مضبوط ایمان کی علامت۔۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) 25 مئی 2018


مضبوط ایمان کی علامات
مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی
ترجمہ: عاطف الیاس
بشکریہ: دلیل ویب

منتخب اقتباس:

الحمد للہ! حمد وثنا اللہ ہی کے لیے ہے۔ اسی نے اپنے بندوں کو خیر کی بہاریں نصیب فرما کر معافی اور بخشش کا موقع عطا فرمایا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ و احد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی عطائیں بے شمار اور احسانات بے انتہا ہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے، رسول اور تمام انسانوں کے سردار ہیں۔ آپ ﷺ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اور پرہیز گار ہیں۔ بھلائی کے کاموں میں سبقت لیجانے والے اور نیکی کے مواقع سے بہترین فائدہ اٹھا نے والے ہیں۔ اللہ کی رحمتیں ہوں آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کے اہل بیت پر، عزت وہمت والے صحابہ کرام پر اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں اور ان کا طریقہ اپنانے والوں پر۔

اے مسلمانو!
دین اسلام قوت، عزت اور کرامت کا دین ہے اور اللہ تعالیٰ کو بھی کمزور مومن کی نسبت طاقتور مومن زیادہ پسند ہے۔
ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کمزور مومن کی نسبت طاقتور مومن کو زیادہ پسند فرماتا ہے، تاہم دونوں ہی میں خیر موجود ہے۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
اس حدیث میں طاقت سے مراد ایمان، علم اور فرمان برداری کی طاقت ہے۔ نفس اور ارادے کی طاقت ہے۔ اگر انسان کی جسمانی طاقت نیکی میں اس کی مدد گار ہو تو ہی اسے حقیقی طاقت تصور کی جا سکتا ہے۔
امام نووی  فرماتے ہیں: اس طاقت سے مراد پختہ عزم اور ارادہ اور آخرت کے معاملات میں پیش قدمی کا جذبہ ہے۔ چنانچہ طاقتور مومن جہاد میں آگے بڑھ کر لڑنے والا بھی ہوتا ہے، جہاد کے لیے نکلنے میں بھی توانا ہوتا ہے اور جہاد میں شامل ہونے کی تڑپ بھی رکھتا ہے۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی بلند ہمت والا ہو گا اور تمام طرح کی اذیتوں پر صبر کرنے والا ہوتا ہے۔ نماز، روزہ، اذکار اور دیگر عبادات میں بھی زیادہ توانا اور مستقبل مزاج ہوتا ہے۔

سیدہ عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت سو جاتے۔ جب پہلی اذان کا وقت ہوتا تو تیزی سے اٹھتے۔ اس کی شرح میں امام نووی  فرماتے ہیں کہ تیزی سے اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت کا پورا اہتمام کرتے اور اس کے لیے مکمل توانائی کے ساتھ اٹھتے۔ یہی مفہوم اس حدیث کا بھی ہے کہ ’’کمزور مومن کی نسبت اللہ تعالیٰ کو طاقتور مومن زیادہ پسند ہے۔‘‘

اے بھائیو!
صحیح عقیدہ کبھی ختم نہ ہونے والا سرمایہ ہے۔ یہ ہمیشہ توانا ، پر عزم اور پر ہمت رہنے، مشکلات سے نمٹنے اور آزمائشوں کا مقابلہ کرنے میں بہتری معاون ہے۔ جب ایمان دلوں میں راسخ ہو جاتا ہے تو اس کا اثر انسان کے جسم اور اخلاق میں نظر آنے لگتا ہے۔ پھر جب انسان بولتا ہے تو مکمل یقین کے ساتھ بولتا ہے اور جب کوئی کام کرتا ہے پورے اعتماد سے کرتا ہے اور جب کسی طرف چلتا ہے تو اس کا ہدف اور منزل واضح اور متعین ہوتی ہے۔
حقیقی مومن ان چیزوں سے دور رہتا ہے جو دین اسلام کی روح سے درست نہیں ہیں۔ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے نہیں چلتا۔ غیر اللہ کے سامنے نہیں جھکتا۔ اپنے جیسی مخلوق کا غلام نہیں بنتا اور اپنی خواہشات کے پیچھے نہیں چلتا۔

اللہ کے بندو! یہ مہینہ عزم وہمت اور طاقت کا مہینہ ہے۔ یہ قربانیوں اور فتوحات کا مہینہ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں نے اسی ماہ میں فتح پا کر دلیری اور بہادری کی شاندار مثال رقم کی تھی۔ جب مسلمان صرف تین سو تھے اور انہوں نے ایک ہزار مشرکوں کا مقابلہ کر دکھایا۔ یہ فتح اہل اسلام کی سب سے بڑی اور اپنی نوعیت کی پہلی فتح تھی۔ جب مسلمان میدان جنگ میں گئے تھے تو پورے ایمانی جذبے اور مکمل یقین کے ساتھ گئے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے بھی ان کی نصرت اور مدد فرمائی اور وہ اپنے دشمن پر غالب ہو گئے۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جنگ کے وقت اہل ایمان کے پاس کون سی ایسی طاقت تھی کہ جس کی بدولت وہ کافروں پر غلبہ پانے میں کامیاب ہو گئے؟
وہ عقیدے، اخلاق اور روح کی وہ طاقت لے کر میدان جنگ میں گئے تھے جس سے کافر محروم تھے۔ چنانچہ مشرکین کو بد ترین شکست کا سامنا ہوا اور قرآن کریم نے اسے شاندار مثال کے طور پر بیان کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ایمانی طاقت جسمانی طاقت سے زیادہ کارگر ہے۔

کیا اگر وہ بزدل بن کر ان جنگوں میں حصہ لیتے اور ان کے جذبات ایمان سے معمور نہ ہوتے، بلکہ ان پر شہوات نفس کی حکمرانی ہوتی اور وہ خواہشات کے غلام ہوتے، شیطان کے پیروکار ہوتے، تو کیا پھر بھی انہیں اتنی ہی کامیابی مل پاتی؟
نہیں! ہر گز نہیں! یہ روزہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے، اس کے ذریعے مسلمان کو دو قسم کی قوت ملتی ہے۔ ایک صحت اور تندرستی کی قوت اور دوسری روحانی قوت۔ روزہ انسان کو بہت سی مہلک بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے روحانی پاکیزگی نصیب ہوتی ہے اور یہ روحانی پاکیزگی صحت کی نسبت زیادہ اہم ہے۔

اے بھائیو!
طاقتور مسلمان رمضان کے دوران فضائل کمانے اور نیک اعمال کا ذخیرہ کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ وہ چیزیں اسے مصروف نہیں کرتیں جن میں دوسرے لوگ مصروف رہتے ہیں۔ وہ تفریحی پروگراموں کو دیکھنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا ہے جن سے رمضان کی روحانیت ختم ہو جاتی ہے اور اس کا روح پرور ماحول خراب ہو جاتا ہے۔  ایسے لوگ آگے بڑھنے اور اوقات کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
اگر انسان خیر کی بہاروں میں اور رحمت ومغفرت کے شاندار مواقع سے گزرتا ہوا بھی غفلت کا شکار رہے تو پھر اس کی زندگی میں کیا خیر ہو سکتی ہے؟

ابن قیّم  فرماتے ہیں: انسان میں دینی فضائل، نافع علوم اور اعمال صالحہ میں غفلت برتنے سے بری چیز کوئی نہیں ہو سکتی۔ ایسے لوگ ایسے غیر منظم اور بے قیمت لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کو گندا کرتے ہیں اور قیمتیں بڑھاتے ہیں۔ وہ جیتے ہیں تو ناقابل تعریف زندگی جیتے ہیں اور مرتے ہیں تو ان کی کوئی کمی محسوس نہیں کرتا۔ ان کی موت میں لوگوں اور قوموں کی راحت ہے۔ نہ ان پر آسمان روتا ہے اور نہ زمین ان سے اداس ہوتی ہے۔

اے مسلمانو!
رمضان کے اس بابرکت مہینے میں ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کچھ چاہتا ہے اور لوگ ہم سے کچھ اور ہی چاہتے ہیں ۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ‘‘
(النساء: 27)

یعنی وہ اللہ ہی ہے جو تمہیں معاف کرنا چاہتا ہے اور تمہاری خطائیں مٹانا چاہتا ہے، جبکہ خواہشات کے پیروکار تمہیں دین سے کہیں دور لے جانا چاہتے ہیں، گناہوں کی طرف دھکیل کر خطائیں کرانا چاہتے ہیں۔ وہ تمہیں گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ ہمیں ہدایت عطا فرمائے! بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کی پکار کو بس پشت ڈال چکے ہیں۔ انہیں اللہ کی مراد کی کوئی فکر نہیں۔ شہوات اور خواہشات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ رمضان کے چند دنوں میں بھی وہ بھلائی اور خیر سے محروم ہیں۔ یہ دن کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے بلکہ ان سے فائدہ نہ اٹھانا حسرت اور ندامت کا باعث بنے گا۔ رمضان تو ہمیں طاقتور بننا سکھاتا ہے۔ بلندی ہمتی سکھاتا ہے۔ ہمیں اپنی خواہشات کے سامنے اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے۔ مخلوق کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔ گمراہ کن افکار کے داعیوں کے پیچھے نہیں چلنا چاہیے۔ اپنے عقائد، اصول ومبادی سے نہیں ہٹنا چاہیے۔ جس چیز میں ہمارے دین اور دنیا کا فائدہ ہو ان چیزوں میں اپنا وقت لگانا چاہیے۔

طاقتور مومن کو بہت سی علامات سے پہچانا جاتا ہے، ان علامات کے ذریعے اس کی شخصیت کا کمال ظاہر ہوتا ہے۔ جیسا کہ بھلائی کے کاموں میں پیش قدمی کرنا، عبادات میں محنت کرنا، نیکیاں کمانے کی کوشش کرنا اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے مواقع سے فائدہ اٹھانا۔ مومن کی جسمانی طاقت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے وقف ہوتی ہے۔

اسی طرح طاقتور مومن کی علامت یہ بھی ہے کہ وہ قوی الارادہ اور بلند ہمت ہوتا ہے۔ وہ نہ کبھی کمزور ہوتا ہے اور نہ کٹنے ٹیکتا ہے۔ بلکہ وہ آزمائیشوں کے وقت دلیری سے پہچانا جاتا ہے، مشکل اوقات میں ثابت قدمی سے جانا جاتا ہے۔ اس کے قدم کبھی متزلزل نہیں ہوتے۔ اس پر جتنا بھی سخت وقت آ جائے، بھر حال وہ ثابت قدم رہتا ہے۔ عربی شعر کا ترجمہ ہے کہ
اگر میں بیمار ہو جاتا ہوں تو میرا صبر تو بیمار نہیں ہوتا، 
اور اگر مجھے بخار ہو جاتا ہے تو میرے عزم کو تو بخار نہیں ہوتا۔

اسی طرح مومن کی طاقت کی علامت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نفس پر قابو پانے والا ہوتا ہے۔ خاص طور پر جذبات سے بھر پور اور مشکل مواقع پر۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: طاقتور وہ نہیں ہے جو دوسرے کو کُشتی میں ہرا دیتا ہے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے۔ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے سیدنا ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے۔
یعنی طاقتور وہ نہیں ہے کہ جو لڑائی کے وقت دوسروں کو ہرا دیتا ہے۔ بلکہ حقیقی طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو پا لیتا ہے۔

اے مسلمانو!
ہدایت پانے کے لیے ہمیں اپنے نفس اور اپنی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا ہو گا۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے‘‘
(العنکبوت: 69)
فضالہ بن عبید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرمان برداری میں اپنے نفس سے جہاد کرتا ہے اور مہاجر وہ ہے جو گناہوں اور غلطیوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ اسے امام احمد اور امام ابن حبّان اور دیگر علمائے حدیث نے روایت کیا ہے۔

ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: نفس کے ساتھ جہاد کرنے میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو شیطان اور نفس کے ساتھ جہاد میں صبر کام لیتا ہے، اسے غلبہ نصیب ہو جاتا ہے، نصرت اور کامیابی مل جاتی ہے۔ پھر وہ اپنے نفس کا مالک بن جاتا ہے اور عزت سے جیتا ہے۔ اسی طرح جو اپنے نفس سے جہاد میں ناکام ہو جاتا ہے وہ مغلوب ہو جاتا ہے، اپنے نفس کا قیدی بن جاتا ہے اور شیطان کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتا ہے۔
 عربی شعر کا ترجمہ ہے:
اگر انسان اپنی خواہشات کو قابو میں نہ کامیاب نہ ہو تو اس کی خواہشات اسے وہاں لے جاتی ہیں جہاں عزت والے بھی رسوا ہو جاتے ہیں۔

اے روزہ دارو! اپنے نفس کے ساتھ جہاد میں خوب محنت کرو اور اپنے رب کی فرمان برداری پر قائم رہو۔ اس مہینے کے بقیہ حصے کو غنیمت جانو اور اس کا بھر پور فائدہ اٹھا۔ دیکھو! اب اس کا تیسرا حصہ گزر چکا ہے اور تیسرا حصہ تھوڑا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہماری مختصر عمر بھی گزر جائے گی۔ تو وقت گزرنے سے پہلے موقع کو غنیمت جانو اور گھاٹا پانے سے پہلے نیکیاں کمانے کی کوشش کر لو۔

اے اللہ! ہمارے روزے اور تہجد قبول فرما! ہمارے گناہوں اور کوتاہیوں کو معاف فرما! اے اللہ! رمضان میں ہمیں کامیابی نصیب فرما! ہمیں قبولیت کے شرف سے نواز دے۔ ہمارے مہینے کو خیر، برکت، نصرت اور امت کی عزت کا مہینہ بنا۔ اے پروردگار عالم! ہمیں ایمان اور اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنے والوں میں شامل فرما! ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے بخش دیا ہے اور جس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں۔


مضبوط ایمان کی علامات مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی ترجمہ: عاطف الیاس بشکریہ: دلیل ویب منتخب ...

آج کی بات ۔۔۔۔ 26 مئی 2018

~!~ آج کی بات ~!~

جس کو صداقت اور نیکی كے سفر کی خواہش ہے . وہ جان لے کے یہ منظوری کا اعلان ہے ،
 جس کو منظور نہیں کیا جاتا . اس کو یہ شوق نہیں ملتا .

~!~ آج کی بات ~!~ جس کو صداقت اور نیکی كے سفر کی خواہش ہے . وہ جان لے کے یہ منظوری کا اعلان ہے ،  جس کو منظور نہیں کیا جاتا . اس ک...

حقیقی روزے دار کون؟۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

Image result for ‫مسجد نبوی‬‎
حقیقی روزے دار کون؟
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: جسٹس صلاح بن محمد البدیر
(بمطابق رؤیت 9) 10- رمضان - 1439۔۔ 25-05-2018 
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے (بمطابق رؤیت 9) 10- رمضان - 1439 کا خطبہ جمعہ بعنوان "حقیقی روزے دار کون؟" مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ رمضان کا عشرہ مکمل ہونے والا ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگوں میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی، یہ لوگ جنت اور مغفرت کی تمنا تو رکھتے ہیں لیکن اس کے لیے عملی اقدامات سے عاری ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا ہے، مزید انہوں نے یہ بھی کہا کہ: کچھ لوگ بڑے بڑے گناہوں میں ملوث ہونے کے باوجود بھی معمولی معمولی چیزوں کے بارے میں پوچھیں گے کہ ان سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا!؟انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے لوگوں کا بھی بھلا کوئی روزہ ہے جو اپنی اولاد ، بیوی اور اہل خانہ کا خیال نہ کریں، والدین سے قطع تعلقی، نمازوں سے لا پرواہی برتیں، بھائیوں بہنوں کی وراثت ہڑپ کر جائیں، یتیموں مساکین کا حق ماریں اور اوقاف کے مال پر قبضہ کریں، بھلا ان کا کوئی روزہ ہے؟ ان کا صرف واجبی روزہ ہے! انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ روزے کے دوران آنکھ، کان اور زبان کا بھی روزہ ہونا چاہیے، وگرنہ روزے کا بدلہ بھوک پیاس اور تراویح میں تھکاوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا، دوسرے خطبے میں انہوں نے بارگاہ الہی میں حاضر ہو کر توبہ تائب ہونے کی ترغیب دلائی کہ یہ ماہ رمضان کی امتیازی خوبی ہے، پھر آخر میں سب کے جامع دعا فرمائی۔

منتخب اقتباس:

اللہ تعالی کی نعمتوں اور عنایتوں کے برابر تعریفیں اسی کے لیے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے رسول ، نبی، چنیدہ، راز دار، ولی، پسندیدہ اور برگزیدہ بندے ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام پر اس وقت تک رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے جب تک صبح کا اجالا چمکتا رہے اور پو پھوٹتی رہے۔

روزے دارو!

رمضان کے ابتدائی ایام گزر چکے ہیں اور ایک عشرہ مکمل ہونے والا ہے، اس لیے نیکیوں کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لو، بھر پور محنت اور تگ و دو کرو، اس سے پہلے کہ یہ بابرکت مہینہ گزر جائے اور رخت سفر باندھ لے نیکیاں کما لو۔

روزے دارو!

تعجب کی بات ہے کہ روزے کچھ لوگوں کی رمضان میں بھی اصلاح نہیں کر پاتے، نہ ہی رمضان کا قیام اسے جھنجھوڑتا ہے، اور اس کے شب و روز میں کوئی تبدیلی بھی نہیں آتی!

ان لوگوں پر بھی تعجب ہے جو رمضان پا کر جنت، مغفرت اور جہنم سے آزادی کی تمنا تو رکھتے ہیں لیکن پھر بھی پورا رمضان لہو و لعب، ممنوعہ اور حرام امور میں گزار دیتے ہیں!

رمضان کی خیر و بھلائی اکارت کرنے والے کا نقصان گراں ہے! اور ماہ رمضان کو اجاڑنے والے کی بد بختی بھیانک ہے!

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس شخص کا ستیاناس ہو جائے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے، اور اس شخص کا بھی ستیاناس ہو جائے جس کی زندگی میں رمضان آئے اور اس کی مغفرت سے پہلے چلا جائے، اور اس شخص کا بھی ستیاناس ہو جو بڑھاپے میں اپنے والدین کو پائے اور وہ دونوں اسے جنت میں داخل نہ کر سکیں۔) ترمذی

اے راستے میں اڑنے والی دھول، آٹے کے غبار، اور تھوک نگلنے کے بارے میں پوچھنے والے کہ ان سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا؟! اتنے معمولی اور باریک مسائل پوچھ رہے ہو لیکن بڑے بڑے کبیرہ گناہوں میں ملوث ہو! ان بڑے گناہوں سے دور رہو، لہذا اپنے مسلمان بھائی کا مال ہڑپ کرنے سے بچو، کسی مسلمان کی ہتک عزت مت کرو، دھوکہ دہی، ظلم، فراڈ، اور مسلمان کے خلاف حیلے بازی سے دور رہو۔

بھلا اس کا بھی کوئی روزہ ہے جو اپنے والدین سے قطع تعلقی کر لے!؟ ان پر زبان درازی کرے، ان کی خدمت سے تنگ آ جائے، اگر والدین اس سے مانگیں تو بخیلی کرے، اگر اسے سمجھایا جائے تو مزید بگڑے، اگر کوئی امید لگائے تو اس کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوں، اور اگر اس کی ضرورت پڑے تو ڈھونڈنے میں نہ آئے۔ جواب دے تو سختی سے! ہر وقت ڈرانے دھمکانے پر لگا رہے، کبھی کوئی کام وقت پر نہ کرے، ہمیشہ تسویف سے کام لے۔

کیا اس کا بھی کوئی روزہ ہے جو فرض نماز چھوڑ کر سویا رہے، وقت گزار کر نماز پڑھے، ظہر اور عصر کی نماز وقت کے بعد پڑھے، اور پورے رمضان میں اس کی یہی عادت ہو!؟

کیا اس شخص کا بھی کوئی روزہ ہے جو اپنے بھائیوں اور بہنوں کی وراثت ہڑپ کر جائے، یتیموں اور مساکین کا حق غصب کر لے، اوقاف کے اناج پر قبضہ کر کے بیٹھ جائے اور مستحقین کو ان کے حق سے محروم کر دے۔

ہاں ان سب لوگوں کا صرف اتنا سا روزہ ہے کہ ان کی روزے سے متعلق واجبی سی ذمہ داری پوری ہو جائے گی، لیکن ان کا روزہ خلاف شریعت کاموں، گناہوں، ظلم اور کبیرہ پاپوں سے آلودہ ہو گا۔

بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس کے روزوں کا ثواب ان ظلموں اور جرائم کے گناہوں کا مقابلہ ہی نہ کر سکے۔

يَا ذَا الَّذِيْ صَامَ عَنِ الطُّعْمِ

لَيْتَكَ صُمْتَ عَنِ الظُّلْمِ

کھانے سے روزہ رکھنے والے کاش کہ تم نے ظلم سے بھی روزہ رکھ لیا ہوتا

هَلْ يَنْفَعُ الصَّوْمُ امْرَءًا ظَالِمًا

أَحْشَاؤُهُ مَلآى مِنَ الْإِثْمِ

کیا کسی ظالم انسان کو بھی روزہ فائدہ دیتا ہے جس کا باطن گناہوں سے بھرا ہوا ہو؟!

سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "جب تم روزہ رکھو تو تمہارے ساتھ تمہارے کان، آنکھ اور زبان کا بھی جھوٹ اور گناہ سے روزہ ہونا چاہے، اپنے خادم کو اذیت مت دو، روزے کے دوران تم پر وقار اور سکینت عیاں ہونی چاہیے، اپنے روزے کے دن کو عام دنوں جیسا مت بناؤ"

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بہت سے روزے داروں کو روزے سے صرف بھوک پیاس ملتی ہے، اور بہت سے قیام کرنے والوں کو قیام کے بدلے صرف بے خوابی ملتی ہے۔) احمد

اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو ان لوگوں میں شامل فرمائے جو رمضان کے روزے رکھ کر ان کی حفاظت کرتے ہیں، اور نیکیوں اور عبادات کو کسی بھی قسم کے گناہوں سے گدلا نہیں ہونے دیتے۔

مسلمانو!

یہ توبہ تائب ہونے کا مہینہ ہے، اس مہینے میں مغفرت بڑی ہی آسانی سے میسر ہوتی ہے۔ اس مہینے میں قیدیوں کو آزاد کیا جاتا ہے، مجرموں کو چھوڑ دیتا جاتا ہے، نافرمانوں کو رہائی دے دی جاتی ہے۔

اے گناہوں اور جرائم کے دلدادہ!

اپنی غلطیوں پر نادم اور پشیمان ہو جانے والے!

توبہ کر لو! مطلوبہ ہدف اور کامیابی تمہارے سامنے ہے!

اللہ تعالی سخاوت اور رحمت کرنا چاہتا ہے۔

اللہ تعالی توبہ کرنے والوں کو اپنے فضل و کرم سے معافی بھی دے دیتا ہے۔

تو ایسے شخص کے لیے خوشخبری ہے جو رمضان میں توبہ کے ذریعے گناہوں کا میل کچیل دھو لے اور وقت نکلنے سے پہلے گناہوں سے باز آ جائے۔

یا اللہ! ہمارے روزے اور قیام قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعا مسترد مت فرمانا، یا رب العالمین!

حقیقی روزے دار کون؟ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) امام و خطیب: جسٹس صلاح بن محمد البدیر (بمطابق رؤیت 9) 10- رمضان - 1439۔۔  25-05-2...

اَسرارِ صیام (اردو استفادہ از امام ابن قدامہ الحنبلیؒ)

Image result for ‫رمضان‬‎
اَسرارِ صیام
(اردو استفادہ از امام ابن قدامہ الحنبلیؒ)

جان لو کہ روزہ کے اندر کچھ ایسی خاص بات رکھ دی گئی ہے جو اِس کے سوا کسی اور عمل میں نہیں، اور وہ ہے اِس کو اللہ عزوجل کے ساتھ ایک خاص نسبت ہو جانا، جیسا کہ حدیثِ قدسی میں وارد ہوا ہے (الصوم لی و أنا أجزی بہ)۔ عبادتِ صیام کو بس یہی شرف کافی ہے، ویسے ہی جیسے ”بیت اللہ“ کہلا کر ایک مقام کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ نسبت کا ایک خاص حوالہ حاصل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ”وَطَہِّر بَیتِی´“ یعنی ”میرے“ گھر کو صاف ستھرا کر رکھو!

روزہ کی فضیلت کے پیچھے دو خوبصورت معانی پنہاں ہیں:

ایک یہ کہ یہ ایک راز ہے اور سراسر ایک باطنی عمل۔۔۔۔ جو مخلوق کے احاطۂ نظر میں کبھی آ ہی نہ پائے۔ روزہ کے اِس معنیٰ میں ریا کا کوئی گزر نہیں۔

دوسرا یہ کہ روزہ دراصل دشمنِ خدا کو مقہور کر دینا ہے۔ وجہ یہ کہ دشمنِ خدا کا وہ ہتھیار جو وہ ابنِ آدم کے خلاف بے تحاشا برتتا ہے اِس کی شہواتِ نفس ہیں۔ یہ شہوات و خواہشات انسان میں جہاں سے تقویت پاتی ہیں وہ ہے اِس کے ہاں خورد ونوش کی فراوانی۔ پس جب تک خواہشات کی یہ زمین ہری بھری رہے گی تب تلک شیاطین کا اِس چراگاہ میں آنا جانا بے تحاشا رہے گا۔ اب جب خواہشات و شہوات کو ترک کرایا جائے گا تو شیاطین کی راہیں خود بخود یہاں تنگ ہونے لگیں گی۔

اب ہم اختصار سے روزہ کی کچھ سنتوں کا ذکر کریں گے:

1) سحری کی جانا بے حد پسندیدہ ہے، اور وہ بھی یہ کہ خاصی لیٹ کرکے کی جائے۔ افطار میں خوب جلدی کی جائے، اور یہ کہ کھجور سے کی جائے۔

2) رمضان میں سخاوت بطورِ خاص مستحب ہے۔ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا۔ اچھا اور پسندیدہ بننا، دل کھول کر صدقہ کرنا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں رمضان کے معمولات کی نسبت ہمیں سیرت و احادیث سے معلوم ہے۔

3) رمضان میں قرآن کا طالبِ علم بننا۔ اعتکاف کی صورت خدا کے گھر میں ڈیرے ڈال دینا خصوصا رمضان کی آخری دس راتیں۔ رمضان کے آخری حصہ میں عبادت پر پورا زور صرف کردینا۔

صحیحین میں عائشہؓ کی حدیث ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ کمر بستہ ہو جاتے، رات عبادت میں گزارتے اور اہلِ خانہ کو بیدار کرتے۔ علماء نے اِس ’کمر بستہ ہو جانے‘ کے دو معنیٰ بیان کئے ہیں: ایک یہ کہ ازدواجی تعلق سے کنارہ کشی کرلیتے، اور دوسرا یہ کہ یہ کنایہ ہے عمل میں انتہائی حد تک جت جانے کا۔
علماءکا قول ہے کہ آپ کا آخری عشرہ میں عبادت وریاضت پر پورا زور صرف کردینا اس وجہ سے تھا کہ آپ لیلۃ القدر کو پالینے کی سعی فرماتے۔

٭٭٭٭٭٭٭

اب ہم روزہ کے بعض اَسرار اور آداب کا ذکر کریں گے:

روزہ کے تین مراتب ہیں: ایک عوام کا روزہ اور ایک خواص کا روزہ اور ایک خاص الخواص کا روزہ۔

عوام‘ کا روزہ ہے: پیٹ اور شرمگاہ کو اس کی خواہش پورا کرنے سے روک رکھنا۔

خواص‘ کا روزہ ہے: نگاہ، زبان، ہاتھ، پیر، کان، آنکھ اور سب کے سب اعضاءوجوارح کو خدا کی معصیت کے کاموں سے باز کئے رکھنا۔

رہا ’خاص الخواص‘ کا روزہ، تو وہ یہ ہے کہ دل ہی ہر گھٹیا سوچ اور ارادے کے معاملہ میں روزہ دار ہو جائے۔ وہ سب افکار و خیالات جو آدمی کو خدا سے دور کریں یا خدا کی نگاہ میں آدمی کی وقعت کم کردینے والے ہوں آدمی کے ہاں متروک ہو کر رہ جائیں۔ گویا قلب کی دنیا میں آدمی خدا کے سوا دنیا ومافیہا سے روزہ رکھ لے۔ روزہ کے اِس مرتبہ کی شرح و وضاحت کسی اور مقام پر ہوگی۔

رہ گیا دوسرا مرتبہ یعنی ’خواص کا روزہ‘ تو اس کے آداب میں یہ آتا ہے کہ آدمی کی نگاہ روزہ سے ہو جائے اور ہر اُس جانب سے جو خدا نے حرام ٹھہرا دی نگاہ کا رخ پھر جائے۔ زبان کو ہر اُس بات سے جو مخلوق کو اذیت دے یا خالق کے ہاں حرام یا ناپسند ہو، یا حتیٰ کہ جو لایعنی وبے فائدہ ہو۔۔۔۔ زبان کو ایسی ہر بات سے تالا لگ جائے۔ نیز یہ کہ آدمی اپنے سب کے سب اعضاءو جوراح کا پہرہ دار بن کر کھڑا ہو جائے کہ کوئی عضو بھی خدا کی معصیت کا رخ نہ کرپائے۔

بخاری کی روایت میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجة فی أن یدع طعامہ وشرابہ ” جو شخص قولِ باطل سے اور اس پر عمل کر گزرنے سے باز نہیں رہتا، اللہ کو یہ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا ہی چھوڑ کر رہے“ 
مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی پرواہ نہیں، کیونکہ یہ ان باتوں سے تو رک گیا ہے جو روزے کے علاوہ عام حالات میں اس کے لیے بالکل جائز اور روا ہیں البتہ ان باتوں سے روزہ رکھ کر بھی رکنے کا نام نہیں لیتا جن کی کسی بھی وقت اسے اجازت نہیں، اور جو کہ اللہ کی مطلق حرام کردہ باتیں ہیں۔

آدابِ صیام میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ آدمی رات کو کھانے سے پیٹ نہ بھر لے۔ رات کو بھی کھائے تو بس حساب سے۔ کیونکہ، جیسا کہ حدیث میں ہے، ابنِ آدم کا پیٹ وہ بدترین برتن ہے جس کو یہ کناروں تک بھر لیتا ہے۔ ابتدائے شب اگر انسان پیٹ کو کھانے سے پر کر لے تو باقی شب وہ اپنا اچھا استعمال ہرگز نہ کرپائے گا۔ اسی طرح اگر وہ سحری کے وقت شکم سیر ہو جاتا ہے تو ظہر تک وہ خود کو کار آمد نہ رکھ پائے گا۔ کیونکہ بسیار خوری کاہلی اور بے ہمتی کو جنم دیتی ہے۔ نیز روزہ سے جو کوئی مقصود ہے بسیار خوری سے خود اس مقصود ومطلوب پر ہی پانی پھر جاتا ہے۔ روزہ سے مقصود تو یہ ہے کہ انسان بھوک کے تجربے سے گزرے اور ترکِ خواہش کی استعداد پائے۔

٭٭٭٭٭٭٭

جان لو کہ صیامِ نفل یوں تو ہر وقت پسندیدہ ہے، مگر کچھ خاص ایامِ فضیلت میں تو بے حد پسندیدہ اور مستحب ہو جاتا ہے۔ فضیلت کے ایام کچھ تو وہ ہیں جو ہر سال آتے ہیں، جیسے مثلاً رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے، یومِ عرفہ، یومِ عاشوراء، عشرۂ ذو الحج، اور محرم۔ جبکہ کچھ ایام وہ ہیں جو ماہانہ ہیں، جیسے مثلاً مہینے کا یومِ اول اور یومِ وسط اور آخری یوم۔ جو ان تین دنوں کے روزے رکھے وہ خوب ہے۔ البتہ افضل یہ ہے کہ مہینے کے تین دن وہ ایامِ بیض کے کرے، یعنی چاند کے جوبن کے تین ایام روزہ سے رہے۔

جبکہ فضیلت کے کچھ ایام ہفتہ وار ہیں، یعنی سوموار کا روزہ اور جمعرات کا روزہ۔

صیامِ نفل میں افضل ترین صومِ داودؑ ہے: داود علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار۔ صیامِ داودؑ کے افضل ترین ہونے میں تین خوبصورت معانی پوشیدہ ہیں:

ایک یہ کہ نفس کو ایک دن اُس کا حظ ملتا ہے اور ایک دن اُس سے عبادتِ صوم کرائی جاتی ہے۔ یعنی ایک دن اُس کو حق ملتا ہے اور ایک دن اُس سے کام لیا جاتا ہے، جو کہ عدل کی بہترین حالت ہے۔

دوسرا یہ کہ کھانے کا روز روزِ شکر ہے اور اگلا روزے کا دن روزِ صبر۔ جبکہ ایمان کے دو ہی شق ہیں، ایک شکر اور ایک صبر!

تیسرا یہ کہ عام مجاہدہ کی نسبت یہ نفس پر زیادہ شاق ہے۔ کیونکہ جونہی نفس ایک خاص حالت سے مانوس ہونے لگتا ہے اِسے وہاں سے پھیر کر ایک دوسری حالت میں لے آیا جاتا ہے۔ یوں نفس کا یکسانیت سے نکلنا نفس کو عبادت کے خاص معانی سے آشنا کراتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صومِ دہر (یعنی ہمیشہ روزے ہی رکھتے جانا) کی بابت، مسلم میں ابو قتادہؓ سے مروی ہے، عمرؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاتو آپ نے فرمایا: لا صام ولا أفطر، أو لم یصم ولم یفطر کہ ”نہ اُس کا روزہ اور نہ اُس کا افطار

یہ (صومِ دہر) اس حالت پر محمول ہوگا کہ آدمی لگاتار روزے رکھے اور ممنوعہ ایام تک کے روزے نہ چھوڑے۔ البتہ اگر وہ عیدین اور ایامِ تشریق میں روزہ رکھنے سے اجتناب کرتا ہے تو یہ صومِ دہر نہ ہوگا۔ چنانچہ عائشہؓ کے بارے میں آتا ہے کہ آپؓ لگاتار روزے رکھتیں۔ انس بن مالکؓ کہتے ہیں صحابیِ رسول ابو طلحہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد چالیس سال تک لگا تار روزے رکھتے رہے (ممنوعہ ایام کے ماسوا)

٭٭٭٭٭٭٭

یہ بھی جان لو کہ جس آدمی کو بصیرت ملی ہو وہ روزہ سے جو مقصود ہے عین اس مقصود سے آشنا رہتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو نیکی کے کسی ایسے (نفل) کا مکلف نہیں کرتا جس کی ادائیگی کے باعث وہ اُس سے کسی افضل تر عمل کو اختیار کرنے کے معاملہ میں بے ہمت ہو رہے۔

مثلاً، عبد اللہ بن مسعودؓ کا بکثرت روزہ رکھنے کا معمول نہ تھا۔ فرماتے: میں جب روزہ رکھتا ہوں تو نماز (کی طوالت و کثرت) پر پوری محنت نہیں کر پاتا، جبکہ میں (نفل) روزہ کی نسبت نماز (قیام وسجود) پر محنت اور ریاضت کو ترجیح دیتا ہوں۔ سلف میں بعض کے ساتھ یوں ہوتا کہ بکثرت روزہ رکھیں تو قراءتِ قرآن پر محنت نہ ہو پاتی۔ چنانچہ وہ بکثرت افطار سے رہتے تاکہ تلاوت پر قدرت پائیں۔ ہر انسان ہی اپنی حالت کا بہتر اندازہ کر سکتا ہے اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ عبادت کے کون کونسے اعمال اس کے زیادہ سے زیادہ مناسبِ حال ہیں۔

(اردو استفادہ از:
مختصر منہاج القاصدین
مؤلفہ امام ابنِ قدامہ الحنبلیؒ
کتاب الصوم وآدابہ و أسرارہ ومہماتہ وما یتعلق بہ)

اَسرارِ صیام (اردو استفادہ از امام ابن قدامہ الحنبلیؒ) مصنف: حامد کمال الدین جان لو کہ روزہ کے اندر کچھ ایسی خاص بات رکھ دی گئی ...

سورہ فاتحہ کا تفسیری ترجمہ

Related image

سورہ فاتحہ کا تفسیری ترجمہ
از ڈاکٹر محمد عقیل

 اصل تعریف  اور حقیقی شکر تو اللہ ہی کا ہے، کیونکہ وہی تو ہے جو تمام جہانوں کا تنہا پالنے والا ہے۔ وہی  تو  ہے جو تمام ترا قتدار کے باوجود سراپا مہربان اور بے پناہ  نرمی کرنے والا ہے۔ وہی تو ہے جو    اس دن کا تنہا ما لک ہے جب اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ تو  اے اعلی صفات کے حامل تنہا خدا ، ہم آپ  ہی  کی اطاعت و بندگی قبول کرتے ہیں اور اس  بندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر آپ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اسبندگی کی راہ میں ہم پہلی مدد یہی مانگتے ہیں کہ ہمیں سیدھا راستہ دکھادیجے جو  ہمیں  کامیابی کی منزل تک پہنچادے۔  وہی راستہ جس پر چل کر   لوگ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اور اس شیطانی  راستے سے بچالیجے جس پر چل کر لوگ  آپ کے غضب کا شکار ہوجاتے یا   نفس پرستی کی گمراہیوں  میں بھٹک جاتے ہیں۔ پس اے رحمان و رحیم رب ، ہماری درخواست  قبولفرمالیجے

سورہ فاتحہ کا تفسیری ترجمہ از ڈاکٹر محمد عقیل  اصل تعریف  اور حقیقی شکر تو اللہ ہی کا ہے، کیونکہ وہی تو ہے جو تمام جہانوں کا تنہ...

آج کی بات ۔۔۔۔ 23 مئی 2018

~!~ آج کی بات ~!~

 امیدوں اور حقیقتوں کے درمیان توازن رکھنے والا شخص کبھی غمگین نہیں ہوتا۔ 

~!~ آج کی بات ~!~  امیدوں اور حقیقتوں کے درمیان توازن رکھنے والا شخص کبھی غمگین نہیں ہوتا۔ 

اللہ کی محبت از ابن قیمؒ

کیلیگرافی

آدمی کے دل میں بیٹھی خدا کی محبت اپنا پتہ دیتی ہے:

جب یہ بستر پر لیٹتا ہے؛ تب جس سے محبت ہو جب تک اسے یاد نہ کر لے آدمی کو نیند نہیں آتی۔

نیند سے بیدار ہوکر؛ سب سے پہلے آدمی کو محبوب ہی کی یاد آتی اور اُسی کا نام زبان پر اور اُسی کا خیال دل میں آتا ہے۔

نماز میں داخل ہوتے وقت؛ کہ یہ تو ہے اُس سے ملاقات کی جا۔

ہول اور پریشانی وقت؛ تب بھی جس سے محبت ہو وہی سب سے پہلے یاد آتا ہے۔

ابن قیمؒ

کیلیگرافی الحمد للہ آرٹس آدمی کے دل میں بیٹھی خدا کی محبت اپنا پتہ دیتی ہے: 1۔ جب یہ بستر پر لیٹتا ہے ؛ تب جس سے محبت ہو جب تک...

اے خیر کا ارادہ رکھنے والے! آگے بڑھ۔۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)

اے خیر کا ارادہ رکھنے والے! آگے بڑھ
خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)
مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم
جمعۃ المبارک 2 رمضان المبارک 1439ھ بمطابق 18 مئی 2018
ترجمہ: عاطف الیاس

منتخب اقتباس:

الحمد للہ! وہی عزت والا اور معاف فرمانے والا ہے۔ وہی طاقتور، واحد اور سب پر غالب ہے۔ وہی رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لانے والا ہے۔ ساری بھلائی اسی کے ہاتھ میں اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ وہ جو چاہتا ہے، پیدا کر تا ہے اور جسے چاہتا ہے منتخب فرماتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے چنیدہ رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام الٰہی احسن انداز میں پہنچایا، امانت ادا فرمائی اور فرمان برداری اور استغفار پر قائم رہے۔ اللہ کی رحمتیں، اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اہل بیت پر۔ مہاجرین وانصار پر، ان کے راستے پر چلنے والوں اور قیامت تک ان کے طریقے پر عمل کرنے والوں پر۔

بعدازاں!
بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ ایجاد کردہ عبادتیں بد ترین کام ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم کی طرف لے کر جاتی ہے۔
اے لوگو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ تقویٰ ہی مومن کا حقیقی سرمایہ ہے اور یہی پریشان لوگوں کی رہنمائی کرنے والا ہے۔ جو اسے تھامے رکھتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو اس سے دور ہو جاتا ہے اسے گھاٹا اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ اللہ کے عذاب سے بچانے والی بہترین چیز ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے ‘‘
(یونس: 62-63)

اللہ کے بندو!
زمانہ چکی کی طرح گھوم رہا ہے۔ رات گزرتی ہے تو دن آ جاتا ہے مگر لوگ مختلف رویوں کے حامل ہیں۔ کسی کو دنیا کی فکر کم اور کسی کو زیادہ ہے۔ کوئی محنت کرتا ہے اور کوئی بس سویا ہی رہتا ہے۔ کوئی اسے سنجیدگی سے لیتا ہے اور کوئی اسے تفریح سمجھتا ہے۔ ہر کوئی اپنے نفس کا سودا کرتا ہے، کوئی تو اسے کامیاب کر لیتا ہے اور کوئی اسے ہلاک کر دیتا ہے۔

سعادت مند وہی ہے جو خیر کی بہار میں بہترین کمائی کر لیتا ہے، جو خوب محنت کرتا ہے اور عبادت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا۔ خیر کی بہار، نیکیاں کمانے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا نے کا موقع انہی لوگوں کو ملتا ہے جو واقعی سنجیدہ اور محنت کش ہیں۔ سست اور بے ہمت لوگ ایسے مواقع سے محروم رہتے ہیں۔

لہٰذا انسان کے ہاتھ میں صرف وہ لمحے ہوتے ہیں جنہوں وہ اس وقت جی رہا ہوتا ہے۔

تو اے بھلائی کا ارادہ رکھنے والے! آگے بڑھ! اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے! اب تو رک جا!

لوگوں کے دل بھی دوسری چیزوں کی طرح مختلف چیزوں کا اثر لیتے ہیں۔ کبھی یہ لوہے کی طرح زنگ آلود ہو جاتے ہیں۔ کبھی جانور کے تھن کی طرح خشک ہو جاتے ہیں اور کبھی کھیتی کی طرح سوکھ جاتے ہیں۔ پھر انہیں کسی ایسے محرک کی ضرورت ہوتی جو ان کا زنگ اتار دے، ان کی خشکی دور کر دے اور انہیں پھر سے تر کر دے۔

رمضان المبارک کا مہینہ دلوں کا پاکیزہ کرنے اور ان میں عبادت کا جوش وجذبہ پیدا کرنے کا بہترین موقع ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘
(البقرۃ: 185)

یہ مہینہ، نیکی، روزہ، نماز، رحمت اور باہمی مودت کا مہینہ ہے۔ یہ شہوات نفس کو لگام دینے کا مہینہ ہے، یہ نفس کو نیکی کی طرف لانے کا مہینہ ہے۔ نفس کو کمال کے فریب سے نکالنے کا مہینہ ہے، کمال کا گمان ایسی رکاوٹ ہے کہ جو انسان کو سنہری موقعوں سے فائدہ اٹھانے سے روکتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان حلال اور بے فائدہ چیزوں کے جھنجھٹ گھر جاتا ہے۔ پھر وہ اسی میں اپنا سارا وقت لگانے لگتا ہے اور انہی کو اپنا سرمایہ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ خیر اور بھلائی کے بہت سے شاندار مواقع کو گنوا بیٹھتا ہے۔ پھر وہ اپنی خواہشات، سستی اور کاہلی کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔

سنو! رمضان تقویٰ کے لباس سے مزین ہونے کا موقع ہے۔ کوئی شخص رمضان المبارک کی برکتوں سے بےنیاز تو نہیں ہے۔

جی ہاں! اللہ کے بندو! ہم اپنے اموال اور اولاد میں ایسے مصروف ہو چکے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے دلوں کو پاکیزہ کرنے اور ان میں خیر اور بھلائی کا جذبہ پیدا کرنے کا وقت ہی نہیں رہا۔ بعض دلوں میں سختی آ گئی ہے۔ ایسے دلوں کو نرم کرنے کے لیے رمضان المبارک کی رحمتیں کافی ہیں۔ بعض لوگوں کے مال میں بے برکتی ہے۔ انہیں بڑھانے اور ان میں برکت پیدا کرنے کے لیے رمضان کی برکتیں کافی ہیں۔ بعض زبانوں میں سختی آ گئی ہے۔ ایسی زبانوں کو اچھے بول کا عادی بنانے کے لیے رمضان المبارک کی عطائیں کافی ہیں۔ بعض جسموں میں سستی ہے۔ انہیں ہمت وطاقت دینے کے لیے رمضان المبارک کی عظمتیں بہت ہیں۔
یہ ماہ تقویٰ کی تربیت دینے والا ایک مکمل کورس ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘
(البقرۃ: 183)

غیرت مند مسلمان کو یہ دیکھ کر انتہائی دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس مہینے میں بھی ویسی ہی زندگی گزارتے رہتے ہیں جیسی وہ عام طور پر گزارتے ہیں جس کا محرک عادت اور روٹین ہوتی ہے۔ جو عبادت کی روح اور فرمان برداری کے جذبے سے بالکل خالی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ بابرکت مہینہ نفس کو تربیت دینے کا بہترین موقع ہے۔

یہ مہینہ ہمیں اللہ کے حقوق یاد دلاتا ہے۔ اس کی اکثر مجلسوں سے ایمانی جذبات کی مہک آتی ہے۔ لوگ عبادت، نیک اعمال اور تلاوت میں مصروف نظر آتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے لیے تیار کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کا حال بدل دیتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘
(الرعد: 11)

اے بھلائی کا ارادہ رکھنے والے! آگے بڑھ! اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے! اب تو رک جا!

جو مسلمان رمضان کو قرآن کے بغیر گزارنا چاہتا ہے اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جو پانی اور ہوا کے بغیر زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ بعض مسلمانوں کا قرآن کریم سے تعلق بڑا ہی سطحی ہوتا ہے۔ وہ اسے بس اپنی زبانوں کے اوپر سے گزراتے ہیں۔ انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں کیا پڑھا ہے، انہیں کچھ سمجھ نہیں ہوتی کہ انہوں نے کیا تلاوت کی ہے۔ تلاوت کے دوران ان کی نظر سورت کے آخر پر ہوتی ہے کہ کب یہ سورت ختم ہو گی۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے کہ:
’’ان میں ایک دوسرا گروہ امّیوں کا ہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جا رہے ہیں‘‘
(البقرۃ: 78)

یعنی وہ قرآن کریم کی تلاوت اس طرح کرتے ہیں کہ اس کا اثر ان کے گلے سے نیچے نہیں جاتا۔ اسے بہترین لہر اور شاندار آواز میں پڑھنے پر ساری توجہ لگا دیتے ہیں اور یوں وہ قرات کی روانی اور تدبر سے محروم رہ جاتے ہیں۔

رمضان المبارک کے دن نفس کو پاکیزہ کرنے کا بہترین موقع ہیں، رات تک انہیں خوب پاکیزہ کر لیجیے تاکہ وہ تدبر قرآن کے لیے تیار ہو جائیں۔ رات کی تلاوت میں تدبر بہتر انداز میں کیا جا سکتا ہے۔ دن کے وقت انسان روزے سے ہوتا ہے جس سے دل کو پاکیزگی ملتی ہے اور رات کے وقت وہ قیام میں مصروف ہوتا ہے جس سے دل میں نیکی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے‘‘
(المزمل: 6)

ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھائے۔ اہل علاقہ میں سے جتنے حاجت مندوں، یتیموں اور بیواؤں کے آنسو پونچھے جا سکیں انہیں پونچھنے میں ذرہ برابر بھی تامل نہیں کرے۔ ان کا فاقہ ختم کرنے اور ان کی مصیبت دور کرنے میں کنجوسی نہ کرے۔
اس معاملے میں کنجوسی سے بچو، کیونکہ کنجوسی ایسی برائی ہے کہ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے، حالانکہ وہ تو سب سے بڑے سخی تھے کہ جن کے بارے میں آتا ہے کہ وہ رمضان المبارک میں لوگوں کے لیے تیز ہوا سے بھی زیادہ فائدہ مند ہوتے تھے۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب بھی کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کبھی نا نہیں کی۔

خرچ کرنے سے صرف مسکین ہی کو فائدہ نہیں ہوتا بلکہ خرچ کرنے والوں کو خود بھی اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ فرمانِ نبوی ہے:
صدقہ کرنے والے اور بخیل کی مثال ان دو لوگوں کی طرح ہے جو سینے سے گردن تک لوہے کا لباس پہنے ہوئے ہیں، جب سخی خرچ کرنا چاہتا ہے تو وہ لباس کھل جاتا ہے یا اس کے جسم پر کشادہ ہوجاتا ہے اور بخیل جب خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لباس کی ہر کڑی اپنی جگہ پر جم جاتی ہے۔ وہ بار بار اسے کھولنا چاہتا ہے مگر وہ کشادہ نہیں ہوتا۔ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

یاد رکھیے! شیطان پر سب سے زیادہ سخت گزرنے والا، اس کی چالوں کو ناکام بنانے والا اور اس سب سے بڑھ کر اس کا وسوسہ دور کرنے والا کام وہ صدقہ ہے جسے مستحقین تک پہنچا کر انسان یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ خواہشات نفس پر، شیطان پر اور اس کے ڈراوے پر غالب آ گیا ہے۔ شیطان تو انسانوں فقر وفاقہ سے خوف زدہ کرتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں‘‘
(النساء: 120)
اسی طرح فرمایا:
’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے‘‘
(البقرۃ: 268)

اے بھلائی کا اردہ رکھنے والے! آگے بڑھ اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے! اب تو رک جا!

اے اللہ! ہم تجھ سے جو خیر مانگتے ہیں، وہ ہمیں عطا فرما! جو نہیں مانگتے وہ بھی ہمیں عطا فرما! اور جو بھلائی ہمارے علم، عمل اور امید سے بالا تر ہے یا اللہ! تو وہ بھی ہمیں عطا فرما!

’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ اور سلام ہے مرسلین پر۔ اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے‘‘
(الصافات: 180-182)


اے خیر کا ارادہ رکھنے والے! آگے بڑھ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم ...

آج کی بات ۔۔۔۔ 21 مئی 2018


~!~ آج کی بات ~!~

تبدیلی کا راز یہ ہے کہ اپنی تمام تر توجہ کو پرانی باتوں کو مٹانے پر نہیں، بلکہ نئی باتیں تعمیر کرنے پر صرف کیا جائے۔

~!~ آج کی بات ~!~ تبدیلی کا راز یہ ہے کہ اپنی تمام تر توجہ کو پرانی باتوں کو مٹانے پر نہیں، بلکہ نئی باتیں تعمیر کرنے پر صرف کیا ج...

روزہ کی بابت آپﷺ کی تعلیم _ *اردو استفادہ از امام ابن القیم٭ (حصہ سوم)

Image result for ‫رمضان‬‎
روزہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم
 *اردو استفادہ از امام ابن القیم٭ 
(حصہ دوم)


آپکا طریقہ تھا کہ آپ صیامِ رمضان کا آغاز نہ کرتے جب تک کہ رمضان کا چاند نہ دیکھ لیتے یاپھر کم ازکم ایک گواہ کی صورت میں چاند دیکھنے کی اطلاع نہ پالیتے۔آپ نے عبداللہ بن عمرؓ کی گواہی پر روزہ رکھا۔ ایک بار ایک ہی اعرابی کی شہادت پر لوگوں کو روزہ رکھوایا۔ یہ بھی نہ کہا کہ کہو میں گواہی دیتا ہوں۔ آدمی نے آکر اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے اور آپ نے اس خبر واحد پر اکتفا فرمایا۔ البتہ اگر نہ رؤیت ہو اور نہ رؤیت کی گواہی ہو تو آپ شعبان کے تیس روز پورے کرواتے۔

مطلع ابر آلود ہوتا تو شعبان کے تیس روز پورے فرماتے ۔ شک کے دن کا روزہ نہ رکھتے۔ فرماتے :”مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے۔ مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے۔پس اگر مطلع صاف نہ پاؤ توتیس کی گنتی پوری کرلو

آپکا طریقہ تھا کہ ایک مسلم آدمی کی شہادت میسر آجاتی تو لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم فرمادیتے۔ البتہ ماہ رمضان کے اختتام کے معاملہ میں دو کی گواہی لیتے۔

عید کے چاند کی گواہی اگر آپ کو اس سے اگلی صبح عید کا وقت گزرجانے کے بعد ملتی تو آپ اسی وقت روزہ کھول لیتے اور لوگوں کو روزہ کھول لینے کا حکم دیتے۔البتہ عید کی نماز دوسرے دن جاکر عید کے وقت پڑھتے ۔

افطار جلد فرماتے۔ افطار میں جلدی کرنے کی بے حد تاکید کرتے۔ سحری کا اہتمام فرماتے۔ سحری کرنے کی خصوصی ہدایت کرتے ۔ سحری کومؤخر کرتے اور مؤخر کرنے کی ترغیب دیتے۔

روزہ کھجور سے افطار کرنے کی تاکید کرتے۔ کھجور نہ ہو تو پانی سے۔ یہ آپ کی امت پر کمال مہربانی اور ہمدردی کی دلیل ہے۔ دن بھر معدہ خالی رہنے کے بعد اس کے ازسر نو مصروف ہوجانے کےلئے سب سے پہلے اس کو کچھ میٹھی چیز مہیا کرنا نہایت فائدہ مند ہے اور تمام قوائے جسم کو چست کردینے کا باعث۔ خصوصاً بصارت کو تقویت دینے میں یہ بہت اہم ہے۔ مدینہ میں میٹھا کھجور سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔ اسی پر ان کی گزر بسر تھی ۔یہی ان کی غذا ۔ یہی ان کی ضیافت۔ درخت سے اتری تازہ کھجور ہی ان کےلئے پھل تھا۔ رہا پانی تو دن بھر کا فاقہ جگر کو ایک طرح سے سُکھا دیتا ہے۔ پس سب سے پہلے اس کو پانی سے طراوت دی جائے تو بعد میں کھائی جانے والی غذا کو بہترین انداز میں جسم کےلئے کارآمد بنا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک آدمی جو بھوکا بھی ہو اور پیاسا بھی، اس کو چاہیے کہ وہ فوراً کھانا شروع نہ کرے بلکہ پہلے تھوڑا ساپانی پئے۔ پھر کچھ ٹھہر کر کھانا کھائے ۔یہ تو ہوئی کھجور اور پانی کی جسم کو ضرورت ۔ البتہ ان دونوں چیزوں کی تاثیر قلبی اور روحانی عمل میں بھی کمال کی دیکھی گئی ہے اور اس کا اندازہ انہی کو ہے جو اس میدان کے لوگ ہیں۔

افطار آپ نماز مغرب سے پہلے فرماتے۔ آپ کےلئے درخت کی تازہ اتری کھجوریں لائی جاتیں ۔ اگر یہ میسر نہ ہوتیں تو خشک کھجوریں۔ یہ بھی میسر نہ ہوتیں تو آپ پانی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ ہی لے لیتے۔

مذکور ہے کہ روزہ کھولتے وقت آپ دعاگو ہوتے:”خدایا تیری خاطر فاقہ کیا۔ اب تیرا دیا کھا کرافطار کیا“۔یہ روایت ابوداؤد میں ہے۔

یہ بھی مروی ہے کہ جب افطار کرلیتے تو گویا ہوتے :”پیاس تھی سوگئی۔رگوں کو تراوت ملی اور خدانے چاہا تو اجر پکا

ابن ماجہ میں آپکا یہ فرمان مروی ہے کہ :”روزہ دار کو روزہ افطار کرنے کے وقت ایک دعا کا حق دیا جاتا ہے جو ہرگز رد نہیں ہوتی


رمضان میں آپ سفرکرلیتے ۔رمضان کے سفر میں آپ نے روزہ رکھا بھی اور چھوڑا بھی۔ صحابہ کو چناؤ دیا کہ چاہیں تو روزہ رکھیں اور چاہیں تو چھوڑ لیں ۔

دشمن سے آمنا سامنا ہونے کا وقت قریب ہوتا تو صحابہ کو روزہ چھوڑ دینے کا حکم دیتے تاکہ دشمن سے قتال کرنے کےلئے زیادہ طاقت پائیں۔

مجاہد فوج اگر سفر میں نہ ہو بلکہ مقیم ہو تو کیا مجاہدین قتال میں زیادہ طاقت پانے کےلئے اپنے گھروں میں رہتے ہوئے بھی رمضان کے روزے چھوڑ سکتے ہیں؟ اس کی بابت اہل علم کے دو قول ہیں۔ البتہ دلیل کے لحاظ سے صحیح قول یہ ہے کہ ان کو اس بات کی اجازت ہے۔ ابن تیمیہؒ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا اور جس وقت دمشق کے باہر مجاہدین کی دشمن سے مڈبھیڑ ہونے والی تھی انہوں نے مجاہدین کو یہی فتویٰ دیا۔ یوں بھی جہاد کی مشقت سفر کی مشقت سے کہیں بڑی ہے۔ اور پھر جہاد سے جو مصلحت وابستہ ہے وہ سفر کے ساتھ وابستہ مصلحت سے کہیں بڑی ہے۔ اور پھر سفر ایک فرد کی اپنی ضرورت ہوسکتی ہے جبکہ جہاد پوری امت کی ضرورت ہے لہٰذا مقیم مجاہد کا بوقت قتال روزہ چھوڑنا ایک مسافر کی نسبت کہیں اولیٰ ہے۔

رمضان میں آپ نے دو عظیم ترین غزووں کےلئے سفر فرمایا۔ایک غزوۂ بدر اور دوسرا غزوۂ فتح۔ عمرؓ کہتے ہیں:ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی میں دو غزوے کئے۔ ایک بدر کے روز اور ایک فتح مکہ کےلئے۔ ان دونوں موقعوں پر ہم نے روزہ چھوڑا۔

آپ کی ھَديَ میں یہ کہیں نہیں پایا جاتا کہ آپ نے کسی ایسی مسافت کا تعین کیا ہو جس کا سفر کرنے کے دوران آدمی کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہو اور اس سے کم مسافت ہو تو افطارکی اجازت نہ ہو۔

صحابہ کو سفر درپیش ہوتا تووہ روزہ چھوڑ لیتے ۔ یہ شرط نہ لگاتے کہ وہ اپنے شہر کی آبادی سے نکل کر ہی کچھ کھاپی سکتے ہیں۔ عبید بن جبر کہتے ہیں میں نے صحابی رسول ابوبصرہ غفاریؓ کے ساتھ رمضان میں فسطاط (ایک شہر) سے کشتی کا سفر کیا۔ ابھی ہم آبادی سے نہیں نکلے تھے کہ ابو بصرہ ؓنے دسترخوان لانے کا حکم دیا اور مجھے کھانے کےلئے آگے بڑھنے کا کہا۔ میں نے کہا:کیا آپ آبادی نہیں دیکھ رہے؟ ابوبصرہ غفاری کہنے لگے: کیا تم سنت رسول اللہ سے منہ موڑتے ہو؟ (رواہ ابوداؤد و احمد) محمد بن کعب کہتے ہیں :میں انس بن مالک کے ہا ں حاضرہو اجو کہ سفر پہ روانہ ہونے والے تھے۔ ان کی سواری تیار کردی گئی تھی اور وہ سفر کا لباس پہن چکے تھے۔تب انہوں نے کھانا منگوایا۔میں نے کہا: کیا یہ سنت ہے؟ فرمایا :ہاں سنت ہے۔ اس کے بعد وہ سفر پہ روانہ ہوگئے۔ ترمذی نے اس کو حدیث حسن کہا ہے۔

(استفادہ واختصار از زاد المعاد ص:211۔201مؤلفہ ابن القیمؒ)

روزہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم  *اردو استفادہ از امام ابن القیم٭  (حصہ دوم) مصنف:  حامد کمال الدین حصہ دوم آپ...

رمضان ؛ تمام عبادات کا سنگم ... خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

رمضان ؛ تمام عبادات کا سنگم
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم 
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے03(بمطابق رؤیت 02)-رمضان-1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں" رمضان ؛ تمام عبادات کا سنگم" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ ماہ رمضان تعالی کی خاص رحمت ہے ، یہ مہینہ بڑی شان والا ہے، یہ مہینہ غریبوں کے دکھ بانٹنے، صدقہ خیرات اور دوسروں کا درد اپنا درد سمجھنے کا مہینہ ہے، اس ماہ میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اس ماہ میں روزے رکھ کر ساری دنیا کے تمام مسلمان یک جہتی اور اتحاد کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں، اس مہینے میں فرائض کی پابندی کے ساتھ نفل عبادات کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، رمضان میں قیام اور روزوں کا اہتمام کرنے سے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں، نیز رمضان میں عمرے کا ثواب حج کے برابر ہے، اس ماہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیز آندھی سے بھی زیادہ صدقہ کیا کرتے تھے اس لیے ہمیں بھی آپ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے، روزہ انسان کو تقوی کی دولت سے آراستہ کرتا ہے اور گناہوں کے سامنے ڈھال بن جاتا ہے، ماہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے، اسی ماہ میں قرآن مجید نازل ہوا، اس لیے اس ماہ میں تدبر اور فہم کے ساتھ تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے، روزے کی حالت میں دعا رد نہیں ہوتی اس لیے روزے کے دوران زیادہ سے زیادہ دعائیں کریں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ دین حسن سلوک اور برتاؤ کا نام ہے، اور تمہارے حسن سلوک کے سب سے پہلے حقدار تمہارے والدین ہیں، اسی طرح دیگر رشتہ داروں کے ساتھ بھی مکمل صلہ رحمی کریں، سلف صالحین اپنے روزے کے تحفظ کے لیے مسجد میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے تھے تا کہ زبان کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہ سکیں، آخر میں انہوں نے کہا کہ ابھی سے ماہ رمضان میں اجر و ثواب سمیٹنے کے لیے عزم مصمم کر لیں اور پھر معمولی سی بھی کوتاہی نہ کریں، آخر میں انہوں نے سب کے لیے دعا فرمائی۔

منتخب اقتباس:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم -اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!

دن اور رات تیزی سے گزر رہے ہیں، ان کے پیچھے مہینے بھی چلتے جا رہے ہیں اسی اثنا لوگ اللہ کی جانب بڑھ بھی رہے ہیں، اور وہاں سب لوگ جلد ہی اپنی کارکردگی دیکھ لیں گے۔

یہ اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے کہ لوگوں کے لیے نیکیوں کی بہاریں مقرر فرمائیں، اس ضمن میں کچھ ایام ، راتوں اور لمحات کو خصوصی مقام سے نوازا؛ صرف اس لیے کہ لوگوں کے جذبات کو مہمیز ملے اور بڑھنے والے مزید آگے بڑھیں۔

جب بھی ماہ رمضان کا چاند طلوع ہوتا ہے تو ہمارے لیے ہمیشہ بابرکت گھڑیاں لاتا ہے، مسلمان ماہ رمضان کا انتہائی مسرت اور خوشی کے ساتھ استقبال کرتے ہیں، ان کے دل فرحت سے معمور ہوتے ہیں، کیونکہ ماہ رمضان میں قبولیت کی گھڑی کسی بندے کو مل جائے تو وہ سعادت اور رضائے الہی کے بلند درجات پا لیتا ہے۔

اس وقت یہ معزز اور محترم ترین مہینہ شروع ہو چکا ہے، اللہ تعالی نے نیکیوں کی اس بہار کو خصوصی شرف اور فضیلت عطا کی ہے کہ اس مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، اسی میں قرآن مجید نازل ہوا، اللہ تعالی نے اس کے روزے فرض فرمائے۔

ماہ رمضان کی ایک ایک گھڑی بابرکت ہے، اس مہینے کا ہر لمحہ خیر و بھلائی سے بھر پور ہے، اس مہینے میں خیرات کا تسلسل جاری رہتا ہے، برکتیں عام ہوتی ہیں، یہ دوسروں کے کام آنے اور صدقہ خیرات کرنے کا موسم ہے، یہ مہینہ حصول مغفرت اور گناہوں کو ختم کروانے کا مہینہ ہے، دن صیام میں اور رات قیام میں گزرتی ہے، یہ مہینہ قرآن اور نماز سے آباد ہوتا ہے، اس مہینے میں جنتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے جو اس سے محروم ہو گیا وہی حقیقی معنوں میں محروم ہے۔

ماہ رمضان نیکیوں کی دوڑ میں آگے نکلنے کا وسیع میدان ہے، یہ مہینہ نفس کو ہمہ قسم کی آلائش اور بیماریوں سے پاک صاف کرنے کا مہینہ ہے، یہ انتہائی معزز مہینہ ہے اس مہینے میں اعمال کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے، اس ماہ میں گناہوں اور خطاؤں کو معاف کر دیا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (پانچوں نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک، ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک درمیان میں ہونے والے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے) مسلم

نیکیوں کی اس بہار کو غنیمت سمجھنا بھی اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی توفیق ہوتی ہے، اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اس توفیق سے نوازتا ہے، ماہ رمضان میں ساری کی ساری بنیادی عبادات یکجا ہو جاتی ہیں، چنانچہ نماز اللہ تعالی اور بندے کے درمیان ناتا اور رابطہ ہے ، مسلمان کی زندگی سے نماز کبھی بھی غائب نہیں ہوتی، مرد کے لیے باجماعت نماز ادا کرنا فرض ہے جو مرد کی گھر یا بازار میں ادا کی ہوئی نماز سے 27 درجے افضل ہوتی ہے، مسلمان کو کوشش کرنی چاہیے کہ روزے کے ساتھ نفل نمازوں کا بھی خصوصی اہتمام کرے اور رات کے وقت زیادہ سے زیادہ قیام کرے؛ کیونکہ: (جو شخص رمضان میں ایمان اور ثواب کی امید کے ساتھ قیام کرے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) متفق علیہ

اور اسی طرح فرمایا: (اور جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ [نماز مکمل کر کے] چلا جائے، تو اس کے لیے رات بھر کا قیام لکھ دیا جاتا ہے) ترمذی

زکاۃ اور نفل صدقہ خیرات؛ دولت کو پاک کرتے ہیں اور ان میں اضافے کا باعث بھی بنتے ہیں، یہ دریا دلی اور دل کی صفائی کا ذریعہ ہیں، زکاۃ کی ادائیگی کا اثر شخصیت، دولت اور اولاد سب پر یکساں پڑتا ہے، زکاۃ بلاؤں کو ٹالتی ہے اور خوشیاں سمیٹتی ہے، اللہ کے بندوں پر جو سخاوت کرے تو اللہ تعالی اس پر سخاوت فرماتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم، تم [میری راہ میں ]خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا) متفق علیہ

روزِ قیامت ہر شخص اپنے صدقے کے سائے تلے ہو گا، اس لیے صدقہ لازمی کرو چاہیے معمولی ہی کیوں نہ ہو، صدقہ کرتے ہوئے خوشی سے دو اور غریبوں کے دکھ درد بانٹو، روزہ افطار کروانے والے کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا روزے دار کو ملتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ تھی کہ آپ بہت زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے، آپ کو خرچ کرتے ہوئے غربت یا تنگی کا ڈر نہیں ہوتا تھا، کسی کو دیتے تو دریا دلی کے ساتھ دیتے اور کسی کو نوازتے تو کھل کر عنایت فرماتے تھے، آپ نے کبھی کسی سائل کو خالی واپس نہیں موڑا، آپ سے کچھ بھی مانگا گیا آپ نے کبھی انکار نہیں کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان میں خصوصی جود و سخا کا مظاہرہ فرماتے، اسی لیے آپ ماہ رمضان میں تیز اندھیری کی طرح خرچ کیا کرتے تھے۔

روزہ اس فضیلت والے مہینے میں انتہائی عظیم عبادت ہے، اس مہینے میں مسلمان روزہ رکھ کر تقوی کی نعمت حاصل کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ}
 اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے لکھ دئیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر لکھے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔ [البقرة: 183]
 روزے کا ثواب بے حد و حساب ملے گا، اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے: (روزے کے علاوہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے؛ کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا) متفق علیہ

روزہ ؛ روزے داروں اور برائی کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (روزہ [گناہوں کے سامنے] ڈھال ہے) ترمذی

قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے اور اللہ تعالی کی لوگوں پر حجت ہے، قرآن کریم سرچشمہ حکمت اور رسالت نبوی کی نشانی ہے، اللہ تعالی کی جانب قرآن کریم کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جاتا، قرآن کریم کے بغیر ہمارے لیے نجات ممکن نہیں، یہ بصیرت اور بصارت دونوں کے لیے نور ہے، قرآن کے قریب ہونے والا صاحب شرف بن جاتا ہے، اس پر عمل پیرا شخص معزز ہو جاتا ہے، قرآن کریم کی تلاوت ثواب کے ساتھ رہنمائی بھی ہے، قرآن کریم کا مطالعہ علم اور ثابت قدمی کا باعث ہے، قرآن کریم پر عمل تحفظ اور امان کا باعث ہے، قرآن کریم کی تعلیم اور قرآن کی جانب دعوت نیک لوگوں کے سر کا تاج ہے، ماہ رمضان میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے، رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت، تدبر، تعلیم و تعلم، اور اس پر عمل کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے؛ کیونکہ قرآن کریم کا نزول اسی مہینے میں ہوا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا قرآن لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور اس میں ہدایت کی حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں [البقرة: 185]

دعا ایک مستقل عبادت ہے، دعا سے مشقت کے بغیر فائدہ حاصل ہو جاتا ہے، دعا ایسا منافع ہے جس میں کبھی نقصان نہیں ہوتا، دعا کی بدولت خوشیاں ملتی ہیں، دعائیں بلائیں ٹالتی ہیں، دعا کرنے والا کبھی تباہ حال نہیں ہوتا، دعا کے ذریعے انسان اپنی تمنا اور مطلوب پا لیتا ہے، چنانچہ کس قدر ناممکن چیزیں بھی دعا کے ذریعے ممکن ہو گئیں! کتنی مشکل چیزیں آسان ہو گئیں! کتنی ہی مشکلیں رفع ہوئیں!؟

قبولیت کے قریب ترین ایسی دعائیں ہوتی ہیں جو رات کے آخری حصے میں مانگی جائیں، اگر کوئی بندہ اپنے پروردگار کے سامنے گڑگڑائے تو اللہ تعالی اس کی ضرورت پوری فرما دیتا ہے، جب انسان بھوکا ہو تو دل گداز اور صاف ہوتا ہے، نیز روزے دار کی دعا رد نہیں کی جاتی، ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: "روزے دار دن ہو یا رات عبادت میں ہی رہتا ہے، روزے دار کی دعائیں دوران روزہ اور افطاری کے وقت قبول کی جاتی ہیں، روزے دار دن میں روزہ رکھ کر صبر کرتا ہے اور رات کو کھا پی کر شکر کرتا ہے" اس لیے کامیاب وہی ہے جو زیادہ سے زیادہ آسمان کا دروازہ کھٹکھٹائے، اور رمضان کے شب و روز میں اپنے لیے نیکیاں جمع کر لے۔

ذکر الہی بھی عظیم لیکن آسان ترین عبادت ہے، اللہ کا ذکر کرنے والے کو اللہ تعالی بھی یاد رکھتا ہے۔ نیز اگر انسان اپنی زبان کو ذکر الہی میں مشغول نہ رکھے تو اسے فضول یا گناہوں میں مشغول کر دیتا ہے۔

دین برتاؤ اور تعامل کا نام ہے، ساری مخلوقات میں سے اچھے سلوک کا حقدار وہ ہے جس کے حقوق اللہ تعالی نے اپنے حقوق کے ساتھ ملا کر بیان کئے ہیں، اس لیے والدین تمہارے لیے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی، تمہارے حسن اخلاق پر تمہارے والدین کا سب سے زیادہ حق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اس شخص کا ستیاناس ہو جائے، اس شخص کا پھر ستیاناس ہو جائے، اس شخص کا پھر ستیاناس ہو جائے) "کہا گیا : کس کا؟ اللہ کے رسول!" آپ نے فرمایا: (جو اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور جنت میں داخل نہ ہو پائے) مسلم 

والدین کی کامل اطاعت میں یہ بھی شامل ہے کہ انہیں کسی بھی ایسی چیز سے مکمل تحفظ فراہم کیا جائے جن سے ان کی ہتک عزت ہو یا ان کا دل ٹوٹے۔

روزے دار کو اپنی عبادت کا سب سے زیادہ خیال ہوتا ہے، وہ روزے کو توڑنے والی تمام اشیا سے محفوظ بناتا ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو بیہودہ باتیں مت کرے نہ ہی شو و غل مچائے، اور اگر کوئی اسے گالی گلوچ دے یا لڑے تو اسے کہہ دے: میرا روزہ ہے۔) متفق علیہ

امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "روزے دار کو اپنی زبان کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے، اور زبان درازی نہ کیا کرے"

ان تمام تر تفصیلات کے بعد، مسلمانو!

نیکی کی تکمیل اسی وقت ہوتی ہے جب محبت کے ساتھ ادا کی جائے، ایسی محبت جو انسان کو خلوص اور صدق دل پر ابھارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع بھی کرے۔

کوئی بھی عمل اس وقت تک نیکی نہیں بن سکتا جب تک اس کی بنیاد ایمان نہ ہو بطور عادت یا خواہش کے کیا ہوا عمل عبادت نہیں ہوتا، اسی طرح شہرت اور ریا کاری کے لیے کیا گیا عمل بھی عبادت نہیں بنتا، عمل اسی وقت عبادت بنے گا جب حصول ثواب اور رضائے الہی اس کا ہدف ہو، چنانچہ جس وقت کسی بھی عمل میں ایمان اور ثواب کی امید یکجا ہو جائے تو وہ قبولیت کا درجہ پا لیتا ہے اور مغفرت کا باعث بنتا ہے۔

مسلمانو!

دنیا تو اپنی خوشیوں اور غموں کے ساتھ ختم ہو ہی جائے گی، عمریں لمبی ہوں یا چھوٹی یہ بھی گزر جائیں گی، پھر آخر کار سب اپنے پروردگار سے ملیں گے، اس وقت مال یا اولاد کچھ کام نہیں آئیں گے، ماسوائے اس شخص کے جو اللہ تعالی کے پاس قلب سلیم لے کر آئے گا؛ اس لیے ماہ رمضان کا استقبال سچی توبہ کے ساتھ کرو، ابھی سے عزم مصمم کر لو کہ اس کے اوقات و لمحات کو نیکیوں سے بھر پور رکھو گے؛ کیونکہ زندگی تو محدود سانسوں کا نام ہے، فضیلت والے ان اوقات کو غنیمت سمجھیں، نیکیاں کرتے چلے جائیں اور پر امید رہیں ۔

حقیقی دھوکا زدہ شخص تو وہ ہے جو رمضان تو پا لے لیکن اسے بخشا نہ جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اس شخص کا ستیاناس ہو جائے جس کی زندگی میں رمضان آئے اور اسے پروانہ مغفرت ملنے سے پہلے چلا جائے) ترمذی

اصلاح قلب کے لیے اللہ کا ذکر اور قرآن کریم کے ساتھ مضبوط تعلق مفید ترین وسائل ہیں، اسی طرح قیام اللیل اور نیک لوگوں کی صحبت بھی کارگر ثابت ہوتے ہیں۔

یا اللہ! ہمارے روزے اور قیام قبول فرما، یا اللہ! ہمیں کردار اور گفتار میں اخلاص عطا فرما۔

یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
 اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ [النحل: 90]

تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

رمضان ؛ تمام عبادات کا سنگم خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم  ترجمہ: شفقت الرحمان مغ...

آج کی بات ۔۔۔ 19 مئی 2018

~!~ آج کی بات ~!~

اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آئندہ پانچ سالوں میں آپ کہاں ہوں گے؟ تو اُن لفظوں کو بغور سننا شروع کر دیجئے جو آپ کی زبان سے آج ادا ہو رہے ہیں۔
 “انسان کی زندگی مثلِ کشتی ہے اور اس کی زبان اس کشتی کی پتوار”۔

~!~ آج کی بات ~!~ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آئندہ پانچ سالوں میں آپ کہاں ہوں گے؟ تو اُن لفظوں کو بغور سننا شروع کر دیجئے جو آپ کی زب...

روزہ کی بابت آپﷺ کی تعلیم _ *اردو استفادہ از امام ابن القیم٭ (حصہ دوم)

Image result for ‫رمضان‬‎
روزہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم
 *اردو استفادہ از امام ابن القیم٭ 
(حصہ دوم)


منہ کو لگ چکی یہ لذتیں اور آسائشیں چھڑا دینا چونکہ آسان کام نہ تھا لہٰذا اس کی فرضیت نازل ہونے سے خاصی دیر تک رکی رہی۔ یہ فرض ہجرت کے بھی کچھ دیر بعد نازل ہوا۔ نفوس کے اندر جب توحید گہری اتر چکی اور پھر ’نماز‘ نے ان موحد نفوس کو ایک بندگانہ صورت دے دی اور قرآن سے حکم لینے پر کچھ تربیت پالی تب بتدریج ان کو بندگی کی اس صورت کی جانب لایا گیا۔

چنانچہ روزہ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوا۔ یوں جب آپ فوت ہوئے تو نو(9)رمضان روزہ کے ساتھ گزار چکے تھے۔پہلے پہل جب روزہ فرض ہوا تب آدمی کو چناؤ حاصل تھا۔ چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو ایک مسکین کا پیٹ بھردے ۔ پھر یہ چناؤ ختم کرکے روزہ کی حتمی صورت باقی رکھ دی گئی ۔ البتہ دوسرے کو کھلانے کی آسائش ان بوڑھوں اور عورتوں کےلئے باقی رکھی گئی جو خود روزہ نہ رکھ سکیں۔ یہ دونوں صنفیں روزہ چھوڑیں گی اورہر روز کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گی۔ مریض اور مسافر کےلئے البتہ یہ رخصت رکھی گئی کہ وقتی طور پر وہ روزہ چھوڑ لیں مگربعد میں اس کی قضا دیں۔ حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت جس کوصحت متاثر ہوجانے کا اندیشہ ہو، کو بھی یہی رخصت دی گئی۔ البتہ اگر اس کو بچے کی صحت متاثر ہو جانے کا اندیشہ ہو تووہ قضا بھی دے گی اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے گی کیونکہ اسے خود اپنے بیمارہونے کا اندیشہ نہ تھا لہٰذا وہ خائف اپنی صحت کی بابت نہیں بلکہ بچے کی صحت کی بابت ہے ۔لہٰذا اس کی تلافی اطعام مسکین سے کی جائے گی۔(1)

فرضیتِ صوم تین مرحلوں سے گزری:

پہلے مرحلے میں روزہ یا اطعامِ مسکین میں سے کو ئی ایک فرض تھا۔

دوسرے مرحلے میں آدمی کو ہر حال میں روزہ ہی رکھنا تھا۔ البتہ تب روزہ کی صورت یہ تھی کہ آدمی اگر رات کو کھانا کھانے سے پہلے سوگیا تو اگلی رات تک اس کےلئے کھانا پینا ممنوع رہے گا۔

تیسرے مرحلے میں روزہ کی یہ حالت باقی نہ رہی۔ تب سے اب اور تا قیامت تک روزہ کی وہی صورت فرض ہے جو کہ معروف ہے۔

آپ کا طریقہ یہ تھا کہ رمضان میں آپ ہر قسم کی عبادات بکثرت ادا فرماتے۔ جبریل ؑ رمضان میں ہر رات آپ کے پاس آتے اور یوں قرآن کا دور ہوتا۔ جبریل سے آپ کی ملاقاتوں کا اِس تمام تر عرصہ یوں ہوتا کہ نوازش اور عنایت میں آپ معمول سے بھی کہیں بڑھ جاتے یہاں تک کہ بادۂ نسیم کو بھی اِلطاف میں آپ سے کچھ نسبت نہ رہے۔ فیض رسانی میں آپ تمام مخلوق سے بڑھ کرتھے۔ البتہ سب سے زیادہ نوازش آپ رمضان میں فرماتے۔ خوب صدقہ کرتے۔ احسان کرتے۔ قرآن کی تلاوت، ذکر اور اعتکاف میں ہی گویا سب وقت گزرتا ۔

رمضان میں آپ عبادت کا بالخصوص ایسا اہتمام فرماتے جو دیگر مہینوں میں نہ ہوتا۔ یہاں تک کہ آپ ایک دن کے روزے کو دوسرے دن کے روزے سے ملا لیتے تاکہ دن اور رات کی زیادہ سے زیادہ ساعتیں آپ عبادت ہی میں گزار سکیں ۔ اپنے اصحاب کو البتہ آپ اس ’وصال‘ سے منع فرماتے۔ اصحاب عرض کرتے: حضور!آپ خود تو وصال کرتے ہیں، فرماتے: لست کھیئتکم ”میرامعاملہ تم جیسا نہیں“ ایک اور روایت میں ہے، فرماتے: انی أظل عند ربی یطعمنی ویسقینی ”میں اپنے پروردگار کے ہاں ساعتیں گزارتا ہوں۔ وہ مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی“ لوگوں نے اس ’کھلانے اور پلانے‘ کا مفہوم سمجھنے میں اختلاف کیا ہے:ایک فریق کا خیال ہے کہ یہ مادی طعام وشراب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ظاہرِ لفظ کا یہی تقاضا ہے اور اس کو ظاہری معنی سے پھیر دینے کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔

دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ اس سے مراد ایک اور طرح کی غذا ہے، جو دل کو آشنائی دیتی ہے۔یہ لذتِ مناجات کی ایک خاص صورت ہے جو خاص آپ کو عطا ہوتی تھی،اور خدا کے قرب کا ایک خاص احساس ہے جو آپ کی آنکھ کی ٹھنڈک بنتا تھا۔خدا کی طمع،خدا کی محبت اور خدا کے شوق کی ایک کیفیت تھی اور اس سے وجودمیں آنے والے کچھ خاص ’احوال‘ تھے جو آپ کو عطا ہوئے تھے۔ یہ ہے وہ غذا جس سے دل سیراب ہوتا ہے اور روح تروتازہ ہوتی ہے۔جس سے آنکھ کو ٹھنڈک ملتی ہے اور نفس کے اندر رونق آتی ہے۔بسا اوقات یہ غذا اتنی وافر ملتی ہے کہ آدمی مادی و جسمانی غذا سے خاصا خاصا عرصہ بے نیاز رہتا ہے۔ اس حالت کا کچھ نہ کچھ تجربہ تو ہر محبت کرنے والے کوہو ہی جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ محبوب کو پا کر ایسی حالت ان پر طاری ہو جاتی ہے کہ دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوجاتے ہیں ۔ کھانا پینا جیسے بھول ہی جاتا ہے۔محبوب کو ایک نظر دیکھ لینا میسر آجائے اور کوئی ساعت اس کے پاس تنہائی میں گزارنے کو مل جائے تو گویا وہ کسی اور ہی جہان میں ہوتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت الفاظ میں بیان ہی نہیں کی جاسکتی۔ محبوب کا مہربان و ملتفت نگاہوں سے ان کو دیکھ لینا ان کو سب سے بڑا انعام دِکھتا ہے۔پس اگر یہاں کے محبت کرنے والوں کی یہ حالت ہے تو اس محبوب کی محبت میں اس خیرالبشر کا کیا حال ہوگا جس سے برگزیدہ تر، حسین تر،کامل تر اور عظیم تر کوئی محبوب ہوہی نہیں سکتا اور جس کی محبت نے آپ کے پورے وجود کو اپنا اسیر کررکھا ہے اور جس کی محبت آپ کے قلب وجوارح میں اس قدر گہری جاچکی ہے جس پر کسی چیز کا قیاس ہی ممکن نہیں۔

چنانچہ حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیں: انی أظل عند ربی یعنی میرا تو وقت ہی خدا کے ہاں گزرتا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیںیطعمنی ویسقینی ”وہ مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی“۔ چنانچہ اس سے مراد اگر مادی اور ظاہری معنی میں ’کھانا پینا‘ ہو تب تو آپ کا ’وصال‘ کرنا تو رہا ایک طرف ’روزہ سے ہونا ‘ ہی معتبر نہ ہو ! اور اگر کوئی کہے کہ یہ مادی معنی میں خدا کی طرف سے ’کھلایا پلایا جانا‘رات کو ہوتا تھا تو یہ ’وصال‘ تو بہرحال نہ ہوا۔ اس صورت میں صحابہ کی اس بات کے جواب میں کہ ”آپ تو وصال فرماتے ہیں“آپ کو کہنا چاہیے تھا: ”میں کب وصال کرتا ہوں میں تو کھاتا پیتا ہوں“! جبکہ آپنے صحابہ کی اس بات کا اقرار فرمایا کہ آپ وصال کرتے ہیں البتہ یہ کہا کہ”میرا معاملہ تمہارے جیسا نہیں“۔چنانچہ آپ نے یہاں اپنا اور ان کا فرق بیان فرمایا۔صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمرؓ کی حدیث کے الفاظ ہیں:



أن رسول اللہ واصل فی رمضان،فواصل الناس،فنھاھم،فقیل لہ:أنت تواصل۔ فقال،انی اُطعمَ و اُسقیٰ

یعنی”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں (ایک دن کا روزہ دوسرے دن سے) ملایا تب لوگوں نے بھی (ایک دن کا روزہ دوسرے دن سے) ملایا۔تب آپ نے ان کو (اس سے ) منع فرمایا۔عرض کی گئی :آپ تو (ایک روز کو دوسرے روز سے) سے ملاتے ہیں۔ تب آپ نے فرمایا :میں تمہاری مثل نہیں ہوں۔ مجھے کھلایا جاتا ہے اور پلایا جاتا ہے

جبکہ صحیحین میں ابوہریرہؓ سے جو روایت آتی ہے اس کے الفاظ ہیں: نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الوصال فقال رجل من المسلمین:انک یا رسول اللہ تواصل فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم :”و أیّکم مثلی؟ انی أبیت یطعمنی ربی ویسقینی“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کے ساتھ رات گزارنے (وصال) سے منع فرمایا۔ تب مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا:اے اللہ کے رسول آپ خود تو وصال فرماتے ہیں۔آپ نے فرمایا:”تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہو؟ میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتاہے اور پلاتا ہے

علاوہ ازیں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آپنے جب ان کو وصال سے منع فرمایا اور انہوں نے مان کر نہ دیا تو آپنے ان سے ایک دن وصال کروایا۔ پھر ایک اور دن وصال کروایا۔ تب(عید کا) چاند نکل آیا۔ تب آپ نے فرمایا ۔”چاند اگر ایک دن اور نہ نکلتا تو میں تم سے ایک دن اور (وصال)کرواتا“ گویاجب انہوں نے اصرار کیا تو آپ نے ان کے ساتھ ایسا انداز اپنایا جس سے آپ کا مقصود ان کو سبق سکھادینا اور بازکردینا ہو۔

ایک جگہ لفظ آئے ہیں: لو مدّ لنا الشھر لواصلنا وصالا یدع المتعمقون تعمقھم ۔انی لست مثلکم۔ایک اور الفاظ انکم لستم مثلی، فانی أظل یطعمنی ربی ویسقینی ”اگر یہ ماہ ذرا اور دراز ہوجاتا تو ہم ایسا وصال کرتے کہ یہ زیادہ شدت کرنے والے اپنی شدت چھوڑ دیتے۔ بات یہ ہے کہ میرا معاملہ تم جیسا نہیں یا یہ کہ تمہارا معاملہ مجھ جیسا نہیں۔مجھے تو میرا رب کھلاتااور پلاتا رہتا ہے

چنانچہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے واضح ہے کہ آپ کو بیک وقت کھلایا پلایا بھی جاتا ہے اورآپ وصال سے بھی ہوتے ہیں۔ جبکہ صحابہ کو آپنے اپنے ساتھ کچھ دیر کےلئے ایسا کرنے دیا تو وہاں آپ کا انداز اُن کو عاجز کردینے کا تھااور ایک طرح سے سبق دینے او رباز کرنے کا۔ اب اگر آپ خود تو ’کھاتے پیتے‘(اس معنی میں جو کہ ظاہر بین گروہ آپ کے ان الفاظ سے لیتا ہے!) تو اس سے کیونکر یہ مفہوم نکلتا کہ آپ ان کو عملاً یہ سکھا دینا چاہتے ہیں کہ یہ کام بس آپ ہی کے کرنے کا ہے اور یہ کہ ان کو اس بات کی طاقت ہی نہیں ۔ پس معلوم ہوا یہ ’کھانا پینا‘ کسی اور انداز کا ہے،اور بحمداللہ یہ بات بہت واضح ہے۔

نوٹ: (1) یہ فقہی آراءامام ابن القیمؒ کی ہیں، جو کہ حنبلی فقہ سے وابستہ ہیں۔ ابن القیمؒ کا یہ مضمون ایمانی و شعوری فوائد کیلئے دیا گیا ہے نہ کہ فقہی آراءکے اثبات کیلئے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔ 

روزہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم  *اردو استفادہ از امام ابن القیم٭  (حصہ دوم) مصنف: حامد کمال الدین حصہ اول من...