پیغامِ اقبال


حکمت مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے
ایک نکتہ کہ غلاموں کے لئے ہے اکسیر
دین ہو، فلسفہ ہو، فقر ہو، سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر


ہے لازوال عہدِ خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے
ملت کے ساتھ رابطہِ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے۔ امید بہار رکھ


 پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب و بام ابھی


 نہ ہو عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں


نہیں ہے نا امید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں