ابابیل


ابابیل اپنا گھونسلہ کنوئیں میں بناتی ھے.. اس کے پاس اپنے بچوں کو اڑنے کی عملی تربیت دینے کے لئے نہ تو کوئی اسپیس یا سہولت دستیاب ھوتی ھے اور نہ ھی وہ کچی تربیت کے ساتھ بچوں کو اڑنے کا کہہ سکتی ھے کیونکہ پہلی اڑان میں ناکامی کا مطلب پانی کی دردناک موت ھے.. مزید کسی ٹرائی کے امکانات زیرو ھیں..
آج تک اگر کسی نے ابابیل کے کسی مرے ھوئے بچے کو کنوئیں میں دیکھا ھے تو بتا دے..ابابیل بچوں کے حصے کی تربیت بھی اپنی ذات پر کرتی ھے.. بچوں سے پہلے اگر وہ اپنے گھونسلے سے دن بھر میں 25 اڑانیں لیتی تھی تو بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد 75 اڑانیں لیتی ھے.. یوں ماں اور باپ 150 اڑانیں لیتے ھیں تا آنکہ اپنے بچوں کا دل و دماغ اس یقین سے بھر دیتے ھیں کہ یہاں سے اڑ کر سیدھا باھر جانا ھے اور بس !! اور کوئی آپشن نہیں ھے.. ایک دن آتا ھے کہ بچہ ھاتھ سےنکلے ھوئے پتھر کی طرح گھونسلے سے نکلتا ھے اور سیدھا جا کر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ جاتا ھے !!!
ھماری اولاد ھمارے یقین میں سے اپنا حصہ پاتی ھے.. اگر ھم خود یقین اور عمل سے تہی دست ھونگے تو اولاد کو کیا دیں گے..؟ بچوں کو کہانیاں نہ سنایئے بلکہ عمل کر کے دکھایئے.. یقین کریں وہ جتنا آپ پر اعتماد کرتے ھیں دنیا کے کسی کتابی ھیرو پہ نہیں کرتے

میری طرح آپ نے بھی یہ بات کئی بار کئی جگہ پڑھی ہوگی ۔۔ بلاشبہ اس میں پیغام بہت اچھا دیا گیا ہے۔ لیکن ابابیل کے گھونسلے کے بارے میں میرا کچھ تجسس بڑھا تو سوچا کیوں نہ کچھ تحقیق کی جائے اور اپنی معلومات میں اضافہ کیا جائے اس حوالے سے سو اس کے لیے گوگل کی مدد لی۔

ابابیل کے گھونسلے کی کچھ تصاویر

وکشنری کے مطابق 'ابابیل' ایک چھوٹی سی چڑیا جس کے پر سیاہ اور سینہ سفید ہوتا ہے۔ پرانے گنبدوں ۔ کھنڈروں اور تاریک مقامات پر مٹی کا گھونسلا بنا کر رہتی ہیں۔



ابابیل کی کچھ اقسام درختوں کی کھوہ میں بھی اپنا گھر بناتی ہیں۔

 یہ تو تھی کچھ انٹرنیٹ کی معلومات۔۔ 

اس سلسلے میں میں نے جناب افتخار اجمل بھوپال صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ:

" ابابیل میں نے جموں اور سیالکوٹ میں دیکھے تھے ۔ پھر کہیں نظر نہیں آئے

ابابیل کو قریب سے بھی دیکھا تھا یعنی زخمی ابابیل کو ہتھیلی پر رکھ کر

ابابیل کی ٹانگیں بہت نازک ہوتی ہیں اور وہ ان پر چڑیا کی طرح کھڑی نہیں ہو پاتی

سیالکوٹ میں ابابیل کے گھر جنہیں وہاں کی مقامی زبان میں آلنا کہتے ہیں دریا کے قریب کچی پہاڑی یعنی مٹی کی پہاڑی کے سوراخوں میں تھے

صرف ایک بار میں نے ابابیل کا بچہ دیکھا جسے ایک لڑکے نے ہتھیلی پر رکھا ہوا تھا اور اُس پر ترس کھا رہا تھا کہ بیچارہ نہ معلوم کیسے زمین پر گِر گیا ۔ اُسے آلنے میں کیسے پہنچایا جائے ؟ کیونکہ آلنے بہت اُونچے تھے اور پہاڑی تقریباً عمودی تھی ۔ کچی ہونے کی وجہ سے اس پر چڑھنے کی کوشش بڑی حماقت تھی۔"

سننے کو یہ بھی سنا ہے کہ مسجد الحرام میں ابابیل کعبے کا طواف بھی کرتی ہیں .... خانی کئبہ کے گرد اڑتے پرندے (دن اور رات دونوں اوقات میں) تو میں نے بھی دیکھے ہیں ،، واللہ اعلم بالثواب


اور


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں