استاد نعمان علی خان کے رمضان میں دیے گیے سورہ بقرہ کے لیکچرز کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے.
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام و علیکم
ہماری کوشش ہے کہ اس رمضان میں سورۃ بقرۃ کی چند آیات و اسباق پہ جتنا ہو سکے تدبر کیا جائے. میں چاہتا ہوں کہ روز آپ کو پہلے سے بتا دوں کہ آج ہم قرآن کی کتنی آیات پڑھیں گے مگر میں جب بھی قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں تو احساس ہوتا کہ کچھ سورتیں، کچھ رکوع، کچھ آیات تاریخی اہمیت کی حامل ہیں اور ان پر زیادہ بات ہونی چاہیے میں چاہتا ہوں کہ سورۃ بقرۃ کی آیات آپ کو نہایت تعمیری طریقے سے اور نہایت دلچسپ معنے میں پڑھاؤں. بجائے اس کے کہ میں آپ کو سورۃ شروع کرنے سے پہلے اسکا تعارف دوں میں چاہوں گا کہ آپ اس سورۃ کا تعارف اس کی آیات پڑھتے ہوئے ساتھ ساتھ حاصل کریں تو ہم سیدھا اس کی آیات سے شروع کریں گے انشاءاللہ.
سورۃ بقرۃ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے اور کون سا موضوع اگلی آیات میں زیر بحث آئے گا یہ میں آپ کو وقتاً فوقتاً بتاتا رہوں گا. اللہ تعالٰی نے یہ سورۃ مدینہ میں نازل فرمائی یعنی یہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی تو یہ سورۃ اللہ کے نبی کے مشن کا اگلا حصہ لیے ہوئے ہے.
یہ بات بہت اہم ہے کہ تمام مدنی سورتیں، قرآن حکیم کا آخری %35 ہیں. زیادہ تر قرآن پہلے ہی نازل ہو چکا تھا. قرآن کا بیشتر حصہ کہاں نازل ہوا؟ مکہ میں. جب رسول اللہ صل اللہ علیہ و السلام مکہ میں تھے تو یہ قرآن کا آخری حصہ ہے اور یہ پہلے حصے سے مختلف ایسے ہے کہ اب آیات طویل تھیں اور موضوع مختلف. کیونکہ جب رسول صل اللہ علیہ و السلام پر قرآن مکہ میں نازل ہوا تب وہ اقلیت میں تھے، مغلوب تھے اور اہل مکہ انہیں ، باغی! لاقانونیت کا حامل! اور معاشرے کے لیے خطرہ سمجھتے تھے اور اگر آپ غور کریں تو مکی سورتوں میں يا ايها الناس! اے تمام لوگوں، يا عبادى اے میرے بندوں کہہ کے مخاطب کیا گیا ہے یا اللہ کہتے ہیں قل يا أيها الكافرون کہہ دو ان سے جو کفر کرتے ہیں. مکی سورتوں میں آپ کو یہ طرز تخاطب يا أيها الذين آمنوا تقریباً نہیں ملے گا.
جب اللہ کے نبی مدینہ تشریف لائے تو نئی ریاست بنی بے شک وہ ایک طرح سے حالت جنگ میں تھے کیونکہ اہل مکہ اور اہل مدینہ کے درمیان جنگیں ہوتی رہیں مگر کم از کم مدینہ میں مسلمان چین سے امن میں تھے. اور یہود و نصارٰی سے معاہدے کر چکے تھے. کچھ یہود و نصارٰی مسلمان ہو چکے تھے اور اب وہ امت مسلمہ کا حصہ تھے. اگرچہ ان کے اہل وعیال ابھی تک غیر مسلم تھے اور اب یہ مسلمان، یہود و نصارٰی ایک معاشرے میں اکٹھے تھے اور انہوں نے مل کر ریاست مدینہ کی حفاظت کا معاہدہ کر رکھا تھا. یہ مسلمانوں کے لیے مدینہ میں نئی زندگی تھی اور اس دوران جو پہلی سورۃ نازل ہوئی وہ تھی سورۃ بقرۃ.
اس وقت جب رسول صل اللہ علیہ و السلام مدینہ میں اسلامی معاشرے کی تشکیل میں مصروف تھے. مسلمانوں کو پہلے سے تیار کیا جارہا تھا کیسے بھی حالات کے لیے، کیونکہ اہل مکہ مسلمانوں کو امن میں دیکھ کے خوش نہیں تھے. مکہ کے قریش جنگ کا کوئی بہانہ ڈھونڈ رہے تھے. اور ڈیڑھ سال میں مسلمانوں کو غزوہ بدر کا معرکہ لڑنا تھا تو اس سورۃ میں آپ بہت سی آیات دیکھیں گے کہ یہ آیات مسلمانوں کو پہلے سے جنگ کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہی ہیں. جس سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ یہ سورۃ ہجرت کے پہلے دو سال میں نازل ہوئی لیکن کچھ آیات ایسی ہیں جو کہ مدینہ میں رسول صل اللہ علیہ و السلام کی زندگی کے آخری ادوار کا احاطہ کرتی ہیں. تو یہ نہیں ہے کہ یہ سورۃ ایک ساتھ پوری نازل ہوئی بلکہ یہ کچھ سالوں میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوتی رہی. اور یہ بھی صرف اسی سورۃ کی خاصیت ہے کہ بے شک یہ مدنی سورۃ ہے مگر اس کی کچھ آیات... آپ اسے مکی سورۃ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ مکی سورۃ کا مطلب ہے کہ اس کی آیات آسمان سے مکہ میں نازل ہوئیں مدنی سورۃ کا مطلب یہ کہ آیات آسمان سے مدینہ میں نازل ہوئیں. مگر اس سورۃ کی آخری آیات.. وہ تب نازل ہوئیں جب رسول صل اللہ علیہ و السلام معراج کی رات آسمان پہ گئے تھے تو یہ ہے اس سورۃ کی خاصیت اور اس میں وہ خاص دعا ہے جو میں روز نماز عشاء میں پڑھتا ہوں.
اور ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ سامعین کیسے مختلف ہیں. عربی کا مشہور قول ہے کہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات کریں. میں بچوں سے اور طرح بات کرتا ہوں، بڑوں سے اور طرح، کالج کے لڑکوں سے اور طرح، کیونکہ سامعین میں بہت فرق ہے، اس لیے مدینہ کے سامعین اہل مکہ سے بہت مختلف ہیں وہ کچھ نہ کچھ جانتے ہیں. وہ تورات و انجیل سے واقف ہیں کچھ پُشتوں سے یہود ہیں کچھ نصارٰی اور اب وہ قرآن کے سامعین ہیں. اس لیے قرآن صرف مسلمانوں کو نہیں سنایا جا رہا. آج کے دور میں اگر میں تلاوت کر رہا ہوں اور کوئی پاس سے گزرتا ہے یا کوئی عمارت کے باہر سے ہی چند قرآن مجید کی تلاوت کی آواز سنے تو اسے کچھ پتہ نہیں چلے گا کہ کیا کہا جا رہا ہے. لیکن جب اس دور میں تلاوت قرآن ہوتی تھی، قرآن عربی زبان میں ان لوگوں کی زبان میں تھا جسے وہ لوگ فوراً سمجھ جاتے تھے. اس کے مفہوم تک پہنچ جاتے تھے چاہے وہ مسلم تھے یا نہیں وہ اسے سمجھ سکتے تھے یہ ان سب کے لیے، یہودی، نصرانی، مسلمان، جو وہاں موجود تھے،ہر ایک کے لیے ریڈیو نشریات جیسا تھا.
تو اس پس منظر میں آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ اس سورۃ میں کیسی آیات شامل ہوں گی. یہ آیات اہل مکہ کے لیے نازل کردہ آیات سے مختلف ہیں کیونکہ اہل مکہ کو آسمانی کتب سے کوئی واقیت نہ تھی. وہ لوگ مشرک تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے. وہ ہزاروں سال پہلے کا دین اسماعیل علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کا دین بھول چکے تھے. انہوں نے قربانی کا دستور جاری رکھا تھا مگر وہ یہ بھول چکے تھے کہ وہ قربانی کرتے کیوں تھے. ان کے ہاں خانہ کعبہ تھا مگر وہ تعمیر کعبہ کا مقصد فراموش کر چکے تھے. تو آسمانی کتب اور آخرت کا خیال سب کچھ ان کے ذہن سے محو ہو چکا تھا. لیکن یہ معاملہ مدینہ کے سامعین کے ساتھ نہ تھا. جو آخری فرق اہل مکہ اورمدینہ کے درمیان تھا وہ یہ کہ جس طرح ہم جمعہ کا خطبہ سنتے ہیں، اسی طرح نصارٰی کا بھی ان کے گرجا گھروں میں ایک مخصوص دن تھا. یہودی بھی ایک خاص دن اپنا خطبہ سنتے ہیں ویسے ہی جیسے ہم سنتے ہیں. ہاں ان میں بھی یہ رواج ہے اور ان کا خطبہ دینے والا ان کا عالم ہے. ان کے پاس علماء تھے جن کو وہ سنتے تھے اور مذہب کے بارے میں ان سےسیکھتے تھے اور وہ نہایت عالم فاضل لوگ تھے یہاں تک کہ قرآن انہیں کہتا ہے الاحبار.
احبار حبر سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں سیاہی. یعنی یہ لوگ اتنا پڑھتے لکھتے تھے کہ ان کے ہاتھ ہما وقت سیاہی سے بھرے رہتے تھے یعنی نہایت عالم فاضل لوگ.
اور اب ان کا موازنہ رسول صل اللہ علیہ و السلام سے کریں جنہیں قرآن بھی نبی الامی کہہ کر پکارتا ہے حضور صل اللہ علیہ و السلام تو تعلیم سے اس قدر نابلد تھے جس طرح ماں کے پیٹ سے نکلا نومولود. دوسرے لفظوں میں وہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن انہیں اُمی کہا گیا ہے جو کہ لفظ اُم سے نکلا ہے کیونکہ ان کی تعلیم اتنی ہی تھی جتنی ماں کے پیٹ سے نکلنے نومولود بچے کی ہو. اور یہ نبی دین سکھارہے ہیں.
دوسرے جو بھی مدینہ میں دین سکھا رہے ہیں وہ عالم فاضل لوگ ہیں، جنہوں نے کسی عالم سے سیکھا اور اس عالم نے کسی اور عالم سے سیکھا اور اس عالم نے کسی اور عالم سے. چاہے وہ یہودیت کا علم دے رہے ہوں یا عیسائیت کی تبلیغ. اور یہاں ایک انسان ہے جو اللہ کا دین سکھا رہا ہے اور ان دوسرے علماء کے دین پر تنقید بھی کررہا ہے. قرآن عیسائیت اور یہودیت دونوں کو زیر بحث لاتا ہے اور اس انسان کا کوئی تعلیمی پس منظر ہے ہی نہیں. حقیقتاً اُمی کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالٰی فرماتے ہیں هو الذى بعث فى الأميين رسولاً منهم... وہی ہے جس نے امیین میں ان پڑھ لوگوں میں اپنا رسول بھیجا کیونکہ حضور صل اللہ علیہ و السلام کو پہلے مدینہ نہیں بھیجا گیا تھا انہیں کہاں بھیجا گیا تھا؟ مکہ میں.... وہاں ان پڑھ لوگ تھے دین سے بے بہرہ اور رسول اللہ ان کے درمیان تھے.
یہی لفظ اُمی ہمارے لیے ایک معزز لقب ہے کیونکہ یہ رسول صل اللہ علیہ و السلام کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ ان کا ایک معجزہ بھی تھا. یہ لفظ یہود و نصارٰی نے طنزاً استعمال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے. ان کے علماء، ان کے اسکالر وہ کہتے تھے یہ دین سکھائیں گے.؟ یہ تو پڑھے لکھے ہیں ہی نہیں تو یہ آپ کو کیا سکھائیں گے؟ یہ سب کچھ میں نے آپ کو اس لیے بتایا کیونکہ اس سورۃ کے پہلے تین الفاظ کیا تھے؟ ا ل م اور یہ حروفِ تہجی ہیں. اگر کوئی بھی بندہ حروف پڑھ رہا ہو تو وہ پڑھنا سیکھ رہا ہوتا ہے. اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں کہ اسے حروف تہجی پتہ ہوں. بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے کبھی تعلیم حاصل نہیں کی، کبھی اسکول نہیں گئے لیکن وہ اردو بولتے ہیں آپ انہیں ا ب پ ت ٹ ث وغیرہ کا بتائیں انہیں سمجھ نہیں آئے گا. ث؟؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ کیا ہے؟ میں نے تو یہ کبھی نہیں سنا.
حروف سیکھنا صرف تب اہم ہوتا ہے جب آپ نے پڑھنا یا لکھنا ہو. اور یہ کام رسول صل اللہ علیہ و السلام نے کبھی کیا ہی نہیں تھا. تو جب وہ تلاوت کرتے ہیں ا ل م تو یہ اس معاشرے کے تمام لوگوں کو حیرت زدہ کرنے کے لیے کافی ہے. یہ کیا؟ ان کو حروف کس نے سکھائے؟ میرا خیال تھا کہ یہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اگر یہ کہہ رہے ہیں ا ل م تو ان کا ضرور کوئی سکھانے والا ہے، کوئی استاد ہے. کیونکہ یہ خود بخود تو نہیں سیکھ سکتے انہیں. نہیں پتہ. انہیں تو الم کہنا چاہیے الم تركيف فعل ربك بأصحاب الفيل انہیں اس طرح بولنا چاہیے تھا لیکن اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ الف لام میم... تو ضرور ان کا کوئی استاد ہے. یہاں تک کہ جو انہیں سن رہے ہی. وہ بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا سکھانے والا کون ہے؟ وہ انہیں حروف کیوں سکھا رہا ہے؟ تو اس نے سامعین کے دل میں بڑا اہم سوال پیدا کیا. کیونکہ اس سوال کا جواب ہے کہ وہ سکھانے والا اللہ ہے. وہی ہے جنہوں نے حضور صل اللہ علیہ و السلام کو سکھایا ہے اور یہ کہ وہ واقعی اس طرح تعلیم حاصل کر رہے ہیں.
دوسری چیز جو میں آپ کو الف لام میم کے بارے میں بتانا چاہوں گا. وہ ان حروف کا قرآن میں استعمال ہے. قرآن میں اس طرح کلام کیا گیا جیسا پہلے کبھی نہ کیا گیا تھا. اس طریقے سے کوئی بات نہیں کرتا کبھی بھی. اہل عرب کو اپنی زبان پہ بہت ناز تھا. وہ دوسرے تمام لوگوں کو عجم کہا کرتے تھے یعنی جسے ٹھیک سے بات کرنا نہ آتی ہو، کند ذہن.
وہ ہر عربی سے نابلد شخص کو اپنے سے کم تر سمجھتے تھے لیکن قرآن میں جس طرح کے فعل استعمال ہوئے، جس طرح کے حروف، جس طرح کے جملے قرآن میں استعمال ہوئے، ایسا کلام پہلے کبھی نہ سنا گیا. اس کے قریب ترین بھی کوئی ایسے کلام نہیں کرتا. جانتے ہیں جب بھی کوئی نیا شاعر بہت زبردست شاعری کرتا ہے تب بھی اس کی اسی فیصد بنیاد تقریباً پرانی شاعری پہ ہوتی ہے. آپ اگر شاعری میں دلچسپی نہیں رکھتے تو شاید پاپ میوزک یا ریپ میوزک سے واقف ہوں. اگر آپ غور کریں تو یہ انہوں نے کوئی نئی موسیقی نہیں بنا لی انہوں نے پہلے سے موجود پرانی طرز کی موسیقی کے عناصر لیے اور اس کو ملا کر اس سے کچھ مختلف بنایا. یہ بالکل بھی نیا نہیں ہے زیادہ تر وہی ہے جو کوئی پہلے بھی کبھی کر چکا ہے لیکن جب قرآن کہتا ہے الف لام میم. یہ پہلے کبھی نہیں سنا. اس طرح کون بات کرتا ہے؟ یہ صرف سوال ہی نہیں بلکہ تجسس بھی پیدا کرتا ہے کہ یہ جو بھی استاد ہے اس استاد سے پہلے کبھی یہاں کسی نے نہیں پڑھا. کسی کو ایسے کبھی تعلیم نہیں ملی. قرآن کی مدینہ میں رونمائی ا ل م سے کی جا رہی ہے. سو جب الف لام میم کہا جاتا ہے تو یہ صرف ان کے لیے نہیں ہے جو یقین رکھتے ہیں بلکہ یہ ان کی بھی رہنمائی کے لیے ہے جو یقین نہیں رکھتے. علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ ا ل م کا مطلب کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے. یہ کہنا غلط ہے کہ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے جو بھی کہا اس کا کوئی مقصد/مطلب ہوتا ہے، کوئی فائدہ ہے. قرآن میں اللہ نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو ہمیں کچھ سکھاتی نہ ہو.
اللہ تعالٰی یہ نہیں کہتے قال القرآن... کہ اس نے قرآن بتایا. اللہ تعالٰی نے کہا علَّم القرآن... اس نے قرآن سکھایا. قال القرآن کے معنی میں نے قرآن کہا ہے مگر نہیں اللہ تعالٰی نے کہا میں نے قرآن سکھایا ہے، میں ہوں استاد.
جاری ہے.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں