نو جوان۔۔ قیمتی سرمایہ خطبہ مسجد نبوی نوجوانوں کی صلاحیتیں عظیم ترین ذخیرہ اور بہترین خزانہ ہیں، ان کی رہنمائی کے ذریعے ہمہ ...
~!~ آج کی بات ~!~ ہر مثبت خیال اس خاموش دعا کی مانند ہوتا ہے, جو زندگی بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔۔۔۔
آج کی بات کسی کو کُچھ دینا ہے تواسےاچھاوقت اور دُعا دو کیونکہ تم ہرچیز واپس لے سکتے ہو مگر کسی کو دیا ہوا اچھا وقت اور دُعا و...
شیطان کا ایک بہت عجب جال ہوتا ہے ۔۔۔ کہ اللہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے ۔۔ اور کسی بھی بےجا خوف کے تحت وہ ہمیں اللہ سے دور کرنے کی کوشش کر...
1- یہ غلط فہی کہ دوسروں کو کچلے بغیر ذاتی فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا.
2- ایسی باتوں کے بارے میں فکر اور پریشانی کی عادت جنہیں نا تو بدلا جاسکتا ہےاور نہ ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے.
3- یہ خیال کہ جو کام ہم نہیں کر سکے وہ نا ممکن ہے.
4- معمولی اختلافِ رائے پر اڑ جانے کی عادت.
5- ذہنی ترقی اور نفاست کے لیے کوشش نہ کرنا اور کتابوں کے مطالعے اور دنیاوی مشاہدے کی عادت نہ ڈالنا.
6- دوسروں پر زور دینا کہ جس بات کو ہم صحیح سمجھتے ہیں وہ بھی اُسے صحیح سمجھیں اور جیسی زندگی ہم گزارتے ہیں وہ بھی ویسی ہی زندگی گزاریں.
کوشش کریں کہ ان غلطیوں سے بچا جاۓ
آج کی بات آدمی کی چھ غلطیاں : 1- یہ غلط فہی کہ دوسروں کو کچلے بغیر ذاتی فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا. 2- ایسی باتوں کے بارے میں فکر ...
~!~ آج کی بات ~!~ اپنے ظاہر کو اپنے باطن سے پرکھو اپنی جلوت کو اپنی خلوت سے پرکھو اپنے سکون کو اپنی عبادت سے پرکھو اپنے قول کو اپ...
بانئِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:
بانئِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا: "میں اپنا کام کرچکا ہوں قوم کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ اسے مل گئی ہے، اب یہ ...
اللہ تعالی نے آپ کا اختیار اعلی اور معزز ترین خاندان اور شہر سے کیا آپ کیلیے بہترین زمان و مکان چنا، آپ کا تزکیہ کامل، احسن اور افضل ترین صفات و اخلاقیات سے فرمایا۔
آپ کو اپنی تمام مخلوقات پر فوقیت دی، آپ کی شرح صدر فرمائی، آپ کا بول بالا فرمایا، آپ کی لغزشیں بھی معاف فرما دیں، بلکہ ہر چیز میں آپ کو خاص مقام عطا فرمایا، چنانچہ :
آپ کی عقل و دانش کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا:
آپ کے اخلاق کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا:
آپ کے حلم و بردباری کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا:
آپ کے علم کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا:
آپ کی صداقت کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا:
آپ کے سینے کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا:
آپ کے دل کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا:
آپ کی شان کو خاص قرار دیتے ہوئے فرمایا:
آپ کو چنیدہ بنا کر آپ کو راضی بھی کیا اور فرمایا:
اللہ تعالی نے اپنی اطاعت کو آپ ﷺ کی اطاعت سے اور اپنی محبت کو آپ ﷺ کی محبت سے نتھی فرمایا، چنانچہ اللہ کی بندگی اور قرب الہی کا وہی طریقہ روا ہو گا جو اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کی زبانی بیان کروایا، لہذا جنت کیلیے آپ ﷺ کے راستے کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔
آپ ہی لوگوں کیلیے ہدایت اور نجات کا باعث ہیں، آپ ہی شفاعت کبری کے حقدار ہیں جس دن انسان اپنے بھائی ، ماں، باپ، دوست اور اولاد سے راہِ فرار اختیار کرے گا۔
سلیم فطرت اور مثبت ذہنوں میں ان صفات اور اخلاق کی مالک شخصیت کی محبت رچ بس جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے محبت ایسی عبادت ہے جو قرب الہی کا باعث ہے، اور یہ شریعت کے دائرے میں بند ہے، اس کے ایسے مظاہر اور علامات ہیں جن سے محبت کی حقیقت اور سچائی آشکار ہوتی ہے۔
مَنْ اِدَّعَى مَحَبَّةَ اللهِ وَلَمْ
يَسِرْ عَلَى سُنَّةِ سَيِّدِ الْأُمَمِ
جو اللہ سے محبت کا دعوے دار ہو لیکن وہ تمام امتوں کے سربراہ کی سنت پر نہ چلے
فَذَاكَ كَذَّابٌ أَخُوْ مَلَاهِيْ
كَذَّبَ دَعْوَاهُ كِتَابَ اللهِ
تو وہ انتہائی جھوٹا ترین اور ہوس پرستی کا دلدادہ شخص ہے، اس کے دعوے کو اللہ کے قرآن نے مسترد کر دیا ہے۔
آپ ﷺ سے محبت کی علامت یہ بھی ہے کہ: آپ کی محبت میں غلو نہ کیا جائے؛ کیونکہ غلو آپ ﷺ کی مخالفت اور تصادم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (میرا مقام ایسے بڑھا چڑھا کر بیان مت کرو جیسے عیسائیوں نے عیسی بن مریم کے ساتھ کیا، یقیناً میں صرف اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں) بخاری
آپ ﷺ سے محبت کی علامت یہ بھی ہے کہ: آپ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں، آپ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں؛ کیونکہ یہ بھی محبت کا تقاضا ہے کہ آپ کی سیرت، سوانح، اوصاف اور اخلاقیات کے متعلق معرفت حاصل کریں، جس کے بارے میں آپ بالکل نہیں جانتے اس کی محبت دل میں پیدا ہی نہیں ہو سکتی، نہ اس کا آپ کبھی دفاع کریں گے ، اسی طرح آپ ﷺ کی سنت کا دفاع بھی انہیں جانے اور سمجھے بغیر ممکن نہیں ہے۔
حُبِّ رسول ﷺ کے تقاضے۔۔ خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) اللہ تعالی نے ہمارے نبی محمد ﷺ کو تمام لوگوں اور سب مخلوقات سے چنیدہ ، برگزید...
بشکریہ: محترم افتخار اجمل بھوپال ہے بہارِ باغِ دنیا چند روز دیکھ لو اس کا تماشہ چند روز لاکھ دارا اور سکندر ہو گئے آج بولو ...
لوگوں نے بہتیری کو شش کی کہ وہ لڑکا خاموش ہو جائے مگر اس لڑنے نے رونا بند نہ کیا۔ ایک دانا شخص جو کشتی میں سوار تھا اس نے بادشاہ سے کہا کہ اگر حکم ہو تو میرے پاس ایک ایسا طریقہ ہے کہ یہ لڑکا رونا بند کر دے گا؟
بادشاہ نے کہا کہ اگر ایسا کوئی طریقہ ہے تو وہ آزمایا جائے تاکہ اس لڑکے کا رونا ختم ہو۔ اس دانا شخص نے لڑکے کو پکڑا اور دریا میں پھینک دیا۔ جب اس لڑکے کو چند غوطے لگے تو اسے بالوں سے پکڑ کر واپس کشتی میں بٹھا دیا۔ وہ لڑکا اب چپ ہو کر ایک کونے میں نہایت اطمینان سے بیٹھ گیا۔
بادشاہ حیران ہوا اور اس نے اس دانا شخص سے کہا کہ تو نے یہ کیا کیا اور اس میں کون سی دانائی پوشیدہ ہے ؟ دانا شخص نے جواب دیا کہ آرام کی قدر اسی کو ہے جس نے کوئی تکلیف دیکھی ہو۔ یہ لڑکا ڈوبنے کی تکلیف سے ناواقف تھا اور اسے کشتی کی قدر و قیمت کا اندازہ نہ تھا ج اب چند غوطے لگانے کے بعد اسے کشتی کی قدروقیمت کا اندازہ ہو گیا ہے۔
جنت کی حوروں کے لیے تو اعراف ہی دوزخ ہے اور دوزخیوں کے لیے وہ جنت ہے۔ جس کا محبوب اس کے پاس ہو اس میں اور جو محبوب کی آمد کا منتظر ہو دونوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔
مقصود بیان:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ نعمت ملنے پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا چاہیے اور مصیبت آنے پر واویلا نہیں مچانا چاہیے کہ یہ بھی اللہ عزوجل کی جانب سے ہے اور اس کے لیے ایک آزمائش ہے اگر وہ اس آزمائش میں پورا اترتا ہے تو اس کے لیے بے شمار انعام و اکرام ہیں۔ انعام و اکرام کی قدر اسی کو ہو سکتی ہے جو کسی آزمائش کے بعد ان کا حقدار ہو ا ہو نہ کہ وہ جسے بغیر آزمائش کے انعام و اکرام سے نواز دیا جائے۔
~!~ حکایت سعدی سے اقتباس ~!~ حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ کشتی پر سوار تھا۔ کشتی میں ایک عجمی لڑکا ب...
~!~ ممتا ~!~ تیرا میرا ازل کا ہے رشتہ تیرے دم سے ہے دم رواں میرا تیرے ہوتے ہوئے کبھی سر پر میں نے دیکھا نہ درد کا سایا تیر...
~!~آج کی بات ~!~ راستے پر کنکر ہوں تو اچھا جوتا پہن کر اس راستے پر آسانی سے چلا جا سکتا ہے. لیکن اگر اس اچھے جوتے کے اندر ایک ب...
دلوں کیلیے بہتری کا باعث بننے والی چیزوں سے دلوں کی اصلاح کرو اور دلوں کو گدلا کرنے والی چیزوں سے اسے بچاؤ؛ کیونکہ دل دیگر تمام اعضا کا سلطان ہے، جیسے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (خبردار! جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو مکمل جسم صحیح ہے اور جب وہی خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، خبردار! وہ لوتھڑا دل ہے) بخاری و مسلم نے اسے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
کیا آپ کو دلوں کی سب سے بڑی بیماری کا علم ہے؟ یہ بیماری جسے لگ جائے تو وہ خیر کے تمام مواقع سے محروم ہو جاتا ہے، یا بہت سے خیر کے مواقع سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے! دلوں کی سب سے بڑی بیماری غفلت ہے، دلوں پر اچھی طرح چھائی ہوئی غفلت وہ ہے جن کی وجہ سے کفار اور منافقین بد بختی میں مبتلا ہیں، یہی غفلت ان کیلیے جہنم میں دائمی جلنے سڑنے کا باعث بنے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:
جبکہ مسلمان کی غفلت یہ ہوتی ہے کہ وہ چند ایسے نیک کاموں سے غافل ہو جاتا ہے جن کا ترک کرنا اسلام کے منافی نہیں ہوتا ، یا ایسے گناہوں میں وہ ملوث ہو جاتا ہے جو کفریہ نہیں ہوتے، اسی طرح مسلمان گناہوں کی سزاؤں سے غافل ہو جاتا ہے۔
مسلمان کے غافل ہونے کا نقصان اور خمیازہ بہت سنگین ہوتا ہے، اس کے خطرناک نتائج تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، غفلت کی وجہ سے مسلمان کیلیے نیکی کے دروازے بند ہو سکتے ہیں۔
-نماز کے ارکان اور واجبات کے سیکھنے میں غفلت برتنے سے انسان کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے، جب انسان نماز با جماعت کے ثواب سے غافل ہو تو اس کی ادائیگی میں سستی کا شکار ہو جاتا ہے
-ظالم کو ملنے والی سزاؤں سے غفلت کی وجہ سے روئے زمین پر ظلم و زیادتی بڑھ جاتی ہے، ناحق قتل ہوتے ہیں، دوسروں کی دولت لوٹی جاتی ہے اور عزتیں تار تار ہوتی ہیں، تعمیری سوچ تخریب کاری میں بدل جاتی ہے، زر خیز زمین بنجر ہو جاتی ہے، فصلیں اور نسلیں تباہ ہو کر رہ جاتی ہیں، چہار سو ہو کا عالم ہوتا ہے، نیز ظالم پر بھی ظلم کے بدلے میں سزائیں نازل ہوتی ہیں۔
غفلت سے بچاؤ کیلیے معاون چیز یہ بھی ہے کہ نماز با جماعت کا اہتمام خشوع اور حاضر قلبی کے ساتھ کیا جائے؛ کیونکہ نماز میں دلوں کی زندگی ہے اس لیے کہ نماز اپنے اندر عظیم معنی خیزی رکھتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي} اور میری یاد کیلیے نماز قائم کر۔[طہ: 14]
ہر حال میں اللہ کا ذکر بھی غفلت سے نجات دہندہ ہے؛ کیونکہ ذکر دل کو زندہ رکھتا ہے اور شیطان کو دور بھگاتا ہے، روح کا تزکیہ کرتا ہے، بدن میں نیکی کرنے کیلیے قوت پیدا کرتا ہے، بلکہ خواب غفلت سے بھی بیدار کر دیتا ہے، اسی طرح دائمی طور پر ذکر میں مشغول رہنے سے انسان گناہوں سے محفوظ ہو جاتا ہے
گناہوں سے دوری بھی غفلت سے بچاؤ کیلیے مفید ہے؛ کیونکہ انسان کوئی بھی گناہ کرے تو وہ حقیقت میں غفلت کی بنا پر ہی کرتا ہے
لہذا جو شخص موت کو جتنا یاد رکھے گا اس کا دل اتنا ہی بہتر ہو گا، اس کے اعمال پاکیزہ ہوں گے، وہ غفلت سے سلامت رہے گا۔
غفلت (اسباب اور تدارک) ۔۔۔ خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) اللہ کے بندو! دلوں کیلیے بہتری کا باعث بننے والی چیزوں سے دلوں کی اصلاح کرو ...
بریک کے بروقت استعمال کا اولین فائدہ یہ ہے کہ صورتحال کا کنٹرول آپ کے ہاتھ میں رہتا ہے جب کہ ایکسیلیٹر پر بھروسہ آپ کو دوسروں کی صوابدید کے سپرد کر دیتا ہے ۔
بریک آپ کو فیصلہ سازی کا موقع ہی فراہم نہیں کرتی بلکہ اس پر عمل درآمد کی مہلت بھی عطا کرتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بریک آپ کو "دوسرا موقع" دیتی ہے کہ آپ کسی نقصان سے گزرے بغیر اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کر سکیں۔ یہ نہ صرف آپ کی زندگی کے تحفظ کا باعث بنتا ہے بلکہ دوسروں کی زندگیوں کی حفاظت کا ضامن بھی ہوتا ہے، کم از کم آپ کے حوالہ سے۔
نیز بریک کے استعمال کے لیے ہمہ وقت آمادگی نہ صرف آپ کو ٹریفک قوانین کی مد میں کسی بھی ممکنہ قانون شکنی سے دور رکھتی ہے بلکہ آپ کو ٹھہراو ، حلم اور بردباری بھی عطا کرتی ہے۔ اس کی ایک بڑی نشانی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ آپ کی جانب سے ہارن کا استعمال ناقابل یقین حد تک کم ہوتا چلا جاتا ہے ۔
ایکسیلیٹر کا بے محابہ استعمال آپ کو ان راستوں کا مسافر بنا سکتا ہے جو آپ کی مطلوبہ منزل کو نہیں جاتے۔ کسی کی گاڑی کو اپنے سے آگے نکلتے دیکھ کر مقابلہ پر اتر آنا اس کو تو کچھ نقصان نہیں دے گا لیکن آپ کے لیے ضرر کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ وہ تو اپنے "حساب" سے اپنی منزل مقصود کی جانب جا رہا تھا تاہم اب آپ بھی اس کے حساب سے ہی جا رہے ہیں ۔۔۔۔ لیکن کہاں ؟؟؟ اپنی منزل پر اپنی رفتار سے پہنچنا ہی دانشمندی ہے۔
زندگی کی گاڑی کے بھی ہوبہو یہی اصول ہیں ۔ تیز رفتاری نہیں ۔۔۔ احتیاط، حلم اور بردباری ۔
خود کو موقع دیجیے، زندگی بھی موقع دے گی۔
اچھی ڈرائیونگ سے مراد یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ سڑک پر آپ کا بہترین دوست اور خیرخواہ درحقیقت " بریک " ہے ، ایکسیلیٹر نہیں۔ ...
ابابیل اپنا گھونسلہ کنوئیں میں بناتی ھے.. اس کے پاس اپنے بچوں کو اڑنے کی عملی تربیت دینے کے لئے نہ تو کوئی اسپیس یا سہولت دستیاب ھوتی ھے اور نہ ھی وہ کچی تربیت کے ساتھ بچوں کو اڑنے کا کہہ سکتی ھے کیونکہ پہلی اڑان میں ناکامی کا مطلب پانی کی دردناک موت ھے.. مزید کسی ٹرائی کے امکانات زیرو ھیں..
آج تک اگر کسی نے ابابیل کے کسی مرے ھوئے بچے کو کنوئیں میں دیکھا ھے تو بتا دے..ابابیل بچوں کے حصے کی تربیت بھی اپنی ذات پر کرتی ھے.. بچوں سے پہلے اگر وہ اپنے گھونسلے سے دن بھر میں 25 اڑانیں لیتی تھی تو بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد 75 اڑانیں لیتی ھے.. یوں ماں اور باپ 150 اڑانیں لیتے ھیں تا آنکہ اپنے بچوں کا دل و دماغ اس یقین سے بھر دیتے ھیں کہ یہاں سے اڑ کر سیدھا باھر جانا ھے اور بس !! اور کوئی آپشن نہیں ھے.. ایک دن آتا ھے کہ بچہ ھاتھ سےنکلے ھوئے پتھر کی طرح گھونسلے سے نکلتا ھے اور سیدھا جا کر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ جاتا ھے !!!
ھماری اولاد ھمارے یقین میں سے اپنا حصہ پاتی ھے.. اگر ھم خود یقین اور عمل سے تہی دست ھونگے تو اولاد کو کیا دیں گے..؟ بچوں کو کہانیاں نہ سنایئے بلکہ عمل کر کے دکھایئے.. یقین کریں وہ جتنا آپ پر اعتماد کرتے ھیں دنیا کے کسی کتابی ھیرو پہ نہیں کرتے
" ابابیل میں نے جموں اور سیالکوٹ میں دیکھے تھے ۔ پھر کہیں نظر نہیں آئے
ابابیل کو قریب سے بھی دیکھا تھا یعنی زخمی ابابیل کو ہتھیلی پر رکھ کر
ابابیل کی ٹانگیں بہت نازک ہوتی ہیں اور وہ ان پر چڑیا کی طرح کھڑی نہیں ہو پاتی
سیالکوٹ میں ابابیل کے گھر جنہیں وہاں کی مقامی زبان میں آلنا کہتے ہیں دریا کے قریب کچی پہاڑی یعنی مٹی کی پہاڑی کے سوراخوں میں تھے
صرف ایک بار میں نے ابابیل کا بچہ دیکھا جسے ایک لڑکے نے ہتھیلی پر رکھا ہوا تھا اور اُس پر ترس کھا رہا تھا کہ بیچارہ نہ معلوم کیسے زمین پر گِر گیا ۔ اُسے آلنے میں کیسے پہنچایا جائے ؟ کیونکہ آلنے بہت اُونچے تھے اور پہاڑی تقریباً عمودی تھی ۔ کچی ہونے کی وجہ سے اس پر چڑھنے کی کوشش بڑی حماقت تھی۔"
ابابیل اپنا گھونسلہ کنوئیں میں بناتی ھے.. اس کے پاس اپنے بچوں کو اڑنے کی عملی تربیت دینے کے لئے نہ تو کوئی اسپیس یا سہولت دستیاب ھو...
وفي أنفسكم أفلا تبصرون "اور خود تمہارےاندر(نشانیاں) کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟" یہ شاہکار کسی کی عظمت کا پتہ دیتا ہے،اگ...
ایک مرید نے مولانا روم سے چند سوالات پوچھے جن کے انہوں نے بہت خوبصورت، مختصر اور جامع جوابات عطا فرمائے جو بالترتیب پیش خدمت ہیں: ...
انڈے کی زردی (آڑو) ھے.
انڈے کی سفیدی (دہی) ھے.
آلو کے چپس (سیب کے سلائس) ھے.
لہذا ظاھری شکل اور خبر پر بلاتحقیق کوئی فیصلہ صادر کرنے سے پہلے اسکی تحقیق ضروری ھے، جس طرح قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
مومنو! اگر کوئی تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے.
اس پوسٹ کے ساتھ سوال کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ کون تحقیق اور سوچ سمجھ کے جواب دیتا ھے اور کون جلدی بازی میں کوئی فیصلہ صادر کرتا ھے.!
لہذا اس پوسٹ کا مقصد کوئی گیم یا ٹائم پاس نھیں بلکہ ایک مثال کیساتھ اہم پوائنٹ کی وضاحت مقصود تھا، کیونکہ بلاتحقیق کسی پر رائے قائم کرنے والی بیماری آج کل بھت عام ھوچکی ھے..
پلیٹ میں تین چیزیں نظر آرہی ہیں، غور سے دیکھیں اور انکے نام کمنٹ میں لکھ دیں. پہلی نظر میں ذہن میں یہی آئے گا کہ پلیٹ پر انڈے ا...
ہمارا کچن باغیچہ بہت عرصے سے کئی جگہ سننے اور دیکھنے کے بعد ہمیں بھی شوق ہوا ' کچن گارڈننگ " کا تو ہم نے بھی سوچا تجربہ کرک...
اِن عوامِل کو ایک اہلِ عِلم نے آسان زبان میں لکھا ہے تاکہ عوام کی سمجھ میں آ جائیں اور وہ اِن گناہوں سے بچ سکیں
1 ۔ ریا کاری ۔ عبادت یا نیکی کرتے ہوئے دِکھانا ۔ آج کل کئی لوگوں کا معمول بن گیا ہے کہ وہ حج یا عمرہ کیلئے جاتے ہیں تو احرام پہنے اور حرم شریف کے اندر تصاویر کھینچ کر عزیز و اقارب کو بھیجتے ہیں اور کچھ لوگ انہیں سوشل میڈیا جیسے فیس بُک پر لگا دیتے ہیں
2 ۔ بد گمانی ۔ کسی کیلئے غلط خیال دل میں لانا
3 ۔ دھوکہ ۔ عیب چھُپا کر مال بیچنا ۔ یا بیچتے ہوئے عیب دار مال کا عیب نہ دکھانا
4 ۔ ٹوہ میں رہنا ۔ دوسرے کی سرگرمی پر نظر رکھنا
5 ۔ غیبت ۔ کسی کی برائی کسی دوسرے کے سامنے بیان کرنا (خواہ وہ برائی اُس میں موجود ہو)
6 ۔ طعنہ دینا ۔ احسان کر کے جتانا
7 ۔ تکبّر ۔ اپنے آپ کو بڑا یا بہتر سمجھنا (کئی بڑے نمازی اور خیرات کرنے والے اپنے نوکروں یا حاجت مندوں کو سامنے کھڑا رکھتے یا زمین پر بٹھاتے ہیں جبکہ خود صوفہ پر بیٹھے ہوتے ہیں)
8 ۔ چُغلی ۔ ایک کی بات کسی دوسرے سے بیان کرنا
9 ۔ سازش ۔ دوسرے کے خلاف کوئی منصوبہ بنانا یا کسی کو منصوبہ بنانے کی ترغیب دینا
10 ۔ اسراف ۔ ضرورت سے زیادہ خرچ یا استعمال کرنا ۔ جیسے گلاس بھر کر پانی لینا لیکن سارا نہ پینا اور چھوڑ دینا
11 ۔ حسد ۔ کسی کی خوشی یا ترقی سے بُرا محسوس کرنا
12 ۔ کانا پھُوسی ۔ محفل میں کھُلی بات کرنے کی بجائے کسی ایک کے کان میں کہنا
آج کی بات از افتخار اجمل بھوپال صاحب عام لوگ جن میں اچھے خاصے پڑھے لکھے بھی شامل ہیں آئے دن کچھ ایسے عمل کرتے رہتے ہیں جو گناہ ...
اس مثال آپ کو ایسے سمجھائی جا سکتی ہے کہ یہ دو مختلف تصویریں ہیں. ایک تصویر مختصر ہو گی اور دوسری تفصیل سے. میں پہلے ایک تصویر کے بارے میں مختصراً آپ کو بتاؤں گا آپ کو بس تصور کرنا ہے کہ الله پاک نے کیسے اس کا نقشہ کھینچا ہے پھر ہم اسے سمجھنے کی کوشش کریں گے. تو الله پاک فرماتے ہیں
مَثَلُهُمْ كَمَثَل
الله پاک فرماتے ہیں کہ آیت نمبر ۱۶ میں جن کا ذکر ہے
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴿١٦﴾
ان کے پاس جو بھی ہدایت بچی تھی اس سے انہیں کوئی لگاؤ تھا ہی نہیں اس لیے تو سستے داموں بیچ ڈالی. اللہ پاک یہاں ان ہی لوگوں کی مثال بیان کرتے ہیں.
عربی زبان کی وسعت کی وجہ سے جہاں یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ مَثَلُھُم الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا "ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی آگ جلانے کی کوشش کرے". مگر قرآن پاک میں ایسے نہیں کہا گیا. قرآن پاک میں اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا
مثل کا لفظ دو بار استعمال کیا گیا اور اس میں ایک اور لفظ جوڑ دیا گیا کَ.
تکنیکی باریکی میں جائے بغیر اس کا مطلب ہے کہ ان لوگوں کو درپیش مسئلے کا ایک بہت چھوٹا حصہ اس تصویر میں دکھایا جا رہا ہے. اگر یہ تصویر منافقین کے کردار یا ان کافروں کے کردار کو مکمک طور پر پیش کرتی تو پھر لفظ مَثََلُھُم کے بعد سیدھا ان الفاظ کا استعمال ہوتا الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا. مگر چونکہ یہاں دونوں کلموں کے درمیان فاصلہ ہے تو آپ کو اس پہیلی کے ایک چھوٹے سے حصے کی ہی سمجھ آئے گی. اب یہاں پہیلی کے ایک ہی حصے کا تذکرہ الله پاک نے کیوں فرمایا؟ کیونکہ پہیلی کے باقی حصے الله پاک آپ کو قرآن پاک کے مختلف حصوں میں پیش کریں گے. بس آپ کو تصویر کو مکمل کرنے کے لیے پزل کے باقی حصوں کی تلاش جاری رکھنی ہے. یہاں ان الفاظ میں صرف ایک جھلک ہی ہمیں دکھائی گئی ہے کہ
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا.
کہتے ہیں کہ عرب لفظ " مَثَلِ " کا استعمال کسی عام مثال کے لیے نہیں کرتے تھے. وہ لفظ " مَثَلِ " کا استعمال تب کرتے تھے جب کسی عجیب و غریب چیز کی مثال دینا مقصود ہو. تو جب لفظ "مَثَلِ" کا استعمال ہو تو آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ آگے کوئی عجیب حقیقت آشکار ہونے جا رہی ہے. کسی عام چیز کی بات نہیں ہو رہی، اگر کسی عام چیز کا ذکر ہوتا تو اس کے لیے حرف " كَ " تشبیہہ دینے کے لیے استعمال ہوتا، لیکن اگر کوئی مختلف سی، عجیب چیز ہو تو تشبیہہ دینے کے لیے لفظ " مَثَلِ " کا استعمال کیا جاتا. عرب کسی عام سادہ چیز کے لیے لفظ " مَثَلِ " کا استعمال نہیں کرتے تھے. اب قرآن کی اس آیت کے پیشِ نظر آپ سب تصور کریں اور اپنے ذہن میں منظر کشی کریں ،
الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا
تو ان کی مثال اس ایک شخص کی سی جس نے آگ جلانے کی کوشش کی. عرب میں یہ تصور اور منظر کشی نہایت عام تھی کہ ایک انسان رات کی تاریکی میں صحرا کے وسط میں بھٹک رہا ہے ، وہ صحیح راستے کی تلاش میں ہے لیکن گھپ اندھیرا ہے اور اسے سیدھا راستہ مل ہی نہیں رہا تو وہ ایک جگہ رکتا ہے تاکہ آگ جلا سکے اور کم ازکم اس تاریکی سے تو نجات پا لے ، اب اس تاریک صحرا کے وسط میں ایک شخص آگ جلانے کی کوشش کرتا ہے ، اور ابھی اس نے آگ روشن نہیں کی ، اگر کہا جاتا " اَوْقَدَ نَارًا " تو اس کے معنی ہیں اس نے آگ جلائی ، لیکن اسْتَوْقَدَ نَارًا کے معنی ہیں اس نے آگ جلانے کی کوشش کی ، تو وہ شخص بھرپور کوشش کر رہا ہے آگ جلانے کی . صحرا میں رات کا اندھیرا چھایا ہے، شدید سردی ہے. اور جانوروں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں. یعنی وہ شخص خطرے میں ہے اور اس تاریکی میں صحرا میں رات بسر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے تو اپنی حفاظت کے لیے آگ جلانا ناگزیر ہے ، ہو سکتا ہے آگ کی روشنی سے جانور گھبرا کر دور بھاگ جائیں، اور ویسے بھی آگ کی حدت کے بغیر سردی سے ہی مر جانے کا خطرہ ہے، تو وہ شخص آگ جلانے کی کوشش کرتا ہے اور آگے ہی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ
" فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ "
اور جب آگ نے اس کے گردوپیش کو روشن کر دیا
یعنی آگ جل اٹھی اور چاروں طرف روشنی پھیل گئی. جب صرف آگ روشن ہو تو کہا جاتا ہے نارا، لیکن جب آگ بھڑک کر الاؤ کی شکل اختیار کر لے تو اسے ضَؤ کہا جاتا ہے، یعنی ایسا عظیم الاؤ جس کے شعلے آسمانوں سے باتیں کریں تو اس بندے کی لگائی گئی چنگاری سے عظیم الاؤ بھڑک اٹھا اور اس کے گردوپیش کو روشن کر دیا، ' "مَا حَوْلَهُ ".
ضَاءَ عربی میں ضَؤ سے نکلا ہے جا کے معنی روشنی کے ہیں، اردو بولنے والوں میں ضیاء نام بہت عام ہے، جس کے معنی روشنی کے ہیں . لیکن ضَؤ اور نور میں بہت فرق ہے، ضَؤ ایسی روشنی ہے جس میں حدت یا گرمی ہوتی ہے، اور نور وہ ہے جس میں گرمی نہیں ہوتی اور نور منعکس شدہ روشنی کو کہا جا سکتا ہے. دوسرے لفظوں میں صبح صادق کے وقت جو آپ روشنی آسمان پر دیکھتے ہیں وہ ضَؤ نہیں بلکہ نور ہوتا ہے ، کہ اس وقت آپ سورج کی روشنی براہ راست نہیں دیکھتے ، آپ سورج کی روشنی آسمان پر منعکس ہوتے دیکھتے ہیں، تو اسے نور کہا جاتا ہے لیکن جب سورج طلوع ہو جائے اور اس کی روشنی حدت پکڑ لے تو اسے ضَؤ کہتے ہیں اور اس روشنی میں حدت بھی ہوتی ہے. تو یہ ہے سورج کی روشنی.
هُوَ الَّذِى جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً
وہی ہے جس نے سورج کو ضیاء( روشنی) اور چاند کو نور کا ذریعہ بنایا، کیونکہ چاند سورج کی ہی روشنی منعکس کرتا ہے ، اسی لیے چاند کی روشنی کو پرنور کہا جاتا ہے.
-نعمان علی خان
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
تدبر قرآن (سورہ بقرہ) حصہ 19 بسم اللہ الرحمن الرحیم اس مثال آپ کو ایسے سمجھائی جا سکتی ہے کہ یہ دو مختلف تصویریں ہیں. ایک تصویر م...
نبی آتے رہے۔۔۔ نبی آتے رہے آخر میں نبیوں کے امام آئے وہ دنیا میں خدا کا آخری لے کر پیام آئے جھکانے آئے بندوں کی جبی...
~!~ آج کی بات ~!~ سوچ, لہجہ اور الفاظ میں سے اگر کوئی ایک بھی نا مناسب ہو تو آپ اپنی بات کی اہمیت کھو دیتے ہیں. لیکن اگر سوچ پاکیز...
کچھ میرے بارے میں
مقبول اشاعتیں
فیس بک
بلاگ محفوظات
-
◄
2024
(4)
- ◄ اکتوبر 2024 (1)
- ◄ جنوری 2024 (3)
-
◄
2023
(51)
- ◄ دسمبر 2023 (1)
- ◄ اپریل 2023 (8)
- ◄ فروری 2023 (19)
- ◄ جنوری 2023 (8)
-
◄
2022
(9)
- ◄ دسمبر 2022 (9)
-
◄
2021
(36)
- ◄ دسمبر 2021 (3)
- ◄ اکتوبر 2021 (6)
- ◄ ستمبر 2021 (1)
- ◄ جولائی 2021 (8)
- ◄ فروری 2021 (7)
- ◄ جنوری 2021 (1)
-
◄
2020
(88)
- ◄ اکتوبر 2020 (5)
- ◄ اپریل 2020 (13)
- ◄ فروری 2020 (10)
- ◄ جنوری 2020 (16)
-
◄
2019
(217)
- ◄ دسمبر 2019 (31)
- ◄ نومبر 2019 (28)
- ◄ اکتوبر 2019 (27)
- ◄ ستمبر 2019 (18)
- ◄ جولائی 2019 (32)
- ◄ اپریل 2019 (11)
- ◄ فروری 2019 (7)
- ◄ جنوری 2019 (15)
-
◄
2018
(228)
- ◄ دسمبر 2018 (13)
- ◄ نومبر 2018 (18)
- ◄ اکتوبر 2018 (7)
- ◄ ستمبر 2018 (21)
- ◄ جولائی 2018 (7)
- ◄ اپریل 2018 (21)
- ◄ فروری 2018 (39)
- ◄ جنوری 2018 (38)
-
◄
2017
(435)
- ◄ دسمبر 2017 (25)
- ◄ نومبر 2017 (29)
- ◄ اکتوبر 2017 (35)
- ◄ ستمبر 2017 (36)
- ◄ جولائی 2017 (23)
- ◄ اپریل 2017 (33)
- ◄ فروری 2017 (34)
- ◄ جنوری 2017 (47)
-
▼
2016
(187)
-
▼
دسمبر 2016
(19)
- نو جوان۔۔ قیمتی سرمایہ (خطبہ جمعہ مسجد نبوی)
- آج کی بات ۔۔۔۔ 31 دسمبر 2017
- آج کی بات۔۔۔۔۔ 30 دسمبر 2016
- اللہ الرحمٰن الرحیم
- آج کی بات ۔۔۔ 29 دسمبر 2016
- آج کی بات۔۔۔۔۔ 28 دسمبر 2016
- کام کی بات
- پیغامِ قائد
- آج کی بات ۔۔ 21 دسمبر 2016
- حُبِّ رسول ﷺ کے تقاضے۔۔ خطبہ مسجد نبوی (اقتباس)
- آج کی بات ۔۔۔ 10 دسمبر 2016
- بہارِ باغِ دنیا
- قدردان
- ممتا (ایک احساس)
- آج کی بات ۔۔۔ 06 دسمبر 2016
- غفلت (اسباب اور تدارک) ۔۔۔ خطبہ مسجد نبوی (اقتباس)
- زندگی کی گاڑی
- ابابیل
- شاہکار
- ◄ نومبر 2016 (22)
- ◄ اکتوبر 2016 (21)
- ◄ ستمبر 2016 (11)
- ◄ جولائی 2016 (11)
- ◄ اپریل 2016 (14)
- ◄ فروری 2016 (23)
- ◄ جنوری 2016 (10)
-
▼
دسمبر 2016
(19)
-
◄
2015
(136)
- ◄ دسمبر 2015 (27)
- ◄ نومبر 2015 (22)
- ◄ ستمبر 2015 (1)
- ◄ جولائی 2015 (10)
- ◄ اپریل 2015 (4)
- ◄ فروری 2015 (12)
- ◄ جنوری 2015 (9)
-
◄
2014
(117)
- ◄ دسمبر 2014 (5)
- ◄ نومبر 2014 (14)
- ◄ اکتوبر 2014 (11)
- ◄ ستمبر 2014 (11)
- ◄ جولائی 2014 (8)
- ◄ اپریل 2014 (5)
- ◄ فروری 2014 (14)
- ◄ جنوری 2014 (12)
-
◄
2013
(293)
- ◄ دسمبر 2013 (18)
- ◄ نومبر 2013 (21)
- ◄ اکتوبر 2013 (35)
- ◄ ستمبر 2013 (26)
- ◄ اپریل 2013 (59)
- ◄ فروری 2013 (30)
- ◄ جنوری 2013 (27)
-
◄
2012
(56)
- ◄ ستمبر 2012 (2)
- ◄ جولائی 2012 (2)
- ◄ فروری 2012 (14)
- ◄ جنوری 2012 (8)
-
◄
2011
(28)
- ◄ دسمبر 2011 (6)
- ◄ نومبر 2011 (22)