حصہ ہفتم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج ہم آیت نمبر 5 کا آغاز کریں گے ان شاءاللہ. مگر.اس سے پہلے میں آیت نمبر 4 کے متعلق کچھ باتیں شیئر کرنا چاہوں گا. پہلی بات، اس آیت میں جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی ترتیب کے بارے میں ہے.
1-والذین یومنون بما انزل الیک وہ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا تمہاری طرف یہاں پر قرآن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.
2-وما انزل من قبلک اور جو نازل کیا گیا تم سے پہلے یہ تورات،انجیل اور زبور کی طرف اشارہ ہے.
3-وبالاخرہ ھم یوقنون اور وہ آخرت پر مکمل یقین رکھتے ہیں.
یہاں پر دو باتیں قابل غور ہیں.
اب اگر یہ تاریخی ترتیب سے چل رہا ہوتا تو کچھ یوں ہونا چاہیے تھا کہ سب سے پہلے تورات انجیل وغیرہ کا ذکر ہوتا، پھر قرآن کا، اور پھر یوم آخرت کا.
کیونکہ پہلے تو تورات اور انجیل نازل ہوئی تھی نا،پھر اس کے بعد قرآن. مگر اللہ نے اس کا ذکر قرآن کے بعد کیا. اور پھر آخر میں یوم قیامت کا.
تاریخی ترتیب کے لحاظ سے وما انزل من قبلک پہلے ہونا چاہیے تھا، پھر وما انزل الیک اور آخر میں وبالاخرہ ھم یوقنون.
مگر اللہ عزوجل نے اس تاریخی ترتیب کو جان بوجھ کر توڑا اور قرآن پاک کا ذکر سب سے پہلے کیا،پھر ماضی میں جا کر پہلی کتابوں کا ذکر کیا، اور آخر میں مستقبل یعنی یوم آخرت کے متعلق ذکر کیا.
اس آیت میں قرآن کو اس ترتیب سے باہر نکالا گیا ہے، اور اس کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے. ورنہ باقی سب ترتیب میں ہے. مگر قرآن کو درمیان سے نکال کر شروع میں رکھ دیا گیا ہے. اور اس سے ایک بات کا پتہ چلتا ہے.
فرض کرتے ہیں کہ کوئی مدینہ کا رہائشی تھا مگر یہودی یا عیسائی تھا اور وہ بعد میں مسلمان ہوگیا. ظاہر سی بات ہے اس شخص کا پہلا ایمان قرآن پر نہیں تھا بلکہ تورات اور انجیل پر تھا، اور پھر بعد میں وہ قرآن پر ایمان لایا.
اب بات یہ ہے کہ جس چیز پر آپ کا پہلا ایمان ہوتا ہے، آپ باقی سب چیزوں کو اس چیز کی کی رو سے دیکھتے ہیں. بالکل جیسے آپ نے کوئی چشمہ پہن رکھا ہو، اسی کے ذریعے آپ ہر چیز کو دیکھ پاتے ہیں. آپ اس لینز کے ذریعے ہر شے کو جانچتے پرکھتے ہیں.
یہ لوگ جو تورات اور انجیل پر ایمان رکھتے تھے، ان کا اللہ سے تعلق پہلے تورات اور انجیل کے ذریعے سے ہی تھا. ان کی بنیاد تورات اور انجیل ہیں. اور اس کے بعد قرآن آیا. مگر اللہ نے اس ذیلی شعوری ترتیب کو بھی توڑدیا اور کہا نہیں! اب سے تم لوگ تورات اور انجیل کو بنیاد بنا کر نہیں سوچ سکتے، اب تم لوگ ہر شے نئے سرے سے سیکھو قرآن کے ذریعے. قرآن کو بائبل کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے اب سے تم بائبل کو قرآن کی روشنی میں دیکھوگے. اس لیے قرآن کا ذکر پہلے ہوگا جبکہ تاریخی ترتیب کے لحاظ سے اُسے آخر میں ہونا چاہیے.
اور یہ قرآن اب اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ پچھلی کتابوں میں سے اب تم کس چیز پر ایمان لاؤگے اور کس چیز کو مسترد کروگے.
اللہ عزوجل نے قرآن کو "مھیمن الیہ" کہا، کہ یہ دوسری کتابوں پر محافظ/نگران ہے.
ایسا کیوں کیا گیا ہے؟
کیونکہ ہمارے دین کا سب سے اہم تصور "روز آخرت" قیامت کا دن" جو ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، وہ تصور ان کتابوں میں تقریباً مٹ چکا ہے. اس لیے جب آپ ان کتابوں کو پرائمری سمجھیں گے اور قرآن کو ثانوی تو یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ قرآن میں "روز آخرت" کا تصور کیسے پیدا ہوا؟ جبکہ اس سے پہلے کی کتابوں میں تو ہے ہی نہیں. اور پھر ان کتابوں میں اس حد تک تبدیلی آچکی ہے کہ انہیں پرائمری نہیں بنا سکتے.
یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ روز قیامت کا تصور آج بھی یہودیوں میں جھٹلایا جا رہا ہے. ان کے لیے قرآن کوئی اللہ کی نازل کردہ کتاب نہیں ہے. ان کا ماننا ہے کہ یہ بائبل یا تورات سے تیارہ کردہ کوئی عام سی کتاب ہے.
اس لیے جب وہ پرانی کتابوں کی روشنی میں قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ "روز آخرت" کا تصور تو قرآن کا اپنا ایجاد کردہ ہے.
اگر آپ ان کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تمام مذاہب کا فرق جاننے کے لیے، یا پھر یہ جاننے کے لیے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا پس منظر کیا ہے، ان کی ذہنیت کیا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں. مگر انہیں پرائمری نہ سمجھیں . قرآن ہی پرائمری ہے اب.
اب لفظ "یوقنون" پہ بات کرتے ہیں.
یوقنون کے معنی ہیں *کسی چیز پر پوری طرح یقین کرنا". جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا روز آخرت پہ پورا یقین ہے. ان کا یہ یقین پورا ہو چکا ہے. اور یہ ایسا یقین ہے جس طرح آپ نے روز آخرت کو دیکھ رکھا ہو.
اور یہودیوں کے لیے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے.
ہم مسلمانوں کا بہت سے احکامات پر اختلاف ہوسکتا ہے، مگر قیامت کے دن پر، جہنم، یا جنت پر ہمارا پورا یقین ہے. اس بارے میں ہمیں کوئی اختلاف نہیں.
اس لیے یہاں موجود ترتیب اور لفظ ایقان (جو کہ یقین سے نکلا ہے) اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے.
ایک اور بہت ضروری بات، یہ پہلے بھی ہوتا آیا تھا اور اب بھی ہورہا ہے کہ کچھ لوگ نبی ہونے کا دعوی کرنے لگ جاتے ہیں، جبکہ وہ نبی نہیں ہوتے.
میں یہاں کسی گروہ کو نشانہ نہیں بنارہا لیکن ایک بات ضرور بتانا چاہوں گا کہ کس طرح قرآن نے اس مسئلے کا حل بتادیا ہے.
اللہ نے کہا یہ قرآن ہدایت ہے متقین کے لیے، اور متقین وہ ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا (یعنی قرآن پر) اور جو ان سے پہلے نازل کیا گیا (یعنی تورات اور انجیل).
قرآن اور پہلے کی کتابوں کے علاوہ مستقبل کی کسی کتاب کا ذکر نہیں ہوا. یہ نہیں کیا گیا کہ "اس پر بھی ایمان لاتے ہیں جو بعد میں آئے گا".
اگر قرآن کے بعد کسی وحی کسی کتاب کے لیے جگہ ہوتی تو اس کا ذکر بھی یہاں موجود ہوتا. مگر ایسا نہیں ہے. اس کتاب کے بعد جس چیز پر ایمان لانا ہے وہ آخرت ہے. اب کسی کتاب نے نہیں آنا، صرف قیامت نے آنا ہے.
اس لیے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم اپنی انگلیوں کو ساتھ جوڑ کر فرمایا کرتے تھے "میں اور روز آخرت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں". کیونکہ اب انسانوں کے لیے یہی سب سے بڑا واقع ہے. اور اب ایک وہی واقعہ رونما ہونا باقی ہے
1-والذین یومنون بما انزل الیک وہ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا تمہاری طرف یہاں پر قرآن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.
2-وما انزل من قبلک اور جو نازل کیا گیا تم سے پہلے یہ تورات،انجیل اور زبور کی طرف اشارہ ہے.
3-وبالاخرہ ھم یوقنون اور وہ آخرت پر مکمل یقین رکھتے ہیں.
یہاں پر دو باتیں قابل غور ہیں.
اب اگر یہ تاریخی ترتیب سے چل رہا ہوتا تو کچھ یوں ہونا چاہیے تھا کہ سب سے پہلے تورات انجیل وغیرہ کا ذکر ہوتا، پھر قرآن کا، اور پھر یوم آخرت کا.
کیونکہ پہلے تو تورات اور انجیل نازل ہوئی تھی نا،پھر اس کے بعد قرآن. مگر اللہ نے اس کا ذکر قرآن کے بعد کیا. اور پھر آخر میں یوم قیامت کا.
تاریخی ترتیب کے لحاظ سے وما انزل من قبلک پہلے ہونا چاہیے تھا، پھر وما انزل الیک اور آخر میں وبالاخرہ ھم یوقنون.
مگر اللہ عزوجل نے اس تاریخی ترتیب کو جان بوجھ کر توڑا اور قرآن پاک کا ذکر سب سے پہلے کیا،پھر ماضی میں جا کر پہلی کتابوں کا ذکر کیا، اور آخر میں مستقبل یعنی یوم آخرت کے متعلق ذکر کیا.
اس آیت میں قرآن کو اس ترتیب سے باہر نکالا گیا ہے، اور اس کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے. ورنہ باقی سب ترتیب میں ہے. مگر قرآن کو درمیان سے نکال کر شروع میں رکھ دیا گیا ہے. اور اس سے ایک بات کا پتہ چلتا ہے.
فرض کرتے ہیں کہ کوئی مدینہ کا رہائشی تھا مگر یہودی یا عیسائی تھا اور وہ بعد میں مسلمان ہوگیا. ظاہر سی بات ہے اس شخص کا پہلا ایمان قرآن پر نہیں تھا بلکہ تورات اور انجیل پر تھا، اور پھر بعد میں وہ قرآن پر ایمان لایا.
اب بات یہ ہے کہ جس چیز پر آپ کا پہلا ایمان ہوتا ہے، آپ باقی سب چیزوں کو اس چیز کی کی رو سے دیکھتے ہیں. بالکل جیسے آپ نے کوئی چشمہ پہن رکھا ہو، اسی کے ذریعے آپ ہر چیز کو دیکھ پاتے ہیں. آپ اس لینز کے ذریعے ہر شے کو جانچتے پرکھتے ہیں.
یہ لوگ جو تورات اور انجیل پر ایمان رکھتے تھے، ان کا اللہ سے تعلق پہلے تورات اور انجیل کے ذریعے سے ہی تھا. ان کی بنیاد تورات اور انجیل ہیں. اور اس کے بعد قرآن آیا. مگر اللہ نے اس ذیلی شعوری ترتیب کو بھی توڑدیا اور کہا نہیں! اب سے تم لوگ تورات اور انجیل کو بنیاد بنا کر نہیں سوچ سکتے، اب تم لوگ ہر شے نئے سرے سے سیکھو قرآن کے ذریعے. قرآن کو بائبل کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے اب سے تم بائبل کو قرآن کی روشنی میں دیکھوگے. اس لیے قرآن کا ذکر پہلے ہوگا جبکہ تاریخی ترتیب کے لحاظ سے اُسے آخر میں ہونا چاہیے.
اور یہ قرآن اب اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ پچھلی کتابوں میں سے اب تم کس چیز پر ایمان لاؤگے اور کس چیز کو مسترد کروگے.
اللہ عزوجل نے قرآن کو "مھیمن الیہ" کہا، کہ یہ دوسری کتابوں پر محافظ/نگران ہے.
ایسا کیوں کیا گیا ہے؟
کیونکہ ہمارے دین کا سب سے اہم تصور "روز آخرت" قیامت کا دن" جو ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، وہ تصور ان کتابوں میں تقریباً مٹ چکا ہے. اس لیے جب آپ ان کتابوں کو پرائمری سمجھیں گے اور قرآن کو ثانوی تو یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ قرآن میں "روز آخرت" کا تصور کیسے پیدا ہوا؟ جبکہ اس سے پہلے کی کتابوں میں تو ہے ہی نہیں. اور پھر ان کتابوں میں اس حد تک تبدیلی آچکی ہے کہ انہیں پرائمری نہیں بنا سکتے.
یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ روز قیامت کا تصور آج بھی یہودیوں میں جھٹلایا جا رہا ہے. ان کے لیے قرآن کوئی اللہ کی نازل کردہ کتاب نہیں ہے. ان کا ماننا ہے کہ یہ بائبل یا تورات سے تیارہ کردہ کوئی عام سی کتاب ہے.
اس لیے جب وہ پرانی کتابوں کی روشنی میں قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ "روز آخرت" کا تصور تو قرآن کا اپنا ایجاد کردہ ہے.
اگر آپ ان کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تمام مذاہب کا فرق جاننے کے لیے، یا پھر یہ جاننے کے لیے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا پس منظر کیا ہے، ان کی ذہنیت کیا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں. مگر انہیں پرائمری نہ سمجھیں . قرآن ہی پرائمری ہے اب.
اب لفظ "یوقنون" پہ بات کرتے ہیں.
یوقنون کے معنی ہیں *کسی چیز پر پوری طرح یقین کرنا". جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا روز آخرت پہ پورا یقین ہے. ان کا یہ یقین پورا ہو چکا ہے. اور یہ ایسا یقین ہے جس طرح آپ نے روز آخرت کو دیکھ رکھا ہو.
اور یہودیوں کے لیے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے.
ہم مسلمانوں کا بہت سے احکامات پر اختلاف ہوسکتا ہے، مگر قیامت کے دن پر، جہنم، یا جنت پر ہمارا پورا یقین ہے. اس بارے میں ہمیں کوئی اختلاف نہیں.
اس لیے یہاں موجود ترتیب اور لفظ ایقان (جو کہ یقین سے نکلا ہے) اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے.
ایک اور بہت ضروری بات، یہ پہلے بھی ہوتا آیا تھا اور اب بھی ہورہا ہے کہ کچھ لوگ نبی ہونے کا دعوی کرنے لگ جاتے ہیں، جبکہ وہ نبی نہیں ہوتے.
میں یہاں کسی گروہ کو نشانہ نہیں بنارہا لیکن ایک بات ضرور بتانا چاہوں گا کہ کس طرح قرآن نے اس مسئلے کا حل بتادیا ہے.
اللہ نے کہا یہ قرآن ہدایت ہے متقین کے لیے، اور متقین وہ ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا (یعنی قرآن پر) اور جو ان سے پہلے نازل کیا گیا (یعنی تورات اور انجیل).
قرآن اور پہلے کی کتابوں کے علاوہ مستقبل کی کسی کتاب کا ذکر نہیں ہوا. یہ نہیں کیا گیا کہ "اس پر بھی ایمان لاتے ہیں جو بعد میں آئے گا".
اگر قرآن کے بعد کسی وحی کسی کتاب کے لیے جگہ ہوتی تو اس کا ذکر بھی یہاں موجود ہوتا. مگر ایسا نہیں ہے. اس کتاب کے بعد جس چیز پر ایمان لانا ہے وہ آخرت ہے. اب کسی کتاب نے نہیں آنا، صرف قیامت نے آنا ہے.
اس لیے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم اپنی انگلیوں کو ساتھ جوڑ کر فرمایا کرتے تھے "میں اور روز آخرت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں". کیونکہ اب انسانوں کے لیے یہی سب سے بڑا واقع ہے. اور اب ایک وہی واقعہ رونما ہونا باقی ہے
الشمس والقمر بحسبان والنجم والشجر یسجدان
جب قرآن میں ایک جگہ کہا گیا کہ ستارے ڈوب جائیں گے. درخت ٹوٹ کر گر جائیں گے. پہاڑ برابر ہو جائیں گے. دوسرے لفظوں میں ہر چیز سجدہ ریز ہو جائے گی. یعنی نزول قرآن کے بعد اب قیامت کا دن قریب ہے. یہ دونوں واقعات انسانی تاریخ کے تناظر سے یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ہوں گے.
اب اگلی آیت کی طرف چلتے ہیں.
أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ
سبحان اللہ!
یہ آیت اللہ کی طرف سے نہایت خوبصورت تحفہ ہے. اگر آپ اس آیت کو پڑھیں تو آپ کو لگے گا کہ یہ بات تو پہلے ہی بتائی جا چکی ہے. اللہ تعالٰی ہمیں پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ قرآن ہدایت ہے. ھدًی للمتقین. یہ اہل تقوٰی کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے. اللہ تعالٰی اب بتاتے ہیں کہ
أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اس کا آسان ترجمہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ کی طرف سے ہدایت کی راہ پر گامزن ہیں وہی کامیاب و کامران ہوں گے. آخرت میں وہی کامیاب ہوں گے.
اس آیت میں ہمارے سمجھنے کے لیے بہت سی نہایت خوبصورت باتیں ہیں.. پہلی تو یہ کہ "ھدًی" کا لفظ اور خاص طور پر عربی گرامر کے طلباء کے لیے یہ سوال ہے کہ "ھدًی" کے لفظ میں تنوین کیوں استعمال ہوا؟ علی الھدٰی کیوں نہیں کہا گیا. اس کا جواب اما شافعی یوں دیتے ہیں
لو البصرۃ فلا البصرۃ الرجل
کہ جہاں تک نگاہ جائے ہدایت ہی ہدایت ہے.
عربی میں تنوین کسی چیز کو بڑھانے کیلیے لگائی جاتی ہے. یعنی اللہ کی طرف سے ہدایت کیا ہے؟ اس آخری کتاب کی روشنی میں پچھلے تمام آسمانی صحیفوں اور آسمانی کتابوں پر یقین. اور اس کے بعد آخرت پر بھی ایمان لانا. یہ ہے ہدایت اللہ کی طرف سے.
وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور وہی ہیں آخرت میں کامیاب ہونے والے. اب لفظ "أفلح" نہایت دلچسپ لفظ ہے. اس سے لفظ فلاح نکلا ہے. "فلاح" کسان کو کہتے ہیں.
فلاح الدھر بقائه
فلاح کا ایک اور مطلب ہے" بقیة" باقی رہ جانے والا. اور مفلحون میں وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی پا لیں گے. ہمیشہ رہنے والی خوشی. وہ دائمی زندگی جو کامیابیوں اور اللہ کی رحمت سے بھر پور ہو گی. لفظ "فلاح" کا مطلب صرف کامیابی نہیں ہے. اگر آپ صرف اور صرف کامیابی کی بات کرنا چاہیں تو آپ کہتے ہیں "فائزون". قرآن میں یہ بھی استعمال ہوا ہے. اولئك هم الفائزون. لیکن جب آپ کہتے ہیں مفلحون تو یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو نہ صرف کامیاب ہوں گے بلکہ وہ ہمیشہ کامیاب رہیں گے. فلاح کا مطلب کسان بھی ہے کیونکہ
کسان کٹائی تب کرتا ہے جب فصل تیار ہوتی ہے. تصور یہ ہے کہ ایک کسان سارا سال کام کرتا ہے وہ بہت محنت سے مٹی تیار کرتا ہے اسے نرم کرتا ہے. بیج بوتا ہے، پانی دیتا ہے. لیکن سال کے بیشتر حصہ میں اسے اس کی محنت کا صلہ نہیں ملتا. آخر کار فصل کھڑی ہو جاتی ہے. اور کٹائی کا موسم آتا ہے. دنیا میں جب بھی کٹائی کا موسم آتا ہے تو جشن و تہوار منعقد کیے جاتے ہیں. اس کے برعکس نوکری کرتے ہوئے ہر ہفتے آپ کو چیک مل جاتا ہے. کچھ لوگوں کو ماہانہ چیک ملتے ہیں. لیکن ایک کسان کو نہ تو ہفتہ وار کوئی چیک ملتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی ماہانہ چیک دیتا ہے. کسان کو تنخواہ کب ملتی ہے.؟ سال میں چند دفعہ کٹائی کے موسم میں جب ان کی فصل تیار ہوتی ہے. یہ وہ موسم ہے جب انہیں چیک ملے گا اور تب انہیں کہا جاتا ہے فلاح. یا پھر مفلح.
تو اس لفظ فلاح کے استعمال سے اللہ تعالٰی ہمیں کیا بتا رہے ہیں.؟اللہ تعالٰی صرف یہی نہیں کہہ رہے کہ دائمی کامیابی یا اخروی کامیابی. وہ یہ بتا رہے ہیں کہ لوگوں کو بہت محنت کرنی ہو گی. اور آخر کار وہ وہی کاٹیں گے جو انہوں نے بویا ہو گا. دوسرے لفظوں میں پورے دین اسلام کی فلاسفی یہ ہے کہ آپ کو محنت کرنی ہو گی اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کے قابل بنانے کے لیے. اور جنت کے لیے. صرف یہی نہیں ہے اللہ تعالٰی جسے چاہے گا عطا کرے گا. اس کے لیے آپ کو محنت کرنی پڑے گی. اور تب ہی اللہ تعالٰی آپ کو اجر دیں گے. اس پوری بات کو وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ میں بیان کیا گیا ہے.
اب میرے لیے جو اس آیت کا سب سے دلچسپ پہلو ہے. وہ یہ ہے. میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ جب اللہ تعالٰی نے کہا کہ
ھدی اللمتقین. یہ کتاب ہدایت ہے اہل تقوی کے لیے تو انہوں نے دو گروہوں کا ذکر کیا. میں دہرا دیتا ہوں . پہلا گروہ ہے.
أَلَّذینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَ یُقیمُونَ الصَّلاةَ وَ مِمّا رَزَقْناهُمْ یُنْفِقُونَ.
جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
اور دوسرا گروہ ہے.
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
اور جو کتاب (اے محمدﷺ) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں.
میں اسے آپ کے لیے اور آسان طریقے سے بیان کرتا ہوں. پہلا گروہ ان لوگوں کا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور بنیادی نیک اعمال ضرور سر انجام دیتے ہیں. بنیادی نیک اعمال کون سے ہیں؟ نماز قائم کرنا، لوگوں کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ.
لیکن اگلی آیت ان لوگوں سے متعلق ہے جو اہل علم ہیں. وہ آسمانی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کے بارے میں علم رکھتے ہیں. ان کے پاس قرآن کا علم بھی ہے اور قرآن کی روشنی میں قرآن سے پہلے نازل کردہ آسمانی صحیفوں کا بھی.
تو آپ کے سامنے دو گروہ ہیں. میں موجودہ دور کے لحاظ سے آپ کو مثال دہتا ہوں. پہلے گروہ میں شامل ایک عام ٹیکسی ڈرائیور ہے. ایک غریب آدمی، جو دن کے 19 گھنٹے کام کرتا ہے تاکہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے. اس لے پاس دینی تعلیم کے حصول کے لیے وقت نہیں ہے. اس کو کبھی موقع ہی نہیں ملا عربی زبان سیکنے کا، تجوید سیکھنے کا، مخارج پہ توجہ دینے کا یا حدیث سیکھنے کا. وہ مشکل سے وقت نکال کر اپنی ٹیکسی روکتا ہے، نماز ادا کرتا ہے. اور نماز پڑھنے کے بعد واپس ٹیکسی کے ذریعے فکر معاش میں لگ جاتا ہے اور یہی اس کا معمول ہے. ہفتے میں اگر اسے ایک دن آرام کا مل بھی جاتا ہے تو وہ اس قدر تھکا ہوا ہوتا ہے کہ وہ کومہ کی حالت میں ہوتا ہے. بس یہ اس کی زندگی ہے.
اور دوسری طرف ایک شخص ہےجس کے لیے اللہ تعالٰی نے علم کے حصول کے لیے بہت سے مواقع پیدا کیے ہیں. اس کا خاندان اس کی اعلی دینی تعلیم کی راہ میں معاون ہے. اور وہ قرآن کی، شریعہ کی یا کسی بھی طرح کی دینی تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں ہے چاہے اس کے لیے اسے ایک ملک سے دوسرے ملک جانا پڑے. اور پھر وہ گریجویشن سے آگے ماسٹرز اور یہاں تک کہ پی ایچ ڈی کر لے اور اللہ کے فضل سے عالم دین بن جائے.
یہ دونوں لوگ اہل ایمان میں سے ہیں. لیکن آپ کے خیال میں جو اہل علم ہے اور جو دینی تعلیم میں کوشاں ہے وہ شاید برتر ہے. اور آپ کی نگاہ میں ٹیکسی ڈرائیور کا مقام ایک عالم سے کچھ کم ہے. لیکن غور کریں اللہ تعالٰی نے پہلے فرمایا کہ مفلحون میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے.، کوئی بھی جو غیب پر ایمان لائے، کوئی بھی جو نماز قائم کرے اور کوئی بھی جو اس میں سے خرچ کرے جو اللہ تعالٰی نے اسے عطا کیا ہے. یہ تمام امت مسلمہ کے لیے کھلی دعوت ہے.
اور اگلی آیت میں کہا گیا کہ وہ لوگ جو اس قرآن پر اس سے پہلے نازل کردہ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں. یہاں ان کی طرف اشارہ ہے جن کے پاس کتاب کا علم ہے. لیکن اللہ عزوجل ان دونوں کا ایک جگہ ذکر کر کے ان دونوں گروہوں کو کامیابی کی سند تھما دیتے ہیں. اللہ تعالٰی آگے فرماتے ہیں
اولئك علی ھدی من الربھم
یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں.
ان دونوں میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو کمتر یا حقیر نہ سمجھے کہ وہ اللہ تعالٰی کی نظر میں کسی سے کم ہیں.
علم کا دروازہ جب کھلتا ہے تو وہ بہت سوں کے لیے مزید در کھول دیتا ہے. عالم بننے کے لیے یہی کافی نہیں ہے کہ آپ ایک کتاب لیں اور اسکو پڑھ ڈالیں. آپ کے اخراجات، رہائش، و خوراک کا خیال کسی کو رکھنا ہو گا. تاکہ آپ بے فکر ہو کر علم حاصل کر سکیں. ایسے نہیں ہے کہ آپ گھر والوں کی کوئی فکر نہ کریں اور کہیں کہ میں تو علم حاصل کر رہا ہوں تو میرے اہل وعیال کا اللہ مالک ہے. آپ ایسا نہیں کر سکتے. کچھ لوگ اپنی ساری زندگی لگا دیتے ہیں کہ کم ازکم وہ اتنا کما لیں کہ اپنے گھر والوں کو دو وقت کی روٹی دے سکیں. یہی ان کی زندگی ہے. اور اس کی بھی اللہ کے نزدیک اہمیت ہے. جب تک وہ ایمان لانے والوں میں سے ہوں، نماز قائم کرتے رہیں اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے خرچ کرتے رہیں،بس اگر وہ یہی کرتے رہیں تو اللہ تعالٰی کی نگاہ میں ان کی بہت اہمیت ہے.ان کی جن کو علم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا.
جب قرآن میں ایک جگہ کہا گیا کہ ستارے ڈوب جائیں گے. درخت ٹوٹ کر گر جائیں گے. پہاڑ برابر ہو جائیں گے. دوسرے لفظوں میں ہر چیز سجدہ ریز ہو جائے گی. یعنی نزول قرآن کے بعد اب قیامت کا دن قریب ہے. یہ دونوں واقعات انسانی تاریخ کے تناظر سے یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ہوں گے.
اب اگلی آیت کی طرف چلتے ہیں.
أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ
سبحان اللہ!
یہ آیت اللہ کی طرف سے نہایت خوبصورت تحفہ ہے. اگر آپ اس آیت کو پڑھیں تو آپ کو لگے گا کہ یہ بات تو پہلے ہی بتائی جا چکی ہے. اللہ تعالٰی ہمیں پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ قرآن ہدایت ہے. ھدًی للمتقین. یہ اہل تقوٰی کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے. اللہ تعالٰی اب بتاتے ہیں کہ
أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اس کا آسان ترجمہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ کی طرف سے ہدایت کی راہ پر گامزن ہیں وہی کامیاب و کامران ہوں گے. آخرت میں وہی کامیاب ہوں گے.
اس آیت میں ہمارے سمجھنے کے لیے بہت سی نہایت خوبصورت باتیں ہیں.. پہلی تو یہ کہ "ھدًی" کا لفظ اور خاص طور پر عربی گرامر کے طلباء کے لیے یہ سوال ہے کہ "ھدًی" کے لفظ میں تنوین کیوں استعمال ہوا؟ علی الھدٰی کیوں نہیں کہا گیا. اس کا جواب اما شافعی یوں دیتے ہیں
لو البصرۃ فلا البصرۃ الرجل
کہ جہاں تک نگاہ جائے ہدایت ہی ہدایت ہے.
عربی میں تنوین کسی چیز کو بڑھانے کیلیے لگائی جاتی ہے. یعنی اللہ کی طرف سے ہدایت کیا ہے؟ اس آخری کتاب کی روشنی میں پچھلے تمام آسمانی صحیفوں اور آسمانی کتابوں پر یقین. اور اس کے بعد آخرت پر بھی ایمان لانا. یہ ہے ہدایت اللہ کی طرف سے.
وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور وہی ہیں آخرت میں کامیاب ہونے والے. اب لفظ "أفلح" نہایت دلچسپ لفظ ہے. اس سے لفظ فلاح نکلا ہے. "فلاح" کسان کو کہتے ہیں.
فلاح الدھر بقائه
فلاح کا ایک اور مطلب ہے" بقیة" باقی رہ جانے والا. اور مفلحون میں وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی پا لیں گے. ہمیشہ رہنے والی خوشی. وہ دائمی زندگی جو کامیابیوں اور اللہ کی رحمت سے بھر پور ہو گی. لفظ "فلاح" کا مطلب صرف کامیابی نہیں ہے. اگر آپ صرف اور صرف کامیابی کی بات کرنا چاہیں تو آپ کہتے ہیں "فائزون". قرآن میں یہ بھی استعمال ہوا ہے. اولئك هم الفائزون. لیکن جب آپ کہتے ہیں مفلحون تو یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو نہ صرف کامیاب ہوں گے بلکہ وہ ہمیشہ کامیاب رہیں گے. فلاح کا مطلب کسان بھی ہے کیونکہ
کسان کٹائی تب کرتا ہے جب فصل تیار ہوتی ہے. تصور یہ ہے کہ ایک کسان سارا سال کام کرتا ہے وہ بہت محنت سے مٹی تیار کرتا ہے اسے نرم کرتا ہے. بیج بوتا ہے، پانی دیتا ہے. لیکن سال کے بیشتر حصہ میں اسے اس کی محنت کا صلہ نہیں ملتا. آخر کار فصل کھڑی ہو جاتی ہے. اور کٹائی کا موسم آتا ہے. دنیا میں جب بھی کٹائی کا موسم آتا ہے تو جشن و تہوار منعقد کیے جاتے ہیں. اس کے برعکس نوکری کرتے ہوئے ہر ہفتے آپ کو چیک مل جاتا ہے. کچھ لوگوں کو ماہانہ چیک ملتے ہیں. لیکن ایک کسان کو نہ تو ہفتہ وار کوئی چیک ملتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی ماہانہ چیک دیتا ہے. کسان کو تنخواہ کب ملتی ہے.؟ سال میں چند دفعہ کٹائی کے موسم میں جب ان کی فصل تیار ہوتی ہے. یہ وہ موسم ہے جب انہیں چیک ملے گا اور تب انہیں کہا جاتا ہے فلاح. یا پھر مفلح.
تو اس لفظ فلاح کے استعمال سے اللہ تعالٰی ہمیں کیا بتا رہے ہیں.؟اللہ تعالٰی صرف یہی نہیں کہہ رہے کہ دائمی کامیابی یا اخروی کامیابی. وہ یہ بتا رہے ہیں کہ لوگوں کو بہت محنت کرنی ہو گی. اور آخر کار وہ وہی کاٹیں گے جو انہوں نے بویا ہو گا. دوسرے لفظوں میں پورے دین اسلام کی فلاسفی یہ ہے کہ آپ کو محنت کرنی ہو گی اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کے قابل بنانے کے لیے. اور جنت کے لیے. صرف یہی نہیں ہے اللہ تعالٰی جسے چاہے گا عطا کرے گا. اس کے لیے آپ کو محنت کرنی پڑے گی. اور تب ہی اللہ تعالٰی آپ کو اجر دیں گے. اس پوری بات کو وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ میں بیان کیا گیا ہے.
اب میرے لیے جو اس آیت کا سب سے دلچسپ پہلو ہے. وہ یہ ہے. میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ جب اللہ تعالٰی نے کہا کہ
ھدی اللمتقین. یہ کتاب ہدایت ہے اہل تقوی کے لیے تو انہوں نے دو گروہوں کا ذکر کیا. میں دہرا دیتا ہوں . پہلا گروہ ہے.
أَلَّذینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَ یُقیمُونَ الصَّلاةَ وَ مِمّا رَزَقْناهُمْ یُنْفِقُونَ.
جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
اور دوسرا گروہ ہے.
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
اور جو کتاب (اے محمدﷺ) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں.
میں اسے آپ کے لیے اور آسان طریقے سے بیان کرتا ہوں. پہلا گروہ ان لوگوں کا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور بنیادی نیک اعمال ضرور سر انجام دیتے ہیں. بنیادی نیک اعمال کون سے ہیں؟ نماز قائم کرنا، لوگوں کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ.
لیکن اگلی آیت ان لوگوں سے متعلق ہے جو اہل علم ہیں. وہ آسمانی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کے بارے میں علم رکھتے ہیں. ان کے پاس قرآن کا علم بھی ہے اور قرآن کی روشنی میں قرآن سے پہلے نازل کردہ آسمانی صحیفوں کا بھی.
تو آپ کے سامنے دو گروہ ہیں. میں موجودہ دور کے لحاظ سے آپ کو مثال دہتا ہوں. پہلے گروہ میں شامل ایک عام ٹیکسی ڈرائیور ہے. ایک غریب آدمی، جو دن کے 19 گھنٹے کام کرتا ہے تاکہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے. اس لے پاس دینی تعلیم کے حصول کے لیے وقت نہیں ہے. اس کو کبھی موقع ہی نہیں ملا عربی زبان سیکنے کا، تجوید سیکھنے کا، مخارج پہ توجہ دینے کا یا حدیث سیکھنے کا. وہ مشکل سے وقت نکال کر اپنی ٹیکسی روکتا ہے، نماز ادا کرتا ہے. اور نماز پڑھنے کے بعد واپس ٹیکسی کے ذریعے فکر معاش میں لگ جاتا ہے اور یہی اس کا معمول ہے. ہفتے میں اگر اسے ایک دن آرام کا مل بھی جاتا ہے تو وہ اس قدر تھکا ہوا ہوتا ہے کہ وہ کومہ کی حالت میں ہوتا ہے. بس یہ اس کی زندگی ہے.
اور دوسری طرف ایک شخص ہےجس کے لیے اللہ تعالٰی نے علم کے حصول کے لیے بہت سے مواقع پیدا کیے ہیں. اس کا خاندان اس کی اعلی دینی تعلیم کی راہ میں معاون ہے. اور وہ قرآن کی، شریعہ کی یا کسی بھی طرح کی دینی تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں ہے چاہے اس کے لیے اسے ایک ملک سے دوسرے ملک جانا پڑے. اور پھر وہ گریجویشن سے آگے ماسٹرز اور یہاں تک کہ پی ایچ ڈی کر لے اور اللہ کے فضل سے عالم دین بن جائے.
یہ دونوں لوگ اہل ایمان میں سے ہیں. لیکن آپ کے خیال میں جو اہل علم ہے اور جو دینی تعلیم میں کوشاں ہے وہ شاید برتر ہے. اور آپ کی نگاہ میں ٹیکسی ڈرائیور کا مقام ایک عالم سے کچھ کم ہے. لیکن غور کریں اللہ تعالٰی نے پہلے فرمایا کہ مفلحون میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے.، کوئی بھی جو غیب پر ایمان لائے، کوئی بھی جو نماز قائم کرے اور کوئی بھی جو اس میں سے خرچ کرے جو اللہ تعالٰی نے اسے عطا کیا ہے. یہ تمام امت مسلمہ کے لیے کھلی دعوت ہے.
اور اگلی آیت میں کہا گیا کہ وہ لوگ جو اس قرآن پر اس سے پہلے نازل کردہ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں. یہاں ان کی طرف اشارہ ہے جن کے پاس کتاب کا علم ہے. لیکن اللہ عزوجل ان دونوں کا ایک جگہ ذکر کر کے ان دونوں گروہوں کو کامیابی کی سند تھما دیتے ہیں. اللہ تعالٰی آگے فرماتے ہیں
اولئك علی ھدی من الربھم
یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں.
ان دونوں میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو کمتر یا حقیر نہ سمجھے کہ وہ اللہ تعالٰی کی نظر میں کسی سے کم ہیں.
علم کا دروازہ جب کھلتا ہے تو وہ بہت سوں کے لیے مزید در کھول دیتا ہے. عالم بننے کے لیے یہی کافی نہیں ہے کہ آپ ایک کتاب لیں اور اسکو پڑھ ڈالیں. آپ کے اخراجات، رہائش، و خوراک کا خیال کسی کو رکھنا ہو گا. تاکہ آپ بے فکر ہو کر علم حاصل کر سکیں. ایسے نہیں ہے کہ آپ گھر والوں کی کوئی فکر نہ کریں اور کہیں کہ میں تو علم حاصل کر رہا ہوں تو میرے اہل وعیال کا اللہ مالک ہے. آپ ایسا نہیں کر سکتے. کچھ لوگ اپنی ساری زندگی لگا دیتے ہیں کہ کم ازکم وہ اتنا کما لیں کہ اپنے گھر والوں کو دو وقت کی روٹی دے سکیں. یہی ان کی زندگی ہے. اور اس کی بھی اللہ کے نزدیک اہمیت ہے. جب تک وہ ایمان لانے والوں میں سے ہوں، نماز قائم کرتے رہیں اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے خرچ کرتے رہیں،بس اگر وہ یہی کرتے رہیں تو اللہ تعالٰی کی نگاہ میں ان کی بہت اہمیت ہے.ان کی جن کو علم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا.
-نعمان علی خان
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں