تدبر قرآن
سورہ بقرہ ۔۔ حصہ 18
پورے قرآن میں جب اللہ انسانوں پر کسی نوازش کا ذکر کرتا ہے تو
وہ لفظ *اَمَدَّ* استعمال کرتا ہے. اور باقی ہر چیز کے لیے وہ لفظ
*مَدَّ*استعمال کرتا ہے. اللہ پاک نے ہمیں کسی بھی چیز کے دینے کے لیے وسعت
والا صیغہ استعمال کیا ہے.
اللہ پاک فرماتے ہیں
*يُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ*
اللہ پاک فرماتے ہیں
*يُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ*
*نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِين*
*يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ*
*أَمْدَدْنَاهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَلَحْم مِمَّا يَشْتَهُونَ*
*كُلًّا نُّمِدُّ هَٰؤُلَاءِ وَهَٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ*
الفاط جیسے نُمِدُ، أَمْدَدْنَا، يُمْدُ یہ سب لفظ *اَمَدَّ* یعنی وسعت
سے نکلے ہیں. توسیع جیسے اللہ اپنی رحمت کو وسعت دیتا ہے اور بھی بہت سی
جگہوں پر بھی جیسے کہیں سمندر کی وسعت کو بڑھانے کا ذکر کیا گیا، یا سزاؤں
کے بڑھائے جانے کا ذکر ہے. اسی طرح یہاں پر کہا جا رہا ہے کہ اللہ انہیں ان
کی سرکشی میں بڑھا دے گا. یہاں پر الله پاک نے لفظ أَمَدَّ استعمال نہیں
کیا بلکہ اللہ پاک نے لفظ يَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ استعمال کیا ہے جو
کہ شدت میں کمتر ہے. یہ صرف تئیس سال کے عرصہ کی سرکشی کی شدت بیان کی جا
رہی ہے. ایسا نہیں ہے کہ یہ سب بھاری بھرکم الزام ایک ہی پیراگراف میں اترے
اور اسی میں سجا دئیے گئے. سبحان الله اس قدرت پر الله کریم کی. اور آج
صدیوں بعد لسانیات کے ماہر دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ ایسا کیسے ہوا؟ یہ
اتفاقی تو نہیں ہے.
الله تعالٰی فرماتے ہیں *وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ* اس کے آخر میں جو لفظ استعمال کیا گیا ہے میں آپ کو بتاؤں تو وہ بہت خوبصورت ہے. الله پاک نے لفظ استعمال کیا ہے *يَعْمَهُونَ*.
عربی میں اس کا مطلب العمه: التحیر و تردد. یعمھون کا مطلب ہے 'حیران ہونا' اس کا مطلب 'جھجھکنا' بھی ہے. دوسرے لفظوں میں ایسے لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کرنے میں ہمیشہ جھجھکیں گے اور اپنی سرکشی میں غلط رستے پر ہی چلتے جائیں گے اور ہر وہ وحی جس سے انہیں فرق پڑتا ہو گا اسے جان کر حیران ہو جائیں گے اور اپنے جرم کی وجہ سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے نظریں ملانے سے حد ممکن بچیں گے. مثال کے طور پر جو طالبعلم جماعت میں دیر سے آتا ہے ہمیشہ نظریں ملانے سے پرہیز کرتا ہے یہ تردد النظر ہے. اللہ انہیں ڈھیل دے دیتا ہے اور نظریں بچا کر سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ بچ گئے جب کہ
*قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا*
الله تعالٰی جانتا ہے جو آپ سے بہانے بنا کر الگ ہو جاتے ہیں. اللہ پاک انہیں جانتا یے۔ یہاں یہی کہا جا رہا ہے کہ اللہ انہیں ڈھیل دے دیتا یے.
لفظ *عَمَه* اس لیے بھی خوبصورت ہے کہ *عَمَی* کے قریب ترین ہے. اور *عُمىٌ* کا مطلب اندھاپن ہے. ابن کثیر دونوں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں *العمه في البصيرة كالعمى في البصر*. *عَمَه* کامطلب ہے آگاہی، سوچنے، غور و تفکر کی صلاحیت. یہ لوگ سوچنے کی صلاحیت سے انکاری ہیں. اگر الله پاک نے لفظ *یَعمُون* استعمال کیا ہوتا تو اس کا مطلب ان کی آنکھوں کا اندھا پن ہونا تھا.
*العمه عمى القلب و العمى فى البصر*. لفظ *یَعمَھُون* کا مطلب ہے کہ وہ دل کے اندھے ہیں. ان کے دلوں میں احساس نہیں بچا. یہ واپس گھوم پھر کر وہیں بات آ رہی ہے جہاں سے ہم نے شروع کی تھی کہ ان کے دلوں پر مہر ہے اور اب ان کے دل اندھے، احساس سے عاری ہیں.
ایک آخری آیت جو میں آج آپ کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں پھر ہم واپس جائیں گے اور ان آیات کو یہودیوں کے پس منظر میں رکھ کر دیکھیں گے جنہیں پہلے ہم منافقین کے نظریے سے دیکھ چکے.
*أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ*
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ھدایت بیچ کر یا اس کی قیمت کے بدلے گمراہی خریدی.
*الباءللمتروك مع فی الاشترا.* الباء کا مطلب ہے جو آپ چھوڑ دیتے ہو. کوئی بھی چیز تب ہی خرید سکتے ہیں جب آپ کے پاس پیسے ہوں اگر پیسے نہیں ہیں تو خرید بھی نہیں سکتے.
الله تعالیٰ لفط *بِالھُدی* استعمال کرنے کے یہ بتا رہا ہے کہ ان بچارے لوگوں کے پاس ھدایت تھی اور انہوں نے ھدایت بیچ کر گمراہی لے لی. انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنا نقصان کیا. اس کلام کی یہی وضاحت کی گئی ہے. اللہ تعالٰیٰ فرماتے ہیں کہ جو سب سے کمتر درجے کے مسلمان ہوتے ہیں ان کے پاس بھی ھدایت ہوتی ہے تو اسے مت بیچوـ
بہت سے لوگوں نے اس آیت کا درست مفہوم نہیں سمجھا ان کے مطابق ان لوگوں نے گمراہی کے بدلے ھدایت بیچ دی ہوئی ہے. لفظ *اِشتَرَا*کا مطب بیچنا نہیں خریدنا ہے. *شَرَا* بیچنا ہے. تو یہ ترجمہ کی غلطی ہے.
اکثر مجالس کے بعد لوگ مجھے پوچھتے ہیں کہ آپ کون سا ترجمہ تجویز کرتے ہیں؟ تو یہ ایک مشکل سوال ہے. آپ میں سے جو طالبعلم عربی سے بالکل ناآشنا ہیں اور ابھی ابتدا ہی کر رہے ہیں تو میں ان کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی آف لنڈن کے پروفیسر عبدالحلیم کا ترجمہ والا نسخہ تجویز کر دیتا ہوں. یہ ایک بہت اچھا ترجمہ ہے. کم از کم یہ درست معنی تو پیش کرتا ہے.
اکثر لوگ اپنے متراجم نسخے میرے پاس لا کر کہتے ہیں کہ آپ یہ دوسروں کو تجویز کر دیا کریں اور جب میں ان کی کتابیں پڑھتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ آپ نے یہ ایسے کیوں لکھا یا ایسے کیوں کیا تو وہ مجھ سے نظر بچاتے ہیں اور پھر دکھائی نہیں دیتے. میں بس ایسے نسخے ہی تجویز کر سکتا ہوں جن کے بارے میں مجھے معلوم ہو کہ یہ واقعی کچھ منظم اصولوں کو مدنظر رکھ کر لکھے گئے ہیں.
*أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُم*
*الرباح النماء في التجر* ان کے معاملات اور لین دین کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا. اب ھدایت کے بدلے گمراہی کو خدیدنا اس کا بھلا کیا مطلب ہوا؟ ھدایت جو الله پاک نے نازل کی تھی آسان نہیں تھی خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے بالکل نہیں جنہیں اس کے بدلے قربانیاں دینی پڑنی تھیں اور اگر آپ ھدایت سے جان چھڑاتے ہو اور بہانے تراشتے ہو کہ کسی طرح اس پر عمل نہ کرنا پڑے مگر بظاہر سب کو یہی لگے کہ آپ دل سے مسلمان ہی ہیں تو یہ آپ نے ھدایت کے بدلے گمراہی کا سودا کیا ہے.
آپ اسلام کو جیے بنا اسکو اپنا نہیں سکتے. آپ قرآن پر عمل نہ کرتے ہوئے بھی اس سے اپنی وفاداری کا دعویٰ نہیں کر سکتے. آپ کو اسلام اور قرآن دونوں کو اپنانا پڑتا ہے.
اللہ تعالى فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کا یہ عمل سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے لیے تو یہ بس ایک کاروباری لین دین ہے پر افسوس اس سے انہیں کوئی فائدہ ہوتا نہیں.
*فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴿١٦﴾*
ویسے بھی انہیں کبھی ھدایت کے حصول کا شوق تھا بھی نہیں. یہ لوگ اس قسم کے تھے ہی نہیں جو کسی بات پر قائم رہیں.
میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ ردعمل کے تین درجات ہوتے ہیں سب سے انتہائی درجہ ہے انتہائی محبت، وفاداری کا کہ چاہے کچھ بھی ہو ہم اپنا دین نہیں چھوڑنے والے، دوسرا انتہائی درجہ انتہائی درجے کی نفرت کہ کچھ بھی ہو ہم اس دین کو نہیں ماننے والے اور ان دو انتہاؤں کر درمیان والے ایسے ہوتے ہیں جنہیں معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں دین اپنانا بھی چاہیے یا نہیں. لفظ *اھتدی* یعنی *الالتزام بالھدی، التمسک بالھدی*. جب آپ قرآن میں یہ الفاظ پڑھتے ہیں يَهْتَدُونَ، مُهْتَدِينَ، اھْتَدٰی تو آپ ان لوگوں کے بارے میں پڑھ رہے ہوتے ہیں جنہوں نے ھدایت کو مضبوطی سے تھامے رکھا. افتعال کا وزن مبالغہ کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ انہوں نے بے حد مضبوطی سے ھدایت کو تھامے رکھا.
جب کہ اس آیت میں بیان کیے گئے لوگوں کہ بارے میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ انہوں نے کبھی ہدایت کو مضبوطی سے پکڑا ہی نہیں تھا. مجھے اس آیت کا ایسا ترجمہ کیا جانا پسند نہیں کہ
*وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ*
اور انہیں ہدایت نہ دی گئی تھی.
پہلی بات تو یہ کہ اس ترجمہ میں یہ عمل غیر فعال لگتا ہے جب کہ حقیقت میں یہ فعال عمل ہے اس لیے یہ ترجمہ درست نہیں. اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی مرضی سے هدایت کو پکڑے رکھنا نہیں چاہتے تھے. الله پاک یہاں یہی تو تنقید کر رہے ہیں ان لوگوں پر کہ ان لوگوں نے ہدایت کو چھوڑا تب ہی تو ایسا انجام ہوا.
اب ہم واپس پیچھے چلتے ہیں اور میں آپ کو اللہ پاک کی ذومعنی گفتگو کی خوبی دکھاتا ہوں. آپ کو یاد ہے نا میں نے بتایا تھا کہ یہ آیات منافقین پر بھی لاگو ہوتی ہیں اور یہودیوں کے گروہ پر بھی. اب ایک ہی انجام کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں میں اس کا خلاصہ جلدی سے کر دیتا ہوں.
ان آیات میں ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ لوگ دوسروں کی طرح ایمان کیوں نہیں لاتے؟ لوگ تو الله، آخرت اور تو اور آخری رسول صلی الله علیہ وسلم پر بھی ایمان لا چکے تم لوگ باقی تو مان لیتے ہو پر آخری نبی کو ماننے سے کیوں انکار کر دیتے ہو؟ تم یہی کہتے ہو نا *آمَنَّا بِاللَّـهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِر وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ*. پر تمہارے ایمان میں نبی کو ماننے والا حصہ کیوں غائب ہے؟ اوروں کی طرح تم کیونکر ایمان نہیں لاتے ہو؟
تو وہ لوگ جواباً کہتے ہیں
*أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ*
آپ چاہتے ہیں کہ ہم ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟
اب ان کی مراد لفظ *بےوقوف* سے کیا ہے؟ ہم یہ تو پہلے ہی پڑھ چکے ہیں کہ منافقین کے نزدیک بےوقوفی کیا تھی پر اسرائیلیوں کے نزدیک *بےوقوف* کا الگ ہی مطلب ہے. وہ لوگ خود کو تعلیم یافتہ سمجھتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ عرب لوگ خاص طور پر مکہ کے عرب ان پڑھ لوگ تھے. یہودیوں نے لفظ *ْأُمِّيِّينَ* دراصل مکہ کے عربوں کی تحقیر کے لیے استعمال کیا تھا. ان کے برعکس قرآن نے اس لفظ کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں میں سے ایک خوبی بیان کیا ہے. یہودی کہتے تھے کہ ہم تورات کی شریعت پر عبور رکھنے والے، وسیع معجزات کے حامل اور اتنے سالوں کی تعلیم رکھنے والوں کو آپ کہہ رہے ہیں کہ ان عربوں جیسے ان پڑھوں پر ایمان لے آئیں؟ آپ کیسے ہمیں اتنے نچلے درجہ پر آ جانے کا کہہ سکتے ہیں؟ واقعی؟ *أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ* .
الله پاک فرماتے ہیں کہ ان کی ساری تعلیم ایک جگہ پر
*أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ*
دراصل یہ خود ہی بے وقوف ہیں اور الله پاک مزید ان کی گوناگوں حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
*وَلَـٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾*
اس پر طرہ یہ کہ انہیں یہ معلوم بھی نہیں حالانکہ ان کا تکبر ہی علم کے سبب تھا.
عربوں پر انہیں جو فوقیت حاصل تھی وہ علم ہی کی بنا پر تھی مگر اللہ پاک ان کی حقیقت کھولتے ہوئے فرماتے ہیں *وَلَـٰكِن لَّا يَعْلَمُون* اور انہیں یہ معلوم بھی نہیں کہ اصل ایمان ہوتا کیا ہے، یہ تو ان کی سمجھ سے بھی باہر ہے، انہیں تو وحیوں کے نزول کا مقصد ہی نہیں معلوم. ہمیں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہودی علماء اور احبار نے اپنی مقدس کتابوں کے ساتھ کیا غلطیاں کیں تاکہ ہم وہ غلطیاں نہ دہرا سکیں.
قصہ مختصر وہ لوگ تفصیلات میں چلے گئے اور فروعات میں کھو کر رہ گئے کہ فلاں حکم کے ذیل میں کیا ہے پھر اس کے ذیل میں پھر اس کے ذیل میں یہاں تک کہ وہ مذہب کی روح کو ہی بھول گئے. وہ الله تعالی کی نافرمانی کی پرواہ کیے بنا موضوعات پر کبھی نہ ختم ہونے والے مباحثے کرتے رہتے.
آپ جان لیں کہ جب آپ کی ترجیحات اور مذہب الجھ جاتے ہیں تو آپ اس بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس میں وہ یہودی مبتلا تھے. جیسے اگر آپ کسی مسلہ پر بات کر رہے ہوں کہ وضو ایسے نہیں ایسے بہتر کیا جاتا ہے یا یہ کہ چمڑے کے موزے جائز ہیں یا کاٹن کے یا پھر کہ آپ کو رفع الیدین کرنا چاہیے یا نہیں اور جب آپ ان سب پر بحث کر رہے ہوں اور مسجد کے باہر ایک یتیم رو رہا ہو مگر اس بارے میں کوئی بات نہ کرے تو یہ مذہب تو اسلام کا مذہب ہی نہیں ہے. ایسے میں آپ اور کچھ نہیں پر شاید یہودیوں کے ربانیوں جیسے ضرور بن رہے ہیں. ہمارے سامنے حقیقتا کئی ایسے جرائم جیسے نسل پرستی، کرپشن، جھوٹ، دھوکادہی، چوری جنہیں دین نے شروع سے ختم کرنا چاہا رونما ہو رہے ہوتے ہیں اور ہمیں کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا ہوتا.
ایسے جرائم کی بدترین مثالیں اکثر مسلم امه میں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں. جنہیں سب سے بہتر ہونا چاہیے تھا جہاں یہ سوچ کر ہم جاتے ہیں کہ یہ اسلام کا گھر ہے اور وہاں جا کر وہاں کا حال دیکھ کر رونا آتا ہے جب علماء جیسے مذہبی لوگ ہی چائے پیش کرتے اپنے نوکروں سے ایسے بات کرتے ہیں جیسے وہ جانور ہوں. کوئی پوچھے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس لہجے میں کسی سے بھی بات کی؟ تو آپ کیسے اس طرح بات کر رہے ہیں؟ یہ حق آپ کو کس نے دیا؟ آپ کو کیسے پتا کہ قیامت کہ دن آپ کا نوکر آپ کو نظریں جھکا کر نہیں بلکہ سر جھکا کر آپ کو خود سے کہیں نیچے دیکھ رہا ہو گا؟ آپ کو کیا معلوم کہ اللہ کے سامنے اس کا مقام کیا ہے؟ اور مسلہ ہی یہ ہے کہ ایسا رویہ ان کا ہوتا ہے جو مذہب کو اچھی طرح جانتے ہوتے ہیں بجائے ان کے جو ناآشنا ہیں. آخر کیسے ہمت پڑ جاتی ہے لوگوں کی ایسے کام کرنے کی.
خیر تو وہ لوگ نفسیاتی طور پر ایسے بن چکے تھے کہ اپنے نامناسب عقیدوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اختلافی ردعمل اختیار کیے رکھیں اور علوم سیکھتے رہیں، اعجازات حاصل کرتے رہیں، ماہر علمیات بن جائیں مگر جب اسلام پر عمل کی بات آتی تھی تو وہ ان کی ذات میں ڈھوندنے سے بھی نہیں ملتا تھا. اصل بے وقوفی تو یہی ہے. اگر آپ کو یہ بےوقوفی نہ لگے تو جانے بےوقوفی اور کیا ہوتی ہے.
*وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا*
جب وہی یہودی آپ صلی اللە علیہ وسلم کے پاس آتے تھے، ایمان والوں کے پاس آتے تھے تو کہتے تھے کہ ہم بھی تمہاری ہی طرح ایمان رکھتے ہیں. اور جب واپس اپنے شیطان آقاؤں کے پاس اتے تھے تو کہتے تھے "آپ فکر نہ کریں ہم ان جیسے نہیں. آپ کو لگتا تو ہوگا کہ ہم ان مسلمانوں سے کہتے تو ہیں کہ ہمارے مذاہب میں بہت کچھ ایک جیسا ہے پر آپ یقین کریں ایسا بالکل نہیں ہم ان کے ساتھ کے نہیں. ہم تو آپ کے ساتھ ہیں. ہم تو بس ان کے ساتھ تفریح کرتے ہیں."
*اللَّـهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِم*
الله تو ان ہی کا مذاق اڑاتا، تضحیک کرتا ہے.
*وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُون*
اور الله انہیں اس تضحیک کے ساتھ ڈھیل دے دیتا ہے. وہ انہیں یہ یقین کرنے دیتا ہے کہ وہ ایمان والے ہیں. الله انہیں تورات کے ساتھ کھیل کھیلنے کو ڈھیل دیتا جاتا ہے. چاہے قرآن آ چکا ہے جو فرقان ہے مگر اللہ انہیں ڈھیل دے چکا ہے. پھر اللہ پاک فرماتے ہیں
*أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ*
مدینے کے ان لوگوں سے بڑی مثال ایسے لوگوں کی اور کیا ہو گی جنہوں نے ہدایت بیچ کر گمراہی خریدی. انہوں نے حقیقتا اپنی کتاب کو پڑھا پھر قرآن دیکھا پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیکھا جو آخری آنے والے نبی کی خبر کی تصدیق تھے اور پھر بھی اس باب کو بند کر دینے کا فیصلہ کیا.
*فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ*
اس کادوباری لین دین کا انہیں کچھ فائدہ تو ہوا نہیں.
اور الله پاک ان کا انجام بھی بتا رہا ہے کہ
*وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴿١٦﴾*
ویسے بھی وہ گروہ اور ان کے سردار دین کے ساتھ مخلص تھے بھی نہیں. انہوں نے مذہب کو کاروبار ہی بنا رکھا تھا اپنی مرضی کی سیاسی تبدیلیاں کر رکھیں تھیں. وہ دین کے ساتھ مخلص تھے ہی نہیں اس لیے ان سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی تھی. *وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ*.
آج یہاں اختتام کرتے ہوئے میں آپ کو کل کے لیے بتاتا ہوں کہ کل یہ موضوع اپنے اختتام کو پہنچے گا. منافقت کا موضوع کافی لمبا چلا ہے. یہ ویسے بھی اب تک کا طویل ترین موضوع رہا ہے. ایمان اور کفر کے موضوع مختصر تھے. کفر کی خفیہ قسم نفاق کا موضوع کل انجام کار کو پہنچے گا اور ان شاء اللە تعالى اس کا انجام اللہ کی بیان کی گئی مفصل مثال کے ساتھ ہو گا. قرآن میں دی گئی مثالیں بظاہر بہت پیچیدہ ہوتی ہیں مگر جب آپ ان پر دل سے غور و فکر کرتے ہیں، سمجھتے ہیں تو قرآن کے بارے میں کچھ نیا بہت خوبصورت سیکھ جاتے ہیں. الله تعالى واقعی ہی لفظوں سے ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ ایسا لگتا یے سب ہمارے سامنے رونما ہو رہا ہےاور جب آپ اس منظر کو سمجھ جاتے ہیں تو الله کے پیغام کو بھی سمجھ جاتے ہیں. سبحان الله. تو ان شاء اللہ ہم کل اسی کو سراہیں گے. قرآن کی ترتیب میں یہ پہلی مثال ہے اور میں آپ کے ساتھ یہ کل بانٹنے کے لیے بہت پرجوش ہوں ان شاء الله تعالی.
اور ہاں کل میرے پاس آپ کو بتانے کے لیے ایک سرپرائز بھی ہے جو میں کل ہی بتاؤں گا ورنہ مزہ خراب ہو جائے گا.ْ
-نعمان علی خان
جاری ہے...........
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں