شرم و حیا شریعت کی روشنی میں (اقتباس)
خطبہ جمعہ مسجد النبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
بشکریہ: اردو مجلس فورم
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے07-جمادی ثانیہ-1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں" شرم و حیا شریعت کی روشنی میں" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ اسمائے حسنی کی معرفت عبادت الہی کی کنجی ہے انہی اسمائے حسنی میں سے ایک "اَلْحَيِيُّ" یعنی بہت زیادہ حیا کرنے والا بھی ہے، حیا اللہ تعالی کی صفت ہے، اس کا ذکر کتاب و سنت میں موجود ہے، حیا تمام تر اخلاقی اقدار کا سرچشمہ ہے، حیا انسان کو برائی سے روکتی ہے اور اچھے کاموں کی ترغیب دلاتی ہے، حیا ان اخلاقی اقدار میں شامل ہے جو اولین زمانۂ نبوت سے معتبر اور مطلوب ہیں، حیا سے اشرف المخلوقات سمیت فرشتے بھی موصوف ہیں، آدم، نوح، موسی سمیت تمام کے تمام انبیائے علیہم السلام حیا سے آراستہ تھے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ با حیا تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے فرشتے بھی حیا کرتے تھے، حیا خواتین کا فطری زیور اور زینت ہے، اسی لیے سیدہ عائشہ اور دیگر صحابیات حیا کی پیکر تھیں، بلکہ اہل جاہلیت بھی حیا پر قائم دائم تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حیا سرتا پا خیر ہی خیر ہے، حیا کی وجہ سے ہمیشہ خیر ہی برآمد ہوتی ہے، حیا کی بدولت انسان اچھے اخلاق کا عادی بن جاتا ہے، اور تمام اہل سنت کے ہاں حیا ایمان کا حصہ ہے، حیا چھن جائے تو یہ ایمان چھن جانے کی علامت ہوتی ہے، اور جب حیا ہی نہ رہے تو انسان جو چاہے کرتا جائے، اگر انسان میں گناہ کرے تو اس سے حیا میں کمی آ جاتی ہے، حیا کسی بھی چیز میں پائی جائے تو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے، جو شخص اللہ تعالی سے حیا کرے تو اللہ تعالی بھی اس کی لاج رکھ لیتا ہے، حیا کا اعلی ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی سے حیا کرے، حیا ایک نور ہے جو انسان کو خلوت و جلوت میں استقامت پر مجبور کرتا ہے، دل میں حیا پختہ کرنے کیلیے اللہ تعالی کی نعمتوں اور احسانات کو یاد کریں اور اس کے مقابلے میں اپنی کارستانیوں کو مد نظر رکھیں، اور یہ تصور بنائے کہ اللہ تعالی اسے ہر وقت دیکھ اور سن رہا ہے، انسان کو اپنے ساتھیوں سمیت نگران فرشتوں سے بھی حیا کرنی چاہیے، بلکہ تنہائی میں اپنے آپ سے بھی حیا کرے، اگر کوئی شخص تنہائی میں اپنے آپ سے حیا نہیں کرتا تو اس کے ضمیر میں لوگوں کی اپنے آپ سے زیادہ اہمیت ہے؛ اسی لیے تو جو گناہ لوگوں کے سامنے نہیں کرتا وہ تنہائی میں کر گزرتا ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو میں موجود حیا سے مراد ایسی اخلاقی قدر ہے جو انسان کو اچھے کاموں پر ابھارے اور برے کاموں سے روکے، لیکن جس حیا سے حقوق اللہ یا حقوق العباد میں کمی آتی ہے تو در حقیقت اس کا حیا سے کوئی تعلق نہیں۔ آخر میں انہوں نے جامع دعا فرمائی۔
منتخب اقتباس:
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔
عبادتِ الہی کی کنجی اور راز اسما و صفاتِ الہی کی معرفت میں پنہاں ہے، اللہ تعالی کے تمام نام اچھے اور اس کی صفات اعلی ہیں، اللہ تعالی کے ہر نام اور صفت کی خاص عبادت بھی ہے جو کہ ان کی معرفت کا تقاضا ہے، اللہ تعالی کو اپنے اسما اور صفات پسند ہیں، اللہ تعالی اپنے اسما و صفات کے آثار اپنی مخلوق میں دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے اللہ تعالی نے ان کے واسطے سے دعا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:
{وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا}
اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں، اللہ کو ان کے ذریعے پکارو ۔[الأعراف: 180]
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک "اَلْحَيِيُّ" ہے اور حیا اللہ تعالی کی صفت ہے، اللہ تعالی نے خود اپنی اس صفت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
{إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا}
اللہ تعالی قطعاً اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کسی مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر تر چیز کی مثال بیان کرے۔ [البقرة: 26]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ تعالی کا یہ نام بتلاتے ہوئے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی"اَلْحَيِيُّ" اور "اَلسِتِّیْرُ" ہے، اور حیا سمیت پردہ پوشی کو بھی پسند فرماتا ہے ) ابو داود
اللہ تعالی کو اٹھے ہوئے ہاتھ خالی لوٹانے سے بھی حیا آتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک تمہارا پروردگار حیا کرنے والا اور نہایت کرم کرنے والا ہے، وہ اپنے بندے سے حیا کرتا ہے کہ جب وہ اس کی جانب ہاتھ اٹھائے تو انہیں خالی واپس لوٹا دے) ابو داود
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ تعالی کی اپنے بندے سے حیا کرنے کی کیفیت انسانی ذہن سے بالا تر ہے؛ عقل اس کی کیفیت بیان کرنے سے قاصر ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کی حیا میں سخاوت، احسان، جود اور جلال شامل ہے"
حیا ایک ایسی اخلاقی قدر ہے جو اولین زمانۂ نبوت سے مطلوب اور اخلاقی فرائض میں شامل ہے، تمام کے تمام انبیائے کرام نے اپنی امتوں کو حیا کی ترغیب دلائی، نیز سابقہ انبیائے کرام کی شریعتوں کی تنسیخ کے دوران حیا کو منسوخ نہیں کیا گیا، نہ ہی اس کا کوئی متبادل لایا گیا؛ کیونکہ حیا سر تا پا اعلی اور افضل ترین خصلت ہے، عقل اس کی خوبیوں کی معترف ہے؛ چنانچہ جس چیز میں اتنی خوبیاں پائی جاتی ہوں اس کی تنسیخ یا اس میں تبدیلی روا نہیں ہو سکتی ؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (لوگوں نے ابتدائی نبوتوں کی تعلیمات میں سے جو چیز [آج تک] پائی وہ یہ ہے کہ: "جب حیا نہ ہو تو جو مرضی کر")بخاری
انبیائے کرام اپنی اقوام میں حیا داری میں مشہور ہوتے ہیں، روزِ قیامت جب لوگ (آدم ،نوح اور موسی علیہم السلام سے شفاعت طلب کریں گے تو انہیں اپنی اپنی غلطی یاد آ جائے گی اور شفاعت کرنے سے شرما جائیں گے) بخاری
موسی علیہ السلام حیا کے پیکر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک موسی علیہ السلام انتہائی حیادار اور پردے میں رہنے والے تھے، آپ کی حیا کی وجہ سے آپ کی جلد کا کوئی حصہ دِکھ نہیں سکتا تھا) بخاری
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیا آپ کے چہرے سے عیاں ہو جاتی تھی، چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردے میں چھپی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے، آپ کو کوئی چیز ناگوار گزرتی تو آپ کے چہرے سے ہم پہچان جاتے تھے ) متفق علیہ
معراج کی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم موسی علیہ السلام اور اللہ تعالی کے درمیان بار بار چکر لگاتے رہے کہ نمازوں میں مزید تخفیف کر دی جائے، یہاں تک آپ نے فرما دیا: (اب مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے) متفق علیہ
خواتین کو پیدا ہی حیا پر کیا گیا ہے، در حقیقت حیا ہی عورت کا زیور اور زینت ہے، یہی حیا عورت کیلیے تحفظ اور امن کی ضامن ہے، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا [شادی پر رضا مندی کے متعلق]کہتی ہیں کہ: "اللہ کے رسول! کنواری تو شرمیلی ہوتی ہے" [وہ ہاں یا انکار نہیں کر پاتی]تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس کی خاموشی ہی شادی پر رضا مندی ہوتی ہے) بخاری
[موسی علیہ السلام کے واقعے میں]مدین والے کی بیٹی جب چلتی ہوئی آئی تو مکمل طور پر حیا کی پیکر تھی، انہوں نے اپنا چہرہ کپڑے اور ہاتھ سے ڈھانپا ہوا تھا اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
{فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ}
اتنے میں ان دونوں میں سے ایک ان کی طرف شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی۔ [القصص: 25]
ایک صحابیہ نے تکلیف تو برداشت کر لی لیکن حیا کا پردہ چاک ہونا منظور نہ کیا تو انہیں جنت کی بشارت دے دی گئی، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ سے کہتے ہیں: "کیا میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ تو میں [عطاء] نے کہا: کیوں نہیں!۔ تو ابن عباس نے کہا: یہ کالی عورت جنتی ہے، وہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: مجھے بیہوشی [مرگی] کی شکایت ہے ، جس کی وجہ سے پردہ کھل جاتا ہے، اللہ سے میرے لیے دعا کر دیں" اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم چاہو تو صبر کر لو اور تمہیں جنت ملے گی، لیکن اگر چاہو تو میں اللہ سے تمہارے لیے عافیت کی دعا کر دیتا ہوں) "تو اس خاتون نے کہا: میں صبر کرتی ہو، لیکن بیہوشی میں پردہ کھل جاتا ہے تو اللہ سے دعا کر دیں میرا پردہ نہ کھلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرما دی" متفق علیہ
حیا داری ان عظیم اخلاقیات میں سے ہے جن پر اہل جاہلیت بھی قائم دائم تھے، ابو سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "جس وقت مجھ سے ہرقل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا اور میں اس وقت ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا تو: بخدا! اگر مجھے حیا داری کا خیال نہ ہوتا کہ میرے ساتھی میری جھوٹی بات آگے بتلائیں گے تو میں اس وقت جھوٹ بول دیتا ، لیکن مجھے اس وقت ایسا کرنے سے حیا نے روک دیا ، اس لیے میں نے سچ بات کی" متفق علیہ
در حقیقت حیا ہی خوشحالی اور ترقی کا سبب ہے، حیا ساری کی ساری خیر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (حیا خیر ہی خیر ہے)یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (ساری کی ساری حیا خیر ہے) مسلم
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حیا قلبی حیات کا جوہر ہے، حیا ہمہ قسم کی بھلائی کا سرچشمہ ہے، اگر حیا ختم ہو جائے تو پھر بہتری کی کوئی رمق باقی نہیں رہتی"
حیا کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان اچھے اخلاق کا عادی بن جاتا ہے اور مذموم صفات سے دور رہتا ہے، پھر جب انسان کی حیا جوبن پر ہو تو اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہے ، اپنی کوتاہیوں کو چھپاتا ہے اور اپنا مثبت کردار سامنے لاتا ہے۔
ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حیا ایمان کا حصہ ہے، مومن جنت میں جائے گا، کسی سے حیا اسی وقت چھینی جاتی ہے جب اس میں ایمان باقی نہ رہے"
ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے تو وہ اپنے بھائی کو حیا کی وجہ سے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہہ رہا تھا: "تم بہت زیادہ حیا کرتے ہو" اس نے یہاں تک بات کہنا چاہی کہ: "تمہاری حیا نے تمہیں نقصان پہنچایا ہے" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے چھوڑ دو، حیا تو ایمان کا حصہ ہے) متفق علیہ
اللہ تعالی کی طرف سے کسی بھی دل کو سب سے سنگین سزا یہ ہے کہ اس میں سے حیا چھین لے، ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "حیا اور ایمان دونوں کا آپس میں مضبوط رشتہ ہے، لہذا اگر ان میں سے ایک چیز بھی اٹھ گئی تو دوسری بھی اٹھ جائے گی"
اور اگر انسان سے حیا ہی چھین لی جائے تو قبیح، مذموم اور گری ہوئی حرکتوں سے کوئی چیز مانع نہیں رہتی، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: (جب تم حیا نہ کرو تو جو من میں آئے کرتے جاؤ) بخاری۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں: "اگر حیا کسی شخص کو حرام کاموں سے روک نہ پائے تو وہ صغیرہ گناہ کرے یا کبیرہ ؛ اس کیلیے سب یکساں ہیں۔ یعنی اس حدیث میں حیا کی کمی پر سخت وعید اور ڈانٹ پلائی گئی ہے"
گناہوں سے انسان کی حیا متاثر ہوتی ہے ، اور ممکن ہے کہ کلی طور پر حیا ختم ہو جائے ، بلکہ اسے اس چیز کی پرواہ ہی نہ رہے کہ لوگوں کو میری اس حالت کا علم ہو گیا تو وہ کیا کہیں گے! یا اس سے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنی کارستانیاں خود سے بیان کرنے لگ جائے۔
حیا انسان کو با ادب ہونے پر ابھارتی ہے، (ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے بارے میں پوچھا کہ اس کی خوبیاں مسلمان جیسی ہوتی ہیں[وہ کون سا درخت ہے؟]) اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما کہنے لگے کہ میرے ذہن میں آیا کہ وہ تو کھجور کا درخت ہے، لیکن میں نے ابو بکر و عمر کو دیکھا کہ وہ جواب نہیں دے رہے تو مجھے بھی اچھا نہیں لگا کہ میں ان کی موجودگی میں بولوں" ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں کہ: "مجھے شرم آئی کہ میں بولوں" متفق علیہ
اعلی ترین حیا وہ ہے جو اللہ تعالی سے ہو؛ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کو ایسی جگہ نہ پائے جہاں سے اس نے روکا ہے اور جس جگہ کا اس نے حکم دیا ہے وہاں تمہاری غیر حاضری نہ ہو، اللہ تعالی کا حق زیادہ بنتا ہے کہ اس سے حیا کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی سے کما حقہ حیا کرو) ترمذی
انسان کے دل میں اللہ تعالی سے حیا اس وقت پختہ ہوتی ہے جب انسان اللہ تعالی کی نعمتوں اور احسانات پر نظر دوڑائے اور ان کے مقابلے میں اپنے کمی کوتاہی کو سامنے رکھے نیز یہ بھی تصور اجاگر کرے کہ اللہ تعالی ہر خفیہ اور اعلانیہ چیز سے واقف ہے؛ چنانچہ جس وقت انسان یہ بات اچھی طرح جانتا ہو کہ اللہ تعالی اسے دیکھ رہا ہے اور اس کی ہر چیز اللہ تعالی کی نظروں اور سماعت کے زیر اثر ہے تو انسان اللہ تعالی سے بہت زیادہ حیا کرے گا اور اللہ تعالی کی ناراضی کا باعث بننے والے امور سے دور رہے گا۔
انسان کے ساتھ ہر وقت فرشتے ہوتے ہیں ، ان فرشتوں کے احترام میں یہ شامل ہے کہ ان سے حیا کریں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10) كِرَامًا كَاتِبِينَ (11) يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ}
اور بیشک تم پر محافظ مقرر ہیں، [10] وہ معزز کاتب ہیں [11] انہیں معلوم ہے جو تم کرتے ہو۔[الانفطار: 10 - 12]
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ان معزز محافظوں سے حیا کرو، ان کا احترام کرو اور انہیں ایسی حرکت دکھانے سے شرم کرو جو تم انسانوں کو دکھانے سے شرماتے ہو"
لوگوں سے حیا اور شرم انسان کو اچھے کاموں پر ابھارتی ہے، اگر کسی انسان کو اپنے مسلمان بھائی سے صرف اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے شرماتے ہوئے گناہ نہیں کرتا تو یہی اس کیلیے کافی ہے، لوگوں سے حیا اللہ تعالی سے حیا کا ذریعہ ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص لوگوں سے حیا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالی سے بھی حیا نہیں کرتا، نیز اگر کوئی شخص باحیا لوگوں سے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے تو اس کی حیا تروتازہ ہو جاتی ہے۔
سب سے اعلی بات تو یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ سے حیا کرے، چنانچہ اگر کوئی شخص تنہائی میں ایسا کام کرتا ہے جو لوگوں کے سامنے نہیں کرتا تو در حقیقت وہ شخص خود اپنا احترام نہیں کر رہا، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص لوگوں سے تو شرماتا ہے لیکن خود اپنے آپ سے نہیں شرماتا تو اس نے اپنے آپ کو لوگوں سے بھی حقیر اور ذلیل بنایا ہوا ہے، لیکن اگر اپنے آپ اور لوگوں سے شرماتا ہے لیکن اللہ تعالی سے حیا نہیں کرتا تو وہ معرفت الہی سے نابلد ہے۔
ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!
دین اسلام خوبیوں اور امتیازی صفات کا دین ہے، دین اسلام میں اعلی ترین اخلاقیات اور اوصافِ حمیدہ یکجا ہیں، دین اسلام میں ہر قسم کی بھلائی کا حکم موجود ہے، اسی طرح ہر قسم کے شر سے تنبیہ بھی ہے، اس لیے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود عملی طور پر اسلام کو تھامیں، لوگوں کو اس کی دعوت دیں، اللہ تعالی سے حیا کا مطلب یہ ہے کہ اس کے احکامات کی تعمیل کریں اور نافرمانی سے بچیں۔
مسلمانو!
احادیث نبویہ کی روشنی میں قابل ستائش حیا ایسی اخلاقی قدر ہے جو انسان کو اچھے کام کرنے پر ابھارے اور برے کاموں سے روکے، جبکہ ایسی سستی اور کاہلی جس کی وجہ سے حقوق اللہ یا حقوق العباد میں کمی واقع ہو تو اس کا حیا سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص حیا کے باعث خیر سے محروم ہو تو یہ بھی اچھی چیز نہیں ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "بہترین خواتین انصاری خواتین ہیں، وہ دینی مسائل سمجھنے میں حیا کو رکاوٹ نہیں بناتیں" مسلم
لہذا دینی مسائل سیکھنے میں حیا اور شرم کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، اگر کوئی شخص شرم کھاتے ہوئے حصولِ علم کیلیے آگے نہیں بڑھتا تو وہ ہمیشہ علم سے محروم رہتا ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حیا اور تکبر کرنے والا کبھی علم حاصل نہیں کر سکتا"
اللہ کے بندو!
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ [النحل: 90]
تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔