تدبرِ قرآن- سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) حصہ بارہ


أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو متاثر  کرنے کی کوشش ہی کیوں کر رہے تھے؟  آپ یہ تبھی کرتے ہیں جب اندر کہیں آپ کا کوئی اور  مقصد ہو.  عبد اللہ بن ابئی جیسے منافقین کا پہلا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ سیاسی پناہ گاہ حاصل کر سکیں.  اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ جب جنگ ہو تو ان کو نہ بلایا جائے.  وہ بس سہل جنگوں میں شرکت چاہتے تھے جن میں جیت کا تناسب زیادہ تھا.  وہ ان جنگوں میں جانا چاہتے تھے جہاں وہ تو آرام سے پیچھے ہو کہ کھڑے رہیں اور رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم، اہل ایمان کے ساتھ مل کر لڑتے رہیں اور آخر میں وہ کہہ سکیں کہ مال غنیمت میں ہمارا حصہ کہاں ہے؟ وہ بس ایسی ہی جنگوں میں جاتے تھے کہ "اوہ اس جنگ میں ہم 300 ہیں اور مخالفین بس 40 ہیں تو یہ جنگ تو ہم جیت ہی جائیں گے، اس میں شرکت کر لیتے ہیں، اور دیکھیو! دیر سے جائیو، تاکہ آخری صف میں ہی رہو اور لڑنا ہی نہ پڑے لیکن جب مال غنیمت کی تقسیم کا وقت ہو.  ان کنا معکم ہم تمہارے ساتھ تھے. ہم نے بھی شرکت کی تھی جنگ میں، ہمارا حصہ.. اور جب کوئی دشوار و طویل جنگ درپیش ہو تو بہانے بنا سکو. "
اور جو بہانے انہوں نے بنائے، ان میں سے کچھ تو انتہائی مضحکہ خیز تھے.  جیسے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر. یہ ایک انتہائی سخت مرحلہ تھا.  تو منافقین کا رویہ کیا تھا. قرآن ہمیں بتاتا ہے، وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُواْ
ان میں سے کوئی ہے جو آ کر کہتا ہے کہ مجھے اجازت دیں، مجھے فتنہ میں مت ڈالیں. 
اوہ آپ سلطنت  روم سے جنگ لڑنے جا رہے ہیں؟ جانتے ہیں راستے میں ہم جن دیہات سے گزریں گے ان میں نہایت خوبصورت خواتین پائی جاتی ہیں. میں تو ان کا حسن برداشت نہیں کر پاؤں گا.  اور میں فتنہ میں مبتلا ہو جاؤں گا. تو مجھے اپنے سپاہیوں میں شامل مت کیجیے. ان عورتوں کی بھی اس میں بھلائی ہے، وہ مجھے دیکھ کر بہک نہ جائیں.  تو مجھے جہاد سے رخصت دیجیے.  رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بھائی تم رک ہی جاؤ.  کیونکہ جس طرح کے بہانے آپ بنا رہے ہو تو آپ سپاہیوں کے تو کسی کام کے نہیں بلکہ الٹا ان پر بوجھ ہی بنو گے.  آپ  تو ایک ذرا سی خراش پر آسمان اٹھا لو گے سر پہ.
 تو اللہ تعالٰی نے آگے فرمایا وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُواْ وہ جو جنگ سے رخصت مانگنے آئے، کیا وہ پہلے ہی فتنہ میں مبتلا نہیں ہو گئے تھے؟
 
وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ
وہ کسی ایک شخص کو بھی دھوکہ نہیں دیتے سوائے خود کے. دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے کہا گیا
يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا
اور آگے کہا گیا  وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ
پہلے " يُخَادِعُون " کا لفظ استعمال ہوا اور بالکل آگے ہی کہا گیا "يَخْدَعُون".  اب عربی گرامر کے طلباء کے لیے یہ آسان ہے کہ  " يُخَادِعُون " یہ  " خَادِع " سے نکلا ہے اور اگر آپ کسی کو دھوکہ دینے کی پوری کوشش کریں تو کہا جاتا ہے خَادِع.
اور اگر آپ کسی کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائیں تو کہا جائے گا " َخْدَع" جس سے نکلا ہے "يَخْدَعُون".  تو جب اس آیت کے آخر میں کہا گیا کہ   وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ  یعنی وہ "کامیاب" ہو گئے دھوکہ دینے میں مگر کسی کو نہیں سوائے خود کے . وہ بس خود کو ہی دھوکہ دینے میں کامیاب ہوئے.
وما یشعرون
اور وہ ذرا بھی سمجھ نہیں رکھتے. 
کچھ علمائے کرام یہاں بحث کرتے ہیں کہ یہاں "ما"  کا لفظ بفد ہے. کہ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں.  لیکن دوسری طرف" ما " کا لفظ" لا" سے زیادہ قوی نہیں ہے.  یہ عربی گرامر کے طلباء کے لیے سمجھنا  آسان ہے. 
تو ان کو اندازہ ہی نہیں اس وقت  کہ وہ کیا کر رہے ہیں وہ کس کو  دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں؟  آگے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں

فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُـمُ اللّـٰهُ مَرَضًا ۖ 
ان کے دلوں میں مرض تھا. 

کیونکہ جب آپ کہتے ہیں وما یشعرون، ان کو کچھ اندازہ ہی نہیں، انہیں کوئی احساس  نہیں، انہیں کچھ سمجھ نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں. تو یہ سب شعور کے لغوی معنی ہیں.  کسی چیز کو محسوس کرنا، کسی چیز کا احساس کرنا.  اور ہمارے شعور میں حیا، خوف، پشیمانی یہ تمام احساسات شامل ہیں.  اور یہ سب احساسات کہاں پائے جاتے ہیں؟ دل میں.  تو جب اللہ تعالٰی کہتے ہیں کہ انہیں کوئی احساس نہیں تو فوراً سوال اٹھتا ہے کہ ان کو احساس کیوں نہیں؟  ان کو اندازہ کیوں نہیں؟ کیا ان کے دل نہیں ہیں.؟ فوراً اگلی ہی آیت میں جواب ملتا ہے فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَضٌ ان کے دلوں میں مرض ہے. 
مثلاً بعض لوگ ایسے مرض کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کی جلد کچھ بھی محسوس نہیں کر پاتی. یا جب آپ دانتوں کی روٹ کینل ٹریٹمنٹ کرواتے ہیں تو وہ دانت سُن ہو جاتا ہے.  ٹھنڈا، گرم کچھ محسوس نہیں ہوتا.  کچھ لوگوں کی جب سرجری ہوتی ہے تو ان کا صرف نچلا دھڑ سن کر دیا جاتا ہے.  اب وہاں چیرا لگائیں یا ٹانکے لگائے جائیں انہیں کچھ درد  محسوس نہیں ہوتا.  یہ ہے "و ما یشعرون ". اللہ تعالٰی نھ فرمایا فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَضٌ ان کے دلوں میں مرض ہے.  پہلا مرض یہی ہے جو انہیں احساس ہی نہیں ہونے دیتا . دوسرے علماء کرام اختلاف کرتے ہیں کہ اگر آیات کا تسلسل دیکھا  ْتو پہلا مرض جس کی آیات میں نشاندہی کی گئی ہے وہ ہے" ریب ".  ذالك الکتاب لا ریب فيه ، جو مرض انہیں لاحق ہے وہ ان کے شکوک و شبہات ہیں .  وہ اسلام کے دین حق ہونے میں پر یقین نہیں ہیں.  یہ وہ مرض ہے جسے انہوں نے اپنے اندر پھلنے پھولنے دیا.
 اس آیت کی ایک اور خوبصورت بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے یہ نہیں فرمایا کہ "فی صدورھم مرض" (ان کے سینوں میں مرض ہے) اللہ تعالٰی نے فرمایا، "فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ مَّرَض" .  اب " صدور" اور "قلوب"  میں نہایت فرق ہے.  آپ میں سے تقریباً سب ہی سورۃ الناس کے حافظ ہیں."  الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ". ہم یہ نہیں کہتے الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي قلوب النَّاسِ، اگر کہا جاتا  قلوب الناس تو ہم ترجمہ یوں کرتے کہ وہ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے.  لیکن اللہ تعالٰی نے کہا  وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے.  قلب اور سینہ میں فرق ہے، سینہ ایک صندوق کی مانند ہے اور اس صندوق میں جو خزانہ ہے وہ دل ہے.  شیطان کی رسائی آپ کے دل تک نہیں ہے.  شیطان کی پہنچ آپ کے سینے تک ہے.  آپ فرض کریں کہ دل آپ کا گھر ہے.  اور سینہ گھر کے باہر کی چار دیواری، جس میں کارپورچ اور لان وغیرہ شامل ہے.  شیطان کی رسائی باہر تک ہے مگر وہ گھر کے اندر تب تک داخل نہیں ہو سکتا جب تک آپ گھر کا دروازہ نہ کھول دیں.  آپ کا دل محفوظ ہے جب تک آپ شیطان کو اس میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں.  لیکن وہ آئے گا ضرور دروازہ کھٹکھٹانے، سنو! سنو تو!  میرے پاس تمہارے لیے کچھ ہے، تمہیں ایک مزے کی بات بتاؤں... ہمارا کام ہے کہ ہم خبردار ہو جائیں جب بھی شیطان ہمارے دروازے پر دستک دے، ہمارے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرے . کیونکہ وہ نہایت قریب ہے.  اس کی ہمارے سینوں تک رسائی ہے.  وہ وسوڈالے گا سینوں میں .  اور جب کوئی باہر سے دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو تو کیا آواز اندر تک نہیں جاتی؟  بالکل جاتی ہے.  بعض اوقت جب کوئی در کھٹکھٹائے تو ہم اسے بھگا دیتے ہیں.  لیکن کبھی ہم دروازا کھول بیٹھتے ہیں اور اگر آپ بار بار اس کے لیے دروازہ کھول دیں تو وہ اندر براجمان ہو جاتا ہے. . اور جب کوئی باہر کا بندہ اندر آ کر رہنے لگ جائے تو وہ اپنے حساب سے سجاوٹ شروع کر دیتا ہے.  سمجھے آپ؟  آپ کے اپنے احساسات ہوتے ہیں کہ کیا اچھا ہے، کیا برا ہے کون سا رنگ اچھا ہے. کس طرح کا ساز و سامان چاہیے آپ کو گھر میں.  لیکن جب آپ اس باہر کے بندے کو اندر داخل کر لیں تو ایک دن آپ دیکھتے ہیں کہ دیوار کا رنگ گلابی ہو گیا ہے، فرنیچر سارا سبز ہے اور برتن جامنی رنگ کے، آپ کہتے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے یہاں ؟ شیطان کہتا ہے "بس یہ میری پسند ہے".وہ   کچن کو بیڈروم اور باتھ روم کو گیسٹ روم بنا چکا ہے اور آپ کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا ہو گیا ہے؟
میں یہ سب آپ کو کیوں سمجھا رہا ہوں کیونکہ جب آپ شیطان کو اپنے گھر داخل ہونے دیں تو جو چیز کبھی آپ کو خوبصورت لگتی تھی، وہ اب بدصورت لگنے لگتی ہے.  اور جو آپ کو برا لگتا تھا وہ اسے خوبصورت لگنے لگتا ہے.  اسی لیے اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا کہ و زین لھم الشیطان اعمالھم، شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے ہیں.  شیطان آپ کے لیے کچھ بھی خوبصورت یا بدصورت نہیں بنا سکتا جب تک وہ آپ کے گھر کے اندر داخل نہ ہو جائے.

الله عزوجل سورت النمل( آیت 24) میں فرماتے ہیں :
* وٓزٓيَّنٓ لٓهُمُ الشّٓيْطٰنٓ اعْمٓالٓهُم *
"ترجمہ : اور سجا کر دکھائے ہیں انھیں، شیطان نے ان کے اعمال "
شیطان ان کیلئے ان کے ہر طرح کےاعمال خوبصورت بنا کے دکھاتا ہے.
لیکن یاد رکھئے کہ شیطان اس وقت تک ایسا نہیں کر سکتا جب تک وہ آپ کے دل تک نہیں پہنچ جاتا. آپ نے شیطان کو اپنے دل میں داخلے کی اجازت ہی نہیں دینی. جب تک آپ کے دل میں شیطان داخل نہیں ہوجاتا، تب تک آپ کے دل میں کیا ہے؟
یقینی طور پر ایمان.
الله فرماتے ہیں (سورت الحجرات آیت 7 )
*وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ *
*اللہ نے ایمان کو آپ کے لیے زینت بنادیا ہے*
کیا آپ کے ذہن میں اس صورت حال کا کوئی خاکہ بنتا ہے؟
کیونکہ الله عزوجل تو کہہ رہے ہیں کہ
* فِي قُلُوْبِهِم مٓرٓض*
" ان کے دلوں میں بیماری ہے."
یعنی یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو سینے تک محدود نہیں ہے، بلکہ دل کے اندر ہے. اس بیماری نے دل کے اندر کا راستہ پا لیا ہے. اگر کوئی حملہ آور آپ کے گھر میں گھس آئے تو سوچئے کہ آپ کیا کریں گے؟ جیسے ہی آپکو یہ ادراک ہو گا کہ اس کا ارادہ بُرا ہے آپ اُس کو گھر سے نکال دیں گے.
لیکن عمومی طور پر کیا ہوتا ہے؟ آپ شیطان کی سنتے ہیں اور اس کیلئے دروازہ کھول دیتے ہیں. عین اس لمحے میں اگر آپکو احساس ہوجائے تو آپ کو فوری *آعُوْ ذُبِالله مِنٓ الشّٓيْطٰنِ الرّٓجِيْم * پڑھنا چاہیے، اس طرح آپ اس کو پیچھے دھکیل دیں گے،الله كو آپ سے یہی مطلوب ہے.
لیکن اگر آپ اس کو اندر آنے دیں گے، رہنے کی اجازت دیں گے، اس کو اپنی کھچڑی پکانے دیں گے، اس کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے دیں گے، تو پھر نتیجہ کیا ہو گا؟ آپ بیمار پڑتے جائیں گے، اس کا تعلق اگلی آیات سے جڑتا ہے.
* وٓاِذٓاخٓلٓوْ اِلٰى شٓيٰطِيْنِهِم *
"اور جب وہ اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں "
بات یہ ہے کہ الله نے ہر نوع بشر کو طاقت دی ہے.
"الله نے شیطان کے منہ پر کہا تھا کہ جو میرے غلام ہیں اُن پر تمہیں کوئی حق نہ ہو گا"
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ﴾. ( سورة الحجر الآية:42
ترجمہ: "بے شک وہ جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کوئی اختیار نہیں، مگر جس نے تیری پیروی کی وہ گمراہوں میں سے ہے"
وہ آپ انسانوں کے دل میں زبردستی نہیں گھستا اور نہ ہی وہ اندر رہنے پر اصرار کرتا ہے.
جس لمحہ بھی آپ اُس کو کہتے ہیں کہ نکل جاؤ....!!! تو وہ نکل جاتا ہے. لیکن اگر آپ اسے اندر آنے دیتے ہیں، رہنے دیتے ہیں، اس کا مطلب ہے آپ نے خود ہی اسے باہر نہیں دھکیلا.
آپ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا ہو کر ہی اسے اپنے اندر سے نکال سکتے ہیں، محض *اعوذبالله * پڑھ لیں *استغفار * پڑھ لیں لیکن یہ کرنا پڑے گا، مگر آپ تو ایسا کرنے سے انکاری ہیں ناں.
جب آپ ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں، تو اللہ کہتے ہیں: ٹھیک ہے اپنے راستے پر چلتے رہو، میں تمہیں کھلی چھوٹ دیتا ہوں، جو کرنا ہے کر لو.
* فٓزٓادٓهُمُ الله مٓرٓضٓا*
الله ان کو بڑھا دیتے ہیں ان کی سرکشی میں، ان کی بیماری میں اضافہ کردیتے ہیں.
اگر آپ شیطان کو سننا پسند کرتے ہیں تو سنتے رہیں، پھر آپ اسی میں آگے بڑھتے رہیں گے،
اس طرح آپ شیطان کو اپنے دل کے اندر نقصان پہنچانے کی خود ہی اجازت دے رہے ہیں
اب ذرا ملاحظہ کریں! رمضان کے مہینے میں ویسے تو شیطان جکڑا ہوا ہوتا ہے. لیکن آپ کے دل میں اس نے برائیوں کو خوب آراستہ کیا ہوا ہے، اس لیے آپ ان غلط رستوں پر ایسے ہی چلتے ہیں، گویا کہ وہ ابھی بھی آپ کے اندر ہے. اس وقت شیطان نہیں ہے، مگر اس کے سیکھائے ہوئے سارے کام آپ خود بخود کر رہے ہیں.
سورت الانعام (آیت 112) میں الله رب العزت فرماتے ہیں:
*شٓيْطٰنٓ الاِ نْسٓ وٓ الْجِن*
شیطان اور بھوت پریت ، انسانوں اور جنوں دونوں میں سے ہوتے ہیں.
بھوت،عفریت اور دیو، "جن " تو بلاشبہ ہیں ہی، لیکن یہ "انسانوں" میں سے کیسے ہو سکتے ہیں؟ دیکھئے جب انسان ان کو اپنے اندر آنے کی اجازت دیتا ہے اور پھر ایک لمبے عرصے کیلئے اسے اپنے اندر قیام کا موقع بھی فراہم کر دیتا ہے، تو "میزبان انسان" تبدیل ہو جاتا ہےاور وہ شیطان اور عفریت بن جاتا ہے.
سبحان الله ! الله تعالى منافقون کیلئے کہہ رہے ہیں کہ ان کے دلوں میں گہری (پرانی )بیماری ہے. یہ بزدلی کی شکل میں ہے. وہ لوگ بزدل تھے، اس مذہب کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہ پاتے تھے،
دور حاضر میں بھی اسلام کے خلاف تین طرح کے ردعمل نظر آتے ہیں:
1- ایک ردعمل تو ان لوگوں کا ہے جو * لٓا اِلٰهٓ اِلّٓا الله مُحٓمّٓدُالرّٓسُوْلُ الله *
پورے دل سے پڑھتے ہیں. وہ مسلمان ہونے پر فخر اور عزت محسوس کرتے ہیں. اور وہ الله اور رسول الله کی بات سے بڑھ کر کسی بات کو نہیں سمجھتے. ان کی فرمانبرداری اعلٰى ترین درجے پر ہے. ان کی ہدایت کسی بھی تنقید سے بالا تر ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی غلطی ہو جائے تو وہ کہتے ہیں کہ غلطی ہمارے اپنے اندر ہی ہے، برائی ہماری اپنی کمائی ہوئی ہی ہے، اللہ کے دین میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کوئى مسئلہ نہیں ہے، وہ دین پر کوئی تنقید نہیں کرتے.
2-اب دوسری قسم کا انتہائی ردعمل دیکھئے:
یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے انتہائی نفرت کرتے ہیں. 3-ان دونوں کے درمیان میں بھی ایک گروپ ہے (جو سمجھوتے کی بات کرتے ہیں)
یہ دونوں سائیڈز پر ہیں،وہ کہتے ہیں کیوں نا ہم کچھ سمجھوتہ کرلیں، اسلام کو لے کر اتما سخت ہونے کی کیا ضرورت ہے بھلا. یہ 2016 ہیں. ہمیں ذرا وقت کے ساتھ چلنا چاہیے.
اس طرح کا ردعمل، کہ کوئی درمیانی حل نکال لیتے ہیں. یہ لوگ بنیادی منافقوں کی اتفاقی /ضمنی پیداوار ہيں.
اسلام کے ابتدائی دور کے منافقین بھی دونوں اطراف کو توازن کی حالت میں دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے.
جبکہ ہم تو *توازن اور دین* کا آپسی رشتہ پہلے سے ہی جانتے ہیں.
ہمارا دین ایک متوازن دین ہے.
یہاں ہم توازن کی کسی نئی قسم کا ذکر نہیں کر رہے. ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے دین کو الله تعالى نے نہائیت متوازن بنایا ہے.
ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ توازن کیا ہے؟ اسلام کیلئے یہ متوازن اپروچ (رسائی) کیا ہے؟ کیا یہ کوئی نیا قانون سامنے آگیا ہے؟ یا پھر یہ ان لوگوں کا خوف یا بزدلی ہے؟ کہ کم عمری میں اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر وہ دوسروں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع دیں گے. یہ لوگ اپنے حلقۂ احباب سے خوفزدہ ہیں . یہ تیسرے گروپ والے سب لوگوں سے بہترین معاشرتی تعلقات چاہتے ہیں. اپنا مطلب نکالنے کیلئے لوگوں کی خوشامد کرتے ہیں.
خدارا ایسے لوگ اپنی گھسی پٹی عزت نفس کا ملبہ اسلام پر نہ گرائیں.
درحقیقت جیسے ہم خود ہوتے ہیں، دین بھی ہمیں ویسا ہی دکھائی دیتا ہے. جب ہم دین کا مطالعہ کرتے ہیں تو گویا کہ ہم آئینہ دیکھ رہے ہیں . جس سوچ کے ساتھ ہم اس کی طرف بڑھتےہیں ، وہی ہماری طرف منعکس ہوتی ہے.
جن لوگوں کے بارے میں الله نے فرمایا ہے کہ
* فزادھم الله مرضا*
کیا ان کی سوچ /ان کی دین کی طرف رسائی متوازن ہے؟ ہر گز نہیں. تو پھر اللہ ان کی بیماری کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ الله ان کی بیماری میں اضافہ کرتا جاتا ہے.
یہ تیسری قسم کے لوگ کہتے ہیں: قرآن تو ٹھیک ہے مگر یہ حدیث ؟؟؟ نہیں، نہیں، میں نہیں جانتا یہ کیا ہے؟ یا پھر اس سے بڑھ کر، کہ قرآن کی کچھ سورتیں دور حاضر میں کچھ "بےمحل / بے ربط " سی ہو کر نہیں رہ گئیں ؟ کیا آپکو ایسا نہیں لگتا؟
پھر یہ لوگ ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ قرآن کیا ہے؟ اور مذاہب بھی تو ہیں، وہ بھی اچھے ہیں. پھر اور آگے نکل جاتے ہیں، کہ میں کسی مذہب پہ یقین نہیں رکھتا، میں نہیں مانتا کہ کوئی مذہب منظم ہو سکتا ہے؟
یا پھر وہ کسی حد تک ملحد بن جاتے ہیں کہ ہو سکتا ہے خدا ہو، ہو سکتا ہے کہ نہ ہو، مجھے اپنی جاب کی فکر کرنی ہے، روپیہ کمانا ہے.
سورت الانشقاق (آیت ۱۹)
* لٓتٓرْكٓبُن َّ طٓبٓقًا عٓنْ طٓبٓقْ *
"تم کو درجہ بہ درجہ ضرور چڑھنا ہے"
ان لوگوں کی بیماری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور وہ لوگ جو کبھی مسلمان ہوا کرتے تھے، وہ اب لوگوں کو اسلام کے خلاف بہکا رہے ہیں، ان کا کام ہی لوگوں کو بہکانا ہے.
*فِي قُلُوْبِهِم مٓرٓض فٓزٓادٓهُمُ اللهُ مٓرٓضٓا وٓلٓهُمْ عٓذٓابُُ آلِيْم بِمٓا كٓانُو يٓكْذِبُون *( سورت البقرہ آیت 10)
اور ان کو درد ناک عذاب دیا جائے گا. کیوں؟
ان کے جھوٹ کی وجہ سے، وہ جھوٹ جو یہ لوگ مسلسل بولتے رہے ہیں. یہاں ماضی استمراری استعمال ہوا ہے. یعنی ماضی میں مسلسل ہونے والا کام. اس کے استعمال کی کیا توجیہہ ہے؟
ہاں اب ذرا ان کے اعمال کا جائزہ لے لیں: وہ (منافق) جب رسول الله کے پاس آتے تھے، تو کہتے تھے ہم آپ لے وفادار ہیں. ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے، ہم مسلمان ہو چکے ہیں، آپ کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں وغیرہ، یعنی وہ اپنی وفاداری کا یقین دلاتے تھے.
جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر آپ کسی کی بات پر ایمان نہیں لاتے، اس کا یقین نہیں کرتے، تو سامنے آکر واضح طور پر کہہ دیں کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں. اس معاملے کو صاف شفاف رکھنا چاہئے.لیکن نہیں، ان لوگوں نے دونوں طرف ٹانگیں پھنسائی ہوئی تھیں. ان کے دونوں طرف تعلقات تھے.تاکہ جب مسلمانوں کو فتح ملے تو وہ بھی اس فتح کا حصہ ہوں. اور اگر کچھ مسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے تو انہوں نے اپنا بیک اپ پلان تیار رکھا تھا.
پس وہ جھوٹ/ افترا کے ساتھ بات کو بڑھاتے ہیں، اسی وجہ سے قرآن میں " بما كانو یکذبون " آیا ہے اور ساتھ میں لفظ" الیم " جو عظیم کے جیسا ہے، فعیل کے وزن پر ہے. "عذاب عظیم" بہت بڑا عذاب، بہت زیادہ اذیت موت تک لے جاتی ہے. مثلًا کسی شخص کو اگر کوڑے مارے جائیں، یا جلا دیا جائے، یا بجلی کے جھٹکے لگائے جائیں، تو کیا ہوگا؟؟؟؟
اگر آپ بجلی کا وولٹیج بڑھا دیں گے تو وہ شخص مر جائے گا، یعنی انسان "عذاب عظیم" کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہے، اس میں اس کی برداشت نہیں ہے، جبکہ الله ان کو بہت بڑا عذاب دے رہا ہے، * درد کا عذاب* جس میں مرنے کی بھی اجازت نہیں. اس دنیا میں یہ ممکن نہیں ہے. اگر آپ سزا کو بہت زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں گے، تو کیا ہوگا؟ مجرم کی موت واقع ہو جائے گی. یعنی آپکا مجرم تو اس دنیا سے ہی چلا گیا. اب آپ اس کو مزید اذیت نہیں دے سکتے. اب ذرا اس شخص کی صورت حال دیکھئے، جس کو اذیت دی جا رہی ہے، جب تک وہ اپنے حواسوں میں ہے، وہ درد محسوس کرتا رہتا ہے.
الله عزوجل لفظ استعمال کر رہے ہیں " عذاب الیم" یہ بظاہر متوقع لفظ نہیں ہے، کیونکہ یہ عام عربی میں مستعمل نہیں ہے. یہاں ہونا چاہئے تھا "عذاب مؤلم " دردناک عذاب.
"الیم " اسم صفت ہے مسلسل دردناک عذاب / سزا.
درد والی کیفیات کو ذہن میں لائیں، مثلًا آپ کے دانت میں درد ہو، گلا خراب ہو، پٹھوں میں اکڑن ہو یا ایسا ہی کوئی اور درد، جب آپکو پہلی بار درد محسوس ہوتا ہے تو آپ اپنے آپ کو مفلوج محسوس کرتے ہیں، لیکن جب اسی کیفیت کے ساتھ دو تین گھنٹے گزر جاتے ہیں تب کیا محسوسات ہیں؟ اب اس کی چبھن تو ہے، مگر اس کی شدت ویسی محسوس نہیں ہوتی جیسی ابتدا میں تھی. آپ کے اندر اس کی برداشت پیدا ہوتی جا رہی ہے. کچھ لوگ جو درد کا علاج کروا رہے ہوتے ہیں ان کی دوائیں اس درد کے احساس کو کم سے کم کرتی جاتی ہیں.دراصل ان کے سہنے کی حد بڑھتی جاتی ہے، یعنی درد کی شدت ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی، جب آپکو پہلی دفعہ کلائی میں انجکشن کی سوئی چبھوئی جاتی ہے، تو درد ہوتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ بار بار وہ عمل دوہرانے سے درد کا احساس ختم ہو جاتا ہے. اب عربی لفظ *الیم* کو سمجھئے،اس کا مطلب ہے مسلسل درد کی کیفیت، نہ کمی نہ بیشی، مسلسل متواتر. یہ درد ختم نہ ہوگی نا کم ہوگی.
آیئے قرآن کا اصول دیکھتے ہیں :
* الجزاء من جنس العمل * سزا عمل کے مطابق ہونی چاہیے
اگر کوئی شخص کسی کیلئے مسلسل تکلیف کا باعث بنا ہے، تو اسے اسی طرح کی سزا، مسلسل تکلیف دہ سزا ملے گی. اگر کسی نے بہت بڑا جرم کیا ہے، تو اس کی سزا بھی بہت بڑی سنائی جائے گی، آپ اس کو سمجھ رہے ہیں ناں ؟
جب الله تعالى کہتے ہیں: درد ناک سزا!!! اب اصولی طور پر سزا جرم کے مطابق ہے تو یہاں جرم کی نوعیت کیا ہے؟ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ "منافق لوگ " مسلمانوں کیلئے مسلسل تکلیف کا باعث تھے. یہ وہ گروپ ہے جو امت کیلئے پریشانیوں کا باعث تھا. امت مسلمہ پر بیرونی دشمن (غیر مسلم ) بھی حملہ آور ہوتے تھے، دین کا مذاق بناتے تھے، استہزاء اڑاتے تھے، دین پر نازیبا حملے کرتے تھے، لیکن ان سب سے بڑھ کر بھی کچھ تکلیف دہ تھا،وہ بھلا کیا؟ وہ یہ کہ ایسے حملے مسلمانوں کے اندر سے بھی ہو رہے تھے. یہ زیادہ دل آزاری والی صورت حال تھی. جب مسلمان دوسرے مسلمان کا خون بہائے. جب مسلمان دوسرے مسلمان کی عزت اور وقار کو ملحوظِ خاطر نہ رکھے. جب ایک مسلم دوسرے پر حملہ آور ہو، تو یہ بات بہت پریشان کن ہے، جب غیر مسلم اقوام مسلم قوم پر حملہ آور ہوں،ن تو بات سمجھ میں آتی ہے.لیکن جس وقت مسلم ہی ایک دوسرےسے لڑ رہے ہوں، قتل کر رہے ہوں؟ جب مسلمان ہی ایک دوسرے کو کچل رہے ہوں تو؟؟؟
تو یہی وہ درد ہے جو بہت عرصہ تک رہنے والا ہے، دائمی ہے، اور برداشت سے بڑھ کر ہے، کیونکہ کافرکی طرف سے نفرت تو متوقع ہے، لیکن وہ لوگ جو آپ سے *کلمہ طیبہ* کے ذریعے منسلک ہیں، اگر وہ آپ سے نفرت کریں، آپ کے قتل کی سازشیں کریں، تو یہ سب کچھ خاصا اہانت آمیز ہے. آپ کے اپنے اندر کے لوگ اگر منصوبہ سازی میں ملوث پائے جائیں، تو یہ آپ کیلئے نہ صرف غیر متوقع ہے، بلکہ غیر معمولی تکلیف کا باعث بھی ہے. الله عزوجل کی اس دین کے پیروکاروں سے محبت بہت مضبوط ہے. اس لئے الله عزوجل، مسلم امہ کیلئے باعث اذیت لوگوں سے خود ہی بدلہ لے لے گا.
* وٓاِذٓا قِيْلٓ لٓهُمْ لٓا تُفْسِدُو فِي الْآرْض قٓالُو اِنَّمٓا نٓحْنُ مُصْلِحُون* (سورت البقره آیت 11)
ان سے کہا جا رہا ہے کہ زمین میں خرابی نہ کرو، بد عنوانی نہ کرو، فساد نہ پھیلاؤ. انھوں نے کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں، ہم تو معاملات کو درست کر رہے ہیں.
عربی زبان میں "اصلاح " کا مطلب کسی چیز خراب یا ٹوٹی شے کو درست کرنا اور دوبارہ سے جوڑنا ہے. وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو محض خرابیوں کو دور کر رہے ہیں. مثلًا آپ کسی جگھڑے کے دونوں فریقوں کی بات سن رہے ہوں، تو آپ کہتے ہیں کہ میں تو معاملات کو سدھار رہا ہوں تا کہ امن قائم کیا جا سکے اور تعلقات کی ازسرنوع تجدید ہو سکے.
الله تعالى فرماتے ہیں:
* آلٓا اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونٓ وٓلٓا كِنْ لٓا يٓشْعُرُوْن*( سورت البقره 12 )
خبردار! یہی لوگ ہی تمام خرابیوں کے ذمے دار ہیں، یہی لوگ تمام خرابیوں کے موجب ہیں.
حالانکہ نہیں وه اس کا شعور رکھتے اور وه مسلسل انکار کئے جا رہے ہیں انہیں کبھی اس بات کا احساس نہ ہوگا.
یہاں ہمیں لفظ "فساد" کو سمجھنا ضروری ہے. فساد ایسی چیز ہے جو ظاہر ہوتی ہے اور دنیا میں پھیل جاتی ہے
الله عزوجل سورت الروم (آیت نمبر 41) میں فرماتے ہیں:
* ظٓهٓرٓالْفٓسٓادُ فِي الْبٓرِّ وٓ الْبٓحٓرِ بٓمٓا كٓسٓبٓتْ آيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقٓهُم بٓعْضٓ الَّذِي عٓمِلُوا لٓعٓلَّهُم يٓرجِعُون*
"ترجمہ: ظاہر ہوگیا فساد خشکی میں اور تری میں، بوجہ اس کے جو کمایا ان لوگوں کے ہاتھوں نے، تاکہ وہ ان کے بعض اعمال کا مزا انھیں چکھائے، شاید کہ وہ باز آجائیں."
الله عزوجل فرماتے ہیں کہ فساد ( کرپشن ) باہر ظاهر هوتا ہے، زمین پر، سمندر پر، کیونکہ اسے لوگ اپنے ہاتھوں سے سرانجام دے رہے ہیں.
زمین اور سمندر میں فساد سے کیا مراد ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟
جب زمین مزید پیداوار روک دے، جب مزيد فصلیں اگنا بند ہو جائیں، جب سمندر آلودہ ہو جائیں اور وہ متوقع رزق مہیا کرنا بند کر دیں. تو یہ زمین اور سمندر کا فساد ہے.
الله تعالٰى اس جگہ ہماری روحانی کرپشن کا ذکر کر رہے ہیں. لوگ اپنے کاروبار میں کرپشن کرتے ہیں، ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں، حرام رزق کو اپنا نوالہ بناتے ہیں، ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں، ایکدوسرے کا مال ہتھیا لیتے ہیں، یہ سب عوامل جرائم ہی شمار ہوتے ہیں، الله تعالى ان لوگوں کو براہ راست سزا نہیں دیتے، بلکہ ان کے یہی جرائم زمین پر منعکس ہوتے ہیں نتیجتًا زمین بیمار پڑ جاتی ہے.
یہ ہمارے دین کا اصول ہے کہ جب معاشرے کے لوگ الله تعالى پر یقین رکھتے ہیں اور وہ الله تعالى کی فرمانبرداری کرتے ہیں، تو زمین کی پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ فصلیں اگانا شروع کردیتی ہے، تب بارشیں بھی رحمت والی ہوتی ہیں، اُن سے سیلاب نہیں آتے...
سورت المائدہ (آیت 66) میں االله تعالى فرماتے ہیں:
* وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مٓا يٓعْمٓلُون *
*اور اگر وہ قائم کرتے تورات اور انجیل کو اور جو کچھ نازل کیا گیا تھا ان پر ان کے رب کی طرف سے تو رزق ملتا ان کو ان کے اوپر سے اور ان کے پیروں کے نیچے سے.*
جب حضرت عیسیٰ ( عليه سلام) دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے تب تمام لوگ الله کے فرما نبردار ہوں گے، یہاں تک کہ شیر شکار کو کھانا بند کر دیں گے، فصلوں کی پیداوار بڑھ جائے گی، ہر طرف رزق کی فراوانی ہوگی، ذرا سوچیں: کہ جب زمین پر کرپشن ختم ہو جائے گی تب کیا ہوگا؟ زمین پر اچھائی پھیلتی چلی جائے گی،
آپ کرپشن کو دوسرے لفظوں میں آلودگی بھی کہہ سکتے ہیں، یعنی فزیکل پلوشن، کیمیکل پلوشن جو سمندروں کو آلودہ کرتی ہے، اور پلاسٹک کا کچرا جو زمین كو آلودہ کر رہا ہے، زہر آلود کر رہا ہے. یہ بھی کرپشن کی ایک حقیقی قسم ہے. الله عزوجل نے روحانی حقائق اور جسمانی حقائق کے درمیان ایک براہِ راست تعلق رکھا ہے. جب روحانی حقائق معاشرے میں نمایاں ہوتے ہیں. تب ہر قسم کی اچھائی دنیا میں پھیلتی چلی جاتی ہے. سبحان الله!!! تب یہ دنیا ان اچھائیوں کی وجہ سے ایک بہترین جگہ بن جاتی ہے.
یہی ہمارے دین کے اصول ہیں. يہ وہ پہلی بات تھی جو میں فساد کے بارے میں آپکو بتانا چاہتا تھا.
لیکن ہم فساد کو ایک اور طرح سے بھی واضح کر سکتے ہیں.

-نعمان علی خان
جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں