سے قرب پانے کے لیے ہے اور اگلی زندگی وہ ہے جب آپ آخرکار قرب پا لیں گے. تو یہ زندگی دراصل اگلی زندگی کی تیاری کے لیے ہے جب ہمیں اصل میں اللہ سے ملنا ہے، ہر نماز قیامت کے دن کے لیے ایک یاد ہے، ہر جمعہ کا اجتماع یوم الحساب کی طرح ہے ،حج اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کی ریہرسل ہے جیسے ہم قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے. اسلام میں عبادت کا ہر ایک عمل ہمیں کسی نہ کسی طرح اللہ تعالی کے سامنے اس دن کھڑے ہونے کی یاد دلاتا ہے .
اللہ پاک ہم سب کو اس دن کھڑے ہونے کی تیاری کی توفیق دے.آمین
-نعمان علی خان
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں