خطبہ حجتہ الوداع
منظوم
منظوم
ترجمہ۔۔۔۔۔۔۔مفہوم ومطالب
صرف ہےاس کے لے حمدو ثنا
وہ جو ہے مشکل کشا ، حاجت روا
ہم اسی سے طالب امداد ہیں
اس کے آگےمائلِ فریاد ہیں
یہ ہمارا نفس ہے گم کردہ راہ
اے خدا ، دے ہمیں اس سے پناہ
میں گواہی دیتا ہوں ، یکتا ہے وہ
بالیقیں معبود ہے ، تنہا ہے وہ
اور پھر کوئی نہیں اس کا شریک
ہے رسول اس کا محمد ، یہ ہے ٹھیک
میں تمہیں تاکید کرتا ہوں سنو
تم مگن اس کی عبادت میں رہو
یہ بھی تم سے کھول کر کہتا چلوں
پھر یہاں تم سے نہ شاید مل سکوں
جس طرح یہ شہر یہ دن اور یہ ماہ
محترم ہیں اور وجہ عز و جاہ
یہ بھی تمہارے مال و خون و احتشام
سب یونہی اک دوسرے پر ہیں حرام
سود بھی ممنوع ہے ، کہتا ہوں صاف
کرتا ہوں عباس کی رقمیں معاف
جاہلیت کے ہیں خوں سارے معاف
خون عامر کا کیا میں نے معاف
چوب سے یا سنگ سے ہو قتل اگر
لازمی ہے انتقام اس فعل پر
صرف ایک سو اونٹ ہے اس کی سزا
وہ ہے جاہل ، اس سے جو مانگے سوا
ہوگئی شیطاں کی پوجا تو عدم
ہاں بہک سکتا ہے انسان کا قدم
احمر اسود سے نہیں ہے محترم
اسود احمر سے نہیں عزت میں کم
اب نہ ہوگی کچھ عرب کو فوقیت
کم نہ ہوگی اب عجم کی اہمیت
ہوں گے ہم رتبہ عرب ہوں یا عجم
اور ہوں گےدونوں یکساں محترم
اب نہ ہوگا رنگ و مسکن سے وقار
ہوگا تقوی پر فضیلت کا مدار
علم دیں ہو یا رموزِ معرفت
ہو معیشت یا امورِ مملکت
بندگی ہو یا نظام کائنات
ان کو سمجھا دی گئی ایک ایک بات
اے خدا تو سمیع و غیب داں
کردیا ہے میں حق ان پر عیاں
سن رہے ہو جو حقائق تم یہاں
جو نہیں ہیں ،ان پہ کردینا عیاں
از عارف سیمابی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں