خود میں تبدیلی ۔۔۔ استاد نعمان علی خان ۔۔۔چھٹا حصہ

خود میں تبدیلی (Self- Transformation)
استاد نعمان علی خان
چھٹا حصہ


بادشاہ (مطلب حکمران) کی طرف آجائیے. بادشاہ اپنی طرف سے بھیجے گئے کسی نمائندہ یا سفیر کے ذریعے دوسرے لوگوں سے متعارف ہوتا ہے. جب آپ کسی نمائندہ/ سفیر کو دیکھتے ہیں تو اس سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ واقعی کسی بادشاہ کی طرف سے ہیں؟ 
‎ تو یہاں اللہ تعالٰی کے نمائندے (سفیر یعنی پیغمبر) کے پاس اس کا ثبوت اللہ کی آیات ہیں. 
‎ جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کی آیات لوگوں کے سامنے تلاوت کرتے ہیں تو وہ دراصل کیا کر رہے ہوتے ہیں؟ وہ اس وقت یہی ثبوت دے رہے ہیں کہ یہ اُس عظیم بادشاہ (اللہ) کا کلام ہے. 
‎ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کا پہلا تعارف کیا ہے؟؟ 
‎ الحمدللہ رب العالمین. الرحمن الرحیم. مالک یوم الدین
‎ سب تعریفیں اللہ( بادشاہ) رب العالمین کے لیے ہیں. وہ رحمان ہے رحیم ہے. وہ بادشاہ ہے، یوم حساب کا مالک ہے. 
‎ پس بادشاہ اپنی علامات سے پہچانا جاتا ہے. یہ ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پہلا کام
‎يَتلو عَلَيهِم آياتِهِ

‎اب دوسرے نام کی طرف آجائیے. 
القدوس (خالص)
‎حضور اکرم کو تفویض کردہ دوسرا کام، جو دوسری آیت میں بیان ہوا ہے 
‎ "ویزکیہم" وہ ان کو پاک کرتا ہے خالص کرتا ہے. 
‎اللہ کا نام ہے "القدوس" اور اس سے متعلقہ حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کا مشن، لوگوں کو خالص کرکے، اللہ کے قریب کرنا، اللہ سے جوڑنا. اللہ کا یہ نام، اور پیغمبر اسلام کا کام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں. 
‎ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ان چاروں ناموں کو لوگوں کے دلوں میں منتقل کر رہے ہیں. 

‎ اب تیسرے نام کی طرف آجائیے 
العزیز (مختار کل، اتھارٹی= با اختیار) 
‎ ایسی ہستی جس کی عزت کی جانی چاہیے. یہ قوانین بنانے والی با اختیار ہستی ہے. حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اسی قانون بنانے والی ہستی کے بل بوتے پر لوگوں کو قانون سکھا رہے ہیں. آپ اس وقت تک کسی کی عزت نہیں کر سکتے. جب تک آپ کے دل میں اس ہستی کے لئے عزت کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا. جب تک آپ کے اندر یہ احساس پیدا نہ ہو جائے کہ ہر کام اس اتھارٹی کی طرف سے ہے. 
‎ جب تک آپ کا دل خالص نہ ہو، آپ قانون کو اپنے اوپر لاگو نہیں کر سکتے. پیغمبر لوگوں کو سکھا رہے ہیں کہ قوانین العزیز کی طرف سے ہیں. 
‎ پہلی آیت میں اللہ کا آخری نام ہے: الحکیم (حکمت و دانش کا ذریعہ) 
‎ یہ نام بھی حضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی ایکٹویٹی پر منطبق ہوتا ہے. اللہ تعالٰی فرماتے ہیں 
ویعلمہم الکتاب والحکمہ 
‎ اللہ جو حکیم ہیں وہ اپنی حکمت ودانش آپ کو دے رہے ہیں اور آگے آپ وہ حکمت اپنے پیرو کاروں کو سکھا رہے ہیں. سبحان اللہ 
‎ اللہ کے یہ چاروں نام حضور پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو دیئے گئے مشن پر منطبق ہوتے ہیں.
‎ یہ ہے قرآن کا ناقابل یقین سفر، جس میں سے وہ لوگ ایسے اچھے طریقے سے گزرے کہ پھر آسمانوں میں بھی ان کا نام جانا گیا. 
‎ اگر آپ بھی اپنے اندر ان ناموں کو جذب کر لیں تو آپ کی بھی آسمان و زمین کے ساتھ مطابقت پیدا ہو جائے گی. حضور پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے کیا کیا؟ انہوں نے آپ کو اس نظام سے جوڑ دیا جو کہ پہلے ہی آپ کے ارد گرد موجود تھا. 
‎ مثلاً اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: 
‎ الشَّمْس وَالْقَمَر بِحُسْبَانٍ. وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ

‎ اللہ تعالٰی ہمیں کیوں بتا رہے ہیں کہ ستارے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں؟ اللہ ہمیں کیوں بتا رہے ہیں کہ پرندے تسبیح کر رہے ہیں؟ کیوں؟ 

‎ اس میں سے کوئی چیز بھی تکمیل کا دعوٰی نہیں کرسکتی. لیکن تمام مخلوقات میں سے صرف آپ ہیں جو اس کی کاملیت کو سمجھ سکتے ہیں. آپ ہیں جو زمین و آسمان کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتے ہیں. 
‎ ہم کیسے تبدیلی کے اس عمل کو سمجھ سکتے ہیں؟ شخصیت کی تبدیلی کا عمل کیسے وقوع پذیر ہو سکتا ہے؟ 
‎ حضور پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہ عمل کیسے سر انجام دیا؟ 
‎ ہم نے ہمیشہ سے تقریروں میں یہ سن رکھا ہے کہ حضور پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے ساتھی کتنے عظیم تھے. ان کی زندگیوں میں حیران کن تبدیلیاں آئی تھیں. وہ ناقابل بیان مراحل سے گزرے تھے. وہ اللہ کے سامنے حیرت انگیز طور پر فرمانبردار تھے

‎وہ اصحاب رسول تھے ان جیسا کوئی نہ تھا. مگر میں تو کبھی بھی ان جیسا نہیں ہو سکتا. میں نہیں جانتا کہ میں اپنے اندر ویسی تبدیلیاں لا سکتا ہوں یا نہیں یا کہ قرآن مجھے ان عظیم تاریخی تبدیلیوں کی اطلاع دے رہا ہے یا مجھے اپنی کایا پلٹنے کا سبق دے رہا ہے.تیسری آیت میں دیکھیں الله سبحان و تعالی کیا فرماتا ہے. 
‎*" وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيز الْحَكِيم "*
‎دوسرے کچھ اور لوگ بھی ہیں. اس سے مراد عرب کے علاوہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں اور آنے والی دوسری نسلیں بھی جو ابھی تک ان سے آن نہیں ملے اور الله سب سے زبردست حکمت والا ہے.

‎اللة تعالی خود یہاں فرما رہا ہے کہ یہ مذہبی، اخلاقی، سماجی انقلاب صرف اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم تک محدود نہیں ہے بلکہ اس انقلاب نے رہتی دنیا تک تبدیلیاں لاتے رہنا ہے کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور جو لوگ ان سے ذاتی طور پر نہ مل سکے اور نہ ان کے اصحاب سے، ان تک قرآن ضرور پہنچتا رہے گا اور وہ اسی تبدیلی سے گزریں گے جن سے وہ لوگ گزرے.
‎الله کی ایسی بات سن کر اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم بھی حیران رہ گئے کہ وہ دوسرے کون ہیں؟

جاری ہے ۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں