تدبرِ قرآن- سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) حصہ- 19

تدبر قرآن (سورہ بقرہ) حصہ 19

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 اس مثال آپ کو ایسے سمجھائی جا سکتی ہے کہ یہ دو مختلف تصویریں ہیں. ایک تصویر مختصر ہو گی اور دوسری تفصیل سے. میں پہلے ایک تصویر کے بارے میں مختصراً آپ کو بتاؤں گا آپ کو بس تصور کرنا ہے کہ الله پاک نے کیسے اس کا نقشہ کھینچا ہے پھر ہم اسے سمجھنے کی کوشش کریں گے. تو الله پاک فرماتے ہیں

مَثَلُهُمْ كَمَثَل

الله پاک فرماتے ہیں کہ آیت نمبر ۱۶ میں جن کا ذکر ہے

 أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴿١٦﴾

 جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی اور ان کی تجارت کا انہیں کوئی فائدہ بھی نہ ہوا اور اصل میں انہیں ہدایت حاصل کرنے میں دلچسپی تھی بھی نہیں.
 ان کے پاس جو بھی ہدایت بچی تھی اس سے انہیں کوئی لگاؤ تھا ہی نہیں اس لیے تو سستے داموں بیچ ڈالی. اللہ پاک یہاں ان ہی لوگوں کی مثال بیان کرتے ہیں.
عربی زبان کی وسعت کی وجہ سے جہاں یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ مَثَلُھُم الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا "ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی آگ جلانے کی کوشش کرے". مگر قرآن پاک میں ایسے نہیں کہا گیا. قرآن پاک میں اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا

مثل کا لفظ دو بار استعمال کیا گیا اور اس میں ایک اور لفظ جوڑ دیا گیا کَ.
تکنیکی باریکی میں جائے بغیر اس کا مطلب ہے کہ ان لوگوں کو درپیش مسئلے کا ایک بہت چھوٹا حصہ اس تصویر میں دکھایا جا رہا ہے. اگر یہ تصویر منافقین کے کردار یا ان کافروں کے کردار کو مکمک طور پر پیش کرتی تو پھر لفظ مَثََلُھُم کے بعد سیدھا ان الفاظ کا استعمال ہوتا الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا. مگر چونکہ یہاں دونوں کلموں کے درمیان  فاصلہ ہے تو آپ کو اس پہیلی کے ایک چھوٹے سے حصے کی ہی سمجھ آئے گی. اب یہاں پہیلی کے ایک ہی حصے کا تذکرہ الله پاک نے کیوں فرمایا؟ کیونکہ پہیلی کے باقی حصے الله پاک آپ کو قرآن پاک کے مختلف حصوں میں پیش کریں گے. بس آپ کو تصویر کو مکمل کرنے کے لیے پزل کے باقی حصوں کی تلاش جاری رکھنی ہے. یہاں ان الفاظ میں صرف ایک جھلک ہی ہمیں دکھائی گئی ہے کہ
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا.

کہتے ہیں کہ عرب لفظ " مَثَلِ " کا استعمال کسی عام مثال کے لیے نہیں کرتے تھے. وہ لفظ  " مَثَلِ " کا استعمال تب کرتے تھے جب کسی عجیب و غریب چیز کی مثال دینا مقصود ہو. تو جب لفظ  "مَثَلِ" کا استعمال ہو تو آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ آگے کوئی عجیب حقیقت آشکار ہونے جا رہی ہے. کسی عام چیز کی بات نہیں ہو رہی، اگر کسی عام  چیز کا  ذکر ہوتا تو اس کے لیے حرف  " كَ " تشبیہہ دینے کے لیے استعمال ہوتا، لیکن اگر کوئی مختلف سی، عجیب چیز ہو تو  تشبیہہ دینے کے لیے لفظ  " مَثَلِ " کا استعمال کیا جاتا. عرب کسی عام سادہ چیز کے لیے لفظ  " مَثَلِ " کا استعمال نہیں کرتے تھے. اب قرآن کی اس آیت کے پیشِ نظر آپ سب  تصور کریں اور اپنے ذہن میں منظر کشی کریں ،

 الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا

تو ان کی مثال اس ایک شخص کی سی جس نے آگ جلانے کی کوشش کی. عرب میں یہ تصور اور منظر کشی نہایت عام تھی کہ ایک انسان رات کی تاریکی میں صحرا کے وسط میں بھٹک رہا ہے ، وہ صحیح راستے کی تلاش میں ہے لیکن گھپ اندھیرا ہے اور اسے سیدھا راستہ مل ہی نہیں رہا تو وہ ایک جگہ رکتا ہے تاکہ آگ جلا سکے اور کم ازکم اس تاریکی سے تو نجات پا لے ، اب اس تاریک صحرا کے وسط میں ایک شخص آگ جلانے کی کوشش کرتا ہے ، اور ابھی اس نے آگ روشن نہیں کی ، اگر کہا جاتا " اَوْقَدَ نَارًا "  تو اس کے معنی ہیں اس نے آگ جلائی ، لیکن اسْتَوْقَدَ نَارًا کے معنی ہیں اس نے آگ جلانے کی کوشش کی ، تو وہ شخص بھرپور کوشش کر رہا ہے آگ جلانے کی . صحرا میں رات کا اندھیرا چھایا ہے، شدید سردی ہے. اور جانوروں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں. یعنی وہ شخص خطرے میں ہے اور اس تاریکی میں صحرا میں رات بسر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے تو اپنی حفاظت کے لیے  آگ جلانا ناگزیر ہے ، ہو سکتا ہے آگ کی روشنی سے جانور گھبرا کر دور بھاگ جائیں، اور ویسے بھی آگ کی حدت کے بغیر سردی سے ہی مر جانے  کا خطرہ ہے، تو وہ شخص آگ جلانے کی کوشش کرتا ہے اور آگے ہی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ

 " فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ "

اور جب آگ نے اس کے گردوپیش کو روشن کر دیا

یعنی آگ جل اٹھی اور چاروں طرف روشنی پھیل گئی. جب صرف آگ روشن ہو تو کہا جاتا ہے نارا، لیکن جب آگ بھڑک کر الاؤ کی شکل اختیار کر لے تو اسے ضَؤ کہا جاتا ہے، یعنی ایسا عظیم الاؤ جس کے شعلے آسمانوں سے باتیں کریں تو اس بندے کی لگائی گئی چنگاری سے عظیم الاؤ بھڑک اٹھا اور اس کے گردوپیش کو روشن کر دیا، ' "مَا حَوْلَهُ ".
   ضَاءَ عربی میں ضَؤ سے نکلا ہے جا کے معنی روشنی کے ہیں، اردو بولنے والوں میں ضیاء نام بہت عام ہے، جس کے معنی روشنی کے ہیں .  لیکن ضَؤ اور نور میں بہت فرق ہے، ضَؤ ایسی روشنی ہے جس میں حدت یا گرمی  ہوتی ہے، اور نور وہ ہے جس میں گرمی نہیں ہوتی اور نور منعکس شدہ روشنی کو کہا جا سکتا ہے. دوسرے لفظوں میں صبح صادق کے وقت جو آپ روشنی آسمان پر دیکھتے ہیں وہ ضَؤ نہیں بلکہ نور ہوتا ہے ، کہ اس وقت آپ سورج کی روشنی براہ راست نہیں دیکھتے ، آپ سورج کی روشنی آسمان پر منعکس ہوتے دیکھتے ہیں، تو اسے نور کہا جاتا ہے لیکن جب سورج طلوع ہو جائے اور اس کی روشنی حدت پکڑ لے تو اسے ضَؤ کہتے ہیں اور اس روشنی میں حدت بھی ہوتی ہے. تو یہ ہے سورج کی روشنی.

 هُوَ الَّذِى جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً
وہی ہے جس نے سورج کو ضیاء( روشنی) اور چاند کو نور کا ذریعہ بنایا، کیونکہ چاند سورج کی ہی روشنی منعکس کرتا ہے ، اسی لیے چاند کی روشنی کو پرنور کہا جاتا ہے.

-نعمان علی خان

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

2 تبصرے:

  1. مہربانی کر کے سورہ البقرہ کے پہلے حصہ والے بلاگ کا بتائیں کہ وہ کہاں ہے۔۔ اور ترتیب کے ساتھ سارے بلاگ کدھر ہیں ؟؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. پہلا حصہ یہ ہے ۔۔۔
      https://seems77.blogspot.com/2016/07/baqrah-1.html

      سرچ بار میں سورہ البقرہ سرچ کریں تو مل جائیں گی تمام پوسٹس ۔۔ یا پوسٹ کے آخر میں سورہ البقرہ کے ٹیگ کو کلک کریں۔

      حذف کریں