⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
( قسط نمبر-31)
ابو نصر کے ہونٹ ہلے لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکا۔ اسی سے سب سمجھ گئے کہ یہ شخص آتش پرستوں کا مخبر ہے ۔ اس نے آخر اس الزام کو تسلیم نہ کیا۔ ’’میں تمہیں دیکھ رہی تھی۔‘‘اس عورت نے کہا۔ ’’تم ٹھیکری کے پیچھے غائب ہو گئے اور وہاں سے شمر نکلا۔‘‘ ’’دیکھ ابو نصر! ‘‘ایک بوڑھے نے کہا۔ ’’ہمیں کوئی ڈر نہیں کہ اب تم شمرکو یہ بھی جا کر بتا دو گے کہ ہم نے تمہیں مخبر اور غدار کہا ہے ۔ یہ سوچ لو کہ آتش پرست تمہیں گلے نہیں لگائیں گے۔ وہ کہتے ہوں گے کہ تم ان کے غلام ہو اور اپنی قوم کے خلاف مخبری اور غداری تمہارا فرض ہے۔‘‘ ابو نصر نے سر جھکا لیا۔ اس پر طعنوں اور گالیوں کے تیر برسنے لگے جس کے منہ میں جو آیا اس نے کہا۔ آخر ابو نصر نے سر اٹھایا ۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے دھلا ہوا تھا اور آنسو بہے چلے جا رہے تھے۔ ندامت کے یہ آنسو دیکھ کر سب خاموش ہو گئے۔’’تمہیں آخر کتنا انعام ملتا ہو گا؟‘‘ان کے ایک بزرگ نے پوچھا۔ ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ابو نصر نے سسکی لینے کے انداز میں کہا۔’’میں نے یہ پہلی مخبری کی ہے ۔ اگر تم لوگ مجھے موت کی سزا دینا چاہو تو مجھے قبول ہے۔‘‘ ’’ہم پوچھتے ہیں ،کیوں؟‘‘ ایک نے کہا۔’’آخر تم نے یہ حرکت کیوں کی؟‘‘ ’’میری مجبوری۔‘‘ابونصرنے جواب دیا۔’’پرسوں کی بات ہے ،اس کماندار نے مجھے راستے میں روک کر کہا تھا کہ میں زہرہ کے گھر پر نظر رکھوں ۔ اس کامطلب یہ تھا کہ میں یہ نظررکھوں کہ زہرہ گھر سے بھاگ نہ جائے اور اسے کسی جوان آدمی کے ساتھ الگ تھلگ کھڑا دیکھو ں تو اسے اطلاع دوں……میں نے اسے کہا کہ میں اس لڑکی پر نظر رکھوں گا۔ لیکن میری دو بیٹیوں پر کون نظر رکھے گا۔ میں نے کہا کہ شاہی فوج کے کماندار اور سپاہی ہماری بیٹیوں کو بری نظر سے دیکھتے رہتے ہیں……‘‘ ’’شمر میری بات سمجھ گیا، اس نے کہا کہ تمہاری بیٹیوں کو کوئی شاہی فوجی آنکھ اٹھا کربھی نہیں دیکھے گا۔ اس نے میرے ساتھ پکا وعدہ کیا کہ وہ میری بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کا پکا انتظام کرے گا……یہ میرے لیے بہت بڑا انعام تھا۔‘‘ ’’خدا کی قسم!‘‘ بوڑھے نے کہا۔’’تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں مسلمان کہا جائے۔ تم نے اپنی بیٹیوں کی عزت بچانے کیلئے اپنے بھائی کی بیٹی کی عزت کا خیال نہ کیا۔‘‘’’تجھ پر خدا کی لعنت ہو ابو نصر!‘‘ ایک اور بولا۔’’تو جانتا ہے کہ ان آتش پرستوں کے وعدے کتنے جھوٹے ہوتے ہیں۔ان میں تمہیں کوئی ایک بھی نہیں ملے گا جو کسی مسلمان سے وفا کرے۔‘‘’’اپنی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کیلئے ہم خود موجود ہیں۔‘‘ایک اور نے کہا۔’’تمہاری بیٹیاں ہماری بیٹیاں ہیں۔‘‘’’میں اسے معاف کرتا ہوں۔‘‘زہرہ کے باپ سعود نے کہا۔
’’اور میں بھی اسے معاف کرتا ہوں۔‘‘خدام بولا۔’’خدا کی قسم! میں شمر سے انتقام لوں گا۔‘‘’’جوش میں مت آ لڑکے!‘‘بزرگ عرب نے کہا۔’’کچھ کرنا ہے تو کرکے دکھا۔ اور یہ بھی یاد رکھ کہ جوش میں آکے مت بول، دماغ کو ٹھنڈا کرکے سوچ۔‘‘دوسری صبح جب یہ مسلمان کھیتوں اور باغوں میں کام کرنے کیلئے گئے تو ان میں خدام نہیں تھا۔ ہر کسی نے خدام کے باپ سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ باپ پریشان تھا۔اسے صبح پتا چلا تھا کہ خدام غائب ہے۔’’زرتشت کے یہ پجاری میرے بیٹے کو کھا گئے ہیں۔‘‘خدام کے باپ نے روتے ہوئے کہا۔’’اسے انہوں نے کسی طرح دھوکے سے باہر بلایا ہو گا اور قتل کرکے لاش دریا میں بہا دی ہو گی۔‘‘سب کا یہی خیال تھا۔ صرف زہرہ تھی جسے امید تھی کہ خدام خود کہیں چلا گیا ہو گا۔اس نے زہرہ کو بتایا تھا کہ کہ وہ کچھ دنوں کیلئے کہیں غائب ہو جائے گا۔ زہرہ نے یہ بات کسی کو نہ بتائی بلکہ اس نے بھی یہی کہا کہ خدام کو ایرانیوں نے غائب کردیا ہے۔ زہرہ نے اپنی سہیلیوں سے کہا کہ وہ دو تین روز ہی خدام کا انتظار کرے گی ۔ وہ نہ آیا تو دریا میں ڈوب مرے گی۔ تین چار روز بعد رات کو شمر فوج کی ایک چوکی میں بیٹھا دو نو عمر لڑکوں کا رقص دیکھ رہا تھا۔ ایران کے شاہی درباروں میں ایسے لڑکوں کا رقص مقبول تھا جن کے جسم لڑکیوں کی طرح دل کش ،گداز اور لچکدار ہوتے تھے۔انہیں ایسا لباس پہنایا جاتا تھا جس میں وہ نیم عریاں رہتے تھے۔ شِمر شاہی خاندان کا فرد تھا ۔اس رات یہ دولڑکے اس نے اپنے سپاہیوں کیلئے بلائے تھے ۔ شراب کا دور چل رہا تھا۔ سپاہی چیخ چیخ کا داد دے رہے تھے ۔شراب میں بدمست ہوکر دو تین سپاہیوں نے بھی لڑکوں کے ساتھ ہی ناچنا شروع کر دیا۔ شمر کے حکم پر ان سپاہیوں کو دوسرے سپاہی اٹھاکر چوکی سے باہر پھینک آئے۔ یہ چوکی چھوٹا سا ایک قلعہ تھا۔ لیکن اس کے دروازے رات کو بھی کھلے رہتے تھے۔ایرانیوں کو کسی دشمن کے حملے کا خطرہ نہیں تھا۔ وہ اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔رقص جب اپنے عروج کو پہنچا اور شراب کا نشہ شمر اور اس کے سپاہیوں کے دماغ کو ماؤف کرنے لگا تو سنسناتا ہوا ایک تیر آیا جو شمر کی گردن میں ایک طرف سے لگا اور اس کی نوک دوسری طرف سے باہر نکل گئی۔ شمر دونوں ہاتھ اپنی گردن پر رکھ کر اٹھا۔ سپاہیوں میں ہڑبونگ مچ گئی ۔ وہ سب شمر کے گرد اکھٹے ہو گئے ۔ تین چار اور تیر آئے ۔ تین چار چیخیں سنائی دیں ۔ پھر ان ایرانیوں پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔انہیں سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا اور وہ کٹنے لگے۔ان میں سے جو بھاگ کر دروازوں کی طرف گئے وہ دروازوں میں کٹ گئے۔
چوکی والوں کو کہیں سے بھی مدد نہیں مل سکتی تھی۔ کسی بھی دروازے سے کوئی باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ا نہیں ہتھیار اٹھانے کی تو مہلت ہی نہیں ملی تھی۔ اس حملے میں جو بچ گئے وہ زمین پر لیٹ گئے ۔ یہ ایک طوفان تھا یا بگولہ جو غیر متوقع طورپر آیا اور جب گزر گیا تو اپنے ساتھ وہ تمام مال و دولت جو اس چوکی میں تھا لے گیا ۔ پیچھے لاشیں رہ گئیں یا تڑپتے ہوئے زخمی یا وہ اچھے بھلے ایرانی سپاہی جو جان بچانے کیلئے لاشوں اور زخمیوں میں لیٹ گئے تھے۔
صبح ہوئی ۔مسلمان کھیتوں اور باغوں میں کام کرنے کیلئے گھروں سے نکل رہے تھے کہ گھوڑ سوار ایرانی فوج نے ان کی بستی کو گھیرے میں لے لیا۔ دوسری چوکی کو اس وقت اس چوکی پر حملے کی اطلاع ملی تھی جب حملہ آور اپنا کام کرکے بہت دور نکل گئے تھے۔ مسلمانوں کو کام پرجانے سے روک لیا گیا ۔ایرانی فوجیوں نے مردوں کو الگ اکھٹا کرکے کھڑا کر دیا اور ان کے گھروں سے عورتوں کو باہر نکال کر مردوں سے دور کھڑا رہنے کا حکم دیا۔ فوجی ان کے گھروں میں گھس گئے اور اس طرح تلاشی لی جیسے ان کے مکانوں کے فرش بھی کھود کر دیکھے ہوں۔انہیں کسی گھر سے ایسی کوئی چیز نہ ملی جو شک پیدا کرتی البتہ سپاہیوں کو اپنے کام کی جو چیزیں نظر آئیں وہ انہوں نے اٹھالیں۔ پھر انہوں نے عورتوں اور مردوں کو اکھٹا کھڑا کرکے انہیں دھمکیاں دیں۔ مسلمانوں کے ساتھ یہ سلوک ان کیلئے نیا نہیں تھا۔ کسی نہ کسی بہانے ان کے گھروں کی تلاشی ہوتی ہی رہتی تھی۔ اس کے بعد انہیں اسی طرح کی دھمکیاں ملتی تھیں لیکن اب ایرانیوں کو معقول بہانہ ملا تھا۔’’رات ابلہ کی ایک مضافاتی چوکی پر بہت سے آدمیوں نے شب خون مارا ہے۔‘‘ایک ایرانی کماندار نے مسلمانوں سے کہا۔’’ہمارا ایک کماندار اور ساٹھ سپاہی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ہیں اگر تم میں کوئی مرد یا عورت اس گروہ کے کسی ایک آدمی کو بھی پکڑ وائے گا اسے انعام ملے گا۔ نقد انعام کے علاوہ اسے اس فصل کا آدھا حصہ ملے گا۔‘‘اس نے سب پر نگاہ دوڑائی اور پوچھا۔’’ایک دوسرے کو دیکھ کر بتاؤ کہ تم میں کون غیر حاضر ہے۔‘‘سب نے ادھر ادھر دیکھا لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ کون غیر حاضر ہے۔ان کی نگاہیں خدام کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ وہ تین چار دنوں سے بستی سے غائب تھا۔ سب نے دیکھا کہ خدام وہاں موجود تھا۔ سب نے سکون کی سانس لی۔ پھر بہت سی آوازیں اٹھیں کہ کوئی بھی غیر حاضر نہیں۔ایرانی فوجیوں کے جانے کے بعد جنہیں معلوم تھا کہ خدام تین چار روز غائب رہا ہے وہ باری باری اس سے پوچھنے لگے کہ وہ کہاں چلا گیا تھا۔’’میں شمر کے ڈر سے بھاگ گیا تھا۔‘‘خدام نے ہر کسی کو یہی جواب دیا۔ اس کے باپ نے سب کو بتایا تھا کہ خدام گزشتہ رات کے پچھلے پہر آیا تھا۔اس روز باغ میں کام کرتے ہوئے زہرہ اور خدام کام سے کھسک گئے اور اس جگہ جا بیٹھے جہاں انہیں کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا۔زہرہ خوشی سے پاگل ہوئی جا رہی تھی اوروہ رہ رہ کر خدام کی بلائیں لیتی تھی۔’’یہ کیسے ہوا خدام؟‘‘اس نے خوشی سے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے پوچھا۔’’یہ ہوا کیسے؟‘‘’’اسے ﷲ کی مدد کہتے ہیں زہرہ!‘‘خدام نے کہا۔’’اب نہ کہنا کہ خدا مدد نہیں کرتا۔‘‘
’’خدام!‘‘زہرہ سنجیدہ ہو گئی جیسے اس کے ہونٹوں پر کبھی مسکراہٹ آئی ہی نہ ہو۔خدام کے چہرے پر نظریں گاڑھ کر قدرے پریشان سے لہجے میں بولی۔’’سچ کہو خدام! شمر کے قاتل تم ہی تو نہیں؟……کہتے ہیں رات صحرائی ڈاکوؤں کے بہت بڑے گروہ نے شمر کی چوکی پر اس وقت شب خون مارا جب وہ شراب اور رقص میں بد مست تھے ۔ایسا تو نہیں کہ تم ان ڈاکوؤں سے جا……‘‘خدام کے اچانک قہقہے نے بنتِ سعود کی بات پوری نہ ہونے دی۔ وہ ہنستا ہی رہا۔جیسے اس سے بڑا مذاق اس نے کبھی سُنا ہی نہ ہو۔ خدام نے قہقہے میں ایک راز چھپا لیاتھا۔ زہرہ کو یہ خطرہ نظر آیا تھا کہ خدام غیر معمولی طور پر دلیر، غیرت مند اور جسمانی لحاظ سے طاقتور اور پھرتیلا ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ وہ شمر کو قتل کرانے کیلئے ڈاکوؤں کے گروہ سے جا ملا ہو۔اس زمانے میں صحرائی ڈاکوؤں کے گروہ فوجی دستوں کی طرح اپنی کارروائیاں کرتے تھے۔ وہ مسافروں کے قافلوں کو لوٹتے اور اگر فوج کے مقابلے میں آجاتے تو جم کر مقابلہ کرتے اور لڑتے لڑتے یوں غائب ہوجاتے جیسے انہیں صحرا کی ریت اور ریتیلے ٹیلوں نے نگل لیا ہو۔ زہرہ نے کئی بار دیکھا تھا کہ دو تین اجنبی مسافر آئے اور یہ بتا کر کہ وہ بہت دور جا رہے ہیں ،کسی مسلمان کے گھر ٹھہرے اور صبح ہوتے ہی چلے گئے،وہ جب بھی آتے تھے ،خدام اور اس جیسے تین چار نوجوان زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارتے اور ان کے جانے کے بعد یہ نوجوان پراسرار سی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے تھے۔ زہرہ نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اجنبی مسافروں کے جانے کے بعد مسلمان قبیلوں کے بزرگ سرجوڑ کر بیٹھ جاتے اور سرگوشیوں میں باتیں کرتے تھے۔پھر جب مسلمان کھیتی باڑی،باغبانی اور دیگر کاموں میں مصروف ہوتے تو یہ بزرگ ان کے درمیان گھومتے پھرتے اور ان کے ساتھ ایسی باتیں کرتے جیسے وعظ کر رہے ہوں۔’’اپنے مذہب کو نہ چھوڑنا۔‘‘بزرگ اس قسم کی باتیں کرتے تھے۔’’جس ﷲ کے بھیجے ہوئے رسولﷺ کو مانتے ہو اس ﷲ کی مدد آ رہی ہے……آتش پرست طاقتور ہیں ،بہت طاقتور ہیں لیکن وہ ﷲ سے زیادہ طاقتور نہیں……ثابت قدم رہو……ظالم کا ہاتھ کٹنے والا ہے……ﷲ مظلومین کے ساتھ ہے۔‘‘
’’کب؟……آخر کب؟‘‘ایک روز ایک آدمی نے جھنجھلا کر ان بزرگوں سے پوچھا۔’’خدا کی قسم! تم یہ کہہ رہے ہو کہ ہم ظلم و ستم سہتے چلے جائیں اور چپ رہیں اور تمہارے وعظ سنتے رہیں ۔اگر آج ہم کہہ دیں کہ ہم مسلمان نہیں اور اسلام کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں تو غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں……خدا کی مدد آرہی ہے۔ کب آ رہی ہے؟‘‘’’اسے بتاؤ۔‘‘ایک بزرگ نے اس آدمی کے ساتھ کام کرنے والے ایک آدمی سے کہا۔’’اسے اچھی طرح سمجھاؤ……اسے بتاؤ کہ اس علاقے میں یہ صدیوں پرانے کھنڈر ہیں ،خدا کا ہاتھ ان میں سے اٹھے گا اور ظالم کا ہاتھ کٹ جائے گا۔‘‘ان بزرگوں کے سینے میں وہی راز تھا جو خدام نے زہرہ بنتِ سعود سے چھپا لیا تھا۔ ایرانی کماندار شمر کی چوکی پر جو اتنا زبردست شب خون مارا گیا تھا وہ پہلا شب خون نہیں تھا۔ اُبلہ کے علاقے میں یہ پہلا تھا ۔یہ چوکی چونکہ آبادی کے قریب تھی اس لیے ان مسلمانوں کو پتا چل گیا تھا ۔اگر ان کے گھروں کی تلاشی نہ لینی ہوتی تو شاید انہیں پتا ہی نہ چلتا۔عراق کے سرحدی علاقے میں یہ دوسری تیسری رات ایرانیوں کی کسی نہ کسی چوکی پر ایسا ہی شب خون پڑتا اور شب خون مارنے والے چوکی میں قتل و غارت کرکے وہاں سے جو مال اور سامان ہاتھ لگتا ،لے کر غائب ہو جاتے۔دو بار ایرانی فوج نے یہ جوابی کارروائی کی کہ کثیر تعداد گھوڑ سوار دستہ شب خون مارنے والوں کی تلاش میں گیا۔اس سر سبز اور شاداب علاقے سے نکلتے ہی صحرا شروع ہو جاتا تھا۔جو ہموار صحرا نہیں تھا۔ وہاں ریت کی گول گول اور اونچی اونچی ٹیکریاں تھیں۔آگے وسیع نشیب تھے جن میں عجیب و غریب شکلوں کے ٹیلے کھڑے تھے۔ریت کی پہاڑیاں تھیں جن سے شعلے سے نکلتے محسوس ہوتے تھے۔ اس خوفناک علاقے میں جو میل ہامیل پھیلا ہوا تھا،صحرا کے بھیدی ہی جا سکتے تھے۔کسی اجنبی کا وہاں جانا ہی محال تھا اور وہاں جاکر زندہ نکل آنا تو ناممکن تھا۔دونوں بار ایرانی فوج کے گھوڑ سوار دستے کا یہ انجام ہوا کہ اسے گھوڑوں اورانسانوں کے نقوش ِ پا ملتے رہے جو صاف بتاتے تھے کہ یہ ایک گروہ ہے اور شب خون مارنے والا یہی گروہ ہو سکتا ہے۔مگر یہ نقوش انہیں سیدھے موت کے منہ میں لے گئے۔ایرانی جوں ہی پہلے نشیب میں داخل ہوئے اور پورا دستہ نشیب میں اتر گیا تو ان پر تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔پہلی بوچھاڑ میں کئی سوار اور گھوڑے گھائل ہو گئے۔زخمی گھوڑے بے لگام ہو کر ادھر ادھر بھاگے ۔سارے دستے میں بھگدڑ مچ گئی۔ان پر تیر برستے رہے مگر بکھر جانے کی وجہ سے تیر خطا ہونے لگے۔بھول بھلیوں جیسے اس نشیب میں سے چند ایک گھوڑ سوار نکلے۔ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں۔ان کے کرتے بڑے لمبے اورسروں پر سیاہ کپڑے اس طرح لپٹے ہوتے تھے کہ ان کے چہرے اور گردنیں بھی ڈھکی ہوئی ہوتی تھیں ۔ان کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ان گھوڑوں کے قدموں میں اور ان کے سواروں کے بازوؤں میں ایسی پھرتی تھی کہ ایرانی سوار جو پہلے ہی ہراساں تھے ،برچھیوں سے زخمی ہوکر گرنے لگے۔ان میں سے کئی بھاگ نکلے۔وہ ٹیلوں اور گھاٹیوں والے نشیب سے تو نکل گئے لیکن ریت کی گول گول ٹیکریوں میں داخل ہوئے تو گھومنے لگے۔ان سینکڑوں ٹیکریوں میں جو ایک دوسری کے ساتھ ساتھ کھڑی تین چار میل کی وسعت میں پھیلی ہوئی تھیں ،یہی خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی اجنبی ان کے اندر چلا جائے تو وہ اندر ہی اندر چلتا رہتاہے ،نکل نہیں سکتا۔آخر تھک کر بیٹھ جاتا ہے ۔پیاس سے حلق میں کانٹے چبھنے لگتے ہیں اور ریگستان کے یہ گول گول بھوت اسے بڑی اذیت ناک موت مارتے ہیں۔
دوسری بار ایرانیوں کے سوار دستے پر کسی اور جگہ سے ایسا ہی حملہ ہوا تھا اور سوار بکھر کر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے تو انہیں ایک للکار سنائی دینے لگی۔’’زرتشت کے پجاریوں !میں مثنیٰ بن حارثہ ہوں……زرتشت کو ساتھ لاؤ……مثنیٰ بن حارثہ ……ہرمز کو یہ نام بتا دینا……مثنیٰ بن حارثہ۔‘‘اس ایرانی دستے کے جو سوار زندہ بچ گئے وہ نیم مردہ تھے۔انہوں نے اپنے کمانداروں کو بتایا کہ انہیں صحرا میں یہ للکار سنائی دی تھی۔اس کے بعد ایرانیوں کی سرحدی چوکیوں پر چھاپے پڑتے رہے لیکن انہوں نے چھاپہ مار وں کے تعاقب کی اور ان کو تلاش کرنے کی جرات نہ کی۔بعض چھاپوں کے بعد بھی یہ للکار سنائی دیتی تھی۔’’مثنیٰ بن حارثہ……آتش پرستو……میں مثنیٰ بن حارثہ ہوں۔‘‘پھر مثنیٰ بن حارثہ دہشت کا، کسی جن بھوت کا، کسی بدروح کا ایک نام بن گیا۔ ایرانی فوجی اس نام سے ڈرنے لگے ۔انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ یا اس کے گروہ کے کسی ایک آدمی کو پکڑنے کے بہت اہتمام کیے لیکن جب کہیں شب خون پڑتا تھا تو ایرانی فوجی جن کی جرات اور بے جگری مشہور تھی ،دہشت سے دبک جاتے تھے۔یہ تھا وہ مثنیٰ بن حارثہ جو فروری ۶۳۳ء کے ایک روز مدینہ میں خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ کے سامنے ایک گمنام اجنبی کی حیثیت سے بیٹھا تھا۔وہ جنوبی عراق کارہنے والا اور اپنے قبیلے بنو بکرکا سردار تھا۔تاریخ میں ایسا اشارہ کہیں بھی نہیں ملتا کہ اس نے کب اور کس طرح اسلام قبول کیا تھا ۔یہ اسی کی کاوش کا نتیجہ تھا کہ نہ صرف اس کے اپنے قبیلے نے بلکہ ان علاقوں میں رہنے والے کئی اور قبیلوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔جب جنگِ یمامہ ختم ہوئی اور ارتداد کے فتنے کا سر کچل دیا گیا تو مثنیٰ بن حارثہ نے عراق کے جنوبی علاقوں میں ایرانیوں کیخلاف جہاد شروع کر دیا۔انہوں نے ان مسلمانوں میں سے جو ایرانی بادشاہی کی رعایا تھے۔ایک گروہ بنالیا اور ایرانی فوج کی سرحدی چوکیوں پر شب خون مارنے شروع کر دیئے۔ان کے شب خون اس قدر اچانک اور تیز ہوتے تھے کہ چوکی والوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھااور مثنیٰ کا گروہ صفایا کرکے غائب ہو جاتا تھا۔انہوں نے بڑے ہی دشوار گزار صحرامیں اپنا اڈہ بنالیا تھا جسے انہوں نے مالِ غنیمت سے بھر دیا تھا۔پھر انہوں نے ان بستیوں پر بھی شب خون مارنے شروع کردیئے جہاں صرف ایرانی رہتے تھے۔مثنیٰ نے سرحد پر ایرانی فوج کو بے بس اور مجبور کردیا۔ایرانی فوج کے کئی سینئر کماندار مثنیٰ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
مثنیٰ بن حارثہ نے دوسرا کام یہ کیا کہ عراق کے جنوبی علاقے مین جومسلمان ظلم و ستم میں زندگی گزار رہے تھے انہیں اس نے اپنے زمین دوز اثر میں لے کرمتحد رکھا ہوا تھا۔ان کا ایک گروہ تو شب خون مارنے کا کام کرتا تھا اور ایک گروہ بستیوں میں رہ کر مسلمانوں کو اتحاد کی لڑی میں پروئے رکھتا تھا اور انہیں بتاتا رہتا تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔مسلمان اپنے چھاپہ ماروں کی کامیابیاں دیکھ رہے تھے اور وہ مطمئن تھے۔یہ تھی وہ خدائی مدد جس کے انتظارمیں وہ ایرانیوں کا ظلم و ستم سہہ رہے تھے اور اپنا مذہب نہیں چھوڑ رہے تھے۔ورنہ مظالم سے بچنے کا ان کے سامنے بڑا سہل طریقہ یہ تھا کہ اسلام سے منحرف ہو کر آتش پرست ہو جاتے۔خدام نے زہرہ سے کہا تھا کہ وہ تین چار دنوں کیلئے غائب ہو جائے گا ۔وہ غائب ہوکر چھاپہ ماروں کے ا ڈے پر چلا گیا تھا اور انہیں ایرانی کماندار شمر کے متعلق بتایا تھا ۔اس کی چوکی تک چھاپہ ماروں کی رہنمائی اسی نے کی تھی ۔چوکی پر حملہ پوری طرح کامیاب رہا ۔اسکے فورا ً بعد خدام اپنے گھر آ گیا تھا۔مثنیٰ بن حارثۃنے امیر المومنین ابو بکر ؓ کو تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے خلیج فارس کے ساحل کے ساتھ ساتھ اور عراق کے جنوبی علاقے میں کس طرح عربی مسلمانوں کے قبیلوں کو اپنے اثر میں لیا اورانہیں اسلام پر قائم رکھ کر انہیں زمین دوز محاذپر جمع کیا۔’’تجھ پر ﷲ کی رحمت ہو ابن ِحارثہ! ‘‘خلیفہؓ نے کہا۔’’تو اگر یہ مشورہ دینے آیا ہے کہ میں ایرانیوں پر فوج کشی کروں تو مجھے سوچنا پڑے گا۔کیا تو نے دیکھا نہیں کہ ایرانیوں کی فوج کی تعداد کتنی زیادہ ہے اور ان کے وسائل اور ذرائع کتنے وسیع اور لا محدود ہیں ؟ہم اپنے مستقر سے اتنی دور قلیل تعداد اور بغیر وسائل، کثیر تعداد اور طاقتور فوج کے مقابلے کے قابل نہیں ہوتے لیکن میں نے سلطنت فارس کونظر انداز بھی نہیں کیا۔‘‘’’امیر المومنین!‘‘مثنیٰ نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کرکہا۔’’اگر ایک آدمی اتنی بڑے ملک کی فوج کے ساتھ ٹکر لے سکتا ہے اور ان پر مسلمانوں کے عسکری جذبے کی دھاک بٹھا سکتا ہے تو میں اپنے ﷲ کے بھروسے پہ کہتا ہوں کہ ایک منظم فوج بہت کچھ کر سکتی ہے ۔میں اس آتش پرست سلطنت کی اندرونی کیفیت دیکھ آیا ہوں۔شاہی خاندان تخت و تاج کی خاطر آپس میں دست و گریباں ہو رہا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ شہنشاہ ہرقل فارسیوں کو نینوا اور دستجرد میں بہت بری شکست دے چکا ہے۔اس کی فوجیں آتش پرست فارسیوں کے دارالحکومت مدائن کے دروازوں تک پہنچ گئی تھیں۔اس کے بعد فارسی(ایرانی) سنبھل نہیں سکے۔اگر ان میں عیش پرستی کو دیکھاجائے تو وہ سنبھلے ہوئے لگتے ہیں لیکن اب ان میں بادشاہی کے تاج پر رسہ کشی ہو رہی ہے۔یمن ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور وہاں کے حاکم بازان نے اسلام قبول کرلیا ہے،ان کی رعایا ان کی زنجیریں توڑنا چاہتی ہے ۔ان کی محکومی میں ان کے جنوبی علاقوں کے مسلمان میرے اشارے اورمدینہ کی فوج کے منتظر ہیں۔‘‘’’تجھ پر رحمت ہی رحمت ہو مثنیٰ!‘‘امیر المومنینؓ نے کہا۔’’لارَیب تیری باتیں میرے دل میں اتر رہی ہیں ۔میرا اگلا قدم وہیں پڑے گا جہاں تو کہتا ہے۔کیا یہ بہتر نہیں ہو گاکہ میں سالاروں کی مجلس سے بات کر لوں؟‘‘
’’یا امیرالمومنین!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’فیصلہ وہی بہتر ہوتا ہے جو صلح و مشورے کے بعد کیا جاتا ہے لیکن میں امیر المومنین سے اجازت چاہوں گا کہ جو کہنا چاہتا ہوں وہ کہہ لوں اور آپ میری باتیں سالاروں کے سامنے ضرور رکھیں……دجلہ اور فرات جہاں ملتے ہیں ،وہاں کے بڑے وسیع علاقے میں عربی قبیلے آباد ہیں جو سب کے سب مسلمان ہیں۔ چونکہ وہ مسلمان ہیں اس لئے وہ آگ کے پجاری بادشاہوں کے جورو ستم کا نشانہ بنے ہوتے ہیں۔ مسجدوں پر بھی ان کا حق تسلیم نہیں کیا جاتا۔ فارسیوں کے ہاتھوں ان کی جان محفوظ نہیں۔ان کی عزت محفوظ نہیں……وہ مسلمان فصل اگاتے ہیں جو پک جاتی ہے تو آتش پرست زمیندار اور فوجی اٹھا کر لے جاتے ہیں ،وہاں مسلمان مزارعے ہیں اور انہیں دھتکاری ہوئی مخلوق سمجھا جاتا ہے ۔وہ مسلسل خوف و ہراس میں رہتے ہیں۔ان کیخلاف الزام صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور کفر کے طوفانوں میں بھی وہ اسلام کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔وہ مدینہ کو روشنی کا مینار سمجھتے ہیں……امیر المومنین! اگر آپ بیٹھے یہ سوچتے رہیں کہ دشمن بہت طاقتور ہے تو وہ روز بروز طاقتور ہوتا جائے گا اور مسلمان مایوس ہو کراپنی بھلائی کا کوئی ایسا طریقہ سوچ لیں گے جو اسلام کے منافی ہو گا۔میرے چھاپہ ماروں نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اور آپ کی فوج کیلئے جو زمین ہموار کی ہے وہ دشمن کے حق میں چلی جائے گی……کیارسول ﷲﷺ مظلوم مسلمانوں کی مدد کو نہیں پہنچا کرتے تھے؟‘‘’’؛ ﷲ کی قسم! میں ان کی مدد کو پہنچوں گا۔‘‘خلیفہ ابو بکرؓ نے کہا اور اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک سالار سے پوچھا۔’’ولید کا بیٹا خالد کہاں ہے؟‘‘’’یمامہ میں آپ کے اگلے حکم کا انتظار کررہا ہے امیر المومنین!‘‘انہیں جواب ملا۔’’کوئی تیز رفتار قاصد بھیجو اور اسے پیغام بھیجو کے جلدی مدینہ پہنچے۔‘‘خلیفہ ابو بکر ؓ نے کہا ۔’’فارس کی بادشاہی سے ہم ﷲ کی تلوار کے بغیر نہیں لڑ سکتے۔‘‘خلیفہؓؓ مثنیٰ سے مخاطب ہوئے۔. ’’اور تم مثنیٰ! واپس جاؤ اور عرب قبیلوں کے جس قدر آدمی اکھٹا کر سکتے ہو کرلو۔اب تمہیں کھلی جنگ لڑنی پڑے گی۔جو تم شب خون اور چھاپوں کے انداز سے بھی لڑ سکتے ہو۔لیکن اپنے فیصلوں میں تم آزاد نہیں ہو گے۔خالد سالارِاعلیٰ ہوگا ۔تم اس کے فیصلوں کے پابند ہو گے۔‘‘’’تسلیم امیر المومنین!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’ایک اور عرض ہے……اس علاقے میں جو عرب قبیلے ہیں وہ سب کے سب مسلمان نہیں۔ان میں عیسائی بھی ہیں اور دوسرے عقیدوں کے لوگ بھی۔ وہ سب آتش پرستوں کے خلاف ہیں ۔ فارس کے آتش پرست ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتے ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔اگر ﷲ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی تو غیر مسلم عربوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے جیسا وہاں کے عرب مسلمانوں کے ساتھ ہو گا۔‘‘ ’’ایسے ہی ہو گا!‘‘امیر المومنین ابو بکرؓ نے کہا۔’’جنہوں نے اسلام کے خلاف کچھ نہیں کیا ،اسلام ان کی پریشانی کا باعث نہیں بنے گا……تم آج ہی روانہ ہو جاؤ۔‘‘
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔