سات روحانی عادات


ہمیں سیرت کی مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رمضان کی آمد سے چھ ماہ پہلے اس کی تیاری شروع کردیا کرتے تھے، اور رمضان کی آمد پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اگلے رمضان کو پانے کی دعا کیا کرتے تھے اور رمضان کے اختتام ہونے پر گڑگڑا کر اپنی عبادات کی قبولیت کی دعا کیا کرتے تھے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خوش قسمت تھے کہ ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب تھی، جو کہ ایک مثالی شخصیت اور سیکھنے اور پیروی کرنے کے لیے بہترین انسان تھے۔ جبکہ ہم اس سے محروم ہیں مگر ہمارے پاس سیکھنے اور عمل کرنے کے لیے ان کی سنت موجود ہے۔

رمضان بہترین موقع ہے اپنی کوتاہیوں پر معافی مانگنے کا اوربہترین عادات اپنا کر ایک نئی شروعات کرنے کا۔ ان شاء اللہ

1- نماز کی پابندی:
سیرت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نماز کے گرد گھومتی تھی، چاہے وہ گھر پہ ہوں، سفر میں ہوں یا پھر جنگ کے میدان میں: وہ کبھی اپنی نماز نہیں چھوڑتے تھے۔ نماز کو اپنے مقررہ وقت پر ادا کرنا اللہ کے نزدیک نہایت محبوب عمل ہے۔

صاحبِ علم حضرات تجویز کرتے ہیں کہ نماز کو مقررہ وقت پر ادا کرنے کو یقینی بنانے کے لیے اس کے لیے وقت سے پہلے تیار ہونا چاہئیے۔ یعنی نماز کے وقت سے کچھ پہلے اپنا کام چھوڑ کر وضوکرلیں، اس طرح ہم "نماز موڈ" میں آجائیں گے اور ہمارا نفس ہمیں مجبور نہیں کرسکتا کہ ہم نماز میں دیر کریں یا اس کی عجلت میں ادا کریں۔ خشوع و خضوع سے ادا کی ہوئی نماز کی قبولیت کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

2- قرآن کے ساتھ کچھ وقت گزاریں:
رمضان قرآن کا مہینہ ہے، لہٰذا ہمیں دن کا کچھ وقت قرآن کے لیے مختص کرنا چاہئیے۔ قرآن کے ایک مسلمان پر پانچ حقوق ہیں
٭اس پر ایمان لانا
٭اس کی تلاوت کرنا
٭ اس کو سمجھنا
٭ اس پر عمل کرنا
٭ اس کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانا
ہم کس طرح یہ حقوق ادا کرسکتے ہیں جب ہم اس کے ساتھ کچھ وقت نہیں گزاریں گے؟ ہم اس کے مطابق کیسے ذندگی گزاریں گے جب ہم اس کو سمجھیں گے نہیں؟ ہم کیسے دوسروں کو اس کی طرف بلائیں گے جب ہم خود اس سے دور ہوں گے؟

اگر آپ قرآن سے بہت عرصے سے دور ہیں تو رمضان بہترین موقع ہے قرآن سے دوبارہ جڑنے کا، چند آیات کی تلاوت سے آغاز کریں، پھر روز ایک صفحہ پڑھیں اور پھر ان شاء اللہ روز ایک جُز (پارہ)، البتہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے "کتنا قرآن پڑھا" بلکہ اہم یہ ہے کہ "کتنا سمجھا اور اپنے اوپر لاگو کیا

3- باقاعدگی سے صدقہ/خیرات دیں:
ہم آزمائشوں اور فتنوں کے دور میں جی رہے ہیں۔ ان مشکلات سے محفوظ رہنے کا ایک مجوزہ طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ کھلے دل سے میں خرچ کریں۔ اپنے گھر میں نظر دوڑائیں، کتنی ہی چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے پاس اضافی ہیں اور ان کو ہفتوں، مہینوں یا سالوں سے ہم نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ یہ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہم چیزیں خرید کر ان کو رکھ دیتے ہیں اور جب کبھی سالانہ صفائی ہوتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ کیا کیا رکھا ہوا ہے۔ 
آپ کے پاس جو بھی اضافی (اپنی ضرورت سے زیادہ) سامان ہو اس رمضان ان لوگوں کو دیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے، آخرت میں اپنے گھر کی تعمیر و تزئین کو مقصود بناتے ہوئے اپنے پاس موجود "اچھا سامان" عطیہ کریں نہ کہ فالتو اور بے کار سامان۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ آپ جو بھی کسی انسان یا ادارے کو دے رہے ہیں وہ اصل میں "اللہ" کو دے رہے ہیں۔ کیا ہمارا دیا ہوا اس کے شایانِ شان ہے جو تمام خزانوں کا مالک ہے؟

صرف دولت خرچ کرنا ہی صدقہ نہیں ہے، اپنا وقت دینا ، اپنی صلاحیتیں صرف کرنا، لوگوں کے ساتھ مہربانی کرنا، مسکرانا یہ سب صدقے کی مختلف شکلیں ہیں۔ صدقے کی تعریف کو وسعت دیتے ہوئے اللہ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ نیکی کرکے اپنے درجات بلند کریں۔

4- علم کی محافل میں شرکت:
ہم اپنی عبادات میں محبت  اور تعلق نہیں پا سکتے جب تک کہ ہمیں دین کا علم حاصل نہ ہو، اور یہ پتا نہ ہو کہ ہم کیا اور کیوں مانگ رہے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
جو شخص کسی راستے پر حصول علم کے لیے چلے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم)

5- حالت طہارت میں رہیں:
کئی مرتبہ ہم اپنی عبادات اس وجہ سے چھوڑ دیتے یا تاخیر کرتے ہیں کہ ہم طہارت کی حالت میں نہیں ہوتے۔ یہ کسی بیماری کی حالت میں تو ٹھیک ہے مگر یہ ہر کسی پہ لاگو نہیں ہوتا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئیے کہ ہر وقت حالت طہارت میں رہیں تاکہ فرشتے ہمارے ساتھ رہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
'' ان جسموں کو پاک کرو اللہ تمہیں پاکیزگی عطا فرمائے ۔ جو بندہ بھی طہارت کی حالت میں سوئے
یقیناً ایک فرشتہ اس کے ساتھ رات بسر کرتا ہے ۔
جب بھی وہ شخص رات کے کسی وقت کروٹ بدلتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے : '' اے اللہ !
اپنے بندے کو معاف فرما ، یقیناً وہ باوضو سویا تھا '' (صحیح الجامع الصغیر)

ہر وقت باوضو رہنے کی عادت ڈالیں اورمنہ کی صفائی کے لیے مسواک کا ستعمال کریں۔

6- اپنے غصے اور اپنی زبان پر قابو:
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:"جب تم روزہ رکھو پس چاہئیے کہ تمہارے کان، آنکھ،اور زبان ،جھوٹ، اورحرام باتوں سے روزہ رکھیں، اور پڑوسی کو تکلیف پہنچانا چھوڑدو، تم پر وقار اور سکینت رہنی چاہئیے، روزہ اور غیر روزہ کا دن برابر نہ بناؤ"۔( شعب الایمان ]
یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ہمیں وہ مہینہ عطا کیا جس میں ہم شعوری طور پر اپنی بری عادات پر قابو پاتے ہیں یا ان کو چھوڑ دیتے ہیں۔ رمضان کے بعد بھی اس روش پر قائم رہیں۔ ان محافل سے دور رہیں جن میں جانے سے زبان کی بری عادات میں پڑنے کا اندیشہ ہو۔

7- موت کو اکثر یاد کریں:
ایک صاحب علم کا کہنا ہے کہ: "جب تم اللہ کی عبادت کے لیے نماز نہ پڑھا تو خود کو قبر میں تصور کرو، آپ کیسا محسوس کریں گے؟"
ہم سے ہر کوئی اپنی قبر کو وسیع اور روشنی سے بھرا دیکھنا چاہتا ہے، جہاں قرآن اور ہمارے نیک اعمال ہمارے ساتھی ہوں گے۔ مگر وہ کیسے وہاں ہمارا ساتھ دیں گے جب ہم اس دنیا میں ان سے جڑے نہیں ہونگے؟
اپنی موت کو یاد رکھنے کی عادت ڈالیں، اس سے آپ کو اپنے دن اور رات گزارنے میں مدد ملے گی کہ کس طرح گزارے جائیں۔ 



تبصرے میں اپنی رائے کا اظہار کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں