تدبرِ قرآن- سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) حصہ 13





تدبرِ قرآن- سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) حصہ 13

یہ فساد کے بارے میں پہلی بات تھی جو میں آپ کے ساتھ بانٹنا چاہتا تھا. پر میں چاہتا ہوں کہ آپ فساد کو دو مختلف پہلوؤں سے جانچیں ایک میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں. وہ درمیانہ گروہ کا جس کے بارے میں پہلے بتاتا رہا ہوں وہ دیکھتے ہیں کہ مکہ سے جو مسلمان آئے ہیں وہ جنگ کے لیے تیار ہیں. جنگ سے بہتر کیا ہوتا ہے؟ امن. اور امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات، بات چیت وغیرہ کرنا پڑتا ہے کہ روابط نہ خراب ہوں، جنگ کی نوبت نہ آئے پر اگر روابط توڑ دئیے جائیں اور جنگ کی نوبت آ جائے تو یہ فساد ہو گا. وہ درمیانی گروہ سوچتا تھا کہ صحابہ کرام فساد چاہتے تھے.وہ سوچتے تھے کہ صحابہ کرام، مکہ کے لوگ، قرآن بذات خود مسئلہ ہیں نہ کہ حل. ان کا ماننا تھا کہ اگر ان چیزوں پر سمجھوتہ کر لیا جائے اور کوئی درمیانی رستہ نکل آئے تو گزارہ ہو سکتا ہے. کیونکہ مکہ میں پہلے سے جو لوگ موجود تھے وہ سمجھوتے کے لیے راضی تھے. اس لیے منافقین کہتے تھے کہ کچھ ہمارے لوگ اور کچھ ان کے لوگ مل کر کسی سمجھوتے پر راضی ہو سکتے ہیں. تو جب انہیں کہا جاتا ہے کہ "زمین میں فساد نہ پھیلاؤ" تو وہ کہتے ہیں "نہیں نہیں ہم تو امن ہی چاہتے ہیں، ہم ہی تو مسئلوں کا حل چاہ رہے ہیں."
پر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہی لوگ فساد کا باعث ہیں؟
 فساد کا اصل مطلب امن یا جنگ نہیں بلکہ اس کا اصل مطب نا انصافی، ظلم ہے. ظلم کی مثالیں، جیسے بنا کسی وجہ کے ایک بچی کا زندہ دفنایا جانا، کاروبار میں لوگوں کے ساتھ دھوکا دہی وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ، غریب لوگوں کو جائے پناہ نہ دینا، کسی کا ان کی پرواہ نہ کرنا، فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ یتیموں کو دھتکارنا، اللہ کی عبادت کے لیے ابراہیم علیہ السلام کے بنائے گیے گھر کا بتوں سے گھرا ہونا. ایسا سوچنا ہی کتنا عجیب لگتا ہے کہ ایک مسجد بتوں سے گھری ہو یا خانہ کعبہ کے سامنے ایک بت پڑا ہو. خانہ کعبہ کا، جو کہ خالص اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا اس کا شرک سے گھرا ہونا کس قدر جارحانہ عمل ہے. کیا وہ فساد نہ تھا؟ جبکہ حقیقت میں سب سے بڑا فساد  ہی یہی ہے کہ آپ اپنے معبود کا حق ادا نہیں کر رہے اور اپنے اردگرد رہنے والوں کے ساتھ مسلسل ظلم کرتے جا رہے ہیں.

 ظلم کے ان سب اعمال جیسے کہ یتیموں کو دھتکارنا، لوگوں کو کوروبار میں دھوکا دینا، عورتوں کے ساتھ انتہائی برا سلوک، قتل و غارت وغیرہ کے ساتھ ساتھ قریش کے لوگ حج کے لیے آئے لوگوں کا خیال بھی رکھتے تھے. سِقایَةَ الحاجِّ قریشی اس بات کا دھیان ضرور رکھتے تھے کہ اور کچھ ہو نہ ہو حاجیوں کا خیال رکھا جائے. وہ بہت اچھے میزبان تھے اس لیے اجنبی کہتے تھے کہ وہ کیسے برے ہو سکتے ہیں وہ تو ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں جب بھی ہم جاتے ہیں. قریش کی کبھی کسی سے لڑائی بھی نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ خانہ کعبہ کے نگران تھے. اسی لیے قریش کے لوگ پرامن مشہور تھے. 

اب اسلام آتا ہے اور کہتا ہے کہ نہیں آپ یتیموں سے، عورتوں سے، نومولود بچیوں سے ایسا سلوک نہیں کر سکتے. آپ ان لوگوں کے ساتھ جن کے ساتھ برے سلوک سے خود قرآن، اسلام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع کر رہے ہیں آپ ان کے ساتھ برا سلوک نہیں کر سکتے. آپ لوگوں کے ساتھ ان کی نسل کے اعتبار سے امتیازی سلوک نہیں کر سکتے. ہر انسان اپنے تقویٰ سے پہچانا جاتا ہے اور اللہ جانتا ہے ہر انسان کے تقویٰ کا معیار. اسلام واضح کر دیتا ہے کہ اگر آپ ان اصولوں پر عمل نہیں کرو گے تو فساد برپا ہوگا خواہ آپ صاف ستھری جگہ، گلیاں، کھانے پینے کی ستھری اشیاء رکھتے ہوں.
فساد اصل میں پہلے ذات سے، اخلاق سے شروع ہوتا ہے. اور یہاں اسی فساد کا ذکر ہے۔ اسلام کے مدینہ آنے کے بعد بھی فساد کی تعریف بدلتی نہیں وہی رہتی ہے ابھی بھی کفر، ظلم، جھوٹ بولنا، کرپشن فساد ہی رہتا ہے. اس لیے (مطلع کیا جا رہا ہے کہ)جب منافق سمجھوتے کے لیے آتے ہیں تو (جان لیں)کہ آپ ان کی نا انصافیوں کے ساتھ سمجھوتہ کر رہے ہیں.  انصاف اور ظلم ایک ساتھ ایک دل میں نہیں رہ سکتے.
مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ
تو بظاہر جو امن منافق قائم کرنا چاہتے ہیں اصل معنوں میں وہ ہی اصلی فساد تھا. اللہ پاک فرماتے ہیں أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـٰكِن لَّا يَعْلَمُون
وہ لوگ ہی فساد کی اصل جڑ ہیں.
جب آپ اللہ کے مکمل پرامن دین میں سمجھوتوں کا دخل چاہتے ہیں َتو آپ سے بڑا فسادی کوئی نہیں. جو چیز پہلے سے ہی مکمل خالص ہو تو نہ آپ اس میں کچھ جمع کر سکتے ہیں نہ ہی اسے مزید بہتر بنانے کے لیے کچھ نکال باہر کر سکتے ہیں. اللہ نے یہ جو دین ہمیں دیا ہے یہ خالص ہے. اس میں سے کچھ نفی کرنا یا کچھ اپنے پاس سے جمع کرنا فساد ہے. اسلام فساد کو ختم کرنے آیا تھا اسے بذات خود کسی جوڑ توڑ کی ضرورت نہیں ہے. منافقوں کا مسلہ ہی یہی ہے کہ وہ دین کو اپنے طریقے پر بدلنا چاہتے ہیں جبکہ دین اس لیے آیا کہ آپ خود میں تبدیلی لائیں.

اب جب کہ ان آیات کی روشنی میں آپ جان چکے ہیں کے منافقیین کا طرز عمل کیسا ہوتا ہے تو اب ہم واپس سے یہودیوں کی جماعت کے بارے میں سوچتے ہیں جب اللہ پاک فرماتے ہیں:
يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا
وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں.
کیوں؟کیسے؟
 وہ مسلمانوں کے پاس آ کر کہتے ہیں کہ ہمارا تمہارے نبی پر ایمان لانا ضروری تو نہیں کیونکہ ہم تو پہلے سے ہی مانتے ہیں آمَنَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ اللہ اور آخرت کو. اور یہی کافی ہے. ہمارے اللہ اور آخرت کو ماننے کے باوجود آپ ہمیں کافر کیوں کہتے ہیں ہم تو آپ ہی کی طرح ایمان لانے والے ہیں ہمیں تو مل کر کام کرنا چاہیے.
ایسی باتیں وہ مسلمانوں کے سامنے کرتے تھے اور جب وہ واپس اپنے لوگوں میں جاتے تو مکہ کے لوگوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندیاں کرتے کہ "کب آ رہے ہو ان مسلمانوں کو قتل کر نے؟ ہم ان کے سامنے جھوٹا مسکرا مسکرا کر تھک چکے ہیں، ہمیں ان سے نفرت ہے."
 تو پیٹھ پیچھے وہ ایسی منصوبہ بندیاں کرتے تھے اور سامنے مسکرا کر ہاتھ ملاتے، پیار محبت کا دکھاوا کرتے تھے. یہودیوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو اصل میں مسلمانوں کے دوست تھے. پر اللہ یہاں تمام یہودیوں کی نہیں صرف ان کے درمیان چھپے دھوکے بازوں کی بات کر رہا ہے جو بظاہر تو سگے بنتے تھے مگر اصل میں مسلمانوں سے چھٹکارا چاہتے تھے. اسی لیے اللہ پاک کہتا ہے
وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
وہ اپنے علاوہ اور کسی کو دھوکا نہیں دے رہے انہیں احساس بھی نہیں ہے کہ وہ خود کو ہی بےوقوف بنا رہے ہیں.
فِي قُلُوبِهِم مَّرَض
چونکہ یہ جملہ اسمیہ ہے اس لیے اس کا مطلب ہوا ان کے دلوں میں یہ بیماری ہمیشہ سے ہے.
یہودی ہمیشہ سے ہی دین میں اپنی مرضی کرتے رہے ہیں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے نبی نہیں ہیں جن کو ماننے سے انہوں نے انکار کیا بلکہ اپنے انبیاء کو بھی انکار کرتے رہے ہیں.
وَ یَقْتُلُونَ النَّبِیِّینَ بِغَیْرِ حَقٍ
ان کے نزدیک اپنے انبیاء کا قتل کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی. تو آپ مسلمان اس بات پر پریشان نہ ہوں جب وہ ایسی باتیں آپ سے کہیں.
فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضً ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ
اللہ نے ان کی بیماری کو مزید بڑھا دیا ہے. انہوں نے انبیاء کرام کو بہت تکالیف پہنچائیں. انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کرنے سے بھی پہلے انہیں تکلیفیں پہنچانے کی کوششیں کیں. قریش اپنے کچھ لوگوں کو مدینہ بھیجتا ہے وہ وہاں جا کر کہتے تھے کہ
"ہمارے پاس ایک آدمی آیا ہے وہ کہتا ہے کہ وہ رسول ہے پر ہم نہیں جانتے کہ ان سے رسول ہونے کی کیا نشانی پوچھیں. کیونکہ وہ ہمیں اپنے قرآن سے مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں. تو آپ مذہبی کتابوں کے حامل لوگ ہیں کیا آپ ہمیں کچھ ایسے مشکل سوالات بتا سکتے ہیں جو ہم ان سے پوچھیں جن کا ان کے پاس جواب نہ ہو اور یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے."
 اصل میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاموش کروانے کے لیے ایسے سوال کرنا چاہتے تھے جن کے آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہار جائیں. قریش خود تو پڑھے لکھے نہیں تھے تو انہیں مدینہ کے راہبوں کی مدد لینی پڑتی تھی. اور راہب بھی ایسے تھے وہ قریش کو کہتے ان سے یہ پوچھو، وہ پوچھو، فلاں سوال کا جواب تو انہیں آ ہی نہیں سکتا، ان سے یہ پوچھو وغیرہ. تو مکہ کے لوگ تو پہلے سے ہی دین کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں تھے. تو اللہ پاک فرماتے ہیں وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُون
  وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ
جب انہیں کہا جاتا ہے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ.
یہودیوں کی وہ جماعت کیا فساد پھیلا رہی تھی؟ وہ اپنی کتاب کی باتیں چھپا رہے تھے. اگر ان کی تورات کو، جو اللہ پاک نے اس وقت تک باقی رکھی، پڑھا جاتا تو کوئی شبہہ نہ رہ جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم الله کے رسول ہیں. اس بات سے انکار کے لیے یہودیوں نے تورات کے ان حصوں کو چھوڑ دیا جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تھا.
أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ.
کیا تم کتاب کے کچھ حصوں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے کفر کرتے ہو. 
وہ بس تورات کے ان حصوں کو ہی چھوڑ دیتے تھے. اللہ پاک فرماتے ہیں
قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا
کیوں نہ تم تورات لے آؤ اور اسے پڑھو.
قرآن یہودیوں کی جماعت سے کہہ رہا ہے جاؤ تورات لاؤ اور اسے پڑھو
إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اگر تم واقعی میں سچے ہو.
وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو معلوم پڑ جاتا کہ قرآن ہی مُھَيْمِنُ ہے، اللہ پاک کی آخری کتاب ہے. تو وحی کو چھپانا بھی فساد کی ایک بہت بڑی قسم ہے. تو جب انہیں کہا جاتا ہے کہ فساد مت پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں
إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ
ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں.
یہاں پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ ان کے پاس جو ان کی کتاب باقی تھی انہوں نے اس کے بھی کچھ حصے چھپا دئیے. اب یہ بات ہم پر کیسے لاگو ہوتی ہے؟
ہمارے پاس مکمل قرآن پاک ہے. اور قرآن کے کچھ حصے یقینی طور پر معاشرتی اعتبار سے ٹھیک نہیں لگتے.
قرآن کے کچھ ایسے حصے آجکل بائبل کی تبلیغ کرنے والے ایوانجیلک خود بھی پڑھتے ہیں جن میں ایسی باتیں ہوں جیسے "مسلمانوں کا قرآن کہتا ہے کہ جہاں بھی کفار کو پاؤ انہیں قتل کر دو." اب کوئی ان سے پوچھے بنا سیاق و سباق کے اس کا کیا مطلب ہوا؟ تو وہ کہتے ہیں "پہلے ہمیں معلوم کرنے دو پھر بتاتے ہیں."
ہم مسلمان ہونے کے باوجود اس بارے میں بات نہیں کرتے. پہلی بات تو یہ کہ ہماری کتاب میں ایسا کچھ بھی نہیں جسے ہمیں چھپانا پڑے. یہ کتاب صرف ہمارے لیے نہیں پوری انسانیت کے لیے نازل ہوئی ہے اور اگر اس کتاب کو مسلمانوں کے علاوہ بھی پوری دیانتداری اور ایمانداری سے کسی کو سمجھایا جائے تو یہ کسی بھی انسان کو سمجھ آ جائے گی. یہاں تک کہ وہ والے حصے بھی جو آپ کو معاشرتی اعتبار سے ٹھیک نہیں لگتے. اللہ کی کتاب کے کسے حصے کو چھپانے کی کوئی وجہ نہیں ہے. بلکہ اگر ایسا ہو تو اللہ پاک آپ بتاتا ہے کہ اگر آپ قرآن کی کسی بھی حصے کو چھپاؤ تو نہ صرف اللہ خود ایسے انسان پر لعنت کرتا ہے بلکہ فرشتے بھی. وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ  اللہ پاک نے ایسے فرشتے پیدا کیے ہیں جن کی تخلیق کا مقصد ہی اس انسان پر لعنت کرنا ہےجو کتاب کے کسی حصے کو چھپائے. سبحان الله.

اس آیت کی روشنی میں کتاب چھپانا سب سے بڑا فساد ہے. اگر کوئی انسان قیامت کے بارے میں سورہ قیامت سے خطبہ دے اور کوئی دوسرا آ کر کہے بھائی تمہیں جنت کے بارے میں بات کرنے چاہیے تھی تمہاری ایسی باتوں سے میں بہت پریشان ہو گیا ہوں. تو ایسے انسان کو کہنا چاہے کہ بھائی یہ قرآن کی سورہ مبارکہ ہے. ضروری نہیں کہ ہر سورہ میں تمہیں ایسی خبریں ہی سننے کو ہی ملیں جن سے تمہیں اچھا محسوس ہو. اس میں انذار یعنی تنبیہہ بھی ہے اور تبشیر یعنی خوشخبری بھی. اگر کچھ آیات میں الله عزوجل شوہر کے حقوق کی بات کرے تو بہنیں کہتی ہیں کہ بھائی ہمارے حقوق کے بارے میں تو بات کی نہیں. یا اگر میں عورتوں کے حقوق پر بات کروں جو کہ میں پہلے کر چکا بھی ہوں تو بھائی لوگ پریشان ہو جاتے ہیں کہ ہمارے بارے میں آیات کا کیا ہوا؟ تو ایسا ہے کہ ایک خطبہ میں ایک موضوع ہی چل سکتا ہے. کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں ایک خطبے میں پورا قرآن بیان کروں؟ تو میں تو ایسا کر لوں اگر آپ سو نہ جاؤ.
تو ہر کوئی کتاب کا وہ حصہ چاہتا ہے جس سے اسے فائدہ ہو اور اس حصے کو نظر انداز کرنا چاہتا ہے جو انہیں آئینۂ میں خود کی غلیظ تصویر دکھائے. یہی لوگوں کا فساد ہے.
لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ
نہیں نہیں ہم تو بس چیزوں کو بہتر کرنا چاہ رہے ہیں. بس اتنا کرنا ہے کہ قران کے ان حصوں کو نمایاں کرتے ہیں جو معاشرتی اعتبار سے ٹھیک ہیں، جو ہماری پبلک ریلیشنز کے لیے بہتر ہیں اور قرآن کے ان حصوں کو چھوڑ دیتے ہیں جن پر بات کرنے سے کام خراب ہوتا ہے.
اگر ہم، آپ ایسا طرزعمل اپنائیں گے تو وہ قوم یعنی کہ ہم، ہماری امت جن کا مقصد ہی دنیا سے فساد کا خاتمہ تھا تو پھر ہم سے بڑھ کر فسادی دنیا میں کوئی نہ ہو گا. کیونکہ ہمارے پاس الله کی کتاب موجود ہے پھر یہ ہو گا کہ ہم نے ہی اسے چھپا دیا، ہم ہی فسادی ہیں. ہمارا مقصد تو ساری انسانیت تک اللہ کا پیغام پہنچانا ہے(نہ کے اسے چھپانا). قرآن کا کسی انٹرنیٹ سائٹ یا یوٹیوب پر ہونا کافی نہیں یہ تو مِن القُلُوب سے مِن القُلُوب منتقل ہونا چاہیے تھا. ہمیں اس کتاب کا حامل بنایا گیا تھا، ہمیں تو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ دنیا کی کسی بھی جماعت میں اس کے بارے میں کھلم کھلا بات کریں، اللہ کے خوبصورت الفاظ کو انسانیت تک بنا کسی ڈر کے پہنچائیں. آخر ڈرنا کس بات کا؟ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي لوگوں سے مت ڈرو مجھ سے ڈرو. ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا.
تو وہ لوگ کہتے ہیں:
إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُون
وہ کہتے ہیں"نہیں نہیں آپ ہمیں غلط سمجھ رہے ہیں. ہم تو قرآن کے کچھ حصوں پر بات کر کے حکمت سے کام لے رہے ہیں." تو کیا باقی کا قرآن حکمت سے خالی ہے؟ کیا آپ قرآن کے وہ حصے نمایاں کر سکتے ہیں میرے لیے جو آپ کی نظر میں حکمت پر مبنی ہیں تاکہ میں آگے کے لیے محتاط رہوں.
الله عزوجل نے اس کتاب کو قرآنِ حکیم یعنی حکمت سے بھر پور قرآن کہا ہے. اس کے ہر حصے میں میرے لیے،  آپ کے لیے، پوری انسانیت کے لیے حکمت ہے.
اللہ پاک فرماتے ہیں:
أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ
وہ لوگ انتہا کے فسادی ہیں کیونکہ انہوں نے کتاب کے حصوں کو چھپایا.
وَمَا يَشْعُرُونَ
اور وہ شعور نہیں رکھتے
اور انہیں اس بات کا آحساس بھی نہیں ہے. انہیں لگتا ہے کہ اللہ کے احکام کو نظرانداز کر کے اپنی من مانی کر کے وہ دنیا کا بھلا کر رہے ہیں. ان کی نسبت ہم ایسا نہیں کر سکتے.
وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا
الله کا حکم سب سے اونچا ہے. میرے خود کے خیالات، ترجیحات، اصول، خدشات، سیاسی آراء اس میں سے کچھ بھی اللہ کے حکم سے اوپر ہے نہ بڑھ کر ہے. اس امت کا ہر انسان الله کے حکم کا غلام ہے اور اس کا مطیع ہے.  يَعْلُو وَ لَا يُعْلَى عَلَيْهِ. قرآن دنیا کی ہر شے سے درجے، مرتبے میں بلند ہے. اس سے اوپر کچھ ہو ہی نہیں سکتا. یہ ہر شے پر غالب ہے. مسلمان اپنی ایسی سوچ کی وجہ سے فسادات سے دور رہتا ہے. پر جتنا امت کا اس کتاب سے فاصلہ بڑھتا ہے اور اس کتاب کے حصے چھپائے جانے لگتے ہیں(اتنا ہی ترجیحات بدلتی ہیں). پر والله العظیم ہمارا المیہ ہی یہی ہے کہ ہم کتاب کے حصوں کو کیا چھپائیں ہم تو خود اس کتاب سے صحیح طور پر واقف نہیں کجا کہ کسی دوسرے کو بتانا یا چھپانا کیا جب ہم کچھ جانتے ہی نہیں. ہم قرآن سے اتنا دور ہو چکے ہیں کہ اس کی تبلیغ کی جو ذمہ داری ہم پر ڈالی گئی تھی ہم اسے ہی بھلا چکے ہیں. ہمیں س ذمہ داری کو واپس سے اٹھانا ہو گا. اللہ عزوجل ہمیں اس نسل میں سے بنائے جو قرآن کی تبلیغی ذمہ داری کو اس کی اصل جگہ پر واپس لے جانے والے ہوں.

تو اب ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان آیات کے ترجمے کے مطابق دو معنی ہیں ایک قیاسی معنی جس کا اطلاق مدینہ کے یہودیوں پر ہو رہا ہے دوسرا معنی بھی قیاسی اعتبار سے انہی یہودیوں میں سے مدینہ کے منافقین پر ہو رہا ہے. میں منافقین کے متعلق آیات کے دہرے معنی والی روش قائم رکھوں گا اور آپ کو بتاؤں گا کہ منافقین کے بارے میں کتنی آیات ہیں جو جاری رہیں گی اور آگے تو قرآن کی مشکل ترین مثالوں میں سے ایک مثال بھی  آئے گی. ان شاء الله ہم اسے بھی وضاحت سے سمجھ ہی جائیں گے.

-نعمان علی خان

جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں