حصہ پنجم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم.
اسلام علیکم
میں چاہتا ہوں کہ ہم اس بات کی گہرائی میں جائیں کہ ایمان بالغیب کا
کیا مطلب ہے. قرآن کے نقطہ نظر سے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایمان بالغیب سے
مراد ہے کہ اہل ایمان اللہ پر ایمان لاتے ہیں بے شک وہ اللہ کو دیکھ نہیں
سکتے. وہ ان فرشتوں پر ایمان لاتے ہیں جنہیں وہ دیکھ نہیں سکتے. وہ آخرت
پر یقین رکھتے ہیں جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھی. وہ جہنم کی آگ سے پناہ
مانگتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے اوجھل ہے. وہ جنت پر یقین رکھتے ہیں جو
انہوں نے نہیں دیکھی. وغیرہ وغیرہ.
حضرت محمد صل اللہ علیہ و سلم اور ان پر جو آیات نازل ہوئیں وہ بھی ہمارے لیے ایمان بالغیب ہیں، کیونکہ ہم نے حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کو اور قرآن کو ان پر نازل ہوتے ہوئے تو نہیں دیکھا. ہم نے ان میں سے کچھ بھی نہیں دیکھا ہوا. اہل ایمان معجزات پر بھی یقین رکھتے ہیں جو ان کی نظروں کے سامنے نہیں ہوئے. وہ موسٰی علیہ السلام کے معجزے پر ایمان لاتے ہیں جس نے دریا کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ان کے لیے راستہ بنایا. یہ وہ چیزیں ہیں جو ہم نے کبھی نہیں دیکھیں مگر ہم ان سب پر ایمان لاتے ہیں.
لیکن پھر اس سب پر مزید گہری نظر بھی ڈالی جاسکتی ہے کہ اہل ایمان ایک ایسی حقیقت پر یقین رکھتے ہیں جو باقی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے. وہ لوگ جو اس دور میں رہ رہے ہیں، ہم سب جو اس صدی کے لوگ ہیں، میرے سامنے بیٹھے تمام لوگ جو اس ملک کے رہنے والے ہیں، سب ایک ہی معاشرے میں جی رہے ہیں. اور تقریباً سب کو ایک جیسے حالات کا سامنا ہے. لیکن اہل ایمان صرف ظاہری آنکھ سے چیزوں کو نہیں دیکھتے. اہل ایمان ان چیزوں پر یقین رکھتے ہیں جو ظاہری نظروں سے اوجھل ہیں .
يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ
لوگوں سے تو چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ تعالٰی سے آپ کچھ نہیں چھپا سکتے.
مثال کے طور پر لوگ کسی تقریب میں بیٹھے غیبت کر رہے ہیں. وہ کسی کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں. کوئی ایک ان میں سے اہل ایمان ہے اور باقی سب باتوں میں مصروف ہیں. کسی کا مذاق اڑا رہے ہیں، کسی کی برائیاں کرنے میں مصروف ہیں. کسی کے باری میں انتہائی لغو گفتگو کر رہے ہیں جو وہاں موجود نہیں ہے . انہیں احساس ہی نہیں کہ یہ گناہ ہے. انہیں کوئی درد نہیں ہو رہا. جیسے جیسے وہ بد سے بد ترین گفتگو کی طرف بڑھ رہے ہیں ویسے ہی ان کا درد بڑھتا جائے، ایسا کچھ نہیں ہوتا. نہ انہیں کوئی پسینہ آتا ہے اور نہ ہی ایسی گفتگو کرتے ہوئے انہیں کوئی تکلیف محسوس ہوتی ہے. غیبت کے کوئی جسمانی اثرات نہیں ہوتے لیکن جس کے اندر ایمان ہو اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوتا ہے، کچھ برا لگتا ہے. وہ کہتا ہے کہ میں شرمندہ ہوں کہ میں اس محفل میں موجود ہوں. میں یہ نہیں کر سکتا. میں شرمندہ ہوں کہ اللہ تعالٰی میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟ تو اہل ایمان ایک ایسی غائبانہ حقیقت سے واقف ہیں جسے تقریب میں موجود باقی لوگ نہیں جانتے. یہ ہے ایمان بالغیب. میں ایک اور مثال دوں گا، ایک نوجوان کہیں سے گزر رہا ہو اور ایک لڑکی اس کے پاس سے گزرتی ہے جو کہ غیر مناسب لباس پہنے ہوئے ہے. اس کی نظر لڑکی پر پڑتی ہے لیکن اسے یاد آ جاتا ہے.
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
تم کہیں بھی ہو، اللہ تمہارے ساتھ ہے. اور جو بھی تم کرتے ہو اللہ دیکھ رہا ہے
تم لڑکی کو دیکھ رہے ہو. اللہ اسی وقت تمہیں دیکھ رہا ہے. اور آپ اسی وقت نظریں جھکا لیتے ہیں. یہ ہے ایمان بالغیب. یہ ہے ایمان بالغیب کی زندہ مثال.
آپ کسی سے پوچھیں، کیا تم اللہ پر ایمان لاتے ہو؟ جواب ملے گا، جی بالکل. لیکن اس وقت جب اس سوال کا امتحان لیا جاتا ہے. جب آپ کو آزمایا جاتا ہے. کیا تب آپ کا ایمان آپ کے رویّوں پر اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا آپ کے ایمان لانے سے آپ کی سوچ پر کوئی اثر پڑتا ہے؟ کیا ایمان لانے سے آپ کی ترجیحات میں کوئی فرق آتا ہے؟ یہ ہے ایمان بالغیب.
یہ ایک جدوجہد ہے. اسلام کے بنیادی عقائد ایک طرف کہ اللہ ایک ہے. محمد صل اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں. قرآن اللہ تعالٰی کی کتاب ہے. یہ چند بنیادی عقائد ہیں. اگر رات کے دو بجے آپ کو اٹھا کر کوئی آپ سے یہ سوال پوچھے تو ان کے جواب آپ کو پتا ہوں گے. کیونکہ یہ نپے تلے جوابات ہیں
.لیکن آپ ایمان بالغیب لانے والوں میں سے ہیں یا نہیں؟ یہ
quantitative
نہیں بلکہ یہ ایک
qualitative
بات ہے. اور اسی لیے یہ ایک جدوجہد ہے. آپ کبھی ایمان میں بڑھ جاتے ہیں اور کبھی آپ کا ایمان کم ہو جاتا ہے.
میں آپ کو کچھ اور مثالیں دیتا ہوں. مثلاً تجارت کے دوران بہت سے مواقع آتے ہیں جب آپ گاہک سے زیادہ قیمت وصول کر سکیں. کیونکہ بعض اوقات گاہک کو ہر حال میں کوئی چیز خریدنا چاہتے ہیں. اگر آپ قیمت بڑھاتے چلے جاتے ہیں تو یہ کمائی ناجائز ہو جاتی ہے. کیونکہ جب آپ لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں تو یہ جائز نہیں رہتا. کچھ لوگ اسے (قیمت اصل سے بڑھانے کو) ربٰوا (سود) کی ایک قسم کہتے ہیں. تو اس وقت جب ہر کوئی دس گنا زیادہ قیمت پر بیچنے میں مشغول تھا اور آپ نے تب بھی مناسب قیمت پر بیچا کیونکہ آپ کا ایمان تھا کہ اللہ اور اس کے نبی کا پیغام اس منافع سے کہیں اوپر ہے جو کہ اس وقت آپ کو ملنے والا تھا.
ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا.
یہ تمھارے لیے بہتر ہے اور آخرت میں یہ تمہیں کئی گنا زیادہ فائدہ دے گا. یہ ہے ایمان بالغیب.
جب آپ دنیا میں کسی کو اپنے سے برتر دیکھیں. آپ کا کوئی دوست، آپ کا بھائی جنہوں نے کافی ترقی حاصل کر لی. پہلے کبھی انہوں نے رشوت وغیرہ دی اور اب وہ لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں، کرسمس کی تقاریب میں، نئے سال کی تقاریب میں جاتے ہیں. اور ان لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلتے ہیں، جو شراب پی رہے ہیں، اور ایسے لوگ آگے بڑھ گئے اور آپ پیچھے رہ گئے. آپ کو ترقی نہیں ملی. تو یہ وقت ہے غیب پر یقین رکھنے کا.
فَعَسى رَبّي أَن يُؤتِيَنِ خَيرًا مِن جَنَّتِكَ (سورہ الکہف)
کیا پتا اللہ تعالٰی مجھے آپ کے باغ سے کچھ بہت بڑھ کے جنت میں عطا کرے.
کیا پتا کہ اگر میں حلال کی کمائی کے راستے پر چلتا رہوں تو
يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ (سورہ الطلاق)
اللہ اسے وہاں سے عطا کرتا ہے جہاں سے اسکے گمان میں بھی نہ تھا.
مجھے یقین رکھنا ہو گا کہ اگر میں اللہ تعالٰی سے امید باندھے رکھوں اور تقوٰی کے راستے پر چلتا رہوں تو اللہ تعالٰی مجھے ان زرائع سے، ان راستوں سے ایسے عطا کریں گے جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا. جب آپ مشکل حالات سے گزر رہے ہوں اور آپ کا خاندان تکلیف میں ہو. تو یوں لگتا ہے کہ یہ درد کبھی ختم نہیں ہو گا، یہ مشکل دور کبھی نہیں گزرے گا. لوگ آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا. مشکل وقت کبھی تو ختم ہو گا. تو پہلا خیال آپ کے دماغ میں یہی آتا ہے کہ ، یہ سب کب ختم ہو گا؟ یہ سن سن کر میرے کان پک گئے کہ یہ وقت ٹل جائے گا مگر مشکلات تو بڑھتی ہی جا رہی ہیں. تو یہ وقت ہوتا ہے ایمان بالغیب کا. جو اللہ تعالٰی آزمائش میں ڈال سکتا ہے وہ آزمائش سے نکال بھی سکتا ہے.
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ
الله تعالی فرماتے ہیں کہ جو لوگ مشکلات میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں انہیں اللہ بے حساب اجر دے گا.
انہوں نے سوچا تھا کہ مشکلات اتنی ہیں کہ کوئی حد نہیں تو اللہ تعالٰی نے انہیں اتنا کچھ عطا کیا کہ جس کی کوئی حد نہیں. جب وہ اس بات پر ایمان لے آتے ہیں اور اس ایمان کو اپنے اندر گاڑھ لیتے ہیں تو مشکل وقت ان کے لیے آسان ہو جاتا ہے. اور وہ مشکل دور میں آسانی سے گزارا کر لیتے ہیں.
بہت سے لوگ ہیں جو ڈپریشن میں خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں. کوئی ان کو نہیں سمجھتا، کوئی ان کو نہیں سننا چاہتا، کوئی ان کی تعریف نہیں کرتا، کوئی ان سے بات نہیں کرتا. سب ایک دوسرے کو رمضان مبارک اور عید مبارک وغیرہ کے پیغامات بھیج رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں کوئی پیغام نہیں ملتا. انہیں کوئی فیس بک پہ پیغام نہیں نہیں بھیجتا. انہیں کوئی نوٹیفیکیشنز نہیں ملتا. حتی کہ ان کے لیے بھی ہے۔
إنّ معي ربي
میرا رب میرے ساتھ ہے.
میں اکیلا نہیں ہوں. حتی کہ جو لوگ ڈپریشن میں ہیں ان کو بھی ایمان بالغیب انہیں ڈپریشن سے نکلنے میں مدد دیتا ہے. یہ یقین کہ وہ کبھی اکیلے تھے ہی نہیں. وہ ہمیشہ سے حفاظت کے حصار میں ہیں. امریکی الیکشن میں ہمیں سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا کیا بنے گا. اکثر لوگ کینیڈا جانے کا سوچتے ہیں اگر ڈوبلڈ ٹرمپ جیت گیا. کیوں؟ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالٰی نہ صرف ہماری حفاظت کرتے ہیں بلکہ اللہ تعالٰی فرشتے بھیجتے ہیں جن کا کام ہی ہماری حفاظت کرنا ہے.
وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً
اللہ عزوجل آپ کی حفاظت کے لیے فرشتے بھیجتے ہیں. واقعی ایسے فرشتے جو آپ کی حفاظت کرتے ہیں. سبحان اللہ.
آپ کو کیا لگتا ہے، جب آپ 50 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں اور سرخ بتی ہونے پر بریک لگاتے ہیں تو کیا گاڑی بریک لگانے سے رکتی ہے؟ گاڑی اسلیے نہیں رکتی کہ آپ نے نئے بریک ڈلوائے ہہں. یہ بریک تو جب اللہ چاہے خراب ہو سکتے ہیں. اصل میں آپ کے ساتھ فرشتے سفر کرتے ہیں جو کسی شرابی ڈرائیور کی گاڑی کو آپ کے کی گاڑی سے ٹکرانے سے بچا لیتے ہیں. یہ ہے جو اللہ تعالٰی کرتے ہیں آپ کے لیے. وہ آپ کی حفاظت کرتے ہیں فرشتوں کے ذریعے. سبحان اللہ.
نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ
یہی فرشتے بتاتے ہیں جب بھی کوئی مر رہا ہوتا ہے کہ ہم ہمیشہ تمہارے ساتھی تھے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی. یہ ہے ایمان بالغیب کہ آپ اللہ کی حفاظت کے حصار سے باہر نہیں ہوتے اگر آپ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں.
میں ایمان بالغیب پر اس لیے زور دے رہا ہوں کیونکہ یہ آج کے دور میں ہماری امت کی ضرورت ہے. آج اسلام کا مذاق اڑایا جا رہا ہے. ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے. مسلمانوں کی تذلیل کی جاتی ہے. قرآن کا مذاق اڑایا جاتا ہے. آخرت کا مذاق اڑایا جاتا ہے. جنت کا مذاق اڑایا جاتا ہے. کس چیز کا مذاق نہیں اڑایا جاتا؟ کس چیز پر تنقید نہیں کی جارہی؟ مسلمان اس قدر ذلالت کا شکار ہیں کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ یہ کسی کو بتانا نہیں چاہتے کہ وہ مسلمان ہیں. وہ مسلمان ہونے پر شرمندہ ہیں. تو یہ وقت ہوتا ہے غیب پر ایمان لانے کا. بےشک دنیا میں کچھ بھی ہوتا رہے
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ. (سورہ المنافقون)
اور عزت اللہ کے لیے ہے.اور رسول کے لیے اور اہل ایمان کے لیے.
دوسرے لفظوں میں اللہ ہی ہے جو عزت دیتا ہے. بے شک دنیا والے جتنا مرضی ہمارا مذاق اڑا لیں، ہم ایک عزت دار امت ہیں. اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ لوگ آپ کے دین کا مذاق اڑا رہے ہیں تو یہ یاد رکھیں کہ انبیاء کرام کا اس سے کئی زیادہ مذاق اڑایا گیا تھا.
وﻟﻘد اﺳﺗﮭزئ ﺑرﺳل ﻣن ﻗﺑﻟك
انبیاء کرام کا آپ سے بہت پہلے اسی طرح مذاق اڑایا گیا تھا. "فان كذبوك"تو اگر یہ آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو یہ آپ سے پہلے بھی انبیاء کو جھوٹا کہتے رہے ہیں. اگر آپ کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو پھر تو ہم سنت رسول کی زندہ مثال قائم کر رہے ہیں. یہ اعزاز کی بات ہے کہ مسلمانوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے.
قرآن ہمارا نظریہ بدل کے رکھ دیتا ہے، جو کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا. ہم جو دیکھتے ہیں وہ کوئی اور دیکھ ہی نہیں سکتا. یہ ہے غیب پر ایمان لانا. یہ ہے یؤمنون بالغیب.
اب میں کچھ اور مثالیں دوں گا جب آپ کوئی گفتگو میں کسی کے کردار پر انگلی اٹھاتے ہیں.،جیسے کہ میں غیبت کے بارے میں آپ کو بتا رہا تھا کہ یہ سب بڑے گناہ ہیں. جن لوگوں میں برائی کرتے وقت ایمان نہیں ہوتا ان کے لیے یہ بہت چھوٹی سی بات ہے. یہ تو کچھ بھی نہیں ہم تو صرف باتیں کر رہے ہیں.
و هو عند الله العظيم تو اللہ تعالٰی کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے. وہ بات جو آپ نے اپنے منہ سے نکالی وہ اللہ کی نظر میں بہت بری ہے. اس لیے اپنی زبان سے الفاظ نکالنے سے پہلے خیال رکھیں. یہ ہے ایمان بالغیب.
سب سے پسندیدہ مثال میری نظر میں امید کی ہے. جب امت مسلمہ بد سے بدتر اور بدترین حالات سے گزر رہی ہو تو ہمیں کچھ سمجھنا چاہیے. کہ اللہ تعالٰی نے ہم سے قرآن میں کچھ وعدہ کیا ہے. اور جب اللہ کا وعدہ ہے تو ہمیں نہیں پرواہ جو بھی ہوتا رہے. جو میں اپنے دل کی آنکھ سے دیکھتا ہوں وہ اس سے برتر ہے جو میری ظاہری نگاہ مجھے دکھاتی ہے. اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
ولا تھنو ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین.
اللہ تعالٰی ہمیں کہتے ہیں کہ تم اپنا دل کمزور مت پڑنے دو. اداس مت ہو. تم ہی غالب ہو گے. تم سب سے اونچے مقام پر پہنچ جاؤ گے اگر تم دل سے ایمان لاؤ.
اس سے فرق نہیں پڑتا اگر امت مسلمہ مسلسل زوال کی طرف جا رہی ہے. اور اگر ہمیں ایک سے بڑھ کر ایک بری خبر مل رہی ہے. کیونکہ آخر میں ہر رات کی صبح ہوتی ہے. اور قید سے رہائی مل جاتی ہے. یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے امید ہے کہ اللہ تعالٰی اہل ایمان کو فتح نصیب کریں گے جب تک ان کا ایمان قائم ہے. آپ اہل ایمان سے سب کچھ چھین سکتے ہیں مگر ان کی امید نہیں چھین سکتے. اس امت کو ڈیپریسڈ ہونے کی اجازت ہے ہی نہیں. اس امت کو امید کا دامن چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے. ہم وہ ہیں جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں تو پہلا جملہ کیا پڑھتے ہیں؟؟ الحمدللہ. یعنی ہم ہر معاملے میں روشن پہلو تلاش کرتے ہیں. آپ الحمد للہ نہیں کہہ سکتے جب آپ کو بہت سی شکایات ہوں. اگر ہمارے دماغ کی تمام تر سوچیں منفی ہوں تو ہم سچے دل سے الحمداللہ نہیں کہہ سکتے، شکر گزار نہیں ہو سکتے. آپ یہ کہہ سکتے ہیں "الحمداللہ الانعم" اللہ کا شکر ان تمام نعمتوں کے لیے، اس تمام رحم و کرم و فضل کے لیے جو اللہ تعالٰی نے آپ پر کیا.
درحقیقت بہت سے بڑے بڑے نیک لوگ جو ہماری تاریخ میں گزرے ہیں، انبیاء کرام، صالحین، شہداء، جن کی قرآن میں تعظیم بیان ہوئی ہے. وہ جو مصائب کے اندھیروں میں رہے. وہ اس وقت کیں جیے ہیں جب شرک، کفر، کرپشن ، برائیاں، بت پرستی تھی، کفار تعداد و طاقت میں کہیں زیادہ تھے. اور اہل ایمان ہمیشہ اقلیت میں تھے. صرف انبیاء کرام ہدایت کا ذریعہ تھے اور جیسے جیسے انبیاء کرام نے دین کا پیغام دیا، ویسے ہی کفار کی نفرت بڑھتی گئی. اور یہی متاثر کن بات ہے کہ ہم جب اس دور میں ہیں جہاں ہر طرف اندھیرا سا چھایا ہوا ہے تو اللہ تعالٰی نے ہمیں یہ اعزاز بخشا ہے ان عظیم لوگوں جیسی مشکلات برداشت کرنے کا جو ان عظیم لوگوں کی زندگی میں درپیش آئیں. یہ اللہ کی طرف سے ایک موقع ہے.
- لَا یَسْتَوِیۡ مِنۡکُمْ مَّنْ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ (سورہ حدید)
تم میں سے وہ جنہوں نے تب جہاد کیا اور محنت کی اور صبر کیا تب جب اللہ کی طرف سے فتح نہیں پہنچی تھی وہ بہت اونچے مقام پر ہیں. وہ ان سے برتر ہیں جو ان کے بعد آئے جب نسبتاً آسان دور تھا. مشکلات زیادہ نہ تھیں. اور اسلام دنیا بھر میں پھیل چکا تھا.
تو جب کوئی مسلمان یہ خواہش کرتا ہے کہ کاش وہ اس دور میں پیدا ہوا ہوتا کہ جب اسلام کا بول بالا تھا، دین پہ چلنا نہایت آسان تھا. اذان ہوتے ہی لوگ نماز پڑھنے نکل جاتے تھے. دنیا والے مسلمانوں کو برا بھلا نہیں کہتے تھے. وہ سہانا دور تھا. وہ یہ بات جان لیں کہ اس دور کے مسلمانوں کے پاس اتنے مواقع نہیں تھے اللہ تعالٰی کو خوش کرنے کے. کہ اللہ تعالٰی کو ان پر فخر ہو بہ نسبت ان لوگوں کے جنہوں نے مشکل دور میں بسر کیا. باقی لوگوں کے لیے مشکل دور سے گزرنا ڈپریشن کا باعث ہے مگر اہل ایمان کے لیے مشکل حالات کا سامنا شکر ادا کرنے کا سبب ہے. کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو اس آزمائش کے قابل سمجھا. اگر ہم اس قابل نہ ہوتے تو اللہ تعالٰی اس بات پر قادر ہیں کہ وہ میری روح واپس قبض کر کے اس دور میں پیدا کر دیں جب مسلمانوں کا بول بالا تھا. لیکن اللہ تعالٰی نے مجھے اور آپ کو اس دور میں پیدا ہونے کے لیے چنا. اللہ تعالٰی نے ہمیں آج کے دور کی مشکلات کا سامنا کرنے کے قابل سمجھا. تو اپنے آپ کو حقیر مت سمجھیں. یہ بھی ایمان بالغیب کا حصہ ہے.
الذین یؤمنون بالغیب وہ جو غیب ہر ایمان لاتے ہیں. اور اگر آپ غور کریں تو ایمان بالغیب آپ کی زندگی کو اس طرح تراش دیتا ہے جو دوسرے لوگ نہیں دیکھ سکتے
اسلام علیکم
حضرت محمد صل اللہ علیہ و سلم اور ان پر جو آیات نازل ہوئیں وہ بھی ہمارے لیے ایمان بالغیب ہیں، کیونکہ ہم نے حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کو اور قرآن کو ان پر نازل ہوتے ہوئے تو نہیں دیکھا. ہم نے ان میں سے کچھ بھی نہیں دیکھا ہوا. اہل ایمان معجزات پر بھی یقین رکھتے ہیں جو ان کی نظروں کے سامنے نہیں ہوئے. وہ موسٰی علیہ السلام کے معجزے پر ایمان لاتے ہیں جس نے دریا کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ان کے لیے راستہ بنایا. یہ وہ چیزیں ہیں جو ہم نے کبھی نہیں دیکھیں مگر ہم ان سب پر ایمان لاتے ہیں.
لیکن پھر اس سب پر مزید گہری نظر بھی ڈالی جاسکتی ہے کہ اہل ایمان ایک ایسی حقیقت پر یقین رکھتے ہیں جو باقی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے. وہ لوگ جو اس دور میں رہ رہے ہیں، ہم سب جو اس صدی کے لوگ ہیں، میرے سامنے بیٹھے تمام لوگ جو اس ملک کے رہنے والے ہیں، سب ایک ہی معاشرے میں جی رہے ہیں. اور تقریباً سب کو ایک جیسے حالات کا سامنا ہے. لیکن اہل ایمان صرف ظاہری آنکھ سے چیزوں کو نہیں دیکھتے. اہل ایمان ان چیزوں پر یقین رکھتے ہیں جو ظاہری نظروں سے اوجھل ہیں .
يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ
لوگوں سے تو چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ تعالٰی سے آپ کچھ نہیں چھپا سکتے.
مثال کے طور پر لوگ کسی تقریب میں بیٹھے غیبت کر رہے ہیں. وہ کسی کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں. کوئی ایک ان میں سے اہل ایمان ہے اور باقی سب باتوں میں مصروف ہیں. کسی کا مذاق اڑا رہے ہیں، کسی کی برائیاں کرنے میں مصروف ہیں. کسی کے باری میں انتہائی لغو گفتگو کر رہے ہیں جو وہاں موجود نہیں ہے . انہیں احساس ہی نہیں کہ یہ گناہ ہے. انہیں کوئی درد نہیں ہو رہا. جیسے جیسے وہ بد سے بد ترین گفتگو کی طرف بڑھ رہے ہیں ویسے ہی ان کا درد بڑھتا جائے، ایسا کچھ نہیں ہوتا. نہ انہیں کوئی پسینہ آتا ہے اور نہ ہی ایسی گفتگو کرتے ہوئے انہیں کوئی تکلیف محسوس ہوتی ہے. غیبت کے کوئی جسمانی اثرات نہیں ہوتے لیکن جس کے اندر ایمان ہو اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوتا ہے، کچھ برا لگتا ہے. وہ کہتا ہے کہ میں شرمندہ ہوں کہ میں اس محفل میں موجود ہوں. میں یہ نہیں کر سکتا. میں شرمندہ ہوں کہ اللہ تعالٰی میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟ تو اہل ایمان ایک ایسی غائبانہ حقیقت سے واقف ہیں جسے تقریب میں موجود باقی لوگ نہیں جانتے. یہ ہے ایمان بالغیب. میں ایک اور مثال دوں گا، ایک نوجوان کہیں سے گزر رہا ہو اور ایک لڑکی اس کے پاس سے گزرتی ہے جو کہ غیر مناسب لباس پہنے ہوئے ہے. اس کی نظر لڑکی پر پڑتی ہے لیکن اسے یاد آ جاتا ہے.
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
تم کہیں بھی ہو، اللہ تمہارے ساتھ ہے. اور جو بھی تم کرتے ہو اللہ دیکھ رہا ہے
تم لڑکی کو دیکھ رہے ہو. اللہ اسی وقت تمہیں دیکھ رہا ہے. اور آپ اسی وقت نظریں جھکا لیتے ہیں. یہ ہے ایمان بالغیب. یہ ہے ایمان بالغیب کی زندہ مثال.
آپ کسی سے پوچھیں، کیا تم اللہ پر ایمان لاتے ہو؟ جواب ملے گا، جی بالکل. لیکن اس وقت جب اس سوال کا امتحان لیا جاتا ہے. جب آپ کو آزمایا جاتا ہے. کیا تب آپ کا ایمان آپ کے رویّوں پر اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا آپ کے ایمان لانے سے آپ کی سوچ پر کوئی اثر پڑتا ہے؟ کیا ایمان لانے سے آپ کی ترجیحات میں کوئی فرق آتا ہے؟ یہ ہے ایمان بالغیب.
یہ ایک جدوجہد ہے. اسلام کے بنیادی عقائد ایک طرف کہ اللہ ایک ہے. محمد صل اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں. قرآن اللہ تعالٰی کی کتاب ہے. یہ چند بنیادی عقائد ہیں. اگر رات کے دو بجے آپ کو اٹھا کر کوئی آپ سے یہ سوال پوچھے تو ان کے جواب آپ کو پتا ہوں گے. کیونکہ یہ نپے تلے جوابات ہیں
.لیکن آپ ایمان بالغیب لانے والوں میں سے ہیں یا نہیں؟ یہ
quantitative
نہیں بلکہ یہ ایک
qualitative
بات ہے. اور اسی لیے یہ ایک جدوجہد ہے. آپ کبھی ایمان میں بڑھ جاتے ہیں اور کبھی آپ کا ایمان کم ہو جاتا ہے.
میں آپ کو کچھ اور مثالیں دیتا ہوں. مثلاً تجارت کے دوران بہت سے مواقع آتے ہیں جب آپ گاہک سے زیادہ قیمت وصول کر سکیں. کیونکہ بعض اوقات گاہک کو ہر حال میں کوئی چیز خریدنا چاہتے ہیں. اگر آپ قیمت بڑھاتے چلے جاتے ہیں تو یہ کمائی ناجائز ہو جاتی ہے. کیونکہ جب آپ لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں تو یہ جائز نہیں رہتا. کچھ لوگ اسے (قیمت اصل سے بڑھانے کو) ربٰوا (سود) کی ایک قسم کہتے ہیں. تو اس وقت جب ہر کوئی دس گنا زیادہ قیمت پر بیچنے میں مشغول تھا اور آپ نے تب بھی مناسب قیمت پر بیچا کیونکہ آپ کا ایمان تھا کہ اللہ اور اس کے نبی کا پیغام اس منافع سے کہیں اوپر ہے جو کہ اس وقت آپ کو ملنے والا تھا.
ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا.
یہ تمھارے لیے بہتر ہے اور آخرت میں یہ تمہیں کئی گنا زیادہ فائدہ دے گا. یہ ہے ایمان بالغیب.
جب آپ دنیا میں کسی کو اپنے سے برتر دیکھیں. آپ کا کوئی دوست، آپ کا بھائی جنہوں نے کافی ترقی حاصل کر لی. پہلے کبھی انہوں نے رشوت وغیرہ دی اور اب وہ لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں، کرسمس کی تقاریب میں، نئے سال کی تقاریب میں جاتے ہیں. اور ان لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلتے ہیں، جو شراب پی رہے ہیں، اور ایسے لوگ آگے بڑھ گئے اور آپ پیچھے رہ گئے. آپ کو ترقی نہیں ملی. تو یہ وقت ہے غیب پر یقین رکھنے کا.
فَعَسى رَبّي أَن يُؤتِيَنِ خَيرًا مِن جَنَّتِكَ (سورہ الکہف)
کیا پتا اللہ تعالٰی مجھے آپ کے باغ سے کچھ بہت بڑھ کے جنت میں عطا کرے.
کیا پتا کہ اگر میں حلال کی کمائی کے راستے پر چلتا رہوں تو
يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ (سورہ الطلاق)
اللہ اسے وہاں سے عطا کرتا ہے جہاں سے اسکے گمان میں بھی نہ تھا.
مجھے یقین رکھنا ہو گا کہ اگر میں اللہ تعالٰی سے امید باندھے رکھوں اور تقوٰی کے راستے پر چلتا رہوں تو اللہ تعالٰی مجھے ان زرائع سے، ان راستوں سے ایسے عطا کریں گے جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا. جب آپ مشکل حالات سے گزر رہے ہوں اور آپ کا خاندان تکلیف میں ہو. تو یوں لگتا ہے کہ یہ درد کبھی ختم نہیں ہو گا، یہ مشکل دور کبھی نہیں گزرے گا. لوگ آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا. مشکل وقت کبھی تو ختم ہو گا. تو پہلا خیال آپ کے دماغ میں یہی آتا ہے کہ ، یہ سب کب ختم ہو گا؟ یہ سن سن کر میرے کان پک گئے کہ یہ وقت ٹل جائے گا مگر مشکلات تو بڑھتی ہی جا رہی ہیں. تو یہ وقت ہوتا ہے ایمان بالغیب کا. جو اللہ تعالٰی آزمائش میں ڈال سکتا ہے وہ آزمائش سے نکال بھی سکتا ہے.
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ
الله تعالی فرماتے ہیں کہ جو لوگ مشکلات میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں انہیں اللہ بے حساب اجر دے گا.
انہوں نے سوچا تھا کہ مشکلات اتنی ہیں کہ کوئی حد نہیں تو اللہ تعالٰی نے انہیں اتنا کچھ عطا کیا کہ جس کی کوئی حد نہیں. جب وہ اس بات پر ایمان لے آتے ہیں اور اس ایمان کو اپنے اندر گاڑھ لیتے ہیں تو مشکل وقت ان کے لیے آسان ہو جاتا ہے. اور وہ مشکل دور میں آسانی سے گزارا کر لیتے ہیں.
بہت سے لوگ ہیں جو ڈپریشن میں خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں. کوئی ان کو نہیں سمجھتا، کوئی ان کو نہیں سننا چاہتا، کوئی ان کی تعریف نہیں کرتا، کوئی ان سے بات نہیں کرتا. سب ایک دوسرے کو رمضان مبارک اور عید مبارک وغیرہ کے پیغامات بھیج رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں کوئی پیغام نہیں ملتا. انہیں کوئی فیس بک پہ پیغام نہیں نہیں بھیجتا. انہیں کوئی نوٹیفیکیشنز نہیں ملتا. حتی کہ ان کے لیے بھی ہے۔
إنّ معي ربي
میرا رب میرے ساتھ ہے.
میں اکیلا نہیں ہوں. حتی کہ جو لوگ ڈپریشن میں ہیں ان کو بھی ایمان بالغیب انہیں ڈپریشن سے نکلنے میں مدد دیتا ہے. یہ یقین کہ وہ کبھی اکیلے تھے ہی نہیں. وہ ہمیشہ سے حفاظت کے حصار میں ہیں. امریکی الیکشن میں ہمیں سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا کیا بنے گا. اکثر لوگ کینیڈا جانے کا سوچتے ہیں اگر ڈوبلڈ ٹرمپ جیت گیا. کیوں؟ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالٰی نہ صرف ہماری حفاظت کرتے ہیں بلکہ اللہ تعالٰی فرشتے بھیجتے ہیں جن کا کام ہی ہماری حفاظت کرنا ہے.
وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً
اللہ عزوجل آپ کی حفاظت کے لیے فرشتے بھیجتے ہیں. واقعی ایسے فرشتے جو آپ کی حفاظت کرتے ہیں. سبحان اللہ.
آپ کو کیا لگتا ہے، جب آپ 50 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں اور سرخ بتی ہونے پر بریک لگاتے ہیں تو کیا گاڑی بریک لگانے سے رکتی ہے؟ گاڑی اسلیے نہیں رکتی کہ آپ نے نئے بریک ڈلوائے ہہں. یہ بریک تو جب اللہ چاہے خراب ہو سکتے ہیں. اصل میں آپ کے ساتھ فرشتے سفر کرتے ہیں جو کسی شرابی ڈرائیور کی گاڑی کو آپ کے کی گاڑی سے ٹکرانے سے بچا لیتے ہیں. یہ ہے جو اللہ تعالٰی کرتے ہیں آپ کے لیے. وہ آپ کی حفاظت کرتے ہیں فرشتوں کے ذریعے. سبحان اللہ.
نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ
یہی فرشتے بتاتے ہیں جب بھی کوئی مر رہا ہوتا ہے کہ ہم ہمیشہ تمہارے ساتھی تھے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی. یہ ہے ایمان بالغیب کہ آپ اللہ کی حفاظت کے حصار سے باہر نہیں ہوتے اگر آپ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں.
میں ایمان بالغیب پر اس لیے زور دے رہا ہوں کیونکہ یہ آج کے دور میں ہماری امت کی ضرورت ہے. آج اسلام کا مذاق اڑایا جا رہا ہے. ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے. مسلمانوں کی تذلیل کی جاتی ہے. قرآن کا مذاق اڑایا جاتا ہے. آخرت کا مذاق اڑایا جاتا ہے. جنت کا مذاق اڑایا جاتا ہے. کس چیز کا مذاق نہیں اڑایا جاتا؟ کس چیز پر تنقید نہیں کی جارہی؟ مسلمان اس قدر ذلالت کا شکار ہیں کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ یہ کسی کو بتانا نہیں چاہتے کہ وہ مسلمان ہیں. وہ مسلمان ہونے پر شرمندہ ہیں. تو یہ وقت ہوتا ہے غیب پر ایمان لانے کا. بےشک دنیا میں کچھ بھی ہوتا رہے
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ. (سورہ المنافقون)
اور عزت اللہ کے لیے ہے.اور رسول کے لیے اور اہل ایمان کے لیے.
دوسرے لفظوں میں اللہ ہی ہے جو عزت دیتا ہے. بے شک دنیا والے جتنا مرضی ہمارا مذاق اڑا لیں، ہم ایک عزت دار امت ہیں. اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ لوگ آپ کے دین کا مذاق اڑا رہے ہیں تو یہ یاد رکھیں کہ انبیاء کرام کا اس سے کئی زیادہ مذاق اڑایا گیا تھا.
وﻟﻘد اﺳﺗﮭزئ ﺑرﺳل ﻣن ﻗﺑﻟك
انبیاء کرام کا آپ سے بہت پہلے اسی طرح مذاق اڑایا گیا تھا. "فان كذبوك"تو اگر یہ آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو یہ آپ سے پہلے بھی انبیاء کو جھوٹا کہتے رہے ہیں. اگر آپ کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو پھر تو ہم سنت رسول کی زندہ مثال قائم کر رہے ہیں. یہ اعزاز کی بات ہے کہ مسلمانوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے.
قرآن ہمارا نظریہ بدل کے رکھ دیتا ہے، جو کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا. ہم جو دیکھتے ہیں وہ کوئی اور دیکھ ہی نہیں سکتا. یہ ہے غیب پر ایمان لانا. یہ ہے یؤمنون بالغیب.
اب میں کچھ اور مثالیں دوں گا جب آپ کوئی گفتگو میں کسی کے کردار پر انگلی اٹھاتے ہیں.،جیسے کہ میں غیبت کے بارے میں آپ کو بتا رہا تھا کہ یہ سب بڑے گناہ ہیں. جن لوگوں میں برائی کرتے وقت ایمان نہیں ہوتا ان کے لیے یہ بہت چھوٹی سی بات ہے. یہ تو کچھ بھی نہیں ہم تو صرف باتیں کر رہے ہیں.
و هو عند الله العظيم تو اللہ تعالٰی کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے. وہ بات جو آپ نے اپنے منہ سے نکالی وہ اللہ کی نظر میں بہت بری ہے. اس لیے اپنی زبان سے الفاظ نکالنے سے پہلے خیال رکھیں. یہ ہے ایمان بالغیب.
سب سے پسندیدہ مثال میری نظر میں امید کی ہے. جب امت مسلمہ بد سے بدتر اور بدترین حالات سے گزر رہی ہو تو ہمیں کچھ سمجھنا چاہیے. کہ اللہ تعالٰی نے ہم سے قرآن میں کچھ وعدہ کیا ہے. اور جب اللہ کا وعدہ ہے تو ہمیں نہیں پرواہ جو بھی ہوتا رہے. جو میں اپنے دل کی آنکھ سے دیکھتا ہوں وہ اس سے برتر ہے جو میری ظاہری نگاہ مجھے دکھاتی ہے. اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
ولا تھنو ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین.
اللہ تعالٰی ہمیں کہتے ہیں کہ تم اپنا دل کمزور مت پڑنے دو. اداس مت ہو. تم ہی غالب ہو گے. تم سب سے اونچے مقام پر پہنچ جاؤ گے اگر تم دل سے ایمان لاؤ.
اس سے فرق نہیں پڑتا اگر امت مسلمہ مسلسل زوال کی طرف جا رہی ہے. اور اگر ہمیں ایک سے بڑھ کر ایک بری خبر مل رہی ہے. کیونکہ آخر میں ہر رات کی صبح ہوتی ہے. اور قید سے رہائی مل جاتی ہے. یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے امید ہے کہ اللہ تعالٰی اہل ایمان کو فتح نصیب کریں گے جب تک ان کا ایمان قائم ہے. آپ اہل ایمان سے سب کچھ چھین سکتے ہیں مگر ان کی امید نہیں چھین سکتے. اس امت کو ڈیپریسڈ ہونے کی اجازت ہے ہی نہیں. اس امت کو امید کا دامن چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے. ہم وہ ہیں جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں تو پہلا جملہ کیا پڑھتے ہیں؟؟ الحمدللہ. یعنی ہم ہر معاملے میں روشن پہلو تلاش کرتے ہیں. آپ الحمد للہ نہیں کہہ سکتے جب آپ کو بہت سی شکایات ہوں. اگر ہمارے دماغ کی تمام تر سوچیں منفی ہوں تو ہم سچے دل سے الحمداللہ نہیں کہہ سکتے، شکر گزار نہیں ہو سکتے. آپ یہ کہہ سکتے ہیں "الحمداللہ الانعم" اللہ کا شکر ان تمام نعمتوں کے لیے، اس تمام رحم و کرم و فضل کے لیے جو اللہ تعالٰی نے آپ پر کیا.
درحقیقت بہت سے بڑے بڑے نیک لوگ جو ہماری تاریخ میں گزرے ہیں، انبیاء کرام، صالحین، شہداء، جن کی قرآن میں تعظیم بیان ہوئی ہے. وہ جو مصائب کے اندھیروں میں رہے. وہ اس وقت کیں جیے ہیں جب شرک، کفر، کرپشن ، برائیاں، بت پرستی تھی، کفار تعداد و طاقت میں کہیں زیادہ تھے. اور اہل ایمان ہمیشہ اقلیت میں تھے. صرف انبیاء کرام ہدایت کا ذریعہ تھے اور جیسے جیسے انبیاء کرام نے دین کا پیغام دیا، ویسے ہی کفار کی نفرت بڑھتی گئی. اور یہی متاثر کن بات ہے کہ ہم جب اس دور میں ہیں جہاں ہر طرف اندھیرا سا چھایا ہوا ہے تو اللہ تعالٰی نے ہمیں یہ اعزاز بخشا ہے ان عظیم لوگوں جیسی مشکلات برداشت کرنے کا جو ان عظیم لوگوں کی زندگی میں درپیش آئیں. یہ اللہ کی طرف سے ایک موقع ہے.
- لَا یَسْتَوِیۡ مِنۡکُمْ مَّنْ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ (سورہ حدید)
تم میں سے وہ جنہوں نے تب جہاد کیا اور محنت کی اور صبر کیا تب جب اللہ کی طرف سے فتح نہیں پہنچی تھی وہ بہت اونچے مقام پر ہیں. وہ ان سے برتر ہیں جو ان کے بعد آئے جب نسبتاً آسان دور تھا. مشکلات زیادہ نہ تھیں. اور اسلام دنیا بھر میں پھیل چکا تھا.
تو جب کوئی مسلمان یہ خواہش کرتا ہے کہ کاش وہ اس دور میں پیدا ہوا ہوتا کہ جب اسلام کا بول بالا تھا، دین پہ چلنا نہایت آسان تھا. اذان ہوتے ہی لوگ نماز پڑھنے نکل جاتے تھے. دنیا والے مسلمانوں کو برا بھلا نہیں کہتے تھے. وہ سہانا دور تھا. وہ یہ بات جان لیں کہ اس دور کے مسلمانوں کے پاس اتنے مواقع نہیں تھے اللہ تعالٰی کو خوش کرنے کے. کہ اللہ تعالٰی کو ان پر فخر ہو بہ نسبت ان لوگوں کے جنہوں نے مشکل دور میں بسر کیا. باقی لوگوں کے لیے مشکل دور سے گزرنا ڈپریشن کا باعث ہے مگر اہل ایمان کے لیے مشکل حالات کا سامنا شکر ادا کرنے کا سبب ہے. کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو اس آزمائش کے قابل سمجھا. اگر ہم اس قابل نہ ہوتے تو اللہ تعالٰی اس بات پر قادر ہیں کہ وہ میری روح واپس قبض کر کے اس دور میں پیدا کر دیں جب مسلمانوں کا بول بالا تھا. لیکن اللہ تعالٰی نے مجھے اور آپ کو اس دور میں پیدا ہونے کے لیے چنا. اللہ تعالٰی نے ہمیں آج کے دور کی مشکلات کا سامنا کرنے کے قابل سمجھا. تو اپنے آپ کو حقیر مت سمجھیں. یہ بھی ایمان بالغیب کا حصہ ہے.
الذین یؤمنون بالغیب وہ جو غیب ہر ایمان لاتے ہیں. اور اگر آپ غور کریں تو ایمان بالغیب آپ کی زندگی کو اس طرح تراش دیتا ہے جو دوسرے لوگ نہیں دیکھ سکتے
اب آپ اس ایمان بالغیب کو تازہ کیسے رکھیں؟ اس چیز پر ایمان جسے آپ دیکھ ہی نہیں سکتے. پتا ہے عربی اور اردو میں بھی کہاوت ہے آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل.
غیب ایسی چیز ہے جو مجھے نظر نہیں آرہی، تو مجھے کوئی ایسا طریقہ چاہیے جو ایمان کو میرے اندر گاڑھ دے. تو اس بات کا پرفیکٹ تسلسل آیت کے اگلے جملے میں جواب ملتا ہے.
والذین یؤمنون بالغیب و یقیمون الصلوة
اہل ایمان کا ایمان کیسے پختہ ہوتا ہے؟
'و یقیمون الصلوۃ'. وہ نماز قائم رکھتے ہیں.
اقامہ بمعنٰی ادامہ..وہ ہمیشہ نماز پڑھتے ہیں. وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ نماز ایمان کا بنیادی ستون ہے جسکو گرنے نہیں دینا.
اقامہ کا لفظ قامہ سے ہے مطلب کسی چیز کو کسی دوسری چیز کے زریعے کھڑا کرنا. جو کبھی گرنے نہ پائے. اللہ نے یہ نہیں کہا کہ یصلون.. کہ وہ نماز پڑھتے ہیں...بلکہ کہا یقیمون الصلٰوۃ ..وہ نماز قائم کرتے ہیں..نماز پڑھنے میں اور قائم کرنے میں بہت فرق ہے.. نماز قائم کرنا کیسے ہے؟ جیسے اقامت ہے نماز کیلئے..
اللہ اکبر اللہ اکبر اشہد ان لا الہ الا اللہ
اشہد ان محمدا رسول اللہ
اقامت کا مقصد کیا ہے؟ یہ ایک اعلان ہے کہ یہاں موجود ہر شخص نماز کیلئے کھڑا ہوجائے. یہی اہم کام ہے. اللہ جب کہتے ہیں" یقیمون الصلوۃ" تو اس کا مطلب ہے کہ اکٹھے نماز قائم کرنا..کیونکہ یہ عمل غیب پر ایمان سے متعلقہ ہے اسلئے آپ اسے اکیلے قائم نہیں کرسکتے. اس عمل کو اکیلے جاری نہیں رکھ پاتے. جب آپ مسجد آنا بند کر دیتے ہیں، ان دوسرےمسلمانوں سے ملنا ترک کر دیتے ہیں جو آپ کے ایمان کو بچانے کی کوشش میں آپ کے ساتھ تھے، اور آپ صرف اپنے آفس اور دوستوں کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے میں لگے رہتے ہیں، اور ان سب کے بعد بس اپنے اپارٹمنٹ، اور ایسا اگر آپ مہینوں کرتے رہیں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اللہ سے روابط کمزور ہوتے جارہے ہیں. آپ اللہ کے بارے میں کم سوچتے ہیں، اور آپ کیلئے گناہ کرنا کتنا آسان ہوگیا ہے. اب اس کے اثرات دیکھیں گے کہ ایمان بالغیب آپکے اندر سے غائب ہونا شروع ہوگیا ہے.
پھر آپ دوبارہ مسجد آتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں.
اب آپ ذرا زمانہ طالب علمی والی نماز کے محسوسات کو ذہن میں لائیں اور ادھر ابھی آپ صرف بیٹھے ہیں..اپنے محسوسات کا جائزہ لیں..آپ محسوس کریں گے کہ یہاں سکینت ہے.امن ہے..سکون ہے. آپکے دل میں فرشتوں کی موجودگی کا احساس ہے..اور یہ فیلنگز آپکو اللہ کے گھر میں ہی حاصل ہوتی ہیں اور کہیں نہیں...
حديث مبارکہ ہے..
ما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم الا نزلت عليهم السكينة و غشیتم الرحمة وحفتهم الملائکة وذكرهم الله فيمن عنده..
دنيا میں اللہ کے کسی اور گھر میں لوگوں کا اتنا اجتماع نہیں ہوتا جتنا مساجد میں.. مساجد اللہ کا بہترین گھر ہیں جب مسلمان یہاں جمع ہوتے ہیں.قرآن سیکھتے ہیں تو فرشتے آپکی طرف اترتے ہیں.. وحفتھم الملائکہ..فرشتے آپکو گھیر لیتے ہیں. آپ ایک امن, سکون, آسانی محسوس کرتے ہیں..یہ کسی کو نظر نہیں آتی نادیدہ ہے..یہ ایمان بالغیب کے ساتھ ہی ہے.
الا بذكرالله تطمئن القلوب..
اور یہی اگلا مرحلہ ہے.
کہ لوگ اپنے آپ کو محفوظ کیسے بنا سکتے ہیں؟ نظر آنے والے اور نا نظر آنے والے خطرات سے اپنے آپ کو کیسے بچا سکتے ہیں؟ اللہ سے اپنے تعلق کو ڈائریکٹ استوار کر کے، اپنے تعلق کو مضبوط بنا کر کرسکتے ہیں.
اور یہ تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ مسلسل نماز قائم کر کے. صلوۃ لفظ کا کنکشن صلہ سے بھی ہے. جس کا مطلب ہے جوڑنا. رابطہ. کنکشن. یعنی آپکا آپکے رب کے ساتھ نماز کے ذریعے رابطہ..تعلق..
یعنی ہمارے مذہب میں اللہ کے ساتھ بنیادی تعلق بذریعہ نماز ہے.
بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ قدیم یہودی مذہب میں (آپ جانتے ہیں کہ تورات میں بہت ساری تبدیلیاں کر دی گئی ہیں) یہ ایک ٹریجڈی ہی ہے کہ ان کا مذہب ٹیملپز، عبادت گاہوں، روایتوں اور قربانیوں کے گرد گھوم رہا ہے. یعنی ان کا مذہب روایات اور اللہ کیلئے جانوروں کی قربانیوں پر ہی قائم رہ گیا ہے. ان دونوں باتوں کی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے، مگریہاں نماز کمزور ہو گئی ہے. یہاں تک کہ بہت سے گروپ اسے ترک کر چکے ہیں. (ہم اسے بعد میں تفصیل سے پڑھیں گے.)
ابھی آپکو یہ سمجھنا ہے کہ جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں تو اہل کتاب بھی ان کو سن رہے تھے.اسلئے با لواسطہ طور پر وہ ان سے بھی متعلق تھیں.
اب اللہ عزوجل یہاں تقوٰی والوں کے پہلے گروپ کے بارے میں بات ختم کرتے ہیں کہ
1.وہ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں..
2.وہ لوگ اپنا ایمان کیسے مضبوط بناتے ہیں؟ نماز قائم کر کے..
3.اور اس سے اگلاحصہ کیا ہے؟ ومما رزقنا ھم ینفقون..وہ خرچ کرتے ہیں..
اس میں سے جو ہم نے ان کو رزق دیا ہے..
لفظ مِمَّا میں..."ما" بہت وسیع لفظ ہے. یعنی اسکی کوئی حد نہیں. جو بھی چیز اللہ نے آپکو دی ہے اس میں سے خرچ کریں.
کچھ لوگوں کے پاس کچھ نہیں سوائے صحت کے. کسی کے پاس کچھ نہیں سوائے تیز دماغ کے. کسی کے پاس خوب دولت ہے. کسی کے پاس بہترین مواقع ہیں. کسی کے پاس شہرت ہے. اللہ نے مختلف لوگوں کو مختلف چیزیں دی ہیں. میرا رزق آپکے رزق جیسا نہیں ہے. اللہ نے بعض لوگوں کو بیٹے دیئے ہیں اور بعض کو بیٹیاں..
اللہ نےجو دیا ہے اور جتنا دیا ہے اس میں سے خرچ کریں..
انفاق عربی زبان کا لفظ ہے اس کا مطلب ہے خرچ کرنا.
میں انفاق لفظ پر بہت زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن ایک چیز جو آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ
یہاں پر اس کا مطلب نافقہ سے متعلقہ ہے۔۔یعنی صحرا میں کسی ریپٹائل (چھپکلی وغیرہ )کا زمین دوز سرنگ نما گھر، جس کے دونوں اطراف میں سوراخ ہوں. جب کوئی بڑا جانور (کوئی کتا،کوئی بڑی چھپکلی وغیرہ )اس پر حملہ آور ہو تو وہ چھوٹا جانور دوسرےسوراخ سے نکل جائے.
یہی تکنیک بادشاہوں کے محلات میں بھی استعمال ہوتی ہے. یعنی کسی برے وقت میں جب کوئی دشمن حملہ آور ہو، یا کوئی باغی اندر گھس آئے تو بادشاہ کے آتشدان کے پیچھے عام طور پر ایک خفیہ سرنگ ہوتی ہے جس سے بادشاہ اپنی جان بچاتے ہوئے فرار ہوسکے. یہی ہے نافقہ. دو سوراخوں والی ایک سرنگ.
انفاق کے روٹ سے ہی منافق ہے. کیونکہ منافق کے بھی دونوں اطراف والے امکانات ہمیشہ کھلے رہتے ہیں. ایک طرف جب مسلمانوں کے ساتھ کچھ اچھا ہوتا ہے تو وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے. جب مسلمانوں کو مشکلات پیش آتی ہیں وہ دوسری طرف سے نکل جاتا ہے.
انفاق کے ساتھ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم دنیا میں روپیہ ایک سوراخ میں ہی ڈالتے ہیں اور دوسرے سوراخ سے ہمیں واپس کب ملے گی؟ آخرت میں..
یہ اصل میں کانسپٹ آف ڈیپازٹ ( رقم جمع کروانے کے تصور) ہے.
آپ جانتے ہیں ہمارےہاں کئی طرح کے اکاؤنٹس ہوتےہیں.
چیک ان اکاؤنٹ، آپ جب چاہیں اپنے روپئے نکلوا سکتے ہیں.
پھر طویل مدتی سرمایہ کاری اکاؤنٹ، اس سے آپ جب چاہیں روپئے نہیں نکلوا سکتے.
ریٹائرمنٹ اکاؤنٹ جس میں سے آپ ایک خاص مدت کے بعد فنڈز نکلواسکتے ہیں.
ان تمام اکاؤنٹس میں آپ جو روپیے ڈالتے ہیں آپ ان کو خرچ کرنا نہیں کہتے. درحقیقت اس کو سرمایہ کاری کہتے ہیں. کیونکہ خاص مدت کے بعد بھی اس کو وصول کرنے والے آپ خود ہی ہیں ناں. یہ محض فنڈز کی منتقلی ہے.
اس آیت میں خرچ کرنے کا جو تصور دیا گیا ہے اس سےمراد یہ ہے کہ جو اللہ نے ہمیں مہیا کیا ہے، اس میں سے ہم اپنے فنڈز دنیا کے اکاؤنٹ سے آخرت کے اکاؤنٹ میں منتقل کر رہے ہیں. یہ میرا ہی اکاؤنٹ ہے. لیکن ایک مختلف بینک میں. یہ بینک آف امریکہ، سٹی بینک یا اسی طرح کا کوئی مشہور بینک نہیں ہے. بلکہ یہ اللہ کا بینک ہے. اور انشورینس وغیرہ سے کہیں بڑھ کر ہے.
اس بینک میں انسان صرف تبھی پیسہ ڈال سکتا ہے جب اس کا ایمان با لغیب پختہ ہو. کیونکہ یہ آپ اللہ کیلئے کرتے ہیں. صدقہ دینا وہ بھی اس بات کی فکر کیے بغیر کے آپ کے پاس باقی کیا رہ جائے گا، یہ تب ہی ہوگا جب دو چیزیں کلئیر ہوں.
نمبر ون.. "ما نقص مال عبد من صدقة"
کہ جب آپ صدقہ دیتے ہیں تو آپ کےپیسے کم نہیں ہوتے. یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے کہ صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا.
دوسرے الفاظ میں جب آپ اللہ کو کوئی چیز دیتے ہیں تو وہ آپ کو اس سے بڑھ کر لوٹاتا ہے.
اگر آپکی پروموشن نہیں ہورہی، تو صدقہ دیں.
اگر آپکے پاس زیادہ بچت نہیں ہورہی تو آپ صدقہ دیں. اللہ آپکے لئے نئے راستے کھول دے گا. یہ اللہ کا وعدہ ہے.
نمبر ٹو... یقین کا یہ حصہ پہلے سے بھی گہرا ہے. جب آپ کچھ صدقہ کر رہے ہوتے ہیں. تو وہ آپ غریبوں، یتیموں، سیلاب زدگان، زلزلہ زدگان یا مساجد کو نہیں دے رہے ہوتے بلکہ آپ اللہ کو دے رہے ہوتے ہیں. جب اللہ نےکہا کہ
"مما رزقناهم ينفقون"
تو اللہ نے "ینفقون ۔۔علی الیتمٰی۔۔علی المساکین ۔۔علی الفقرٰاء" وغیرہ نہیں کہا بلکہ اس نے توصرف خرچ کرنے کا کہا ہے. سو اصل میں آپکو پتا ہونا چاہیے کہ جو آپ خرچ کررہے ہیں وہ آپ اللہ کو دے رہے ہیں.
حضرت عائشہ( رضی اللہ عنہا) جب بھی صدقہ دیتی تھیں، وہ اس پر خوشبو لگاتی تھیں. وہ کہتی تھیں کہ یہ میں اللہ کو دے رہی ہوں ناں.
آپ بھی جب صدقہ دیتے ہیں تو آپ حقیقت میں وہ اللہ کو ہی دے رہے ہوتے ہیں.
غیب ایسی چیز ہے جو مجھے نظر نہیں آرہی، تو مجھے کوئی ایسا طریقہ چاہیے جو ایمان کو میرے اندر گاڑھ دے. تو اس بات کا پرفیکٹ تسلسل آیت کے اگلے جملے میں جواب ملتا ہے.
والذین یؤمنون بالغیب و یقیمون الصلوة
اہل ایمان کا ایمان کیسے پختہ ہوتا ہے؟
'و یقیمون الصلوۃ'. وہ نماز قائم رکھتے ہیں.
اقامہ بمعنٰی ادامہ..وہ ہمیشہ نماز پڑھتے ہیں. وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ نماز ایمان کا بنیادی ستون ہے جسکو گرنے نہیں دینا.
اقامہ کا لفظ قامہ سے ہے مطلب کسی چیز کو کسی دوسری چیز کے زریعے کھڑا کرنا. جو کبھی گرنے نہ پائے. اللہ نے یہ نہیں کہا کہ یصلون.. کہ وہ نماز پڑھتے ہیں...بلکہ کہا یقیمون الصلٰوۃ ..وہ نماز قائم کرتے ہیں..نماز پڑھنے میں اور قائم کرنے میں بہت فرق ہے.. نماز قائم کرنا کیسے ہے؟ جیسے اقامت ہے نماز کیلئے..
اللہ اکبر اللہ اکبر اشہد ان لا الہ الا اللہ
اشہد ان محمدا رسول اللہ
اقامت کا مقصد کیا ہے؟ یہ ایک اعلان ہے کہ یہاں موجود ہر شخص نماز کیلئے کھڑا ہوجائے. یہی اہم کام ہے. اللہ جب کہتے ہیں" یقیمون الصلوۃ" تو اس کا مطلب ہے کہ اکٹھے نماز قائم کرنا..کیونکہ یہ عمل غیب پر ایمان سے متعلقہ ہے اسلئے آپ اسے اکیلے قائم نہیں کرسکتے. اس عمل کو اکیلے جاری نہیں رکھ پاتے. جب آپ مسجد آنا بند کر دیتے ہیں، ان دوسرےمسلمانوں سے ملنا ترک کر دیتے ہیں جو آپ کے ایمان کو بچانے کی کوشش میں آپ کے ساتھ تھے، اور آپ صرف اپنے آفس اور دوستوں کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے میں لگے رہتے ہیں، اور ان سب کے بعد بس اپنے اپارٹمنٹ، اور ایسا اگر آپ مہینوں کرتے رہیں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اللہ سے روابط کمزور ہوتے جارہے ہیں. آپ اللہ کے بارے میں کم سوچتے ہیں، اور آپ کیلئے گناہ کرنا کتنا آسان ہوگیا ہے. اب اس کے اثرات دیکھیں گے کہ ایمان بالغیب آپکے اندر سے غائب ہونا شروع ہوگیا ہے.
پھر آپ دوبارہ مسجد آتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں.
اب آپ ذرا زمانہ طالب علمی والی نماز کے محسوسات کو ذہن میں لائیں اور ادھر ابھی آپ صرف بیٹھے ہیں..اپنے محسوسات کا جائزہ لیں..آپ محسوس کریں گے کہ یہاں سکینت ہے.امن ہے..سکون ہے. آپکے دل میں فرشتوں کی موجودگی کا احساس ہے..اور یہ فیلنگز آپکو اللہ کے گھر میں ہی حاصل ہوتی ہیں اور کہیں نہیں...
حديث مبارکہ ہے..
ما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم الا نزلت عليهم السكينة و غشیتم الرحمة وحفتهم الملائکة وذكرهم الله فيمن عنده..
دنيا میں اللہ کے کسی اور گھر میں لوگوں کا اتنا اجتماع نہیں ہوتا جتنا مساجد میں.. مساجد اللہ کا بہترین گھر ہیں جب مسلمان یہاں جمع ہوتے ہیں.قرآن سیکھتے ہیں تو فرشتے آپکی طرف اترتے ہیں.. وحفتھم الملائکہ..فرشتے آپکو گھیر لیتے ہیں. آپ ایک امن, سکون, آسانی محسوس کرتے ہیں..یہ کسی کو نظر نہیں آتی نادیدہ ہے..یہ ایمان بالغیب کے ساتھ ہی ہے.
الا بذكرالله تطمئن القلوب..
اور یہی اگلا مرحلہ ہے.
کہ لوگ اپنے آپ کو محفوظ کیسے بنا سکتے ہیں؟ نظر آنے والے اور نا نظر آنے والے خطرات سے اپنے آپ کو کیسے بچا سکتے ہیں؟ اللہ سے اپنے تعلق کو ڈائریکٹ استوار کر کے، اپنے تعلق کو مضبوط بنا کر کرسکتے ہیں.
اور یہ تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ مسلسل نماز قائم کر کے. صلوۃ لفظ کا کنکشن صلہ سے بھی ہے. جس کا مطلب ہے جوڑنا. رابطہ. کنکشن. یعنی آپکا آپکے رب کے ساتھ نماز کے ذریعے رابطہ..تعلق..
یعنی ہمارے مذہب میں اللہ کے ساتھ بنیادی تعلق بذریعہ نماز ہے.
بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ قدیم یہودی مذہب میں (آپ جانتے ہیں کہ تورات میں بہت ساری تبدیلیاں کر دی گئی ہیں) یہ ایک ٹریجڈی ہی ہے کہ ان کا مذہب ٹیملپز، عبادت گاہوں، روایتوں اور قربانیوں کے گرد گھوم رہا ہے. یعنی ان کا مذہب روایات اور اللہ کیلئے جانوروں کی قربانیوں پر ہی قائم رہ گیا ہے. ان دونوں باتوں کی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے، مگریہاں نماز کمزور ہو گئی ہے. یہاں تک کہ بہت سے گروپ اسے ترک کر چکے ہیں. (ہم اسے بعد میں تفصیل سے پڑھیں گے.)
ابھی آپکو یہ سمجھنا ہے کہ جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں تو اہل کتاب بھی ان کو سن رہے تھے.اسلئے با لواسطہ طور پر وہ ان سے بھی متعلق تھیں.
اب اللہ عزوجل یہاں تقوٰی والوں کے پہلے گروپ کے بارے میں بات ختم کرتے ہیں کہ
1.وہ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں..
2.وہ لوگ اپنا ایمان کیسے مضبوط بناتے ہیں؟ نماز قائم کر کے..
3.اور اس سے اگلاحصہ کیا ہے؟ ومما رزقنا ھم ینفقون..وہ خرچ کرتے ہیں..
اس میں سے جو ہم نے ان کو رزق دیا ہے..
لفظ مِمَّا میں..."ما" بہت وسیع لفظ ہے. یعنی اسکی کوئی حد نہیں. جو بھی چیز اللہ نے آپکو دی ہے اس میں سے خرچ کریں.
کچھ لوگوں کے پاس کچھ نہیں سوائے صحت کے. کسی کے پاس کچھ نہیں سوائے تیز دماغ کے. کسی کے پاس خوب دولت ہے. کسی کے پاس بہترین مواقع ہیں. کسی کے پاس شہرت ہے. اللہ نے مختلف لوگوں کو مختلف چیزیں دی ہیں. میرا رزق آپکے رزق جیسا نہیں ہے. اللہ نے بعض لوگوں کو بیٹے دیئے ہیں اور بعض کو بیٹیاں..
اللہ نےجو دیا ہے اور جتنا دیا ہے اس میں سے خرچ کریں..
انفاق عربی زبان کا لفظ ہے اس کا مطلب ہے خرچ کرنا.
میں انفاق لفظ پر بہت زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن ایک چیز جو آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ
یہاں پر اس کا مطلب نافقہ سے متعلقہ ہے۔۔یعنی صحرا میں کسی ریپٹائل (چھپکلی وغیرہ )کا زمین دوز سرنگ نما گھر، جس کے دونوں اطراف میں سوراخ ہوں. جب کوئی بڑا جانور (کوئی کتا،کوئی بڑی چھپکلی وغیرہ )اس پر حملہ آور ہو تو وہ چھوٹا جانور دوسرےسوراخ سے نکل جائے.
یہی تکنیک بادشاہوں کے محلات میں بھی استعمال ہوتی ہے. یعنی کسی برے وقت میں جب کوئی دشمن حملہ آور ہو، یا کوئی باغی اندر گھس آئے تو بادشاہ کے آتشدان کے پیچھے عام طور پر ایک خفیہ سرنگ ہوتی ہے جس سے بادشاہ اپنی جان بچاتے ہوئے فرار ہوسکے. یہی ہے نافقہ. دو سوراخوں والی ایک سرنگ.
انفاق کے روٹ سے ہی منافق ہے. کیونکہ منافق کے بھی دونوں اطراف والے امکانات ہمیشہ کھلے رہتے ہیں. ایک طرف جب مسلمانوں کے ساتھ کچھ اچھا ہوتا ہے تو وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے. جب مسلمانوں کو مشکلات پیش آتی ہیں وہ دوسری طرف سے نکل جاتا ہے.
انفاق کے ساتھ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم دنیا میں روپیہ ایک سوراخ میں ہی ڈالتے ہیں اور دوسرے سوراخ سے ہمیں واپس کب ملے گی؟ آخرت میں..
یہ اصل میں کانسپٹ آف ڈیپازٹ ( رقم جمع کروانے کے تصور) ہے.
آپ جانتے ہیں ہمارےہاں کئی طرح کے اکاؤنٹس ہوتےہیں.
چیک ان اکاؤنٹ، آپ جب چاہیں اپنے روپئے نکلوا سکتے ہیں.
پھر طویل مدتی سرمایہ کاری اکاؤنٹ، اس سے آپ جب چاہیں روپئے نہیں نکلوا سکتے.
ریٹائرمنٹ اکاؤنٹ جس میں سے آپ ایک خاص مدت کے بعد فنڈز نکلواسکتے ہیں.
ان تمام اکاؤنٹس میں آپ جو روپیے ڈالتے ہیں آپ ان کو خرچ کرنا نہیں کہتے. درحقیقت اس کو سرمایہ کاری کہتے ہیں. کیونکہ خاص مدت کے بعد بھی اس کو وصول کرنے والے آپ خود ہی ہیں ناں. یہ محض فنڈز کی منتقلی ہے.
اس آیت میں خرچ کرنے کا جو تصور دیا گیا ہے اس سےمراد یہ ہے کہ جو اللہ نے ہمیں مہیا کیا ہے، اس میں سے ہم اپنے فنڈز دنیا کے اکاؤنٹ سے آخرت کے اکاؤنٹ میں منتقل کر رہے ہیں. یہ میرا ہی اکاؤنٹ ہے. لیکن ایک مختلف بینک میں. یہ بینک آف امریکہ، سٹی بینک یا اسی طرح کا کوئی مشہور بینک نہیں ہے. بلکہ یہ اللہ کا بینک ہے. اور انشورینس وغیرہ سے کہیں بڑھ کر ہے.
اس بینک میں انسان صرف تبھی پیسہ ڈال سکتا ہے جب اس کا ایمان با لغیب پختہ ہو. کیونکہ یہ آپ اللہ کیلئے کرتے ہیں. صدقہ دینا وہ بھی اس بات کی فکر کیے بغیر کے آپ کے پاس باقی کیا رہ جائے گا، یہ تب ہی ہوگا جب دو چیزیں کلئیر ہوں.
نمبر ون.. "ما نقص مال عبد من صدقة"
کہ جب آپ صدقہ دیتے ہیں تو آپ کےپیسے کم نہیں ہوتے. یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے کہ صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا.
دوسرے الفاظ میں جب آپ اللہ کو کوئی چیز دیتے ہیں تو وہ آپ کو اس سے بڑھ کر لوٹاتا ہے.
اگر آپکی پروموشن نہیں ہورہی، تو صدقہ دیں.
اگر آپکے پاس زیادہ بچت نہیں ہورہی تو آپ صدقہ دیں. اللہ آپکے لئے نئے راستے کھول دے گا. یہ اللہ کا وعدہ ہے.
نمبر ٹو... یقین کا یہ حصہ پہلے سے بھی گہرا ہے. جب آپ کچھ صدقہ کر رہے ہوتے ہیں. تو وہ آپ غریبوں، یتیموں، سیلاب زدگان، زلزلہ زدگان یا مساجد کو نہیں دے رہے ہوتے بلکہ آپ اللہ کو دے رہے ہوتے ہیں. جب اللہ نےکہا کہ
"مما رزقناهم ينفقون"
تو اللہ نے "ینفقون ۔۔علی الیتمٰی۔۔علی المساکین ۔۔علی الفقرٰاء" وغیرہ نہیں کہا بلکہ اس نے توصرف خرچ کرنے کا کہا ہے. سو اصل میں آپکو پتا ہونا چاہیے کہ جو آپ خرچ کررہے ہیں وہ آپ اللہ کو دے رہے ہیں.
حضرت عائشہ( رضی اللہ عنہا) جب بھی صدقہ دیتی تھیں، وہ اس پر خوشبو لگاتی تھیں. وہ کہتی تھیں کہ یہ میں اللہ کو دے رہی ہوں ناں.
آپ بھی جب صدقہ دیتے ہیں تو آپ حقیقت میں وہ اللہ کو ہی دے رہے ہوتے ہیں.
نعمان علی خان
جاری ہے۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں