خطباتِ حجة الوداع… احادیث ِنبویؐ کی روشنی میں


خطباتِ حجة الوداع… احادیث ِنبویؐ کی روشنی میں
تحریر : ملک کامران طاہر

حجة الوداع‘ کی و جہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ اکا یہ آخری حج تھا،اس کو ’حجة الاسلام‘ بھی کہا جاتا ہے اس وجہ سے کہ ہجرت کے بعد آپؐ نے یہی ایک حج کیا، اس کے علاوہ اس کو’حجة البلاغ‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے جملہ مسائل حج اس کے ذریعے قول اور فعل اور کردار کے آئینہ میں دکھا دیئے اور اسلام کے اُصول و فروع سے آگاہ کر دیا۔ تاہم ان ناموں میں سے ’حجۃ الوداع‘ زیادہ مشہور ہوا، کتب ِاحادیث میں اکثر راوی اسی نام سے روایت کرتے ہیں۔

خطبہ حجة الوداع ایک اہم تاریخی دستاویز اور ’حقوقِ انسانی کے چارٹر‘ کی حیثیت رکھتا ہے جو ذخیرہ احادیث و روایاتِ تاریخ کی صورت میں موجود ہے۔محدثین اور مؤرخین نے اپنے اپنے فن کے مطابق اسے اپنی تصنیفات میں ذکر کیا ہے۔ اب تک متعدد سیرت نگاروں نے ان شقوں کواکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سیرت کی کتابوں میں یکجا کی گئیں روایات کی تخریج و تحقیق کا کام کماحقہ نہ ہوسکا۔ اکثر مصنّفین نے صحیح احادیث کا اہتمام نہیں کیا بلکہ خطبہ حجۃ الوداع سے متعلق تمام رطب و یابس جمع کردیا ہے۔ اس کے علاوہ کتب ِسیرت میں خطبات کی ترتیب کا بھی کوئی خاص لحاظ نہیں رکھا گیا بلکہ نبی کریمﷺ کے خطبات جو آپؐ نے تین دن مختلف مقامات واوقات میں دیے، ایک ہی جگہ جمع کردیئے گئے اور ان تینوں خطبوں کوایک ہی خطبہ (یعنی خطبہ حجۃ الوداع) کا نام دے دیا گیا۔ اسی طرح بعض بے سند تاریخی روایات بھی خطبات حجۃ الوداع کے نام سے متداول ہوچکی ہیں۔

ضرورت اس بات کی تھی کہ محسن انسانیت محمد رسول اللہ ﷺ کے ان خطبات کو جوکہ ’حجۃ الوداع‘ کے نام سے موسوم ہیں، الگ الگ مقام اور وقت کی مناسبت سے اپنی تمام شقوں کے ساتھ مرتب کیا جاتا۔ راقم نے مذکورہ مضمون میں اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔لہٰذا آئندہ سطور میں اس ترتیب کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ۹،۱۰،۱۲ ذوالحجہ کے خطبات جو یوم عرفہ، یوم النحر، یوم الرؤس اوسط ایام التشریق کے نام سے مشہور ہیں، میں سے ہر خطبہ اس کے مقام و دن کے ساتھ بالترتیب لکھ دیا گیا ہے۔

خطبات میں چونکہ نبی کریمﷺ نے اعادہ کے طور پر ایک خطبہ کے کچھ جملوں کو ہر خطبہ میں بیان فرمایا، لہٰذا مکرر شدہ جملوں کو طوالت سے بچاتے ہوئے صرف ایک خطبہ میں ہی لکھ دیا گیا ہے اور غیر مکرر جملے اپنے اپنے مقام پر درج کردیئے گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ روایات جو کسی مقام کی طرف منسوب نہیں بلکہ راویوں نے صرف حجۃ الوداع یا حجۃ النبیﷺ کی طرف منسوب کرکے انہیں روایت کیا ہے ، رقم کردی گئی ہیں۔ اور اس میں صرف احادیث کی کتب سے صحیح روایات کا چناؤ کیا گیا ہے۔ تاریخی روایات کی اسنادی حیثیت ثانوی ہونے کی وجہ سے ان روایات سے گریز کیا گیا ہے، تاکہ رسول اللہﷺ کے اقوال مستند طور پر پیش کئے جاسکیں۔کوشش کی گئی ہے کہ صحیح و مقبول روایات ہی ان خطبات کا حصہ بنیں اور اس چیز کوممتاز کرنے کے لئے غیر مستند روایات کو آخر میں ان کے ضعف کی نشاندہی کے ساتھ درج کردیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں ان تمام خطبات سے جو نکات آخر کار حاصل ہوتے ہیں، ان کو آخرمیں ایک مستقل صورت میں عنوانات کے تحت مدون کر دیاگیا ہے۔

حجۃ الوداع کا پس منظر
نبوت کے ۲۳ سال پورے ہونے کو تھے،آپ ا نے اللہ کا پیغام لوگوں تک کما حقہ پہنچا دیا تھا اور آپ ؐ کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچ چکا تھا۔یقینا آپ کو اس کا احساس تھا جس کا پتہ آپﷺ کی وصیت سے چلتا ہے جو آپﷺ نے حضرت معاذ کو یمن کا گورنر مقرر فرما کر بھیجتے ہوئے فرمائی تھی۔ آپﷺنے حضرت معاذ کو ۱۰ ہجری میں یمن کا گورنر مقرر کیا اور وصیت کی کہ
’’اے معاذ! غالبا تم مجھ سے میرے اس سال کے بعد نہ مل سکو گے، بلکہ غالبا میری اس مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو گے۔حضرت معا ذ یہ سن کر رسول اللہ ا کی جدائی کے غم میں رونے لگے ‘‘ (مسنداحمد ۵؍۲۳۵ ،مجمع الزوائد ۹؍۲۲)
حج کا مہینہ قریب تھا اور ضرورت اس بات کی تھی کہ رہبر اعظمؐ کی لوگوں سے آخری ملاقات اور آپ کے وصیتی ارشادات لوگوں تک پہنچ جائیں۔سو آپﷺ نے اس سال حج کا ارادہ فرمایا اور اسی منصوبہ کے پیش نظر اطرافِ مکہ میں اس کا اعلان کر دیا گیا کہ نمائندگانِ قبائل اپنے قبائل کے افراد کے ساتھ اس اجتماع میں حاضر ہوں۔مسلمانانِ عرب جوق در جوق مکہ کی طرف روانہ ہونے لگے تھے۔شنبہ کے روز ظہر کے بعد مدینہ سے مکہ کی طرف کوچ فرمایا۔
آپﷺ تقریبا آٹھ دن سفر کرنے کے بعد ۴؍ذی الحجہ ۱۰ھ؁ کو مکہ میں داخل ہوئے۔ ۸؍ذی الحجہ ، ترویہ کے دن آپ ؐ منیٰ تشریف لے گئے۔۹؍ذی الحجہ کی صبح تک وہیں قیام فرمایا اور پہلاخطبہ عرفات میں ارشاد فرمایا۔اور اس طرح دیگر مناسک حج ادا کرتے ہوئے ۱۰،۱۱؍ذی الحجہ کو بھی خطبات ارشاد فرمائے۔
آپﷺ کے ساتھ شریک صحابہ اکرام ؓ کی تعداد تقریبا ایک لاکھ چوالیس ہزار تھی۔حال ہی میں وفات پانے والے نامور مسلم محقق ومؤرخ جناب ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے ’انسانیت کا منشورِ اعظم‘ قرار دیا ہے۔’رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی‘ کے نام سے ان کی کتاب جس میں نبی کریم کے سیاسی کارناموں اور سیاسی دستاویزات کی تحقیق پیش کی گئی ہے، میں ایک مستقل باب میں انہوں نے اس خطبہ کی تمام شقوں کوکتب ِ تاریخ کی مدد سے ۱۶ دفعات میں جمع کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’جمعہ ۹؍ذی الحجہ ۱۰ھ کو جبل الرحمہ پر سے میدان عرفات کے ڈیڑھ لاکھ حاضرین سے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول کریمﷺ نے جو خطاب فرمایا تھا، اسے تاریخ نے خوش قسمتی سے محفوظ رکھا ہے، اس خطاب کو انسانیت کا منشورِاعظم کہا جاسکتا ہے ۔‘‘ (ص ۳۰۲تا ۳۰۵)

وصایا اور مناسک ِ حج سکھلانے کے بعد نبیﷺ اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ یوم النفر الثاني (۱۳؍ذی الحجہ) کو عشاء کے بعد طوافِ وداع کر کے واپس مدینہ کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔
حجۃ الوداع میں نبیﷺ نے چار خطبات ارشاد فرمائے جیسا کہ امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ’’ہمارے نزدیک چار خطبات ہیں:پہلا مکہ میں کعبہ کے نزدیک ذوالحجہ کے ساتویں دن، دوسرا مسجد نمرہ میں عرفہ کے دن ، تیسرا منیٰ میں نحر کے دن، چوتھا ایام التشریق کے دوسرے دن منیٰ میں۔‘‘ (مسلم شرح نووی: ۹؍۵۷)
’ساتویں دن‘ کے متعلق امام بیہقی ’سنن الکبریٰ‘ میں ابن عمرؓ کا یہ فرما ن ذکر کرتے ہیں:
"کان رسول الله ﷺ إذا کان قبل الترویة خطب الناس فأخبرهم بمناسکهم" (بیہقی:۵؍۱۱۱)
’’رسول اللہﷺ نے یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) سے پہلے (سات ذوالحجہ) لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں ان کو ان کے مناسک کے بارے میں خبر دی۔‘‘
راقم کو باوجود بسیار کوشش کے ’یوم السابع‘ کے خطبہ کی تفصیل کتب ِاحادیث سے نہیں مل سکی اہل علم و تحقیق اس بارے میں مزید جستجو اور رہنمائی فرمائیں۔
ذیل میں پیش کردہ روایات کی تحقیق و تخریج بقدر امکان کی گئی ہے ۔اور احتیاط کے لیے احادیث کے تراجم نامور سیرت نگاروں کی کتب سے لئے گئے ہیں، صرف وہ احادیث جن کا ترجمہ ان کتب سے نہ مل سکا ، راقم کا کیا ہوا ہے۔ وما توفیقي إلا بالله
خطبہ یوم عرفہ … ۹ ذوالحجہ
وقت او ر دِن :نبیﷺ نے عرفہ کے دن کا خطبہ بطن وادی (عرفہ) میدانِ عرفات میں سواری پر جمعہ کے دن ظہر کی نماز سے پہلے ارشاد فرمایا جیسا کہ اس کا ذکر آگے روایات میں آرہا ہے:
سنن ابی داؤد میں خالد بن عداء سے روایت ہے کہ:"رأیت رسول الله یخطب الناس یوم عرفة على بعیر قائم في الرکابین" (صحیح ابوداود للالبانی :۱۶۸۷،۱۶۸۶)
’’میں نے رسول اللہﷺ کو عرفہ کے دن اونٹ کی رکابوں پر کھڑے ہوکر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔‘‘
مسلم، سنن ابی داود، مستدرک حاکم ابن ماجہ میں روایت ہے کہ آپﷺ کے خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد "ثم أذّن بلال ثم أقام فصلى الظهر" بلالؓ نے اذان کہی اور ظہر کی نماز نبیؐ نے پڑھائی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ نے یہ خطبہ ظہر سے پہلے دیا تھا۔ (واللہ اعلم)
حضرت عمرؓ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یوم عرفہ جمعہ کے دن تھا۔چنانچہ آپؓ آیت ﴿ألْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ…﴾کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وهو قائم بعرفة یوم جمعة (بخاری ۴۴۰۷، ۴۶۰۶، نسائی ۵۰۱۲)
جبکہ دوسری روایت میں أنزلت لیلة الجمعة کے الفاظ بھی ہیں اور ان دونوں روایتوںمیں تطبیق کی صورت یہی ہے کہ یہ جمعہ کا دن تھا جس کی یہ آیت اتری اور حضرت عمرؓ نے جمعہ کی شام کی مناسبت سے اسے لیلۃ الجمعۃ کہہ دیا ورنہ لیلۃ الجمعۃ سے ان کی مراد جمعرات نہ تھی۔ اس سلسلے میں حافظ ابن حجر کا موقف بھی یہی ہے کہ عرفہ کا دن جمعہ کے دن تھا۔ (فتح الباری :۸؍۲۷۰)اوریہی بات صاحب ِتحفۃ الاحوذی لکھتے ہیں کہ ’’یہ عرفہ کا دن تھا اور اس دن جمعہ تھا۔‘‘ (تحفۃ الاحوذی: ۴؍۹۶ )
اس تحقیق کے بعد راجح بات یہی سامنے آتی ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا۔ اسی روایت کو بنیاد بناتے ہوئے ہم نے دوسرے دو خطبوں کے دنوں کا تعین یوم النحربروز ہفتہ، یوم الرؤس بروز سوموار کیا ہے۔ واللہ أعلم
خطبہ یومِ عرفہ کی روایات درج ذیل ہیں:
٭ امام بیہقی مسور بن مخرمہ سے روایت لائے ہیں کہ رسول اللہا نے عرفات میں حمدوثنا کے بعد خطاب فرمایا۔ (بیہقی ۵؍۱۲۵)
٭ حضرت جابر نبی کریمﷺ کا حج بیان کرتے ہوئے خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق بیان کرتے ہیں:
فأتى بطن الوادي، فخطب الناس وقال: إن دماءکم وأموالکم حرام علیکم، کحرمة یومکم هذا في شهرکم هذا في بلدکم هذا، ألا کل شیئ من أمر الجاهلیة تحت قدمي موضوع، ودماء الجاهلیة موضوعة وإن أول دم أضع من دمائنا دم ابن ربیعة بن الحارث، کان مسترضعا في بنی سعد فقتله هزیل، وربا الجاهلیة موضوع، و أوّل ربا أضع ربانا، ربا عباس بن عبد المطلب، فإنه موضوع کله فاتقوا الله في النساء فإنکم أخذتموهن بأمان الله، واستحللتم فروجهن بکلمة الله، ولکم علیهن أن لا یوطئن فروشکم أحداً تکرهونه، فإن فعلن ذلك فاضربوهن ضربًا غیر مبرح، ولهن علیکم رزقهن وکسوتهن بالمعروف، وقد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعده إن اعتصتم به: کتاب الله، وأنتم تُسألون عني، فما أنتم قائلون؟ قالوا: نشهد أنك قد بلغت وأدّیت ونصحت،فقال بإصبعه السبابة، یرفعها إلى السماء وینکتها إلى الناس: اللهم! اشهد، اللهم! اشهد ثلاث مرات (صحیح مسلم :۲۹۴۱، صحیح سنن ابی داود للالبانی :۱۹۰۵، ابن ماجہ :۱۸۵۰، الفتح الربانی :۲۱؍۵۸۸)
’’نبیﷺ کریم بطن الوادی میں آئے اور لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا: تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہے۔ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیئے گئے اور ہمارے خون میں سب سے پہلا خون جسے میں ختم کررہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایام میں قبیلہ ہزیل نے اسے قتل کردیا اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارا کا سارا سود ختم ہے۔
ہاں! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو تمہیں گوارا نہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا، اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔
یہ سن کر آپﷺ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ۔‘‘ (الرحیق المختوم: ص ۷۳۳)
٭ عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:
"ألا وإني فرطکم على الحوض، وأکا ثربکم الأمم فلا تسودوا وجهي،ألا وإني مستنقذ أناسا، ومستنقذ مني أناس فأقول: یارب! أصیحابي فیقول: إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك" (صحیح ابن ماجہ للالبانی :۲۴۸۱)
’’آگاہ رہو میں تمہارا پیش خیمہ ہوں، حوضِ کوثر پراور میں تمہارے سبب اس اُمت کی کثرت پر فخر کروں گا، مجھے شرمندہ نہ کرنا۔
خبردار! کچھ لوگوں کو میں چھوڑ دوں گا اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑوالئے جائیں گے۔ میں کہوں گا: اے میرے ربّ! یہ تو میرے اصحاب ہیں، سو وہ فرمائے گا تو نہیں جانتا جو اُنہوں نے تیرے بعد نئی بدعتیں ایجاد کیں۔‘‘
٭عرفہ کے دن ہی یہ آیت بھی نازل ہوئی: ﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الِاسْلاَمَ﴾ (المائدۃ:۳)
آ ج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا۔‘‘ (الرحیق المختوم :۷۳۵)
اس کے متعلق حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ"إني لأعلم أي مکان أنزلت ورسول اﷲ واقف بعرفة" (بخاری:۴۴۰۷)
’’بے شک میں بہتر جانتا ہوں کہ یہ کس مقام پر نازل ہوئی ، نبیﷺ اس وقت عرفہ میں تھے ۔‘‘
خطبہ یوم النحر… ۱۰؍ ذوالحجہ
عن رافع بن عمرو المزني قال رأیت رسول الله یخطب الناس بمنی حین ارتفع الضحى على بغلى شهباء وعلي یعبر عنه والناس بین قائم وقاعد" (بیہقی:۵؍۱۴۰)
’’رافع کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو چاشت کے وقت دن چڑھے سواری پر خطاب کرتے سنا، حضرت علی آپﷺ کا خطاب دہرا رہے تھے، سامعین میں بعض بیٹھے اور بعض کھڑے تھے ۔‘‘
خطبہ میں فرمایا:
"یا أیها الناس أي شهر أحرم؟ قالوا: هذا الشهر، قال أي یوم أحرم؟ قالوا: هذا وهو یوم النحر، قال: فأي بلد أعظم عند الله حرمة؟ قالوا: هذا، قال: فإن دماء کم وأموالکم وأعراضکم محرمة علیکم کحرمة یومکم هذا في شهر کم هذا، في بلدکم هذا إلى یوم تلقون ربکم ألا هل بلغت؟ قال الناس: نعم، فرفع یدیه إلى السماء ثم قال: اللهم اشهد، ثم قال: لیبلغ الشاهد منکم الغائب" (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۹)
’’اے لوگو! کون سا مہینہ سب سے زیادہ حرمت والا ہے، لوگوں نے کہا: یہی مہینہ۔ فرمایا کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: آج کا دن اور وہ یوم النحر تھا۔ پھر آپﷺ نے پوچھا: اللہ کے نزدیک سب سے حرمت والاشہر کون سا ہے تو صحابہ کرامؓ نے جواب دیا کہ یہی ہے۔ تب آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا خون اور تمہارا مال اور تمہاری عزت تم پر اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح یہ مہینہ، یہ دن اور اس شہر کی حرمت ہے اور یہ اس دن تک ہے جس دن تم اپنے ربّ سے ملاقات کرو گے۔
خبردار! کیا میں نے تمہیں پیغام پہنچا دیا۔ لوگوں نے کیا جی ہاں! تو نبی ا نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: اے اللہ گواہ رہ، پھر آپؐ نے فرمایا: ہر حاضرغائب کو یہ دعوت پہنچا دے۔‘‘
٭ حضرت جابر فرماتے ہیں، آپﷺ نے نحر کے دن فرمایا:
«ویقول لتأخذوا مناسککم فإني لا أدري لعلي لا أحج بعد حجتی هذه»
’’آپﷺ فرما رہے تھے کہ لوگو! تم حج کے طریقے سیکھ لو، میں اُمید نہیں کرتا کہ اس حج کے بعد حج کرسکوں۔‘‘ (صحیح مسلم:۱۲۹۷، مجمع الزوائد:۳؍۲۶۹)
٭ امام بخاری اپنی صحیح میں ابوبکرہ کی روایت لائے ہیں کہ آپٖﷺ نے فرمایا:
«الزمان قد استدار کهیئة یوم خلق السماوات والأرض، السنة اثنا عشر شهرًا منها أربعة حرم، ثلاثة متوالیات: ذوالقعدة ، وذو الحجة والمحرم، ورجب، مضر الذي بین جمادی وشعبان» (بخاری:۴۴۰۶)
’’زمانہ گھوم پھر کر اپنی اس دن کی ہیئت پر پہنچ گیا ہے جس دن اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہے جن میں سے چار مہینے حرمت والے کے ہیں۔ تین پے درپے یعنی ذیقعد، ذی الحجہ اور محرم اور ایک رجب،مضر(قبیلے کا) جو جمادی الآخرۃ اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ (الرحیق المختوم:۷۳۷)
٭مزید فرمایا:
"فإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام، کحرمة یومکم هذا في بلدکم هذا، في شهر کم هذا، وستلقون ربکم فسیألکم عن أعمالکم، ألا فلا ترجعو بعدي ضلالا، یضرب بعضکم رقاب بعض، ألا لیبلغ الشاهد الغائب فلعل بعض من یبلغه أن یکون أوعى له من بعض من سمعه" (بخاری:۴۴۰۶،۷۰۷۸)
’’اچھا تو سنو کہ تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے جیسے تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے۔ اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا، لہٰذا دیکھو میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو جو شخص موجود ہے، وہ غیر موجود تک (میری باتیں) پہنچا دے۔ کیونکہ بعض وہ افراد جن تک (یہ باتیں) پہنچائی جائیں گی، وہ بعض (موجودہ) سننے والوں سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دروبست کو سمجھ سکیں گے۔‘‘ (الرحیق المختوم:۷۳۷،۷۳۸)
٭ سلیمان بن عمرو بن اَحوص اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ا کے ساتھ تھے ، آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور وعظ فرمایا:
"ألا لا یجنی جان إلا على نفسه، ولا یجني والد على ولده ولا ولد على والده، ألا إن المسلم أخو المسلم، فلیس یحل لمسلم من أخیه شیئ إلا ما أحل من نفسه. ألا وإن کل ربا في الجاهلیة موضوع، لکم رؤوس أموالکم، لا تظلمون ولا تظلمون غیر ربا العباس بن عبد المطلب فإنه موضوع کله" (صحیح ابن ماجہ للالبانی:۲۴۷۹)
’’یاد رکھو! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا (یعنی اس جرم کی پاداش میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مجرم ہی پکڑا جائے گا) کوئی جرم کرنے والا اپنے بیٹے پر یا کوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم نہیں کرتا (یعنی باپ کے جرم میں بیٹے کو یا بیٹے کے جرم میں باپ کو نہیں پکڑا جائے گا) خبردار! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسرے مسلمان کے لئے حلال نہیں جب تک وہ خود حلال نہ کرے۔ خبردار! جاہلیت کا ہر قسم کا سود اب ختم ہے، تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی تم ظلم کا شکار ہو۔ عباس بن عبدالمطّلب کا سود سارے کا سارا ختم ہے۔‘‘
٭ انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: خطبنا رسول اﷲ ﷺ بمسجد من منی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مسجد ِخیف میں جو کہ منیٰ میں ہے، خطبہ دیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
«نضر الله امرأ سمع مقالتي فحفظها ووعاها، ثم ذهب بها إلى من لم یسمعها، فربّ حامل فقه لیس بفقیه ورب حامل فقه إلى من هو أفقه منه» (صحیح الترغیب والترہیب للالبانی :۸۶)
’’تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا، حفظ کیا اور یاد کیا۔ پھر اس کو اس تک پہنچایا جس نے اسے سنا نہیں۔کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو خود فقیہ نہیں،مگر فقہ(بصورتِ حدیث) کو اٹھائے پھرتے ہیں اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اپنے سے زیادہ فقیہ شخص تک اس فقہ(حدیث) کو پہنچانے والے ہیں۔‘‘
اسی روایت کو کچھ الفاظ کے اضافہ کے ساتھ حضرت جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مسجد ِخیف، (منیٰ) میں سنا :
«نضر الله عبدًا سمع مقالتي، فحفظها ووعاها، وبلغها من لم یسمعها، فربّ حامل فقه لا فقه له، وربّ حامل فقه إلى من هو أفقه منه، ثلاث لا یغل علیهن قلب مؤمن: إخلاص العمل لله، والنصیحة لأئمة المسلمین، ولزوم جماعتهم فإن دعوتهم تحوط من ورائهم»(صحیح ترغیب للالبانی:۸۷، صحیح ابن ماجہ:۲۴۸۰، مسنداحمد:۴؍۸۰)
’’تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا، حفظ کیا اور یاد کیا۔ پھر اس کو جس نے نہیں سنا، اس تک پہنچایا۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو خود غیر فقیہ ہیں مگر فقہ (حدیث)کو اٹھائے پھرتے ہیں۔اور بہت سے فقہ اٹھانے والے اپنے سے زیادہ فقہ والے کی طرف بات لے جاتے ہیں۔
… تین چیزیں ہیں جن پر مؤمن کا دل خیانت (تقصیر) نہیں کرتا: صر ف اللہ کے لئے عمل کے اخلاص میں، اور مسلمانوں کے حکمرانوں کی خیرخواہی میں، اور ان کی جماعت سے چمٹے رہنے میں، بے شک ان کی دعا ان پچھلے لوگوں کو بھی گھیر لیتی ہے۔‘‘
٭ احوص اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ نبیؐ نے حجۃ الوداع (یوم النحر) میں فرمایا :
"لا إن الشیطان قد أیس أن یُعبد في بلدکم هذا أبداً ولکن سیکون له طاعة في بعض ما تحتقرون من أعمالکم، فیرضی بها … ألا یأمتاه! هل بلغت؟ ثلاث مرات، قالوا: نعم، قال: اللهم اشهد ثلاث مرات" (صحیح ابن ماجہ للالبانی:۲۴۷۹)
’’یاد رکھو! شیطان مایوس ہوچکا ہے کہ اب تمہارے اس شہر میں کبھی بھی اس کی پوجا کی جائے لیکن اپنے جن اعمال کو تم لوگ حقیر سمجھتے ہو، ان میں اس کی اطاعت کی جائے گی اور وہ اسی سے راضی ہوگا۔ خبردار، اے میری اُمت! کیا میں نے تمہیں تبلیغ کردی، یہ تین دفعہ کہا۔ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپؐ نے تین دفعہ فرمایا: اے اللہ! گواہ رہ۔‘‘
٭ عمرو بن یثربی سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا:
«ولا یحل لامرء من مال أخیه الا ما طابت به نفسه»(مسند احمد۳؍۴۲۳، دارقطنی:۳؍۲۵، بیہقی:۶؍۹۷)
’’کسی آدمی کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے مال میں سے لے جب تک وہ اپنی خوشی سے نہ دے دے۔‘‘
٭ عمرو بن خارجہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے منیٰ کے خطبہ میں فرمایا:
«إن الله قسم لکل وارث نصیبه من المیراث، فلا یجوز لوارث وصیة، الولد للفراش وللعاهر الحجر، ومن ادعی إلى غیر أبیه، أو تولى غیر موالیه، فعلیه لعنة الله والملائکة والناس أجمعین، لا یقبل منه صرف ولا عدل» (صحیح ابن ماجہ للالبانی :۲۱۹۲، مصنف عبدالرزاق :۱۶۳۰۶)
’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر وارث کے لئے ثابت کردہ حصہ مقرر کردیا ہے اور وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔ بچہ اس کاہے جس کے بستر پر تولد ہوا اور بدکار کے لئے پتھر!۔ جس نے اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا یا جس غلام نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو آقا ظاہر کیا تو ایسے شخص پراللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی طرف لعنت ہے، اس سے (قیامت کے دن) کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہوگا۔‘‘ (محسن انسانیت از نعیم صدیقی ؒ:ص۵۸۷)
٭ حضرت اُمّ الحصین سے مروی ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
«إن اُمّر علیکم عبد مجدع أسود یقودکم بکتاب الله تعالى فاسمعوا له وأطیعوا» (مسلم:۱۲۹۸)
’’اگر کوئی حبشی یعنی بریدہ غلام بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔‘‘ (سیرۃ النبیؐ از شبلی نعمانی:ؒ۲؍۱۶۴)
٭ عبد اللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا:
«یأیها الناس! إیاکم والغلو في الدین، فإنه أهلك من کان قبلکم الغلو في الدین» (صحیح ابن ماجہ للالبانی: ۲۴۵۵|)
’’لوگو! مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی سے برباد ہوئیں‘‘ (سیرۃ النبیﷺ از شبلی نعمانی:۲؍۱۶۱)
٭ امام احمد بن حنبل، مرۃ ؒسے روایت لائے ہیں کہ جس میں نبیؐ نے منیٰ کے دن خطبہ دیا اور ایک لمبے وعظ کے بعد فرمایا:
«ألا وقد رأیتموني وسمعتم مني وستسألون عني فمن کذب على فلیتبوأ مقعده من النار» (مسنداحمد:۵؍۴۱۲)
’’خبردار! تم لوگوں نے مجھ سے سن لیا اور مجھے دیکھ لیا، عنقریب تم سے میرے بارے میں سوال ہوگا پس جس نے بھی مجھ پر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔‘‘
خطبہ یوم الرؤس اوسط ایامِ التشریق… ۱۲؍ ذوالحجہ
یہ خطبہ پچھلے دو خطبوں کی طرح کا تھا۔ نبی کریمﷺ نے یہ خطبہ سوموار کو سواری پر منیٰ کے مقام پر ’اوسط ایام التشریق‘ میں ارشاد فرمایا۔سنن ابی داود میں ابو نجیح سے روایت ہے کہ وہ بنی بکر کے دو آدمیوں سے روایت کرتے ہیں:
رأینا رسول الله یخطب بین أوسط أیام التشریق، ونحن عند راحلته، وهي خطبة رسول الله التي خطب بمني
(صحیح ابی داود للالبانی:۱۷۲، بیہقی:۵؍۱۵۱)
’’ہم نے نبیﷺ کو اوسط ایام تشریق میں منیٰ کے مقام ،پرخطبہ ارشاد فرماتے دیکھا، اس وقت ہم ان کی سواری کے قریب ہی تھے اور منیٰ کا خطبہ یہی ہے ۔‘‘
"ونحن عند راحلته" سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سواری پر تھے۔
اس بارے میں مزید روایات درج ذیل ہیں :
٭ امام بیہقی اپنی ’سنن‘ میں سراء بنت نبہاء کی روایت لائے ہیں، وہ فرماتی ہیں:
"سمعت رسول الله ﷺ، یقول في حجة الوداع: هل تدرون أي یوم هذا قال وهو الیوم الذي یدعون یوم الرؤس، قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: هذا أوسط أیام التشریق: هل تدرون أي بلد هذا؟ قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: هذا الشهر الحرام، ثم قال: إني لا أدري لعلى لا ألقاکم بعد هذا ألا وإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام کحرمة یومکم هذا في بلدکم هذا حتی تلقوا ربکم فیسألکم عن أعمالکم ألا فلیبلغ أقصاکم أدناکم ألا هل بلغت" (بیہقی:۵؍۱۵۱، مجمع الزوائد:۳؍۲۷۳)
’’میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے، کیا تم جانتے ہو، یہ کون سا دن ہے؟ اور یہ وہ دن تھا جسے ’یوم الرؤس‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ سب لوگوں نے کہاکہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا! یہ اوسط ایام التشریق ہے اور تم جانتے ہو یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا: یہ مشعر الحرام ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: میں نہیں جانتاشاید اس وقت کے بعد میں تم سے ملاقات کروں۔ بے شک تمہارا خون، تمہارے اَموال اور تمہاری آبروئیں تمہارے ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کا دن حرمت والا ہے اور یہ شہر حرمت والا ہے ، یہاں تک کہ تم اپنے ربّ سے جاملو ۔ عنقریب وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کرے گا۔ خبردار! تمہارا قریب والا دور والے کو یہ باتیں پہنچا دے۔خبردار! کیا میں نے تم کو تبلیغ کردی۔‘‘
٭ خطبہ اوسط ایام التشریق کے متعلق حافظ نورالدین ہیثمی ابونقرۃ سے روایت لائے ہیں جس میں آپؐ کا فرمان یوں روایت کیا گیا ہے :
"یأیها الناس إن ربکم واحد وأباکم واحد ألا لا فضل لعربي على عجمي ولا لعجمي على عربي ولا أسود على أحمر ولا أحمر على أسود إلا بالتقوی" (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۶، مسنداحمد:۵؍۴۱۲)
’’لوگو! بے شک تمہارا ربّ ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے، ہاں عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر،سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیںمگر تقویٰ کے سبب سے۔‘‘
(سیرۃ النبی از شبلی نعمانی: ۲؍۱۵۵)
٭ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اوسط ایام التشریق کو ہی سورہ ﴿إذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ﴾ نازل ہوئی۔ (بیہقی:۵؍۱۵۲)
حجۃ الوداع کے غیرمعین خطبات
حجۃ الوداع کے وہ فرمودات جنہیں راویوں نے کسی جگہ کی طرف منسوب کئے بغیر بیان کردیا، درج ذیل ہیں:
٭ ابوامامہ ؓکہتے ہیں کہ میں نبیؐ کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک تھا ، آپﷺ نے سب سے پہلے اللہ کی حمدوثنا بیان کی ، پھر فرمایا:
"ألا لعلکم لاتروني بعد عامکم هذا، ألا لعلکم لا تروني بعد عامکم هذا ألا لعلکم لا تروني بعد عامکم هذا، اعبدو ربکم وصلوا خمسکم وصوموا شهر کم و حجو بیتکم و أدوا زکوتکم طیبة بها أنفسکم تدخلوا جنة ربکم عزوجل" (مسنداحمد:۵؍۲۶۲، المسدرک حاکم :۱؍۹)
’’ سال کے بعد شاید تم مجھے نہ دیکھ سکو، خبردار! اس سال کے بعد شاید تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ اپنے پروردگار کی عبادت کرو، پانچوں وقت کی نماز پڑھو اور حج کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ یہ سب کام خوشی سے سرانجام دو تو تم اپنے ربّ کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔‘‘
٭ امام بخاری اپنی ’صحیح‘ میں ابن عمر ؓکی روایت لائے ہیں جس کے الفاظ یوں ہیں:
"فحمد الله وأثنى علیه ثم ذکر المسیح الدجال فأطنب في ذکره وقال ما بعث الله من نبي إلا أنذر أمته، أنذره نوح والنبیون من بعده وإنه یخرج فیکم فما خفي علیکم من شأنه فلیس یخفي علیکم أن ربکم لیس على ما یخفی علیکم ثلاثا، إن ربکم لیس بأعور، وإنه أعور عین الیمنی فأن عینه عنبة طافیة، ویلکم، أو ویحکم انظروا لا ترجعوا بعد کفارًا یضرب بعضکم رقاب بعض" (بخاری :۴۴۰۲،۴۴۰۳)
’’آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان فرمائی۔ پھر آپﷺ نے دجال کا ذکر کیا کہ کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی اُمت کو اس (دجال) سے نہ ڈرایا ہو۔ نوحؑ اور اس کے بعد آنے والے نبیوں نے بھی اس کے بارے میں ڈرایا۔ وہ تم (امت ِمحمدیہ کے زمانہ) میں ظاہر ہوگا اور یہ بات تم خوب جانتے ہو، اس کی حالت بھی تم سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی یہ بات تم پر مخفی ہے کہ تمہارا ربّ ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو تمہارے لئے پردہ میں ہیں (یہ تین دفعہ فرمایا)۔ اور فرمایا : تمہارا ربّ کانا نہیں جبکہ اس (دجال) کی دائیں آنکھ کانی ہے اور وہ آنکھ اس طرح ہے جس طرح پھولا ہوا منقیٰ ہوتا ہے۔ افسوس تم پر دیکھو! میرے بعد کفر میں نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنا شروع کردو۔‘‘
دوسری جگہ حضرت جریر ؓسے روایت ہے کہ
"قال في حجة الوداع لجریر، استنصت الناس فقال: لا ترجعوا بعدي کفاراً یضرب بعضکم ر قاب بعض" (بخاری:۴۴۰۵)
’’نبی کریمﷺ نے حجۃ الوداع میں حضرت جریر کو فرمایا کہ لوگوں کو چپ کروائیں، پھر فرمایا کہ میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘
٭ابوامامہ الباہلی سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
"یأیها الناس! خذوا من العلم قبل أن یُقبض العلم وقبل أن یرفع العلم وقد کان أنزل الله عزوجل ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَسْألُوْا عَنْ أشْیَاءَ إنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤکُمْ وَإنْ تَسْألُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَلَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْھَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ﴾ قال فکنا نذکرها کثیرا من مسألته وأتقینا ذلك حین أنزل الله على نبیه ﷺ قال فأتینا أعرابیا فرشوناه برداءه قال فاعتم به حتی رأیت حاشیة البرد خارجة من حاجبه الأیمن قال: ثم قلنا له سل النبي ﷺ قال فقال له یا نبي الله! کیف یرفع العلم منا وبین أظهرنا المصاحف وقد تعلمنا ما فیها وعلمناها نساءنا وذرارینا وخدمنا قال فرفع النبي ﷺ رأسه وقد علت وجهه حمرة من الغضب قال فقال: أي ثقلتك أمك! هذه الیهود والنصارى بین أظهرهم المصاحف لم یصبحوا یتعلقوا بحرف مما جاء تهم به أنبیاؤهم ألا وإن من ذهاب العلم أن یذهب حملته، ثلاث مرات" (مسنداحمد:۵؍۲۶۶)
ترجمہ: ’’اے لوگو! علم حاصل کر لو قبل اس کے کہ وہ قبض کرلیا جائے اور اٹھا لیا جائے (اور اس وقت تک یہ آیت نازل ہوچکی تھی) ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَسْاَلُوْا عَنْ أشْیَاءَ إنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُوْء کُمْ وَإنْ تَسْأَلُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَلَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْھَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ﴾کسی نے پوچھا کہ علم کیسے اُٹھا لیا جائے گا حالانکہ ہمارے پاس مصاحف موجود ہیں، ہم اس کو سیکھتے ہیں اور ان میں موجود (مسائل) اپنی عورتوں، اولاد اور خادموں کو بھی سکھلاتے ہیں؟ تونبی کریمﷺ نے سر اٹھایا اور آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا، فرمایا! تیری ماں تجھے گم پائے، یہود و نصاریٰ کے درمیان بھی تو مصاحف موجود تھے لیکن انہوں نے اپنے انبیاکی لائی ہوئی آسمانی کتابوں میں سے ایک حرف کے ساتھ بھی سروکار نہ رکھا۔ خبردار علم کے ختم ہوجانے کی ایک یہ بھی شکل ہے کہ اس کے جاننے والے ختم ہوجائیں ، آپﷺ نے یہ بات تین دفعہ کہی۔‘‘
٭فضالہ بن عبیدۃ انصاری سے روایت ہے کہ آپﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا:
"سأخبرکم، مَنِ المسلم؟ من سلم الناس من لسانه ویده والمؤمن من أمنه الناس على أموالهم وأنفسهم، والمهاجرین هجر الخطایا الذنوب، والمجهدین جاهد نفسه في طاعة الله تعالى" (کشف الاستار:۱۱۴۳)
’’عنقریب میں تمہیں خبردوں گا کہ مسلمان کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ سلامت رہیں، اور مؤمن وہ ہے جس سے لوگوں کے اموال اور جانیں امن میں رہیں، مہاجر وہ ہے جوگناہوں اور خطاؤں کو چھوڑ دے اور مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے۔‘‘
٭ ابوامامہ سے ہی روایت ہے کہ میں نے حجۃ الوداع میں نبیﷺ سے سنا کہ
"إن الله قد أعطى کل ذي حق حقه فلا وصیة لوارث"
(صحیح ابن ماجہ للالبانی:۲۱۹۳، اِرواء :۱۶۵۵، نسائی:۳۶۴۱، مشکوٰۃ:۳۰۷۳)
’’بے شک اللہ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا، اب وارث کیلئے کوئی وصیت نہیں۔‘‘
٭ حارث بن برصاء فرماتے ہیں کہ میں نے نبیؐ سے حجۃ الوداع میں سنا، آپﷺ نے فرمایا:
"من اقتطع حال أخیه بیمین فاجرة فلیتبوأ مقعده من النار" (ترغیب:۲؍۶۲)
’’جس شخص نے اپنے بھائی کا مال جھوٹی قسم سے ہتھیایا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘
٭ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں خطبہ دیا اور فرمایا:
"یأیها الناس! إني قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم به فلن تضلوا أبداً: کتاب الله وسنة نبیه إن کل مسلم أخ المسلم المسلمون إخوة" (مستدرک حاکم:۱؍۹۳)
’’اے لوگو! بے شک میں تم میں وہ چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے، وہ ہے: اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔ بے شک ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ (مستدرک حاکم:۱؍۹۳)
ایسی غیر مستند روایات جو خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب ہیں
٭ عبدالرحمن بن یزید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا:
"أرقائکم، أرقائکم، أطعموهم مما تأکلون، واکسوهم مما تلبسون فإن جاء وا بذنب لا تریدون أن تغفروه فبیعوا عباد الله ولا تعذبوهم" (مسنداحمد:۴؍۳۶)
’’ اپنے غلاموں کا خیال رکھو! جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ، جو خود پہنو، وہی ان کو پہناؤ… اگر وہ کوئی ایسی غلطی کر بیٹھیں کہ تم معاف نہ کرنا چاہو تو ان کو سزا مت دو بلکہ انہیں اللہ کے بندوں کو بیچ دو۔ ‘‘(سیرۃ النبی از شبلی نعمانی:ؒ۲؍۱۵۶)
حکم:یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند میں عاصم بن عبیداللہ جو کہ ابن عاصم بن عمر بن الخطاب ہے، ضعیف ہے۔ اس کے علاوہ یہ روایت مصنف عبدالرزاق (۱۷۹۳۵)، طبرانی (۲۲؍۶۳۶) میں بھی ہے۔ اور ان دونوں سندوں میں سفیان ثوری کی تدلیس ہے…اسی طرح طبقات ابن سعد (۳؍۲۷۷) اس میں عبداللہ الاسدی جو کہ ابواحمد الزبیری کی کنیت سے معروف ہے ضعیف راوی ہے کیونکہ یہ سفیان ثوری کی حدیث کے بارے میں غلطیاں کرتا ہے…مجمع الزوائد (۴؍۲۳۶) میں ھیثمی نے ذکر کیا اور کہا کہ اس روایت کو احمد اور طبرانی نے بھی اسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہے۔ الغرض غلاموں کے بارے میں اس مضمون کی حجۃ الوداع کے حوالے سے کوئی مستند روایت نہیں۔
نوٹ:لیکن ان الفاظ کے ساتھ یہ صحیح روایت بھی موجود ہے:
"إخونکم خولکم جعلکم الله تحت أیدیکم فمن کان أخوة تحت یده فلیُطعمه مما یأکل ولیلبسه مما یلبس ولا تکلفوهم ما یغلبهم فإن کلفتموهم فأعینوهم" (مسلم:۱۶۵۷،۱۶۶۱)، (مسنداحمد:۴۷۸۴)، (ابویعلی:۵۷۸۲)، (الادب المفرد:۱۸۰)، (ابوداود:۵۱۶۸)، (سنن بیہقی:۸؍۱۰)، (الشعب :۸۵۷۲)، (طبرانی فی الکبیر:۱۳۲۹۴) ان کتب میں اس مضمون کی روایت صحیح سند کے ساتھ موجود ہے لیکن وہ خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب نہیں۔
٭ ابوحرہ الرقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے اوسط ایام التشریق میں فرمایا:
"ألا ومن کانت عنده أمانة، فلیؤدها إلى من ائتمنه علیها" (مسنداحمد:۵؍۷۳)
(محسن انسانیت از نعیم صدیقی:صفحہ ۵۸۵)
حکم:یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں علی بن زید ضعیف ہے جو کہ ابن جدعان کی کنیت سے معروف ہے۔
٭ابوامامۃ الباہلی سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع میں نبیﷺ نے فرمایا:
"لا تنفق امرأة شیئا من بیتها إلا بإذن زوجها، قیل: یارسول الله! ولا طعام؟ قال: ذلك أفضل أموالنا، العاریة مؤداة، والمنیحة مردودة، والدین یقضی والزعیم غارم" (مصنف عبدالرزاق:۱۶۳۰۸)
’’ہاں عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ دینا جائز نہیں، قرض ادا کیا جائے، عاریتا واپس کی جائے، عطیہ لوٹایا جائے، ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔‘‘
حکم:یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں اسماعیل بن عیاش مُختلط راوی ہے۔ اس معنی کی روایت (ابوداود :۳۵۶۵، ابن ماجہ:۲۳۹۸) وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے لیکن خطبہ حجۃ الوداع کی طرف منسوب نہیں کی گئی۔
٭ ابن عمر سے روایت ہے کہ نبیؐ نے اوسط ایام التشریق میں فرمایا:
﴿إنَّمَا النَّسِئُ زِیَادَةٌ فِیْ الْکُفْرِ یُضَلُّ بِهِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَه عَامًا وَیُحَرِّمُوْنَه عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ﴾ کانوا یحلون صفرًا عاما، ویحرمون المحرم عاما ویحرمون صفرًا عاما، ویحلون المحرم عاما، فذلك النسیئ (کشف الاستار:۱۱۴۱)
’’سال کی کبیسہ گری کفر میں ایک زیادتی ہے۔ جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اس کے باعث بہکائے جارہے ہیں۔ وہ اسے ایک سال حلال کرلیتے ہیں اور اسے ایک سال حرام کرلیتے ہیں، تاکہ اس تعداد کا تکملہ کرلیں جو خدا نے حرام کررکھی ہے اور نسئ اس کوکہتے ہیں کہ وہ لوگ محرم کو ایک سال حرام قرار دیتے اور ایک سال صفر کو حلال قرار دیتے ، اسی طرح ایک سال صفر کے مہینے کو حرمت والا بنا دیتے ہیں تو ایک سال محرم کو لڑائی کے لئے حلال قرار دیتے ہیں۔‘‘
حکم:یہ روایت ضعیف ہے ، اس میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہے۔
٭ ابن صامت سے روایت ہے کہ آپﷺ نے عرفہ کے دن فرمایا:
"إن الله قد غفر لصالحیکم وشفع صالحیکم في طالحیکم ینزل المغفرة فتعمهم ثم یفرق المغفرة في الأرض فتقع على کل تائب ممن حفظ لسانه ویده وإبلیس وجنوده على جبال عرفات ینظرون ما یصنع الله فیهم، فإذا نزلت المغفرة دعا وجنوده بالویل" (الموضوعات:۲؍۲۱۶، ترغیب:۲؍۲۰۲، منثور : ۱؍۲۳۰)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے صالحین کو بخش دیا اور ان کی ضعیف اعمال والے لوگوں کے بارے میں بھی سفارش قبول کی جس کی و جہ سے اللہ کی رحمت اُترنے لگی اور عام ہونے لگی، پھر یہ مغفرت زمین پر بکھیر دی گئی، زبان اور ہاتھ کے گناہوں سے بچنے والے ہر تائب پریہ واقع ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم کو ابلیس اور ا س کا لشکر عرفات کے پہاڑوں پر سے دیکھ رہے ہیں۔ جب بھی اللہ کی رحمت اُترتی ہے تو ابلیس اور اس کے لشکر واویلا کرتے ہیں۔‘‘
حکم:یہ روایت موضوع ہے ،الحسن بن علی ازدی حدیثیں گھڑنے والا راوی ہے۔
اس روایت کی سند کے بارے میں ابن حبان لکھتے ہیں:
"لیس هذا الحدیث من کلام رسول الله ﷺ ولا من حدیث أبي هریرة ولا الأعرج ولا مالك والحسن بن علي کان یضع على الثقاة لا یحل کتب حدیثه ولا الروایة عنه حلال" (الموضوعات:۲؍۲۱۶)
’’یہ روایت اللہ کے رسولﷺکے کلام میں سے نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ابوہریرۃ کی کلام ہے اور نہ اعرج و مالک کے کلام میں سے ہے۔ حسن بن علی الازدی ثقات پر جھوٹ باندھتا تھا، اس سے روایت کرنا جائزنہیں۔‘‘
٭ حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبیٓﷺ نے فرمایا:
"المؤمن حرام على المؤمن کحرمة هذا الیوم، لحمه علیه حرام أن یاکله بالغیبة یغتابه وعرضه علیه حرام أن یظلمه وأذاه علیه حرام أن یدفعه دفعا" (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۸)
’’مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے اس طرح حرمت والا جس طرح آج (یوم الاضحی) کا دن حرمت والا ہے اور مؤمن کا گوشت دوسرے مؤمن پر حرام ہے جو وہ اس کی غیبت کرکے کھاتا ہے اور اس کی عزت بھی حرام ہے کہ ظلم کرکے اس کی بے عزتی کرے اور اس کو ردّ ؍ دور کرکے تکلیف پہنچانا بھی حرام ہے۔‘‘
حکم:یہ روایت ضعیف ہے، اس میں محمد بن اسماعیل بن عیاش ضعیف ہے۔
٭ سنن ابن ماجہ میں ابن مطر سے مروی ہے کہ نبیؐ نے حجۃ الوداع میں فرمایا:
"یاأیها الناس خذوا العطاء ماکان عطاء فإذا تجاحفت قریش على الملك وکان عن دین أحدکم فدعوہ" (ضعیف سنن ابی داود للالبانی:۶۳۳)
(آپ لوگوں کو نصیحت فرما رہے تھے ، نیک کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے منع کررہے تھے۔ سو آپﷺ نے فرمایا:
اے لوگو! (حاکم) کی بخشش کو لے لیا کرو جب تک وہ بخشش رہے (یعنی موافق شرع کے حاصل ہو اور موافق شرع کے تقسیم ہو) پھر جب قریش ایک دوسرے کے ساتھ بادشاہت کے لئے لڑنا شروع کردیں اور یہ عطا فرض کے بدلہ میں ملے تو اس کو چھوڑ دو۔‘‘
حکم:یہ روایت ضعیف ہے، دیکھئے حوالہ مذکورہ ؛ ضعیف سنن ابی داؤد للالبانی
٭ کعب بن عاصم الاشعری کہتے ہیں کہ میں نے اوسط ایام التشریق میں نبیؐ سے خطبہ سنا، آپؐ فرمارہے تھے :
"المؤمن على المؤمن حرام کحرمة هذا الیوم لحمه علیه حرام أن یاکله بالغیب ویغتابه وعرضه علیه حرام أن یخرقه ووجهه علیه حرام أن یلطمه وأذاه علیه حرام أن یؤذیه وعلیه حرام أن یدفعه دفعا یتعتعه" (مجمع الزوائد:۳؍۲۷۲)
’’مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے اس طرح حرمت والا ہے جس طرح آج کا یہ دن حرمت والا ہے۔اس کاگوشت بھی اس پر حرام ہے، وہ جو اس کی غیبت کر کے کھاتا ہے۔اس کی عزت کو تار تار کرنا، چہرے پر تھپڑ مارنا، اس کو اذیت دینا اور دھکے دے کر دفع دور کرنا بھی حرام ہے ۔‘‘ (مجمع الزوائد :۳؍۲۷۲)
حکم:اس روایت میں کرامۃ بنت الحسن مجہول ہے۔
٭ ابوامامہ الباہلی سے روایت ہے کہ آپؐ نے یوم العرفہ کو فرمایا:
"ألا کل نبي قد مضت دعوته إلا دعوتي فإني قد ذخرتها عند ربي إلى یوم القیامة، أما بعد! فإن الانبیاء مکاثرون فلا تخزوني فإني جالس لکم على باب الحوض" (مجمع الزوائد:۳؍۲۷۱، کنز الاعمال:۳۹۰۸۵)
’’خبردار! ہر نبی اپنی دعا کے ساتھ گزر چکے لیکن میں نے اپنے ربّ کے پاس اپنی دعا قیامت کے دن کے لئے ذخیرہ کر چھوڑی ہے۔ پس بے شک انبیا اپنی اپنی امت کی کثرت دیکھ رہے ہوں گے، سو تم مجھے خفت میں نہ ڈالنا، میں تمہارے لئے حوضِ کوثر کے دروازے پر بیٹھا ہوں گا۔‘‘
حکم:یہ روایت ضعیف ہے ، اس میں بقیۃ بن الولید مدلس ہے۔
٭ امام ابوداؤد اپنی ’سنن‘ میں باب الخطبۃ علی المنبر بعرفۃکے تحت روایت لائے ہیں
"عن رجل من بنی ضمرة، عن أبیه، أو عمه قال: رأیت رسول الله ﷺ وهو على المنبر بعرفة"
’’بنو ضمرہ (قبیلہ ) کا ایک آدمی اپنے والد یا چچا سے روایت کرتا ہے کہ میں نے رسول اللہ ا کو دیکھا، وہ عرفہ کے روز منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔‘‘
حکم:یہ روایت ضعیف ہے، دیکھئے (ضعیف سنن ابی داؤد للالبانی : ۴۱۶)
خطبۂ حجۃ الوداع: منشورِ انسانیت
آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا سے خطاب شرو ع کیا…
مرد و زَن کے حقوق و فرائض:عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پرکسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو گواراہ نہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ۔
ہدایت نامہ :اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ اللہ کی کتاب ہے اور اس کے نبیﷺ کی سنت ہے۔
انسانی مساوات :لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے ہاں عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔
حرمت سود :خبردار! جاہلیت کا ہر قسم کا سود اب ختم ہے ۔تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے ،نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی تم ظلم کا شکار ہو اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں، عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے اب یہ سارے کا سارا سود ختم ہے!!
جاہلیت کے خون معاف :سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیے گئے اور ہمارے خون میں سب سے پہلے خون جسے میں ختم کررہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایام میں قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کردیا۔
ذاتی ذمہ داری : یاد رکھو! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا (یعنی اس جرم کی پاداش میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مجرم ہی پکڑا جائے گا) کوئی جرم کرنے والا اپنے بیٹے پر یا کوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم نہیںکرتا (یعنی باپ کے جرم میں بیٹے کو یا بیٹے کے جرم میں باپ کو نہیں پکڑا جائے گا)
اطاعت امیر :اگر کوئی حبشی یعنی بریدہ غلام بھی تمہارا قائد بتا دیا جائے اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔
تلقین پیغام رسانی :جو شخص موجود ہے، وہ غیر موجود تک (میری باتیں) پہنچا دے، کیونکہ بعض وہ افراد جن تک (یہ باتیں) پہنچائی جائیں گی وہ بعض (موجودہ) سننے والوں سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دروبست کو سمجھ سکیں گے۔
باہمی سلوک: خبردار! کسی مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسرے مسلمان کے لئے حلال نہیں جب تک وہ خود حلال نہ کرے اور اپنی خواہش سے نہ دے دے۔
بدکاری کا خاتمہ :بچہ اس کا جس کے بستر پر تولد ہوا اور بدکار کے لئے پتھر ہیں۔
حفاظت نسب :جس نے اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا یا جس نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو آقا ظاہرکیا تو ایسے شخص پر اللہ اور فرشتوں اور عام انسانوں کی طرف سے لعنت ہے۔ اس سے (قیامت کے دن) کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہوگا۔
قوم کی ہلاکت کے مرض کی نشاندہی :لوگو! مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی سے ہلاک ہوئیں۔
اہمیت علم :اے لوگو! علم حاصل کرو قبل اس کے کہ وہ قبض کرلیا جائے اور اٹھالیا جائے۔
خبردار! علم کے ختم ہوجانے کی ایک یہ بھی شکل ہے کہ اس کے جاننے والے ختم ہوجائیں (یہ بات آپﷺ نے تین دفعہ دہرائی)
احترام انسانیت :عنقریب میں تمہیں خبر دوں گا کہ مسلمان کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ سلامت رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے اموال اور جانیں محفوظ رہیں۔
دھوکہ دہی کی حوصلہ شکنی :جس شخصنے اپنے بھائی کا مال جھوٹی قسم سے ہتھیایا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔
باہمی اخوت :بے شک ہرمسلما ن دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
بڑے دشمن کی پہچان :کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو اس (دجال) کے بارے میں نہ ڈرایا ہو۔ نوح ؑ اور اس کے بعد آنے والے نبیوں ؑ نے بھی اس کے بارے میں ڈرایا۔ وہ تم (امت محمدیہ کے زمانہ) میں ظاہر ہوگا اور یہ بات تم خوب جانتے ہو۔ اس کی حالت بھی تم سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی یہ بات تم پر مخفی ہے کہ تمہارا رب ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو تمہارے لئے پردہ میں ہیں۔ تمہارا ربّ کا نا نہیں جبکہ اس (دجال) کی دائیں آنکھ کانی ہے اور وہ آنکھ اس طرح ہے جس طرح پھولا ہو منقیٰ ہوتا ہے۔
حکمرانوں کی خیرخواہی :تین چیزیں ہیں جن پر مؤمن کا دل خیانت (تقصیر) نہیں کرتا۔ صرف اللہ کے لئے عمل کے اخلاص میں، مسلمانوں کے حکمرانوں کی خیر خواہی میں اور ان کی جماعت سے چمٹے رہنے میں۔
حق وراثت :اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر وارث کے لئے ثابت کردہ حصہ مقرر کردیا ہے۔ اب وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔
سچ کی تلقین :خبردار! عنقریب تم سے میرے بارے میں سوال ہوگا۔ جس نے بھی مجھ پرجھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔
حفاظت دین :اپنے پروردگار کی عبادت کرو پانچوں وقت کی نماز پڑھو اور حج کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ یہ سب کام خوشی سے سرانجام دو تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔
درس اتحاد :اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا، لہٰذا دیکھو میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
شہادت اور تکمیل مشن :اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ کرام ؓ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔ یہ سن کر آپؐ نے انگشت ِشہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ، اے اللہ گواہ رہے، اے اللہ گواہ رہے!!
اُنہی ایام میں یہ وحی نازل ہوئی:
﴿اَلْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ:۳)
’’آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا۔‘‘

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں