قدردان

 ~!~ حکایت سعدی سے اقتباس ~!~

حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ کشتی پر سوار تھا۔ کشتی میں ایک عجمی لڑکا بھی سوار تھا۔ اس لڑکے نے اس سے قبل کبھی دریا کا سفر نہیں کیا تھا چنانچہ جب کشتی روانہ ہوئی اس نے رونا شروع کر دیا اور ڈر کے مارے اس کا بدن کانپنے لگا۔ بادشاہ چونک نازک طبع ہوتے ہیں اس لیے اس لڑکے کے رونے اس اس کا سفر کا مزہ حراب ہو گیا۔
لوگوں نے بہتیری کو شش کی کہ وہ لڑکا خاموش ہو جائے مگر اس لڑنے نے رونا بند نہ کیا۔ ایک دانا شخص جو کشتی میں سوار تھا اس نے بادشاہ سے کہا کہ اگر حکم ہو تو میرے پاس ایک ایسا طریقہ ہے کہ یہ لڑکا رونا بند کر دے گا؟
بادشاہ نے کہا کہ اگر ایسا کوئی طریقہ ہے تو وہ آزمایا جائے تاکہ اس لڑکے کا رونا ختم ہو۔ اس دانا شخص نے لڑکے کو پکڑا اور دریا میں پھینک دیا۔ جب اس لڑکے کو چند غوطے لگے تو اسے بالوں سے پکڑ کر واپس کشتی میں بٹھا دیا۔ وہ لڑکا اب چپ ہو کر ایک کونے میں نہایت اطمینان سے بیٹھ گیا۔
بادشاہ حیران ہوا اور اس نے اس دانا شخص سے کہا کہ تو نے یہ کیا کیا اور اس میں کون سی دانائی پوشیدہ ہے ؟ دانا شخص نے جواب دیا کہ آرام کی قدر اسی کو ہے جس نے کوئی تکلیف دیکھی ہو۔ یہ لڑکا ڈوبنے کی تکلیف سے ناواقف تھا اور اسے کشتی کی قدر و قیمت کا اندازہ نہ تھا ج اب چند غوطے لگانے کے بعد اسے کشتی کی قدروقیمت کا اندازہ ہو گیا ہے۔
جنت کی حوروں کے لیے تو اعراف ہی دوزخ ہے اور دوزخیوں کے لیے وہ جنت ہے۔ جس کا محبوب اس کے پاس ہو اس میں اور جو محبوب کی آمد کا منتظر ہو دونوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔

مقصود بیان:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ نعمت ملنے پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا چاہیے اور مصیبت آنے پر واویلا نہیں مچانا چاہیے کہ یہ بھی اللہ عزوجل کی جانب سے ہے اور اس کے لیے ایک آزمائش ہے اگر وہ اس آزمائش میں پورا اترتا ہے تو اس کے لیے بے شمار انعام و اکرام ہیں۔ انعام و اکرام کی قدر اسی کو ہو سکتی ہے جو کسی آزمائش کے بعد ان کا حقدار ہو ا ہو نہ کہ وہ جسے بغیر آزمائش کے انعام و اکرام سے نواز دیا جائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں