حصہ سوم
الف لام میم کا ایک اور کنکشن
الم ( مبتدا ہے)
ذلک الکتاب (خبر )۔
الف لام میم اصل میں وہ کتاب ہے. کچھ علماء کے مطابق الف لام میم قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے. الف لام میم قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور یہ ایک بہت خوبصورت (بات) بھی ہے کہ قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ایک راز ہے کیونکہ اس میں ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو عاجز بناتی ہیں. ہم خواہ کتنا بھی سیکھ لیں آخر میں ہم کچھ نہیں جانتے.
انسانیت کے بارے میں ، انسان کا علم ناقص ہونے کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
(ھوالذی) وَ اللّٰہُ اَخۡرَجَکُمۡ مِّنۡۢ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا ۙ
وہی ہے جس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں سے نکالا ( اور پھر وہ کہتا ہے کہ جیسے اس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ) تم کچھ نہیں جانتے تھے.
ظاہر ہے جب ہم بچے ہوتے ہیں تو ہم کچھ نہیں جانتے ہوتے. لیکن اسکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اور اب بھی بھی تم کچھ نہیں جانتے. سبحان اللہ. اللہ انسانیت کو اس کی اصل جگہ پر رکھتا ہے جب وہ ایسے بات کرتا ہے.
تو وہ کہتا کہ الم ذلک الکتاب یہ کتاب کا نام ہو سکتا ہے۔
تیسرا کنیکشن الف لام میم کا الف لام میم ہی ہے. ذلک الکتاب یعنی درحقیقت یہی اصلی کتاب ہے. گویا انسانیت اسی انتظار میں تھی. یہ سورہ کب نازل ہوئی تھی؟ مدینہ میں. مدینہ کی آبادی میں یہودی اور عیسائی شامل تھے اور یہودی اور عیسائیوں کے پاس کئی ٹیکسٹ اور کئی نشانیاں تھیں کہ آخری الہامی کتاب آنے والی ہے. وہ انتطار کر رہے تھے. اور جب انہوں نے الف لام میم سنا. (تو سوچا) ضرور ان (آپ صلی اللہ علیہ وسلم )کا کوئی باہر کا استاد ہوگا. اللہ ان لوگوں کو فوری جواب دیتا یہ کہ " یہ وہ کتاب ہے جس کا تم انتظار کر رہے تھے. یہی ہے وہی کتاب جس کے لیے تم دعا کرتے تھے کہ نشانیاں آئیں ، فتح آئے اور آخری رسول آئے." (تو) یہ آ گئی ہے. ذلک الکتاب اور دوسرا جملہ ہے لا ریب فیه اس میں قطعی کوئی شک نہیں ہے کہ یہی وہ کتاب ہے جس کا تم انتظار کر رہے تھے. وہی (کتاب) ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ " الکتاب الموعود" ۔جیسے کہ کچھ دوسرے مفسر کہیں گے "ذلک ھو الکتاب الموعود" . یہی وہ کتاب ہے جس کا پہلے وعدہ کیا گیا تھا. وہی جس کے انتظار میں تم تھے۔
"ویَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ " جو ہم سورہ بقرہ میں پڑھیں گے۔
یہود آخری رسول اور آخری کتاب کی آمد کے لیے بہت بے چین تھے. وہ اس بارے میں بات بھی کیا کرتے تھے. وہ کہا کرتے تھے کہ " یہ قریش ہر وقت ہمیں مارتے ہم سے جنگ کرتے ہیں مگر اگلی بار اے قریش (سن لو) ہمارا رسول بہت جلد آنے والا ہے آخری کتاب کے ساتھ اور جب وہ آئے گا تو اللہ نے فتح کا وعدہ کیا ہے تب ہم تمہیں پوچھیں گے۔" وہ لوگ ایسے کیا کرتے تھے ۔تو اللہ پاک اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚ ۖ ۛفِیۡہِ۔
اور پھر تیسرا حصہ ہے ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۲﴾ یہ حتمی حصہ ہے (اس آیت کا). ایک شاندار رہنمائی. طاقتور رہنمائی. ان لوگوں کے لیے جو احتیاط برتنا چاہتے ہیں، اس نقصان سے بچتے ہوئے جو ان کی طرف آئے ہر قدم محتاط ہوکر اٹھانا چاہتے ہیں. ایسے لوگ جو واقعی زندگی کی پرواہ کرتے ہیں ان کے لیے اس کتاب میں حتمی رہنمائی ہے.
اس موقع پر آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ سے کچھ شئیر کرنا چاہتا ہوں کہ اس سب تعارف یا قرآن کی واقفیت میں اللہ اپنی حکمت سے فیصلہ کرتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد اگلی سورہ یہ ہونی چاہیے. تو یہ سورہ ہمیں اسلام اور قرآن کی ایسی تصویر دے گی جو کچھ اور نہیں دے سکتا. تاکہ ہمارے ذہن مکمل طور پر اللہ کی کتاب کو ہماری ساری زندگی اپنانے کے لیے تیار ہوں. تو یہ آیات بہت قیمتی ہیں. تو میں ان آیات پر زیادہ وقت لگاؤں گا کہ ہر بار جب ہم یہ آیات سنیں تو ہم اس سب کو دوبارہ سے یاد کرسکیں.
تو میں آپ سے یہ شئیر کرنا چاہتا ہوں کہ پہلی بات یہ کہ اس کی پیدائش آسمانی ہے الم ذلک الکتاب.
پر یہاں دو اصول ہیں جو اللہ تعالی نے بتائے ہیں۔دو چیزیں جو میرے اس کتاب سے رشتے کا تعین کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک اصول یہ ہے کہ لا ریب فیہ اس میں کہیں کوئی کسی شک کی گنجائش نہیں جو آپ کو اندر سے پریشان کرے خواہ اس میں کچھ بھی ہو. اس کتاب میں کسی قسم کے شک کی ، کسی بے یقینی کی کوئی گنجائش نہیں ہے.
"مجھے یقین نہیں ہے کیا یہ واقعی اللہ کی طرف سے ہے ؟" اس کتاب میں ایسے کسی شک کے لیے قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے. پھر سوال اٹھتا ہے کہ "کیسے نہیں؟" میں اس کی طرف کچھ دیر میں آؤں گا.
تو ان (اصولوں) میں سے پہلا ہے کہ کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے اور ایک ہی رستہ ہے جس سے کوئی شک باقی نہ رہ جائے.
آپ کیسے کسی کو بتا سکتے ہیں کہ یہ خدا کی کتاب ہے؟ وہ کہے گا میرے پاس بائبل ہے وہ بھی خدا کی کتاب ہے. کوئی ہندو صحیفے کا ویدہ لا کر کہے گا یہ بھی خدا کی کتاب ہے بلکہ یہ تو بہت سے خداؤں کی کتاب ہے. تمہاری کتاب قرآن خدا کی کتاب ہے تو میں کیسے مانوں کہ یہ صیحح ہے اور باقی غلط ؟؟ آپ کے ساتھی ،دوست آپ سے کہہ سکتے ہیں کہ اتنے مذہب ہیں کوئی تو غلط ہو گا تو آپ کیسے جانتے ہیں کہ آپ ٹھیک ہیں ؟؟ بعض اوقات بچے آ کر ماں باپ سے پوچھ سکتے ہیں "ماں کیا آپ کبھی سوچتی ہیں کہ جب فیصلہ کا دن آئے گا تو کون صیحح ٹھہرایا جائے گا؟؟" اور ماں پریشان ہو جائے کہ " یہ کیا ہوا ہے ، میں اس وقت میں کونسی آیت پڑھوں ؟ کونسی رقیہ پڑھوں ؟ " ہم بنا کسی شک کی گنجائش کہ کیسے جان سکتے ہیں کہ یہی اللہ کی کتاب ہے ؟؟
موسٰی علیہ السلام کے پیروکار بنا کسی شک کے کیسے جانتے تھے کہ وہ (موسٰی) ایک رسول ہیں؟ وہ ان سے بہت سوال کیا کرتے تھے۔ پر جب انہوں نہیں عصا مارا اور پانی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ۔اگر آپ اس عوام میں حاضر ہوتے تو کوئی شک نہ رہ جاتا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں. میں بس اس دریا میں سے گزر جاؤں گا دونوں طرف دو بہت بڑے پانی کے پہاڑ بلند اور (پہاڑ کی) شکل اختیار کیے ہوئے بنا کسی سہارے کے اور میں ان کے درمیان سے گزر رہا ہوں تو یقینی طور پر مان جاؤں گا کہ یہ ایک رسول ہیں. اب میرا سوال کرنا نہیں بنتا. میں ان سے خوش ہوں اور مطمئن ہوں.
دوسرے لفظوں میں شک کیسے دور ہوتا ہے؟ جب آپ ایک معجزہ دیکھتے ہیں. معجزہ دیکھ کر شک دور ہو جاتا ہے. جن لوگوں نے عیسٰی علیہ السلام کو سوال کیے (شک کیا)جب انہوں نے اللہ کے حکم سے ایک مٹی کے پرندے کو اصلی جاندار پرندے میں بدلتے دیکھا تو ان کا شک دور ہو گیا. جب ایک عصا سانپ میں بدلتا ہے تو شک دور ہو جاتا ہے.
پر سوال یہ ہے کہ یہ کتاب (قران) کسی دریا کو پھاڑ نہیں رہی ، کسی ڈنڈے کو سانپ میں نہیں بدل رہی یہ تو بس ایک بہت سے صفحوں پر چھپی کتاب ہے تو معجزہ کہاں ہے ؟؟ اللہ تعالٰی نے ہمیں یہ کتاب دی ہے اور یہ آنکھوں کے لیے معجزہ نہیں ہے بلکہ یہ کانوں کے لیے معجزہ ہے۔یہ سب معجزوں میں سے آخری معجزہ ہے ۔پجھلے معجزات شکوک دور کرنے کے لیے پیغمبروں کو دئے گئے تھے. معجزہ کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟ شک کو دور کرنا. معجزے اسلیے نہیں دکھائے جاتے کہ آپ دیکھ کر کہیں واؤ کیا شاندار ہے. معجزے شک کو دور کرنے کے لیے دیے گئے تھے.
لیکن ایک ہی نسل میں معجزہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اگلی نسل کے لیے وہ معجزہ بس ایک کہانی ہوتا ہے. انہوں نے اسے دیکھا نہیں ہوتا. ایک معجزہ کا تجربہ کرنے کے لیے آپ کو اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑتا ہے۔ حتٰی کہ بنی اسرائیل کی اگلی نسل یا عیسٰی علیہ السلام کے پیروکاروں کی اگلی نسل یا صالح علیہ السلام یا ابراہیم علیہ السلام ۔۔۔اللہ کہتا ہے کہ جب وہ آگ میں سے سلامت باہر نکلے تو ان کے ساتھ کچھ لوگ تھے۔تو وہ لوگ جب اپنے بچوں کو کوئی واقعہ بتاتے ہیں تو وہ بس ایک کہانی ہوتا ہے کیونکہ انہوں(بچوں) نے اسے دیکھا نہیں ہوتا۔بچہ چاہے کہے کہ اچھی کہانی تھی اگرچہ مجھے اس کے بارے میں شکوک، سوال ہیں.
مگر یہ قرآن ، یہ آخری آسمانی کتاب جو اللہ نے ہمیں دی اللہ نے اس کے اندر معجزہ رکھا ہے جو آنکھوں کے لیے نہیں ہے. یہ کانوں کے لیے ہے۔اور یہ ہر ایک کان کے لیے بھی (معجزہ)نہیں ہے۔یہ ایک بہت بڑا فرق ہے۔
وہ معجزات چاہے آپ موسٰی علیہ السلام کے پیروکار نہ بھی ہوتے ،اگر آپ بس اس دریا میں مچھلیاں ہی پکڑ رہے ہوتے اور پانی پھٹتا اور آپ اس انسان کو دیکھ کر سوچتے کہ ضرور اس کا خدا سے کوئی ایسا تعلق واسطہ ہے. آپ اسے معجزہ سمجھتے کہ نہیں؟ آپ بالکل فوراً یہی سمجھتے.
لیکن سوال. یہ ہے کہ کیا جو بھی قرآن پڑھتا ہے اسکو قرآن معجزاتی لگتا ہے؟؟ نہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جو بھی قرآن پڑھتا ہے اسکو یہ معجزاتی لگتا ہے؟ نہیں.
کئی لوگ قرآن پڑھتے ہیں یَزِیۡدُہُمۡ نُفُوۡرًا انکی نفرت میں اضافہ ہی ہوتا ہے. انہیں اسلام سے پہلے ہی نفرت ہوتی ہے ،قرآن پڑھنے کے بعد وہ اسلام سے اور نفرت کرتے ہیں۔وہ واقعی اسلام سے نفرت کرت ہیں ۔ایسے بھی لوگ ہیں جو پہلے ہی انکاری تھے ترجمہ پڑھنے کے بعد وہ اور انکار،شک میں پڑھ جاتے ہیں ۔کیا ایسا ہی نہیں ہے؟
تو سوال یہ ہے کہ معجزہ کہاں ہے ؟تو اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آخری رسول اور آخری پیغام مفت نہیں ہیں. ایسا نہیں ہے اب کہ کوئی بھی ایک جھلک دیکھے اور معجزہ پا جائے. اس کتاب کا معجزہ پانے کا ایک ہے طریقہ ہے کہ آپ اس (معجزہ کو) کھوجیں اور آپ اس کتاب پر سوچیں اور آپ اس کتاب میں غور و فکر کریں، تدبر کریں، تب ہی یہ واضح ہو گا کہ یہ( کتاب) اللہ ہی کی طرف سے ہے. اگر آپ اسے ایک سطحی نظر سے دیکھیں گے تو یہ آپ کو کچھ نہیں دے گی۔ اگر آپ اس کی گہرائی میں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو......
میرا کالج میں ایک دوست تھا جو مسلم خاندان سے تھا پر وہ بہت مذہبی لوگ نہیں تھے. انہوں نے اسے کالج بھیجا اور اس نے فلاسفی میں بیچلر کرنے کا فیصلہ کیا. فلاسفی پڑھنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ آپ کی ایمان کا جنازہ نکل جاتا ہے 'انا للہ و انا الیہ راجعون'.
تو وہ بالکل(ایمان سے) نکل جاتا ہے بے یقین ، انکاری، شکی ہو جاتا ہے.
کسی چیز میں یقین نہیں رکھتا. اسے اپنے وجود کے ہونے پر بھی شک ہوتا ہے. وہ ان لوگوں میں سے ہو جاتا ہے جو خلا میں لٹک رہے ہوتے ہیں۔تب اسے (دوست) کو قرآن میں غور کرنے کا چیلنج دیا گیا. تو اس نے غور کیا. اس نے اپنے تمام فلاسفی کے سوال جو بھی وہ سوچ سکا وہ قرآن پر لے آ یا. اور اس نے اسے قراں کو بس دو سال ہی پڑھا اس امید سے کہ وہ کچھ شاید کچھ ایسا مل جائے کہ فلاسفی کے آگے یہ کتاب دب کر رہ جائے. پر وہ اس کتاب سے مسلسل شکست کھاتا رہا.
اور آپکو پتا ہے جو لوگ فلاسفی پڑھتے ہیں وہ بحث مباحثہ بہت پسند کرتے ہیں. سو جب وہ بحث میں شکست کھائیں تو بہت غصہ ہو جاتے ہیں. انکی انا پر چوٹ لگتی ہے. سو وہ اگلی بار مزید سوالات کے ساتھ تیار ہو کر آتے ہیں.
وہ بھی ایسا ہی کرتا تھا.
لیکن ہر دفعہ یہ کتاب جواب اس کے منہ پر دے مارتی تھی. وہ یہ دلائل کسی انسان کو تو نہیں دے رہا تھا. وہ کس کو دے رہا تھا؟ ایک کتاب کو۔۔ یا اللہ کو؟ وہ تو ایک کتاب کے ساتھ مباحثہ کر رہا تھا۔۔۔
دو سال کے بعد وہ میرے پاس آیا کہ میں نے اس کتاب کے ساتھ سخت مقابلہ کیا ہے،،،مگر اس نے مجھے مضبوطی سے جکڑ لیا ہے. مجھے ہر بات کا مطلب سمجھا دیا. اور میں یہاں تک پہنچا ہوں ۔۔۔کہ یہ ہے۔۔۔۔"لا ریب فيه"۔۔
یہ مرحلہ صرف ترجمے سے حاصل نہیں ہوگا، بلکہ جب آپ اس پر غور و فکر کریں گے تب حاصل ہوگا. یہ میرا دعوٰی نہیں ہے، یہ اللہ کا دعوی ہے.
"افلا يتدبرون القران ولو کان من عند غيرالله لوجدو فيه اختلافا كثيرا" سورت النساء آیت ٨٢
یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلاف ہوتے.
ویسے اگر آپ قرآن کا مطالعہ سرسری یا سطحی کر رہے ہیں تو اس میں بہت سے اختلاف ملیں گے. تو پھر ایسے لوگ ان اختلافات (جو وہ قرآن میں پاتے ہیں )کی ویب سائیٹس بناتے ہیں،بلاگز بناتے ہیں، ویڈیوز، فہرستیں مرتب کرتے ہیں.
کیوں ؟ کیونکہ انھوں نے قرآن میں تدبر نہیں کیا. اگر وہ تدبر کرتے تو وہ جان جاتے کہ یہ اللہ کے الفاظ ہیں۔۔۔
قرآن کے ساتھ میرے تعلق کا پہلا حصہ یہی ہے ۔۔۔کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔۔اس میں کوئی شک نہیں ۔۔یہ معجزہ ہے۔۔
قرآن کے ساتھ میرے تعلق کا دوسرا حصہ یہ ہے۔۔۔کہ یہ ھدی للمتقین ہے۔۔یہ ایک گائیڈینس ہے۔۔رہنمائی ہے۔۔نصیحت ہے۔۔رہنمائی کس کیلئے ہوتی ہے؟؟؟ اس کیلئے جو اس کا طلب گار ہوتا ہے۔۔جو کہتا ہے کہ میں مسلسل رہنمائی کی تلاش میں ہوں۔
هدى ۔۔ھدایہ۔۔عربی لفظ ھدیہ سے ملتا جلتا ہے۔یعنی ۔گفٹ۔۔تحفہ۔۔آپ صحرا میں رستہ بھٹک جانے والے کا تصور کریں۔۔ذرا صحرا میں سفر کی مشکلات کو ذہن میں لائیں ۔صحرا میں خط مستقیم پر سفر نا ممکن ہوتا ہے۔۔اگر آپ کوشش کریں بھی تو کیا ہوگا؟ آپ گول گول ہی گھوم جائیں گے. اب دیکھئے کہ صحرا میں بھٹکنے والے کیلئے سب سے بڑا تحفہ کیا ہو سکتا ہے؟ جو آپ اسے دے سکتے ہیں ؟
اب آپ خود یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔۔اسی وجہ سے "ہدی " اور "ہدیہ " بہت مماثلت رکھتے ہیں.
یہ دنیا قرآن سے ہمارے عقلی رشتے کی عکاسی نہیں کر سکتی. وہ رشتہ جسکا ذکر لاریب فیہ میں ہوا ہے.
اب والا رشتہ یہ ہے جس میں مجھے ہمہ وقت قرآن سے رہنمائی کی ضرورت ہے. ویسی ضرورت جو ہمارے جسم کو پانی کی ہوتی ہے. ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کل پانی پیا تھا تو آج میرے جسم کو پانی کی ضرورت نہیں. ہم جانتے ہیں پانی ہمارے جسم کی ضرورت ہے۔۔
اللہ عزوجل جب قرآن میں وحی کے نزول کا ذکر کرتے ہیں تو اس کو پانی سے کمپیئر کرتے ہیں.
اس کا پانی سے قریبی تعلق ہے.
آپ کا جو تعلق پانی سے ہے وہی تعلق قرآن سے ہے. آپ اپنی پیاس کو اگنور نہیں کرتے۔ ہر چند گھنٹے کے بعد آپکو کچھ پینے کی ضرورت ہے۔یا ایسی خوراک لینے کی جس میں لیکوڈ ہو۔یعنی آپکو اپنی پیاس بجھانے کیلئے کسی بھی مائع کی ضروت ہے. ایسے ہی آپکے دل کو ہر چند گھنٹے بعد وحی کی ضرورت ہوتی ہے. اور یہ وحی قرآن ہے.
ہر روز چند گھنٹوں کے بعد آپ نماز میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ۔۔اھدنا الصراط المستقیم ۔۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ پانی پی رہے ہوں ۔۔آپ کیا مانگ رہے ہیں ؟ رہنمائی ،ہدائیت، گائیڈنس۔۔۔۔
رہنمائی اور پیاس دونوں قریبی تعلق رکھتے ہیں۔یہی ہے وہ دوسری چیز ہمارے تعلق کی.
جب کوئی شک نہیں رہ جاتا اور آپ مکمل طور قائل ہو جاتے ہیں کہ یہ الفاظ اللہ ہی کے ہیں. تب آپ قرآن کی طرف آتے ہیں. آپ اس سے ہدائیت مانگتے ہیں ،پھر آپ پیروی کرتے ہیں۔کیونکہ اب آپکو کوئی شک نہیں ہے.
آج ہم دیکھتے ہیں کہ نوجوان لوگ اللہ کے فرمان کی پیروی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں. وہ زیادہ آمادہ نظر نہیں آتے. وہ ھدیً للمتقین کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے.
آپ جانتے ہیں کہ عمومی طور پر مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ' لا ریب فیہ ' کو سمجھت ہی نہیں.
اگر آپ لاریب فیہ کا خیال رکھیں گے تو آپ کو ھدًی للمتقین ملے گا.
یہ ایک آرڈر ہے۔۔ایک ترتیب ہے۔۔یہی ترتیب/ یہی آرڈر ہمیں اسٹیبلش کرنے کی ضرورت ہے۔۔
نوجوان نسل کو قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ اس میں معجزاتی طاقت ہے. یہ صرف اللہ ہی کی طرف سے کیوں ہے؟ یہ کیوں کسی اور کی طرف سے نہیں؟ اس میں شک کی کوئی گنجائش ہے۔۔
پس ان تینوں چیزیں خاص ترتیب سے ہیں اور اس آیت کو دوبارہ پڑھیں۔۔
"ذلك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين" ساری آیت کو ایک اور طریقے سے.
ذلک الکتاب کو ایک ساتھ اور لاریب فیہ ھدیً للمتقین کو ایک ساتھ.
وہ ایسی کتاب ہے، جس میں اس بات کا کوئی شک نہیں کہ اس کتاب میں ہدایت ہے ان لوگوں کے لیے جو تقوٰی والے ہیں.
دوسرے الفاظ میں اگر آپ محتاط زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ آپکی مطلوبہ پانی تک رہنمائی نہ کرے. تو ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ آپکو گمراہ کردے. یا وہ آپکی حفاظت نا کرے.
آج کا دور بہت زیادہ معلوماتی ہے. بہت سی متضاد معلومات موجود ہیں اور لوگ نہیں جانتے کہ کس کو فالو کریں؟
اگر آپ اللہ کی طرف مڑتے ہیں یہ کہہ کر کے اے میرے رب ! میری حفاظت کیجئے. تو یہ اللہ کی گارنٹی ہےکہ " لا ریب فیہ ھدی للمتقین " اس میں کسی قسم کا کوئی شک کی بات نہیں پریشانی کی بات نہیں کہ یہ کتاب آپکو ضرور ہدایت دے گی. یہ زندگی بھر کا تعلق ہے.
آخری چیز جو میں اس وقت شئیر کرنا چاہوں گا ۔۔وہ ہے ھدیً للمتقین۔ یہ ایک مشکل
adverbial phrase
ہے۔
اس کو سمجھنے کیلئے میں ایک مثال دیتا ہوں.
جب میں کہوں کہ ایک کار چل رہی ہے.
اسکا انجن آن ہے یعنی کار وائیبریٹ کر رہی ہے.
جب آپ کہتے ہیں کہ کار چلتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ کار شاید ابھی نہیں چل رہی لیکن یہ چلتی ہے، اس کے اندر کوئی پوٹینشل ہے (کوئی طاقت ہے، توانائی ہے ) جو اس کے انجن کو سٹارٹ کر سکے. اب غور کریں یعنی حقیقت میں کوئی ایسی چیز ہے اس کے اندر ، جو کار کو اس کام میں مصروف کر رہی ہے.
اب جب اللہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب ھدیً للمتقین ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ نہ صرف آپکو گائیڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ یہ آپکو مسلسل گائیڈ کر بھی رہی ہے. صرف ایسا نہیں کہ اس میں ہدایت دینے کی طاقت موجود ہے بلکہ یہ اس وقت بھی آپکی رہنمائی کررہی ہے. یعنی ابھی بھی انجن چل رہا ہے، اور آپ اسکو چلتا ہوا دیکھ رہے ہیں.
یہ مؤمنین کیلئے ،یقین رکھنے والوں کیلئے زندہ تجربہ ہے. قرآن کے معجزانہ تجربات کو آپ خود ہی ایکسپیرئنس کر سکتے ہیں. آپ کیلئے کوئی دوسرا شخص، اس کی تشریح نہیں کرسکتا. اللہ کی کتاب میں معجزانہ رہنمائی موجود ہے.
کبھی آپکی زندگی میں کوئی مشکل مرحلہ آئے اور آپ اس کتاب کو کھولیں خواہ کوئی سا بھی صفحہ پڑھیں. کہیں سے بھی چند آیات تلاوت کریں. یہ آپکو بالکل وہی مطلب دیں گی آپکو عین وہی جواب دیں گی، جو اس وقت آپکا اصل مسئلہ ہوگا. آپ کسی کو اس کا ثبوت پیش نہیں کر سکتے. کسی کو قائل نہیں کر سکتے کہ یہ ایک معجزہ ہے. یہ اللہ کی طرف سے رہنمائی کا انفرادی تحفہ ہے. یہ اللہ کی طرف سے آپ کیلئے زندگی میں رہنمائی کا گفٹ ہے.
یہ ہے "ھدًی للمتقین۔۔۔۔۔"
اور جہاں تک صحابہ کرام رضوان اللہ (ابتدائی اور اصلی مسلمانوں) کا ذکر ہے تو وہ بہت خوش قسمت لوگ تھے۔۔سبحان اللہ۔۔
جب وہ ایسے حالات میں ہوتے کہ انکو سمجھ نا آتی کہ کیا کریں؟؟؟ تب حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمان سے آتے اور آیات دیتے کہ یہ ہے جو آپکو کرنا ہے.
سورت الاسراء آیت نمبر 106 "۔۔وقرآنا فرقنه لتقراه على الناس على مكث ونزلنه تنزيلا "
ترجمہ : قرآن کو ہم نے کھول کھول کر ( وضاحت سے ،تھوڑا تھوڑا کر کے) اس لئے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں. اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل کیا ہے۔
تب حالات کے عین مطابق آیات نازل ہو رہی تھیں. لیک. آپ اور میرے لئے 23 سال تک اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم موجود رہے. اب جبکہ ساری چیزیں سارے احکامات آچکے ہیں. سارا قرآن نازل ہو چکا ہے.
ہم جان گئے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔کیونکہ تمام قرآن بیان ہو چکا ہے۔سارا قرآن رہنمائی کا ایک ہال ہے. یہ آپکو ہمیشہ رہنمائی دیتا ہے. اور ایسے ہی دیتا ہے جیسے یہ آپ ہی کے لیے ابھی ہی اترا ہے. اور دیتا رہے گا. یہ اللہ عزوجل کا تحفہ ہے ان لوگوں کیلئے جو متقین ہیں.
یہاں ہمارا آجکا سبق ختم ہوتا ہے.. کل ہم ان شاء اللہ دیکھیں گے متقین، تقوٰی والے لوگ، کون ہوتے ہیں یہ لوگ؟ آپ کیسے تقوٰی والے بن سکتے ہیں تاکہ مجھے اور آپکو صحیح معنوں میں اللہ کیطرف سے ہدایت مل سکے.
الم ( مبتدا ہے)
ذلک الکتاب (خبر )۔
الف لام میم اصل میں وہ کتاب ہے. کچھ علماء کے مطابق الف لام میم قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے. الف لام میم قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور یہ ایک بہت خوبصورت (بات) بھی ہے کہ قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ایک راز ہے کیونکہ اس میں ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو عاجز بناتی ہیں. ہم خواہ کتنا بھی سیکھ لیں آخر میں ہم کچھ نہیں جانتے.
انسانیت کے بارے میں ، انسان کا علم ناقص ہونے کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
(ھوالذی) وَ اللّٰہُ اَخۡرَجَکُمۡ مِّنۡۢ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا ۙ
وہی ہے جس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں سے نکالا ( اور پھر وہ کہتا ہے کہ جیسے اس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ) تم کچھ نہیں جانتے تھے.
ظاہر ہے جب ہم بچے ہوتے ہیں تو ہم کچھ نہیں جانتے ہوتے. لیکن اسکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اور اب بھی بھی تم کچھ نہیں جانتے. سبحان اللہ. اللہ انسانیت کو اس کی اصل جگہ پر رکھتا ہے جب وہ ایسے بات کرتا ہے.
تو وہ کہتا کہ الم ذلک الکتاب یہ کتاب کا نام ہو سکتا ہے۔
تیسرا کنیکشن الف لام میم کا الف لام میم ہی ہے. ذلک الکتاب یعنی درحقیقت یہی اصلی کتاب ہے. گویا انسانیت اسی انتظار میں تھی. یہ سورہ کب نازل ہوئی تھی؟ مدینہ میں. مدینہ کی آبادی میں یہودی اور عیسائی شامل تھے اور یہودی اور عیسائیوں کے پاس کئی ٹیکسٹ اور کئی نشانیاں تھیں کہ آخری الہامی کتاب آنے والی ہے. وہ انتطار کر رہے تھے. اور جب انہوں نے الف لام میم سنا. (تو سوچا) ضرور ان (آپ صلی اللہ علیہ وسلم )کا کوئی باہر کا استاد ہوگا. اللہ ان لوگوں کو فوری جواب دیتا یہ کہ " یہ وہ کتاب ہے جس کا تم انتظار کر رہے تھے. یہی ہے وہی کتاب جس کے لیے تم دعا کرتے تھے کہ نشانیاں آئیں ، فتح آئے اور آخری رسول آئے." (تو) یہ آ گئی ہے. ذلک الکتاب اور دوسرا جملہ ہے لا ریب فیه اس میں قطعی کوئی شک نہیں ہے کہ یہی وہ کتاب ہے جس کا تم انتظار کر رہے تھے. وہی (کتاب) ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ " الکتاب الموعود" ۔جیسے کہ کچھ دوسرے مفسر کہیں گے "ذلک ھو الکتاب الموعود" . یہی وہ کتاب ہے جس کا پہلے وعدہ کیا گیا تھا. وہی جس کے انتظار میں تم تھے۔
"ویَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ " جو ہم سورہ بقرہ میں پڑھیں گے۔
یہود آخری رسول اور آخری کتاب کی آمد کے لیے بہت بے چین تھے. وہ اس بارے میں بات بھی کیا کرتے تھے. وہ کہا کرتے تھے کہ " یہ قریش ہر وقت ہمیں مارتے ہم سے جنگ کرتے ہیں مگر اگلی بار اے قریش (سن لو) ہمارا رسول بہت جلد آنے والا ہے آخری کتاب کے ساتھ اور جب وہ آئے گا تو اللہ نے فتح کا وعدہ کیا ہے تب ہم تمہیں پوچھیں گے۔" وہ لوگ ایسے کیا کرتے تھے ۔تو اللہ پاک اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚ ۖ ۛفِیۡہِ۔
اور پھر تیسرا حصہ ہے ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۲﴾ یہ حتمی حصہ ہے (اس آیت کا). ایک شاندار رہنمائی. طاقتور رہنمائی. ان لوگوں کے لیے جو احتیاط برتنا چاہتے ہیں، اس نقصان سے بچتے ہوئے جو ان کی طرف آئے ہر قدم محتاط ہوکر اٹھانا چاہتے ہیں. ایسے لوگ جو واقعی زندگی کی پرواہ کرتے ہیں ان کے لیے اس کتاب میں حتمی رہنمائی ہے.
اس موقع پر آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ سے کچھ شئیر کرنا چاہتا ہوں کہ اس سب تعارف یا قرآن کی واقفیت میں اللہ اپنی حکمت سے فیصلہ کرتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد اگلی سورہ یہ ہونی چاہیے. تو یہ سورہ ہمیں اسلام اور قرآن کی ایسی تصویر دے گی جو کچھ اور نہیں دے سکتا. تاکہ ہمارے ذہن مکمل طور پر اللہ کی کتاب کو ہماری ساری زندگی اپنانے کے لیے تیار ہوں. تو یہ آیات بہت قیمتی ہیں. تو میں ان آیات پر زیادہ وقت لگاؤں گا کہ ہر بار جب ہم یہ آیات سنیں تو ہم اس سب کو دوبارہ سے یاد کرسکیں.
تو میں آپ سے یہ شئیر کرنا چاہتا ہوں کہ پہلی بات یہ کہ اس کی پیدائش آسمانی ہے الم ذلک الکتاب.
پر یہاں دو اصول ہیں جو اللہ تعالی نے بتائے ہیں۔دو چیزیں جو میرے اس کتاب سے رشتے کا تعین کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک اصول یہ ہے کہ لا ریب فیہ اس میں کہیں کوئی کسی شک کی گنجائش نہیں جو آپ کو اندر سے پریشان کرے خواہ اس میں کچھ بھی ہو. اس کتاب میں کسی قسم کے شک کی ، کسی بے یقینی کی کوئی گنجائش نہیں ہے.
"مجھے یقین نہیں ہے کیا یہ واقعی اللہ کی طرف سے ہے ؟" اس کتاب میں ایسے کسی شک کے لیے قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے. پھر سوال اٹھتا ہے کہ "کیسے نہیں؟" میں اس کی طرف کچھ دیر میں آؤں گا.
تو ان (اصولوں) میں سے پہلا ہے کہ کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے اور ایک ہی رستہ ہے جس سے کوئی شک باقی نہ رہ جائے.
آپ کیسے کسی کو بتا سکتے ہیں کہ یہ خدا کی کتاب ہے؟ وہ کہے گا میرے پاس بائبل ہے وہ بھی خدا کی کتاب ہے. کوئی ہندو صحیفے کا ویدہ لا کر کہے گا یہ بھی خدا کی کتاب ہے بلکہ یہ تو بہت سے خداؤں کی کتاب ہے. تمہاری کتاب قرآن خدا کی کتاب ہے تو میں کیسے مانوں کہ یہ صیحح ہے اور باقی غلط ؟؟ آپ کے ساتھی ،دوست آپ سے کہہ سکتے ہیں کہ اتنے مذہب ہیں کوئی تو غلط ہو گا تو آپ کیسے جانتے ہیں کہ آپ ٹھیک ہیں ؟؟ بعض اوقات بچے آ کر ماں باپ سے پوچھ سکتے ہیں "ماں کیا آپ کبھی سوچتی ہیں کہ جب فیصلہ کا دن آئے گا تو کون صیحح ٹھہرایا جائے گا؟؟" اور ماں پریشان ہو جائے کہ " یہ کیا ہوا ہے ، میں اس وقت میں کونسی آیت پڑھوں ؟ کونسی رقیہ پڑھوں ؟ " ہم بنا کسی شک کی گنجائش کہ کیسے جان سکتے ہیں کہ یہی اللہ کی کتاب ہے ؟؟
موسٰی علیہ السلام کے پیروکار بنا کسی شک کے کیسے جانتے تھے کہ وہ (موسٰی) ایک رسول ہیں؟ وہ ان سے بہت سوال کیا کرتے تھے۔ پر جب انہوں نہیں عصا مارا اور پانی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ۔اگر آپ اس عوام میں حاضر ہوتے تو کوئی شک نہ رہ جاتا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں. میں بس اس دریا میں سے گزر جاؤں گا دونوں طرف دو بہت بڑے پانی کے پہاڑ بلند اور (پہاڑ کی) شکل اختیار کیے ہوئے بنا کسی سہارے کے اور میں ان کے درمیان سے گزر رہا ہوں تو یقینی طور پر مان جاؤں گا کہ یہ ایک رسول ہیں. اب میرا سوال کرنا نہیں بنتا. میں ان سے خوش ہوں اور مطمئن ہوں.
دوسرے لفظوں میں شک کیسے دور ہوتا ہے؟ جب آپ ایک معجزہ دیکھتے ہیں. معجزہ دیکھ کر شک دور ہو جاتا ہے. جن لوگوں نے عیسٰی علیہ السلام کو سوال کیے (شک کیا)جب انہوں نے اللہ کے حکم سے ایک مٹی کے پرندے کو اصلی جاندار پرندے میں بدلتے دیکھا تو ان کا شک دور ہو گیا. جب ایک عصا سانپ میں بدلتا ہے تو شک دور ہو جاتا ہے.
پر سوال یہ ہے کہ یہ کتاب (قران) کسی دریا کو پھاڑ نہیں رہی ، کسی ڈنڈے کو سانپ میں نہیں بدل رہی یہ تو بس ایک بہت سے صفحوں پر چھپی کتاب ہے تو معجزہ کہاں ہے ؟؟ اللہ تعالٰی نے ہمیں یہ کتاب دی ہے اور یہ آنکھوں کے لیے معجزہ نہیں ہے بلکہ یہ کانوں کے لیے معجزہ ہے۔یہ سب معجزوں میں سے آخری معجزہ ہے ۔پجھلے معجزات شکوک دور کرنے کے لیے پیغمبروں کو دئے گئے تھے. معجزہ کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟ شک کو دور کرنا. معجزے اسلیے نہیں دکھائے جاتے کہ آپ دیکھ کر کہیں واؤ کیا شاندار ہے. معجزے شک کو دور کرنے کے لیے دیے گئے تھے.
لیکن ایک ہی نسل میں معجزہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اگلی نسل کے لیے وہ معجزہ بس ایک کہانی ہوتا ہے. انہوں نے اسے دیکھا نہیں ہوتا. ایک معجزہ کا تجربہ کرنے کے لیے آپ کو اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑتا ہے۔ حتٰی کہ بنی اسرائیل کی اگلی نسل یا عیسٰی علیہ السلام کے پیروکاروں کی اگلی نسل یا صالح علیہ السلام یا ابراہیم علیہ السلام ۔۔۔اللہ کہتا ہے کہ جب وہ آگ میں سے سلامت باہر نکلے تو ان کے ساتھ کچھ لوگ تھے۔تو وہ لوگ جب اپنے بچوں کو کوئی واقعہ بتاتے ہیں تو وہ بس ایک کہانی ہوتا ہے کیونکہ انہوں(بچوں) نے اسے دیکھا نہیں ہوتا۔بچہ چاہے کہے کہ اچھی کہانی تھی اگرچہ مجھے اس کے بارے میں شکوک، سوال ہیں.
مگر یہ قرآن ، یہ آخری آسمانی کتاب جو اللہ نے ہمیں دی اللہ نے اس کے اندر معجزہ رکھا ہے جو آنکھوں کے لیے نہیں ہے. یہ کانوں کے لیے ہے۔اور یہ ہر ایک کان کے لیے بھی (معجزہ)نہیں ہے۔یہ ایک بہت بڑا فرق ہے۔
وہ معجزات چاہے آپ موسٰی علیہ السلام کے پیروکار نہ بھی ہوتے ،اگر آپ بس اس دریا میں مچھلیاں ہی پکڑ رہے ہوتے اور پانی پھٹتا اور آپ اس انسان کو دیکھ کر سوچتے کہ ضرور اس کا خدا سے کوئی ایسا تعلق واسطہ ہے. آپ اسے معجزہ سمجھتے کہ نہیں؟ آپ بالکل فوراً یہی سمجھتے.
لیکن سوال. یہ ہے کہ کیا جو بھی قرآن پڑھتا ہے اسکو قرآن معجزاتی لگتا ہے؟؟ نہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جو بھی قرآن پڑھتا ہے اسکو یہ معجزاتی لگتا ہے؟ نہیں.
کئی لوگ قرآن پڑھتے ہیں یَزِیۡدُہُمۡ نُفُوۡرًا انکی نفرت میں اضافہ ہی ہوتا ہے. انہیں اسلام سے پہلے ہی نفرت ہوتی ہے ،قرآن پڑھنے کے بعد وہ اسلام سے اور نفرت کرتے ہیں۔وہ واقعی اسلام سے نفرت کرت ہیں ۔ایسے بھی لوگ ہیں جو پہلے ہی انکاری تھے ترجمہ پڑھنے کے بعد وہ اور انکار،شک میں پڑھ جاتے ہیں ۔کیا ایسا ہی نہیں ہے؟
تو سوال یہ ہے کہ معجزہ کہاں ہے ؟تو اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آخری رسول اور آخری پیغام مفت نہیں ہیں. ایسا نہیں ہے اب کہ کوئی بھی ایک جھلک دیکھے اور معجزہ پا جائے. اس کتاب کا معجزہ پانے کا ایک ہے طریقہ ہے کہ آپ اس (معجزہ کو) کھوجیں اور آپ اس کتاب پر سوچیں اور آپ اس کتاب میں غور و فکر کریں، تدبر کریں، تب ہی یہ واضح ہو گا کہ یہ( کتاب) اللہ ہی کی طرف سے ہے. اگر آپ اسے ایک سطحی نظر سے دیکھیں گے تو یہ آپ کو کچھ نہیں دے گی۔ اگر آپ اس کی گہرائی میں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو......
میرا کالج میں ایک دوست تھا جو مسلم خاندان سے تھا پر وہ بہت مذہبی لوگ نہیں تھے. انہوں نے اسے کالج بھیجا اور اس نے فلاسفی میں بیچلر کرنے کا فیصلہ کیا. فلاسفی پڑھنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ آپ کی ایمان کا جنازہ نکل جاتا ہے 'انا للہ و انا الیہ راجعون'.
تو وہ بالکل(ایمان سے) نکل جاتا ہے بے یقین ، انکاری، شکی ہو جاتا ہے.
کسی چیز میں یقین نہیں رکھتا. اسے اپنے وجود کے ہونے پر بھی شک ہوتا ہے. وہ ان لوگوں میں سے ہو جاتا ہے جو خلا میں لٹک رہے ہوتے ہیں۔تب اسے (دوست) کو قرآن میں غور کرنے کا چیلنج دیا گیا. تو اس نے غور کیا. اس نے اپنے تمام فلاسفی کے سوال جو بھی وہ سوچ سکا وہ قرآن پر لے آ یا. اور اس نے اسے قراں کو بس دو سال ہی پڑھا اس امید سے کہ وہ کچھ شاید کچھ ایسا مل جائے کہ فلاسفی کے آگے یہ کتاب دب کر رہ جائے. پر وہ اس کتاب سے مسلسل شکست کھاتا رہا.
اور آپکو پتا ہے جو لوگ فلاسفی پڑھتے ہیں وہ بحث مباحثہ بہت پسند کرتے ہیں. سو جب وہ بحث میں شکست کھائیں تو بہت غصہ ہو جاتے ہیں. انکی انا پر چوٹ لگتی ہے. سو وہ اگلی بار مزید سوالات کے ساتھ تیار ہو کر آتے ہیں.
وہ بھی ایسا ہی کرتا تھا.
لیکن ہر دفعہ یہ کتاب جواب اس کے منہ پر دے مارتی تھی. وہ یہ دلائل کسی انسان کو تو نہیں دے رہا تھا. وہ کس کو دے رہا تھا؟ ایک کتاب کو۔۔ یا اللہ کو؟ وہ تو ایک کتاب کے ساتھ مباحثہ کر رہا تھا۔۔۔
دو سال کے بعد وہ میرے پاس آیا کہ میں نے اس کتاب کے ساتھ سخت مقابلہ کیا ہے،،،مگر اس نے مجھے مضبوطی سے جکڑ لیا ہے. مجھے ہر بات کا مطلب سمجھا دیا. اور میں یہاں تک پہنچا ہوں ۔۔۔کہ یہ ہے۔۔۔۔"لا ریب فيه"۔۔
یہ مرحلہ صرف ترجمے سے حاصل نہیں ہوگا، بلکہ جب آپ اس پر غور و فکر کریں گے تب حاصل ہوگا. یہ میرا دعوٰی نہیں ہے، یہ اللہ کا دعوی ہے.
"افلا يتدبرون القران ولو کان من عند غيرالله لوجدو فيه اختلافا كثيرا" سورت النساء آیت ٨٢
یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلاف ہوتے.
ویسے اگر آپ قرآن کا مطالعہ سرسری یا سطحی کر رہے ہیں تو اس میں بہت سے اختلاف ملیں گے. تو پھر ایسے لوگ ان اختلافات (جو وہ قرآن میں پاتے ہیں )کی ویب سائیٹس بناتے ہیں،بلاگز بناتے ہیں، ویڈیوز، فہرستیں مرتب کرتے ہیں.
کیوں ؟ کیونکہ انھوں نے قرآن میں تدبر نہیں کیا. اگر وہ تدبر کرتے تو وہ جان جاتے کہ یہ اللہ کے الفاظ ہیں۔۔۔
قرآن کے ساتھ میرے تعلق کا پہلا حصہ یہی ہے ۔۔۔کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔۔اس میں کوئی شک نہیں ۔۔یہ معجزہ ہے۔۔
قرآن کے ساتھ میرے تعلق کا دوسرا حصہ یہ ہے۔۔۔کہ یہ ھدی للمتقین ہے۔۔یہ ایک گائیڈینس ہے۔۔رہنمائی ہے۔۔نصیحت ہے۔۔رہنمائی کس کیلئے ہوتی ہے؟؟؟ اس کیلئے جو اس کا طلب گار ہوتا ہے۔۔جو کہتا ہے کہ میں مسلسل رہنمائی کی تلاش میں ہوں۔
هدى ۔۔ھدایہ۔۔عربی لفظ ھدیہ سے ملتا جلتا ہے۔یعنی ۔گفٹ۔۔تحفہ۔۔آپ صحرا میں رستہ بھٹک جانے والے کا تصور کریں۔۔ذرا صحرا میں سفر کی مشکلات کو ذہن میں لائیں ۔صحرا میں خط مستقیم پر سفر نا ممکن ہوتا ہے۔۔اگر آپ کوشش کریں بھی تو کیا ہوگا؟ آپ گول گول ہی گھوم جائیں گے. اب دیکھئے کہ صحرا میں بھٹکنے والے کیلئے سب سے بڑا تحفہ کیا ہو سکتا ہے؟ جو آپ اسے دے سکتے ہیں ؟
اب آپ خود یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔۔اسی وجہ سے "ہدی " اور "ہدیہ " بہت مماثلت رکھتے ہیں.
یہ دنیا قرآن سے ہمارے عقلی رشتے کی عکاسی نہیں کر سکتی. وہ رشتہ جسکا ذکر لاریب فیہ میں ہوا ہے.
اب والا رشتہ یہ ہے جس میں مجھے ہمہ وقت قرآن سے رہنمائی کی ضرورت ہے. ویسی ضرورت جو ہمارے جسم کو پانی کی ہوتی ہے. ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کل پانی پیا تھا تو آج میرے جسم کو پانی کی ضرورت نہیں. ہم جانتے ہیں پانی ہمارے جسم کی ضرورت ہے۔۔
اللہ عزوجل جب قرآن میں وحی کے نزول کا ذکر کرتے ہیں تو اس کو پانی سے کمپیئر کرتے ہیں.
اس کا پانی سے قریبی تعلق ہے.
آپ کا جو تعلق پانی سے ہے وہی تعلق قرآن سے ہے. آپ اپنی پیاس کو اگنور نہیں کرتے۔ ہر چند گھنٹے کے بعد آپکو کچھ پینے کی ضرورت ہے۔یا ایسی خوراک لینے کی جس میں لیکوڈ ہو۔یعنی آپکو اپنی پیاس بجھانے کیلئے کسی بھی مائع کی ضروت ہے. ایسے ہی آپکے دل کو ہر چند گھنٹے بعد وحی کی ضرورت ہوتی ہے. اور یہ وحی قرآن ہے.
ہر روز چند گھنٹوں کے بعد آپ نماز میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ۔۔اھدنا الصراط المستقیم ۔۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ پانی پی رہے ہوں ۔۔آپ کیا مانگ رہے ہیں ؟ رہنمائی ،ہدائیت، گائیڈنس۔۔۔۔
رہنمائی اور پیاس دونوں قریبی تعلق رکھتے ہیں۔یہی ہے وہ دوسری چیز ہمارے تعلق کی.
جب کوئی شک نہیں رہ جاتا اور آپ مکمل طور قائل ہو جاتے ہیں کہ یہ الفاظ اللہ ہی کے ہیں. تب آپ قرآن کی طرف آتے ہیں. آپ اس سے ہدائیت مانگتے ہیں ،پھر آپ پیروی کرتے ہیں۔کیونکہ اب آپکو کوئی شک نہیں ہے.
آج ہم دیکھتے ہیں کہ نوجوان لوگ اللہ کے فرمان کی پیروی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں. وہ زیادہ آمادہ نظر نہیں آتے. وہ ھدیً للمتقین کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے.
آپ جانتے ہیں کہ عمومی طور پر مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ' لا ریب فیہ ' کو سمجھت ہی نہیں.
اگر آپ لاریب فیہ کا خیال رکھیں گے تو آپ کو ھدًی للمتقین ملے گا.
یہ ایک آرڈر ہے۔۔ایک ترتیب ہے۔۔یہی ترتیب/ یہی آرڈر ہمیں اسٹیبلش کرنے کی ضرورت ہے۔۔
نوجوان نسل کو قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ اس میں معجزاتی طاقت ہے. یہ صرف اللہ ہی کی طرف سے کیوں ہے؟ یہ کیوں کسی اور کی طرف سے نہیں؟ اس میں شک کی کوئی گنجائش ہے۔۔
پس ان تینوں چیزیں خاص ترتیب سے ہیں اور اس آیت کو دوبارہ پڑھیں۔۔
"ذلك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين" ساری آیت کو ایک اور طریقے سے.
ذلک الکتاب کو ایک ساتھ اور لاریب فیہ ھدیً للمتقین کو ایک ساتھ.
وہ ایسی کتاب ہے، جس میں اس بات کا کوئی شک نہیں کہ اس کتاب میں ہدایت ہے ان لوگوں کے لیے جو تقوٰی والے ہیں.
دوسرے الفاظ میں اگر آپ محتاط زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ آپکی مطلوبہ پانی تک رہنمائی نہ کرے. تو ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ آپکو گمراہ کردے. یا وہ آپکی حفاظت نا کرے.
آج کا دور بہت زیادہ معلوماتی ہے. بہت سی متضاد معلومات موجود ہیں اور لوگ نہیں جانتے کہ کس کو فالو کریں؟
اگر آپ اللہ کی طرف مڑتے ہیں یہ کہہ کر کے اے میرے رب ! میری حفاظت کیجئے. تو یہ اللہ کی گارنٹی ہےکہ " لا ریب فیہ ھدی للمتقین " اس میں کسی قسم کا کوئی شک کی بات نہیں پریشانی کی بات نہیں کہ یہ کتاب آپکو ضرور ہدایت دے گی. یہ زندگی بھر کا تعلق ہے.
آخری چیز جو میں اس وقت شئیر کرنا چاہوں گا ۔۔وہ ہے ھدیً للمتقین۔ یہ ایک مشکل
adverbial phrase
ہے۔
اس کو سمجھنے کیلئے میں ایک مثال دیتا ہوں.
جب میں کہوں کہ ایک کار چل رہی ہے.
اسکا انجن آن ہے یعنی کار وائیبریٹ کر رہی ہے.
جب آپ کہتے ہیں کہ کار چلتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ کار شاید ابھی نہیں چل رہی لیکن یہ چلتی ہے، اس کے اندر کوئی پوٹینشل ہے (کوئی طاقت ہے، توانائی ہے ) جو اس کے انجن کو سٹارٹ کر سکے. اب غور کریں یعنی حقیقت میں کوئی ایسی چیز ہے اس کے اندر ، جو کار کو اس کام میں مصروف کر رہی ہے.
اب جب اللہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب ھدیً للمتقین ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ نہ صرف آپکو گائیڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ یہ آپکو مسلسل گائیڈ کر بھی رہی ہے. صرف ایسا نہیں کہ اس میں ہدایت دینے کی طاقت موجود ہے بلکہ یہ اس وقت بھی آپکی رہنمائی کررہی ہے. یعنی ابھی بھی انجن چل رہا ہے، اور آپ اسکو چلتا ہوا دیکھ رہے ہیں.
یہ مؤمنین کیلئے ،یقین رکھنے والوں کیلئے زندہ تجربہ ہے. قرآن کے معجزانہ تجربات کو آپ خود ہی ایکسپیرئنس کر سکتے ہیں. آپ کیلئے کوئی دوسرا شخص، اس کی تشریح نہیں کرسکتا. اللہ کی کتاب میں معجزانہ رہنمائی موجود ہے.
کبھی آپکی زندگی میں کوئی مشکل مرحلہ آئے اور آپ اس کتاب کو کھولیں خواہ کوئی سا بھی صفحہ پڑھیں. کہیں سے بھی چند آیات تلاوت کریں. یہ آپکو بالکل وہی مطلب دیں گی آپکو عین وہی جواب دیں گی، جو اس وقت آپکا اصل مسئلہ ہوگا. آپ کسی کو اس کا ثبوت پیش نہیں کر سکتے. کسی کو قائل نہیں کر سکتے کہ یہ ایک معجزہ ہے. یہ اللہ کی طرف سے رہنمائی کا انفرادی تحفہ ہے. یہ اللہ کی طرف سے آپ کیلئے زندگی میں رہنمائی کا گفٹ ہے.
یہ ہے "ھدًی للمتقین۔۔۔۔۔"
اور جہاں تک صحابہ کرام رضوان اللہ (ابتدائی اور اصلی مسلمانوں) کا ذکر ہے تو وہ بہت خوش قسمت لوگ تھے۔۔سبحان اللہ۔۔
جب وہ ایسے حالات میں ہوتے کہ انکو سمجھ نا آتی کہ کیا کریں؟؟؟ تب حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمان سے آتے اور آیات دیتے کہ یہ ہے جو آپکو کرنا ہے.
سورت الاسراء آیت نمبر 106 "۔۔وقرآنا فرقنه لتقراه على الناس على مكث ونزلنه تنزيلا "
ترجمہ : قرآن کو ہم نے کھول کھول کر ( وضاحت سے ،تھوڑا تھوڑا کر کے) اس لئے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں. اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل کیا ہے۔
تب حالات کے عین مطابق آیات نازل ہو رہی تھیں. لیک. آپ اور میرے لئے 23 سال تک اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم موجود رہے. اب جبکہ ساری چیزیں سارے احکامات آچکے ہیں. سارا قرآن نازل ہو چکا ہے.
ہم جان گئے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔کیونکہ تمام قرآن بیان ہو چکا ہے۔سارا قرآن رہنمائی کا ایک ہال ہے. یہ آپکو ہمیشہ رہنمائی دیتا ہے. اور ایسے ہی دیتا ہے جیسے یہ آپ ہی کے لیے ابھی ہی اترا ہے. اور دیتا رہے گا. یہ اللہ عزوجل کا تحفہ ہے ان لوگوں کیلئے جو متقین ہیں.
یہاں ہمارا آجکا سبق ختم ہوتا ہے.. کل ہم ان شاء اللہ دیکھیں گے متقین، تقوٰی والے لوگ، کون ہوتے ہیں یہ لوگ؟ آپ کیسے تقوٰی والے بن سکتے ہیں تاکہ مجھے اور آپکو صحیح معنوں میں اللہ کیطرف سے ہدایت مل سکے.
-نعمان علی خان
جاری ہے.
مجھے سورہ البقرہ کے سارے حصے نہیں مل رہے پلیز مدد کریں اس سلسلے میں ۔۔۔ مجھے سارے حصوں کے لنک کیا بھیج سکتی ہیں ؟؟؟
جواب دیںحذف کریںmajeedsaba17@gmail.com
https://seems77.blogspot.com/search/label/%D8%B3%D9%88%D8%B1%DB%81%20%D8%A7%D9%84%D8%A8%D9%82%D8%B1%DB%81
حذف کریںاس لنک پہ چیک کریں