تدبر قرآن۔۔ سورہ بقرہ حصہ 15
بسم اللہ الرحمان الرحیم
دل کے اندر ایمان کی موجودگی ایک چیز ہے لیکن جب آپ کے دل میں ایمان ہو تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے ظاہر ہوتا ہے. آپ کے کردار سے، آپ کے رویے سے، آپ کی شخصیت سے جو آپ کے ایمان کا ہی خاصہ ہوتی ہے. ایمان کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے اپنی اچھائی ثابت کرنے کی خواہش ہی نہیں رہتی، آپ کسی کے سامنے مصنوعی رویہ نہیں اپناتے، کسی کے سامنے بناوٹی طرزِ عمل کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، اپنا ایمان لوگوں پر ثابت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی . تو لوگ منافقین کے پاس آ کر ان سے کہتے تھے کہ دیکھو، ابوبکر رضی اللہ عنہا اہل ایمان میں سے ہیں، عمر رضی اللہ عنہا ایمان والے ہیں، سعد رضی اللہ اہل ایمان میں سے ہیں، یہ سب لوگ ایمان لانے والوں میں سے ہیں، وہ تو ایسا طرزِ عمل نہیں اپناتے، تو ایسا کیوں ہے کہ تم لوگوں کا ایمان ، تمہیں ان جیسا رویہ اپنانے کا نہیں کہتا؟ منافقین کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ تم لوگ باقی عام لوگوں جیسا نارمل رویہ کیوں نہیں اپناتے .
دوسری دلچسپ بات ہے " كَمَا آمَنَ النَّاس" یہاں "النَّاس " کا لفظ استعمال ہوا ہے، یہ نہیں کہا گیا کہ " كَمَا آمَنَ المؤمنون" یا " كَمَا آمَنَ السابقون" یا " كَمَا آمَنَ المهاجرون" بھی نہیں کہا گیا، کہ تم ان لوگوں کی طرح ایمان لاؤ جو السابقون ہیں یا جو بہترین لوگ موجود ہیں، ان منافقین سے یہ بھی نہیں کہا گیا کہ ایمان لاؤ ان کی طرح جو سبقت لے جانے والے ہیں، میں نے ابھی ان السابقون کا ہی تذکرہ کیا ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہا، حضرت عمر رضی اللہ عنہا جیسے لوگ ، لیکن اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا، بلکہ ان منافقین کے پاس جا کر ان سے کہا گیا کہ تم ایمان لاؤ جیسے باقی لوگ ایمان لائے، سادہ لفظوں میں یہ کہ ان سے کہا گیا کہ، 'باقی لوگ بھی تو ہیں، عام سادہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں ، چلو السابقون جو شروع سے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام کے ساتھ تھے، ہم ان کی بات نہیں کرتے لیکن باقی عام سادہ مسلمان بھی ویسا رویہ نہیں اپناتے جیسا بناوٹی رویہ تم لوگوں کا ہے، تم سے جو کرنے کو کہا جا رہا ہے وہ اتنا مشکل تو نہیں، باقی لوگ بھی تو ایمان لے آئے ہیں ؟
کچھ مفسرین کی رائے میں النَّاسُ کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے تاکہ بتایا جا سکے کہ یہاں یہود کو بھی مخاطب کیا گیا ہے، عبداللہ بن سلام جیسے لوگوں کو، جو دکھاوے کو ایمان لے آئے تھے. تو ان کو بھی مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ اور بھی لوگ ہیں اور تمہارے اپنے اردگرد بہترین مثالی اہل ایمان موجود ہیں تو تم یہ بناوٹی رویہ کیوں اپناتے ہو ؟ اور یہ منافق کی واضح نشانیوں میں سے ایک ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایک منافق بہترین لوگوں کی صحبت میں ہو لیکن پھر بھی اس سے استفادہ حاصل نہ کر سکے. یہ اور بات ہے کہ کسی کا اٹھنا بیٹھنا ایسے لوگوں کے ساتھ ہو جو نہ تو نماز پڑھتے ہوں اور نہ ہی ایمان لانے والوں میں سے ہوں، اور لغو و گھٹیا زبان کا عام استعمال کرتے ہوں، اور اس بری صحبت کا ان پر برا اثر پڑے اور وہ بھی ایسی ہی لغو زبان کا استعمال بکثرت کرنے لگیں، نماز پڑھنا چھوڑ دیں ، یعنی برے لوگوں کی صحبت کا برا اثر . لیکن دوسری طرف ایک خوش قسمت شخص ہے جس کے اردگرد نہایت نیک لوگ موجود ہیں اور اچھی صحبت برے کاموں سے روکتی ہے، تو اسی لیے ان کے دوست ان کے پاس آ کر کہتے ہیں کہ تمہارے آس پاس بہترین لوگ موجود ہیں تو تمہیں کیا مسئلہ ہے ؟ تمہارا ایمان کیوں مضبوط نہیں ؟ لیکن وہ سرکشی میں اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ کہتے ہیں،
قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ
کیا ہم ایمان لائیں جیسے ایمان لائے بیوقوف؟
یہ ہے ان کا جواب، اور اس جواب سے ان کا کیا مطلب ہے یہ سمجھنا ضروری ہے، سُّفَهَ کہتے ہیں اس شخص کو جو اپنے اعمال کے انجام سے بے بہرہ ہو ، سُّفَهَ یا بیوقوفی و نادانی کے لغوی معنی ہیں عقل کی کمی، دانش مندانہ فیصلے کرنے کے قابل ہی نہ ہونا. منافقین کی نظر میں بیوقوفانہ طرزِ عمل کیا ہے، یہ سمجھنا ضروری ہے، کہ منافقین، صحابہ کرام رضی اللہ عنہا کو اور اہلِ مدینہ کو آخر بیوقوف کیوں کہہ رہے ہیں؟
-نعمان علی خان
جاری ہے........
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں