شیطان کا ایک بہت عجب جال ہوتا ہے ۔۔۔ کہ اللہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے ۔۔
اور کسی بھی بےجا خوف کے تحت وہ ہمیں اللہ سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔
اور وہ ہمارا اللہ جس نے بارہا کہا میرا رحم میرے غضب پر غالب ہے ۔۔ جس نے
قرآن کریم میں 113 سورتوں میں اپنی صفت رحمٰن و رحیم بتائی ۔۔ اور فقط ایک
سورہ جس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہیں تو اسکا نام ہی سورۃ
التوبہ ہے ۔۔ جس میں معبودِ حقیقی کا مخفی پیغام ہے اے میرے عبد توبہ کر
اور میں تجھے گلے لگانے کو تیار ہوں۔
ویسے جس کے دل میں یہ خوف ہے
کہ اللہ اس سے ناراض ہے اس سے اللہ بھلا کیسے ناراض ہوسکتا ہے ۔۔ یہ تو بس
تب تک ایک شیطانی جال ہے اگر یہ آپکو اللہ کی رحمت سے ہٹا کر اسکے غضب میں
ہی مبتلا رکھے، جب تک یہ خوف انسان کو اللہ سے دور رکھے اور جسے وہ سچے
اشکِ ندامت بہا کر یہ کہہ کر توڑنا ہے کہ میرا گناہ میری رب کی رحمت و
مغفرت سے بڑا نہیں ۔۔ وہ معاف کرنے والا ہے وہ مجھے معاف کر دے ۔۔ مجھے
توفیق دے میں اسی کی رضا میں جیوں مروں اٹھوں ۔۔ اسکے لیے اسی کی توفیق سے
گناہ سے بچوں اسکے لیے نیک اعمال کروں ۔۔ اسے راضی کروں ۔۔ اسکی محبت کی
ٹھنڈک اس کے چین کا نور میرے دل میں ایسا ہو جیسے سخت جون جولائی کے مہیںوں
میں کسی کو ٹھنڈا میٹھا پانی پی کر قرار آجاۓ ۔۔ جیسے کوئی جل رہا ہو اور
ٹھنڈی بارش کی پھوار میں نہا جائے ۔۔ جیسے کوئی تنہا صحرا میں بلکتا ہو تو وہ
اسکے جھلستے سر پر کسی سایہ دارابرِ رحمت سا ہو ۔۔ شاید ناراض ہونا چاہے
تو وہ ان سے ہو جنہیں وہ اپنی ذات سے غافل کر دیتا ہے ۔۔ جنہیں اس احساس سے
بھی محروم کر دیتا ہے کہ کوئی ہے ۔ ۔ جس نے انہیں پیدا کیا جس کے وہ بال بال
مقروض ہیں ۔۔ مگر سچ کہوں بے پرواہ وہ ان سے بھی نہیں ہوتا جو اس سے
بےپرواہ ہو چلے ۔۔ ان کے ساتھ کیا کیا نہیں کر سکتا مگر نبھاہ رہا ہے
کیوںکہ اس سے بڑھ کر باوفا کوئی نہیں کیوںکہ اس سے بڑھ کر صبور کوئی نہیں وہ
تو انکو بھی بےبہا دے رہا ہے جو اس کا شریک اسی کی مخلوق کو ٹھہراتے ہیں۔۔
اس پرتہمت لگاتے ہیں اسی کا کھا کر پہن کر اسی کی زمین پر چل کر اسی کے
آسمان کی چادر تلے اسی پر جھوٹ باندھتے ہیں ۔۔ وہ تو سب کو دیئےہی دیئے جا
رہا ہے ۔۔ بے بہا دیئے جا رہا ہے ۔۔
تو الحمد للہ اللہ ہم سے ناراض
نہیں ۔۔ مگر ہاں اسکو راضی کرنا ایک الگ معاملہ ہے ۔۔ شاید ایک مسلمان کو
خوف ہوتا ہے اللہ ناراض نہ ہو جائے اور مومن کو یہ فکر رہتی ہے کہ اللہ کو
راضی کیسے کرنا ہے ۔۔۔ جو کہ بلاشبہ عطا ہے ۔۔ کہ اللہ انکو ہی اپنے سے
راضی ہونے کی لگن دیتا ہے جو اسے اچھے لگتے ہیں ۔۔ اور بھلا کون ہے وہ
تخلیق کار جسے اپنی ہی تخلیق بری لگے اور اللہ بے انتہا خوش ہوتا ہے بندے
کے اپنے پاس پلٹ آنے کے لیۓ۔ بندے سے اللہ سے بڑھ کر کوئی پیار نہیں کر
سکتا اور بندہ کیسا بندہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر سب سے پیار کرتا ہے۔۔ جانے
کیوں ہم نے اللہ کو ایک عذاب دینے والی ہستی ناراض رہنے والی ہستی سمجھ لیا
ہے حالانکہ وہ تو ہم سے ہماری ماں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے ۔۔ بلکہ اسی
نے تو ہمیں ماں بھی دی الحمد للہ رب العالمین۔
ہاں بس اسکے پیار کا
طریقہ الگ ہے ۔۔ جیسے ایک چھوٹا بچہ جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتا مگر اپنے
تجسس اور شوق میں وہ نادانی میں آگ پکڑنے لگا یے تو ماں کیسے بھی کر کے
اسکو آگ سے بچاتی ہے کبھی آگ اس سے دور کرتی ہے کبھی اسکو آگ سے دور کر
دیتی ہے کبھی کسی اورکھلونے سے بہلا لیتی ہے ۔۔ اگر بچہ پھر بھی بضد ہو تو
اسے ڈانٹنے یا مارنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ کیوں؟ کیوںکہ وہ جانتی ہے کہ
بچہ نادانی میں جو خواہش کر رہا ہے وہ خواہش اسے جلا دے گی ۔۔ تو ہمارے
پیارے سے اللہ پاک ۔۔ جنہوں نے خود ہمیں اتنے پیار سے اپنے لیۓ بنایا کیا
وہ ہماری خواہش کو اہم نہیں جانیں گے؟ مگر ہم اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اپنے
شوق کے ہاتھوں جس شے کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ دراصل اسکی ہمارے حق میں
اور ہمارے حق میں اسکی اصل ماہیت سے نا آشنا ہوتے ہیں مگر ہمارا اللہ علیم
و حکیم آشنا ہے ۔۔ تو جیسے بچہ جب برا محسوس کرتا ہے کہ اسکی ماں نے اسکو
آگ سے دور کر دیا ۔۔ اسی طرح نادان انسان اللہ کی حکمت بھی نہیں سمجھ پاتا
۔۔ اور شکوے شکایات کا ایک دفتر کھول دیتا ہے ۔۔ اب بھلا کوئی بچہ آپ کے پاس
منہ بسور کر آئے اور کہے میری ماما نے مجھے آگ پکڑنے پر ایک تھپڑ رسید
فرمانے کی دھمکی ارشاد فرمائی ہے۔۔ تو آپ اس نادان کو کیسے دیکھیں گے۔۔
یقیناۤ مسکراتے ہوئے ۔۔ اور پھر سمجھاتے ہوۓ کہیں گے کہ بیٹا اس میں آپکی
بہتری ہے ۔۔ اب اللہ کے فیصلوں پر اگر کوئی آپ کو بہتری کا پہلو دکھائے تو وہ
یقیناۤ آپ سے مخلص ہے مگر اگر کوئئ آپ کو آپکی ہی ماں کے خلاف اکسائے یا
بھڑکائے تو ذرا اسکے اخلاص کے حوالے سے سوچ لیجیے
۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ
اللہ کسی شے کو بس ذرا لے کر دیکھتا ہے کہ کیا اسکا بندہ اللہ کہ اللہ
جانتا ہے یا اپنی خواہش کو معبود مانتا ہے سو بس آزماتا ہے سو اگر سرخروئی
عطا ہو تو اللہ دہ جہاں میں صلہ بڑھا کر عطا کرتا ہے مگر اللہ وہی کرتا ہے
جس میں اسے اپنے بندے کی سب سے زیادہ خیر نظر آتی ہے ۔۔
اللہ پاک ہے
.. بلاشبہ بہت رحمن غفور الرحیم ہے. اور وہ صرف اپنے بندے کی نیت دیکھتا
ہے. وہ سینوں کے بھید دلوں کی حقیقت نیتوں کا حال سب جانتا ہے. وہ ہماری
توبہ کی حقیقت کو بھی جانچتا ہے. وہی پاک ہے وہی پاک کر سکتا ہے. ہم بس
اللہ کو سچے دل سے خود سپردگی دیں اور اسے کہیں وہ ہم پر قابض ہے وہی ہم پر
قابض رہے.. پل بھر کو بھی ظالم نفس کے حوالے نہ کرے. وہ اور صرف وہی
ہماری شکستہ سامانیوں کے باوجود.. ہماری کوتاہیوں زیادتیوں کے باوجود ..
صرف ایک سچے رجوع پر ہمیں گلے لگانے کو تیار ہے.
ہاں اسکی عظمت بے
نیازی کا خوف ہونا بھی چاہیے. مگر اگر ہم اسکی رضا میں تحلیل ہو جائیں تو
ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم اسکے خوف سے اس سے دور ہوجائیں
وہ ایک واحد
ذات وہ ہے جہاں ہمیں کسی ریجیکشن کا خوف نہیں. وہ جس نے ہمیں بنایا ہے
ہماری شخصی کمزوریوں سے آگاہ. . صرف ہمارے سچ سے ہمارے سچے ہونے کا منتظر
..کہ اسے جھوٹ فریب دھوکہ منافقت پسند نہیں .. کہ اس میں اسکا نہیں ..
ہمارا نقصان ہے... اللہ ہمیں اپنے احسان شناسی سے مالامال کر دے اپنی
محبتوں کے حصار میں ہمیں اور مضبوطی سے تھام لے اللھم آمین!
تحریر: حیا ایشم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں