حصہ- 11
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
منافقت کی آیات دو گروہ پہ لاگو ہوسکتی ہیں، منافقون پر، اور یہودیوں کے لیڈرز پر، حتیٰ کہ یہودی گروہ کے ماننے والوں پر بھی. میں ان آیات کو دونوں گروہ کے مدنظر رکھتے ہوئے سمجھاؤنگا. ہم یہ دیکھیں گے کہ یہ مدینہ کے منافقوں پر کس طرح لاگو ہوتی ہیں اور یہ بھی کہ یہودی کمیونٹی پہ کس طرح لاگو ہوتی ہیں.
جب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو مکہ میں تین قسموں کا رویہ دیکھنے کو ملا.
پہلا گروہ ان لوگوں کا تھا جو نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم پر فوراً سے ایمان لے آیا اور وہ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کو بھی تیار تھا. جس کا مطلب تھا کہ وہ اپنی تجارت سے ہاتھ دھو بیٹھتے، خاندان سے جدا ہوجاتے، گھر سے نکالے جاتے، انہین بہت سے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، مگر وہ اسلام سے منہ موڑنے پہ تیار نہیں تھے.
اس کے برعکس ایک گروہ تھا جس کا کہنا تھا جو مرضی ہوجائے ہم ایمان نہیں لائیں گے.وہ لوگ نہ صرف ایمان نہ لائے بلکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کا مذاق بنانے لگے. اور جو کوئی اسلام قبول کرتا تھا ان کے دشمن بن جاتے.
ان دونوں کے درمیان ایک گروہ تھا جو کہتا تھا کہ ہم کیوں تنازعہ پیدا کررہے ہیں ابھی کچھ سال پہلے ہم بھائی بھائی تھے، پیار محبت سے رہتے تھے. تو کیوں نہ ہم سمجھوتہ کرلیں، دونوں گروہ کے لیے کوئی درمیانی حل نکال لیں. اور کسی طرح دونوں گروہ ایک دوسرے کو کچھ لے دے کر سمجھوتہ کرلیں.
اور ایسے پلان بنائے گئے تھے کہ چلو دن کے وقت ہم تمہارے خدا کی عبادت کرلیں گے اور رات کے وقت جو ہمارا دل کرے گا ہم وہ کریں گے. کیونکہ آپ بھی کعبہ سے محبت کرتے ہیں اور ہم نے بھی اپنے بت وہاں رکھنے ہیں.
اور قرآن نے اس گروہ کے لیے فرمایا ہے "کہ وہ چاہتے ہیں کہ کچھ تم دے دو اور کچھ وہ دے دیں"
کیونکہ وہ کہتے تھے جب یہ تنازعہ بڑھ گیا تو باہر کے لوگ ہمیں کمزور سمجھنے لگ جائیں گے اور ہم حملے کا شکار ہوجائیں گے.
اب اللہ کے نبی مدینہ ہجرت کرگئے، اور جب وہ مدینہ تشریف لے گئے تب بھی مکہ میں یہ بحث جاری تھی.
مکہ میں کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ مسلمان مدینہ کے لیے نکل گئے ہیں ہمیں ان کے پیچھے جا کر اس مسئلے کو ختم کرنا چاہیے،مسلمانوں کو کسی طرح ختم کردینا چاہیے، اس سے قبل کہ یہ اسلام کا وائرس ہر طرف پھیل جائے.
مگر کچھ لوگ تھے جو کہہ رہے تھے کہ کیا ہوا اگر وہ مدینہ چلے گئے ہیں، کیا ہوا اگر وہ مدینہ کے گورنر بن جائیں گے، آخر میں ہیں تو مکہ کے ہی رہائشی نا؟ جس کا مطلب ہے کہ مکہ کی طاقت بڑھے گی. بے شک ہم انہیں پسند نہیں کرتے مگر اس سے فائدہ ہی ہوگا.
جب یہ بحث ہورہی تھی رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ ہجرت کرکے جارہے تھے، اور انہیں ڈر تھا کہ مکہ کے کافر ان کے پیچھے ضرور آئیں گے اس لیے انہوں نے مکہ پہ نظر رکھی ہوئی تھی..انہوں نے مکہ کے گردنواح پر سکاؤٹس تعین کر رکھے تھے تاکہ ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھ سکیں. ان سکاؤٹس میں سے ایک پکڑا گیا، اور جنگ چھڑگئی. اب اس لڑائی کے درمیان مسلمانوں نے کفار کے اس گروہ کا خاتمہ کردیا اور یہ خبر جب مکہ پہنچی تو جو لوگ دونوں گروہ میں صلح کے لیے درمیانی حل ڈھونڈ رہے تھے ان کے منہ بند ہوگئے. اب سب کا کہنا تھا کہ ہم جنگ کے لیے جائیں گے. تب جنگ بدر کہ تیاری شروع ہوگئی.
اب مدینہ کی بات کرتے ہیں، یہاں بھی وہی تین رویے تھے اسلام کے لیے. ایک گروہ بےپناہ محبت کرتا تھا، ایک ماننے کو تیار نہ تھا اور ایک جو درمیانی حل ڈھونڈ رہا تھا. اور یہی تین ردعمل ہر نبی کے وقت میں برپا ہوتے رہے ہیں.
یہی تین ردعمل آپ کو موسیٰ علیہ اسلام کی زندگی میں بھی ملیں گے، اور موسیٰ علیہ اسلام کی زندگی بھی دو حصوں میں تقسیم تھی. جیسے ہمارے نبی کی زندگی تھی، ایک مکہ کی، اور ایک مدینہ کی..
حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی زندگی بھی ایسی ہی تھی، فرعون کی بادشاہت کے دوران اور اس کے چنگل سے نکل جانے کے بعد.
موسیٰ علیہ اسلام اور رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی امت کے درمیان ایک بہت گہرا تعلق ہے.
اب مدینہ میں بھی تین ردعمل دیکھنے کو ملے، جن میں سے ایک انصار تھے جنہوں نے کھلے دل سے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کا استقبال کیا تھا.
اور نہ صرف یہ بلکہ جنگ بدر میں بھی حصہ لیا اور مکہ کے مہاجرین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے. رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں جنگ میں حصہ لینے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ انہوں نے خود حصہ لیا اور کہا کہ ہم موسیٰ علیہ اسلام کی قوم کی طرح نہیں ہیں جو کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا لڑے، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے ساتھ لڑیں گے.
دوسری طرف یہودی لیڈرز مسلمانوں کے خلاف تقریریں کر رہے تھے، وہ ان کی مخالفت کررہے تھے، ان کے خلاف چالیں چل رہے تھے.
اور ایک تیسرا گروہ تھا، جو دو گروپس سے تعلق رکھتا تھا. ان میں سے کچھ تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے اور کچھ یہودی کمیونٹی کے تھے.
ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا وہ اس کے نتیجے سے لاتعلق تھے. انہیں نہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کا مکہ کے ساتھ کیا پس منظر ہے.
ان کے مدینہ میں بزنس تھے، خاندان، دوست احباب تھے جن میں سے کچھ کا تعلق دشمن گروہ سے تھا. اب جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو وہ الجھن کا شکار تھے کہ ہمیں ان سے قطع تعلق کیوں کرنا پڑے گا. وہ کہتے تھے کیوں نا ہم کوئی درمیانی حل نکال لیں. یعنی یہ دین تو ہے ہی "امن" تو پھر ہمیں جنگ کیوں کرنی ہے؟
ان کے خیال میں رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم جنگ چاہتے تھے. وہ یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ غلطی پر کون ہے.
جب جنگ بدر کی تیاریاں ہورہی تھیں تو کوئی آیات نازل نہیں ہوئی تھی. اور اس باعث وہ لوگ کہنے لگ گئے کہ کوئی سورہ کیوں نہیں نازل ہورہی؟ اگر قرآن کہتا ہے جنگ کا تو ٹھیک ہے ہم جائیں گے جنگ کے لیے. مگر قرآن نہیں نازل ہورہا تو میرے خیال سے وہ (مسلمان) خود ہی جنگ کرنا چاہ رہے ہیں. اور پھر اللہ نے فرمایا:"اور جب کوئی سورہ نازل ہوتی ہے، اور وہ فیصلہ کن ہے، اور اس میں لڑائی کا کہا جاتا ہے، تو پھر وہ تمہاری طرف دیکھیں گے کہ کیا یہ سچ میں قرآن ہے"
جب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو مکہ میں تین قسموں کا رویہ دیکھنے کو ملا.
پہلا گروہ ان لوگوں کا تھا جو نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم پر فوراً سے ایمان لے آیا اور وہ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کو بھی تیار تھا. جس کا مطلب تھا کہ وہ اپنی تجارت سے ہاتھ دھو بیٹھتے، خاندان سے جدا ہوجاتے، گھر سے نکالے جاتے، انہین بہت سے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، مگر وہ اسلام سے منہ موڑنے پہ تیار نہیں تھے.
اس کے برعکس ایک گروہ تھا جس کا کہنا تھا جو مرضی ہوجائے ہم ایمان نہیں لائیں گے.وہ لوگ نہ صرف ایمان نہ لائے بلکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کا مذاق بنانے لگے. اور جو کوئی اسلام قبول کرتا تھا ان کے دشمن بن جاتے.
ان دونوں کے درمیان ایک گروہ تھا جو کہتا تھا کہ ہم کیوں تنازعہ پیدا کررہے ہیں ابھی کچھ سال پہلے ہم بھائی بھائی تھے، پیار محبت سے رہتے تھے. تو کیوں نہ ہم سمجھوتہ کرلیں، دونوں گروہ کے لیے کوئی درمیانی حل نکال لیں. اور کسی طرح دونوں گروہ ایک دوسرے کو کچھ لے دے کر سمجھوتہ کرلیں.
اور ایسے پلان بنائے گئے تھے کہ چلو دن کے وقت ہم تمہارے خدا کی عبادت کرلیں گے اور رات کے وقت جو ہمارا دل کرے گا ہم وہ کریں گے. کیونکہ آپ بھی کعبہ سے محبت کرتے ہیں اور ہم نے بھی اپنے بت وہاں رکھنے ہیں.
اور قرآن نے اس گروہ کے لیے فرمایا ہے "کہ وہ چاہتے ہیں کہ کچھ تم دے دو اور کچھ وہ دے دیں"
کیونکہ وہ کہتے تھے جب یہ تنازعہ بڑھ گیا تو باہر کے لوگ ہمیں کمزور سمجھنے لگ جائیں گے اور ہم حملے کا شکار ہوجائیں گے.
اب اللہ کے نبی مدینہ ہجرت کرگئے، اور جب وہ مدینہ تشریف لے گئے تب بھی مکہ میں یہ بحث جاری تھی.
مکہ میں کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ مسلمان مدینہ کے لیے نکل گئے ہیں ہمیں ان کے پیچھے جا کر اس مسئلے کو ختم کرنا چاہیے،مسلمانوں کو کسی طرح ختم کردینا چاہیے، اس سے قبل کہ یہ اسلام کا وائرس ہر طرف پھیل جائے.
مگر کچھ لوگ تھے جو کہہ رہے تھے کہ کیا ہوا اگر وہ مدینہ چلے گئے ہیں، کیا ہوا اگر وہ مدینہ کے گورنر بن جائیں گے، آخر میں ہیں تو مکہ کے ہی رہائشی نا؟ جس کا مطلب ہے کہ مکہ کی طاقت بڑھے گی. بے شک ہم انہیں پسند نہیں کرتے مگر اس سے فائدہ ہی ہوگا.
جب یہ بحث ہورہی تھی رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ ہجرت کرکے جارہے تھے، اور انہیں ڈر تھا کہ مکہ کے کافر ان کے پیچھے ضرور آئیں گے اس لیے انہوں نے مکہ پہ نظر رکھی ہوئی تھی..انہوں نے مکہ کے گردنواح پر سکاؤٹس تعین کر رکھے تھے تاکہ ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھ سکیں. ان سکاؤٹس میں سے ایک پکڑا گیا، اور جنگ چھڑگئی. اب اس لڑائی کے درمیان مسلمانوں نے کفار کے اس گروہ کا خاتمہ کردیا اور یہ خبر جب مکہ پہنچی تو جو لوگ دونوں گروہ میں صلح کے لیے درمیانی حل ڈھونڈ رہے تھے ان کے منہ بند ہوگئے. اب سب کا کہنا تھا کہ ہم جنگ کے لیے جائیں گے. تب جنگ بدر کہ تیاری شروع ہوگئی.
اب مدینہ کی بات کرتے ہیں، یہاں بھی وہی تین رویے تھے اسلام کے لیے. ایک گروہ بےپناہ محبت کرتا تھا، ایک ماننے کو تیار نہ تھا اور ایک جو درمیانی حل ڈھونڈ رہا تھا. اور یہی تین ردعمل ہر نبی کے وقت میں برپا ہوتے رہے ہیں.
یہی تین ردعمل آپ کو موسیٰ علیہ اسلام کی زندگی میں بھی ملیں گے، اور موسیٰ علیہ اسلام کی زندگی بھی دو حصوں میں تقسیم تھی. جیسے ہمارے نبی کی زندگی تھی، ایک مکہ کی، اور ایک مدینہ کی..
حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی زندگی بھی ایسی ہی تھی، فرعون کی بادشاہت کے دوران اور اس کے چنگل سے نکل جانے کے بعد.
موسیٰ علیہ اسلام اور رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی امت کے درمیان ایک بہت گہرا تعلق ہے.
اب مدینہ میں بھی تین ردعمل دیکھنے کو ملے، جن میں سے ایک انصار تھے جنہوں نے کھلے دل سے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کا استقبال کیا تھا.
اور نہ صرف یہ بلکہ جنگ بدر میں بھی حصہ لیا اور مکہ کے مہاجرین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے. رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں جنگ میں حصہ لینے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ انہوں نے خود حصہ لیا اور کہا کہ ہم موسیٰ علیہ اسلام کی قوم کی طرح نہیں ہیں جو کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا لڑے، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے ساتھ لڑیں گے.
دوسری طرف یہودی لیڈرز مسلمانوں کے خلاف تقریریں کر رہے تھے، وہ ان کی مخالفت کررہے تھے، ان کے خلاف چالیں چل رہے تھے.
اور ایک تیسرا گروہ تھا، جو دو گروپس سے تعلق رکھتا تھا. ان میں سے کچھ تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے اور کچھ یہودی کمیونٹی کے تھے.
ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا وہ اس کے نتیجے سے لاتعلق تھے. انہیں نہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کا مکہ کے ساتھ کیا پس منظر ہے.
ان کے مدینہ میں بزنس تھے، خاندان، دوست احباب تھے جن میں سے کچھ کا تعلق دشمن گروہ سے تھا. اب جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو وہ الجھن کا شکار تھے کہ ہمیں ان سے قطع تعلق کیوں کرنا پڑے گا. وہ کہتے تھے کیوں نا ہم کوئی درمیانی حل نکال لیں. یعنی یہ دین تو ہے ہی "امن" تو پھر ہمیں جنگ کیوں کرنی ہے؟
ان کے خیال میں رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم جنگ چاہتے تھے. وہ یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ غلطی پر کون ہے.
جب جنگ بدر کی تیاریاں ہورہی تھیں تو کوئی آیات نازل نہیں ہوئی تھی. اور اس باعث وہ لوگ کہنے لگ گئے کہ کوئی سورہ کیوں نہیں نازل ہورہی؟ اگر قرآن کہتا ہے جنگ کا تو ٹھیک ہے ہم جائیں گے جنگ کے لیے. مگر قرآن نہیں نازل ہورہا تو میرے خیال سے وہ (مسلمان) خود ہی جنگ کرنا چاہ رہے ہیں. اور پھر اللہ نے فرمایا:"اور جب کوئی سورہ نازل ہوتی ہے، اور وہ فیصلہ کن ہے، اور اس میں لڑائی کا کہا جاتا ہے، تو پھر وہ تمہاری طرف دیکھیں گے کہ کیا یہ سچ میں قرآن ہے"
جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو یہ فیصلہ کر دینے والی تھی. اور اس میں جہاد
کا بھی ذکر تھا. جب یہ آیات مبارکہ نازل ہوئیں تو منافقین کے چہرے دیکھنے
والے تھے.
يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ
آپ ان لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی غشی طاری ہو، پس ایسے لوگوں کے لیے تباہی ہے۔
وہ منافقین آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے کہ یہ قرآن ہے. اوہ خدایا ! واقعی یہ کہا گیا ہے قرآن میں.
فَأَوْلَىٰ لَهُمْ
لعنت ہو ان لوگوں پر.
لعنت ہو ان لوگوں پر.
تو وہ اس طرح کے مکر و فریب میں مصروف تھے. اسی پس منظر میں اگلی آیات پر روشنی ڈالتے ہیں.
يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا
انہوں نے اللہ تعالٰی کو اور اہل ایمان کو دھوکہ دینے کی کوشش کی . کہا
گیا ہے انہوں نے دو گروہوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی . وہ دو گروہ کون سے
ہیں؟
اللہ تعالٰی اور اہل ایمان. مگر درمیان میں کس کا ذکر نہیں کیا گیا ؟ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام کا. آپ اللہ تعالٰی سے سیدھا اہل ایمان کی طرف کیسے آ سکتے ہیں؟ درمیان میں رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام کا ذکر کیوں نہیں؟
دوسرا مسئلہ یہ کہ اللہ تعالٰی کو کون دھوکہ دے سکتا ہے؟ کوئی اللہ تعالٰی کو دھوکہ دینے کی کوشش بھی کیسے کر سکتا ہے اگر اس کے اندر ذرا سا بھی ایمان ہے؟
یعلم ما فی السموات و ما فی الأرض
یعلم ما تبدون و ما کنتم تعلمون
وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو. اللہ تعالٰی تو ظاہر و باطن سب جانتے ہیں . تو آپ اللہ تعالٰی کو دھوکہ دینے کی کوشش بھی کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ قرآن پاک میں نہایت خوبصورت اظہار ہے اللہ تعالٰی کی طرف سے. قرآن کی بنیاد ہے،
أَفَلَا تَعْقِلُونَ
کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ کیا تم نہیں سوچتے . اگر آپ نہیں سوچتے تو آپ قرآن نہیں سمجھ سکتے . اللہ تعالٰی آپ کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کو بھلا کون دھوکہ دے سکتا ہے؟ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی اگر اہل ایمان کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے . لیکن اللہ عزوجل کے ساتھ دھوکہ؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے . اس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے . دوسرا سوال یہ کہ رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا ؟ یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ " يُخَادِعُونَ اللَّهَ والرسول وَالَّذِينَ آمَنُوا " ان تینوں کا ذکر ہونا چاہیے تھا .
اس سوال کے جواب کے لیے ایک چیز ذہن میں رکھیں . ہماری عبادات کے دوران یہ واضح ہے کہ ہم صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں . ہم اللہ تعالٰی ہی کی عبادت کرتے ہیں . جب بات ہو توکل کی تو ہم اللہ تعالٰی ہی پر توکل کرتے ہیں . جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہم اللہ ہی سے دعا مانگتے ہیں . اللہ تعالٰی کے لیے ہی نماز پڑھتے ہیں تو کچھ چیزیں ہیں جو صرف اور صرف اللہ ہی کے لیے ہیں . یہی توحید ہے . یہ اللہ کی وحدانیت کا اظہار ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں . لیکن جب اطاعت کی بات ہو تو ہاں ہم مجموعی طور پر اللہ کہ اطاعت کرتے ہیں . مگر عملی طور پر اصل میں تو ہم رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام کی اطاعت کرتے ہیں . ان کی پیروی کرتے ہیں . رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کرنا ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنا . تو عبادات میں اللہ کا کوئی شریک نہیں . اللہ کے سوا کسی پر توکل کرنا جائز نہیں . دعا اللہ ہی کے لیے ہے . لیکن جب اطاعت کی بات ہو تو صرف اللہ کی اطاعت کا نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم ہے . آپ اطاعت الہی کو اطاعتِ رسول سے الگ کر ہی نہیں سکتے . مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ . جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی . یہ اللہ تعالٰی خود فرماتے ہیں . تو آپ ان دو کو الگ نہیں کر سکتے . چند اور آیات دیکھیں . "إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّه " وہ لوگ جنہوں نے تمہارے( آپ صل اللہ علیہ والہ و السلام ) کے ہاتھ پر بیعت کی، بے شک انہوں نے اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی . "يَدُ اللَّه فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ " اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر تھا . سبحان اللہ
لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو صرف اللہ ہی کے لیے ہیں . ان میں ذرا بھی ملاوٹ کی گنجائش نہیں . عیسائیوں کا یہی مسئلہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان فرق نہ رکھ سکے . انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ تعالٰی کی وحدانیت میں شریک ٹھہرا دیا . لیکن ہم مسلمان جانتے ہیں کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں مگر اطاعت ہم اللہ اور اس کے رسول دونوں کی کرتے ہیں جیسا کہ قرآن ہمیں حکم دیتا ہے . حتی کہ محبت کے لیے بھی اللہ تعالٰی نے واضح طور پر قرآن میں فرمایا کہ
اللہ تعالٰی اور اہل ایمان. مگر درمیان میں کس کا ذکر نہیں کیا گیا ؟ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام کا. آپ اللہ تعالٰی سے سیدھا اہل ایمان کی طرف کیسے آ سکتے ہیں؟ درمیان میں رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام کا ذکر کیوں نہیں؟
دوسرا مسئلہ یہ کہ اللہ تعالٰی کو کون دھوکہ دے سکتا ہے؟ کوئی اللہ تعالٰی کو دھوکہ دینے کی کوشش بھی کیسے کر سکتا ہے اگر اس کے اندر ذرا سا بھی ایمان ہے؟
یعلم ما فی السموات و ما فی الأرض
یعلم ما تبدون و ما کنتم تعلمون
وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو. اللہ تعالٰی تو ظاہر و باطن سب جانتے ہیں . تو آپ اللہ تعالٰی کو دھوکہ دینے کی کوشش بھی کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ قرآن پاک میں نہایت خوبصورت اظہار ہے اللہ تعالٰی کی طرف سے. قرآن کی بنیاد ہے،
أَفَلَا تَعْقِلُونَ
کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ کیا تم نہیں سوچتے . اگر آپ نہیں سوچتے تو آپ قرآن نہیں سمجھ سکتے . اللہ تعالٰی آپ کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کو بھلا کون دھوکہ دے سکتا ہے؟ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی اگر اہل ایمان کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے . لیکن اللہ عزوجل کے ساتھ دھوکہ؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے . اس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے . دوسرا سوال یہ کہ رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا ؟ یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ " يُخَادِعُونَ اللَّهَ والرسول وَالَّذِينَ آمَنُوا " ان تینوں کا ذکر ہونا چاہیے تھا .
اس سوال کے جواب کے لیے ایک چیز ذہن میں رکھیں . ہماری عبادات کے دوران یہ واضح ہے کہ ہم صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں . ہم اللہ تعالٰی ہی کی عبادت کرتے ہیں . جب بات ہو توکل کی تو ہم اللہ تعالٰی ہی پر توکل کرتے ہیں . جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہم اللہ ہی سے دعا مانگتے ہیں . اللہ تعالٰی کے لیے ہی نماز پڑھتے ہیں تو کچھ چیزیں ہیں جو صرف اور صرف اللہ ہی کے لیے ہیں . یہی توحید ہے . یہ اللہ کی وحدانیت کا اظہار ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں . لیکن جب اطاعت کی بات ہو تو ہاں ہم مجموعی طور پر اللہ کہ اطاعت کرتے ہیں . مگر عملی طور پر اصل میں تو ہم رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام کی اطاعت کرتے ہیں . ان کی پیروی کرتے ہیں . رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کرنا ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنا . تو عبادات میں اللہ کا کوئی شریک نہیں . اللہ کے سوا کسی پر توکل کرنا جائز نہیں . دعا اللہ ہی کے لیے ہے . لیکن جب اطاعت کی بات ہو تو صرف اللہ کی اطاعت کا نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم ہے . آپ اطاعت الہی کو اطاعتِ رسول سے الگ کر ہی نہیں سکتے . مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ . جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی . یہ اللہ تعالٰی خود فرماتے ہیں . تو آپ ان دو کو الگ نہیں کر سکتے . چند اور آیات دیکھیں . "إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّه " وہ لوگ جنہوں نے تمہارے( آپ صل اللہ علیہ والہ و السلام ) کے ہاتھ پر بیعت کی، بے شک انہوں نے اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی . "يَدُ اللَّه فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ " اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر تھا . سبحان اللہ
لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو صرف اللہ ہی کے لیے ہیں . ان میں ذرا بھی ملاوٹ کی گنجائش نہیں . عیسائیوں کا یہی مسئلہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان فرق نہ رکھ سکے . انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ تعالٰی کی وحدانیت میں شریک ٹھہرا دیا . لیکن ہم مسلمان جانتے ہیں کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں مگر اطاعت ہم اللہ اور اس کے رسول دونوں کی کرتے ہیں جیسا کہ قرآن ہمیں حکم دیتا ہے . حتی کہ محبت کے لیے بھی اللہ تعالٰی نے واضح طور پر قرآن میں فرمایا کہ
- قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ
اے پیغمبر کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو .
یہ نہیں کہا گیا کہ اگر اللہ سے محبت رکھتے ہو تو مجھ سے محبت کرو . آپ
کو اللہ سے اتنی محبت ہونی چاہیے جتنی کسی سے نہ ہو. بلکہ یہ کہنے کو کہا
گیا کہ اگر اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو . یعنی اللہ سے محبت
کا تعلق بھی اطاعتِ رسول صل اللہ علیہ والہ و السلام سے ہے . اللہ تعالٰی
نے دشمنی بھی اپنے پیغمبران کے ساتھ دشمنی سے ماخوذ رکھی . کہ اگر تم میرے
نبی کے دشمن ہو تم میرے دشمن ہو .
مَنْ کَانَ عَدُوَّ لِلّٰہِ وَمَلاَ ئِکَتِہٖ وَرُسُلِہ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوُّ لِلْکٰفِرِیْن۔
مَنْ کَانَ عَدُوَّ لِلّٰہِ وَمَلاَ ئِکَتِہٖ وَرُسُلِہ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوُّ لِلْکٰفِرِیْن۔
اگر کوئی اللہ تعالٰی کے ساتھ دشمنی رکھنا چاہتا ہے. اور وہ دشمن ہے اور
رسول کا اور جبرئیل کا اور میکائیل کا اور تمام فرشتوں کا تو اللہ ان
کافروں کا دشمن ہے.
فَإِنَّهُمْ لا يُكَذِّبُونَكَ
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ وہ آپ صل اللہ علیہ والہ و السلام کو نہیں جھٹلاتے،
وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
وہ ظالم تو اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں .
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ وہ آپ صل اللہ علیہ والہ و السلام کو نہیں جھٹلاتے،
وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
وہ ظالم تو اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں .
جب وہ آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جھوٹا کہتے ہیں تو وہ آپ کی نہیں
بلکہ اللہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں . وہ آپ کو نہیں بلکہ اللہ کو
جھٹلاتے ہیں.
آپ کو یہ سب بتانے کا میرا ایک مقصد ہے، آپ یہ سمجھ
لیں کہ جب قرآن کہتا ہے کہ وہ اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی کوشش کرتے ہیں
تو یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ کبھی اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش نہیں
کر سکتے. تو وہ کس کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے؟
رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو.
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ
رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو.
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ
پوری سورۃ المنافقون ہے اس بارے میں
کہ کیسے منافقین نے اللہ عزوجل کو نہیں بلکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و
سلم کو دھوکہ دینا چاہا. لیکن جو بات منافقین کی عقل میں نہ آئی وہ یہ
تھی کہ رسول اللہ کے خلاف کیا گیا جرم دراصل اللہ کے خلاف جرم کرنے کے
برابر ہے اللہ عزوجل کی نگاہ میں . تو اس آیت میں اللہ تعالٰی نے واضح طور
پر کہا کہ يُخَادِعُونَ اللَّهَ. یہاں رسول اللہ کا ذکر نہ کرنے کا مقصد
ہی یہ واضح کرنا ہے کہ رسول اللہ کو دھوکہ دینا دراصل اللہ کو دھوکہ دینے
کے مترادف ہے.
یہاں تک کہ منافقین بھی سوچ میں پڑ گئے کہ ہم نے تو اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہی نہیں کی ہم نے تو رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دھوکہ دینے کی کوشش کی تھی. ہم نے اللہ سے تو کوئی لڑائی مول نہیں لی؟ لو یہ آیت نازل ہوئی تمہارے لیے. قرآن منافقین کو منہ توڑ جواب دیتا ہے. يُخَادِعُونَ اللَّه تم نے اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی.
آگے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں َ وَالَّذِينَ آمَنُوا اور اہل ایمان کو بھی. اب اہل ایمان کو دھوکہ دینا، اللہ تعالٰی کو دھوکہ دینے کے مترادف نہیں ہے. ہم خود کو اللہ کے پیغمبروں کی قطار میں شامل نہیں کرتے. یہ الگ معاملہ ہے تو اہل ایمان کو دھوکہ دینے کا ذکر الگ سے ہے. والذين آمنوا تو انہوں نے اہل ایمان کو دھوکہ دینے کی بھی کوشش کی.
اب منافقین نے کیا دھوکہ دیا؟ ان کا دھوکہ یہ تھا کہ انہوں نے رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو متاثر کرنے کی کوشش کی کہ ہم تو اہل ایمان میں سے ہیں . اور یہ مجھے بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ آگے اللہ تعالٰی خود بیان کرتے ہیں
وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ
اور وہ کسی کو بھی دھوکہ نہیں دیتے سوائے خود کے
اسے منفی ناقص کہتے ہیں. عربی اصطلاح میں کہا جانا چاہیے تھا کہ يَخْدَعُونَ احد إِلَّا أَنفُسَهُمْ فاحد. کہ وہ نے کسی ایک شخص کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے سوائے خود کے . عربی میں کسی ایک کو احد کہا جاتا ہے. مگر اللہ تعالٰی نے یہاں احد کا لفظ استعمال نہیں کیا. کہ پس وہی ہیں جو دھوکہ کھا رہے ہیں . وہی منافق ہیں جو اپنے ہاتھوں بیوقوف بن رہے ہیں .
یہاں تک کہ منافقین بھی سوچ میں پڑ گئے کہ ہم نے تو اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہی نہیں کی ہم نے تو رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دھوکہ دینے کی کوشش کی تھی. ہم نے اللہ سے تو کوئی لڑائی مول نہیں لی؟ لو یہ آیت نازل ہوئی تمہارے لیے. قرآن منافقین کو منہ توڑ جواب دیتا ہے. يُخَادِعُونَ اللَّه تم نے اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی.
آگے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں َ وَالَّذِينَ آمَنُوا اور اہل ایمان کو بھی. اب اہل ایمان کو دھوکہ دینا، اللہ تعالٰی کو دھوکہ دینے کے مترادف نہیں ہے. ہم خود کو اللہ کے پیغمبروں کی قطار میں شامل نہیں کرتے. یہ الگ معاملہ ہے تو اہل ایمان کو دھوکہ دینے کا ذکر الگ سے ہے. والذين آمنوا تو انہوں نے اہل ایمان کو دھوکہ دینے کی بھی کوشش کی.
اب منافقین نے کیا دھوکہ دیا؟ ان کا دھوکہ یہ تھا کہ انہوں نے رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو متاثر کرنے کی کوشش کی کہ ہم تو اہل ایمان میں سے ہیں . اور یہ مجھے بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ آگے اللہ تعالٰی خود بیان کرتے ہیں
وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ
اور وہ کسی کو بھی دھوکہ نہیں دیتے سوائے خود کے
اسے منفی ناقص کہتے ہیں. عربی اصطلاح میں کہا جانا چاہیے تھا کہ يَخْدَعُونَ احد إِلَّا أَنفُسَهُمْ فاحد. کہ وہ نے کسی ایک شخص کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے سوائے خود کے . عربی میں کسی ایک کو احد کہا جاتا ہے. مگر اللہ تعالٰی نے یہاں احد کا لفظ استعمال نہیں کیا. کہ پس وہی ہیں جو دھوکہ کھا رہے ہیں . وہی منافق ہیں جو اپنے ہاتھوں بیوقوف بن رہے ہیں .
نعمان علی خان
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں