تدبرِ قرآن- سورہ بقرۃ (استاد نعمان علی خان) حصہ 16

تدبر قرآن حصہ 16


اعوذباللہ من اشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم                        
منافقین کا کہنا تھا کہ " بھئی یہ مسلمان تو مکہ میں اچھی خاصی خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے، ان کا کاروبار تھا وہاں،  اپنی جائیداد تھی، ان کا اپنا گھر بار تھا اور  معاشرے میں ایک مقام تھا. اور انہوں نے خود ہی بے گھر ہونے کا فیصلہ کر لیا ؟  انہوں نے ہجرت کرنے کا ، مہاجر بننے کا فیصلہ کر لیا جو دوسروں کی امداد کے مستحق ہوں؟ یہ تھا ان کا چناؤ؟ اوہ اور اب اور آپ کہتے ہیں کہ یہ تمام عظیم فیصلے جو انہوں نے کیے وہ ان کے  ایمان کی بدولت تھے؟ بھئی مجھے تو یہ کوئی دانشمندانہ فیصلے نہیں لگتے. "اور جب ان منافقین کو کہا جاتا کہ تمہیں بھی  اہل ایمان کی طرح دین اسلام کے لیے  قربانی دینی چاہیے تو ان کا جواب تھا، " جی نہیں!  بہت شکریہ. یہ کوئی دانشمندی نہیں ہے، میری نظر میں تو یہ انتہاپسندی کا مظاہرہ ہے. بھئی دین میں توازن ہونا چاہیے. میرے خیال میں ان صحابہ کا طرزِ عمل ہی  مناسب نہیں ہے" .  اور اسی لیے انہوں نے اہل ایمان کو السُّفَهَاءُ کہا.

*أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ *

 منافقین کے خیال میں "اہل ایمان تو بیوقوف ہیں جو جنگ کے لیے جانے کو تیار بیٹھے ہیں. بھئی میں کیوں ان کے ساتھ جاؤں؟ میں کیوں کروں ان لوگوں کی پیروی جو اپنا گھر بار، جائیداد حتی کہ معاشرے میں اپنا مقام بھی کھو چکے ہیں؟ خود تو ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا . لیکن میرے  پاس تو بہت کچھ ہے. تو میں کیوں جنگ میں حصہ لوں؟ میری تو قریش سے کوئی لڑائی نہیں. میں قریش سے جنگ نہیں کرنا چاہتا. مجھے تو ان سے کوئی مسئلہ نہیں . تو اس لیے انہوں نے کہا *أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ

اس سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟  قرآن تو وہ کتاب ہے جو رہتی دنیا کے لیے ہدایت ہے. تو اس آیت میں ہمارے لیے نہایت خوبصورت سبق یہ ہے کہ اس وقت کے اہل ایمان نے ہم آجکل کے دور کے لوگوں سے کہیں زیادہ قربانیاں دیں تھیں. اور اس دور کے منافقین آج کل کے منافقین سے کہیں زیادہ بدتر لوگ تھے. لیکن یہ آیت موجودہ دور کے اہل ایمان اور منافقین پر بھی لاگو ہوتی ہے. موجودہ دور میں سب کچھ سب کے سامنے ہے.  ایک دنیا آپ کو دیکھ رہی ہوتی ہے. اور جب آپ اسلام قبول کرتے ہیں تو آپ کو اپنا طرزِ زندگی بدلنا پڑتا ہے. یعنی مسلمان ہونے سے پہلے چاہے آپ یہودی تھے، عیسائی تھے، ملحد یا بدھست جو بھی تھے مگر جب آپ شہادت دیتے ہیں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تو آپ کی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں. یا بےشک آپ پہلے سے مسلمان تھے مگر آپ کے اندر  ایمان غفلت کی نیند سو رہا تھا اور اللہ عزوجل نے آپ کو جگا ڈالا تو آپ کی زندگی میں بدلاؤ آتا ہے. اور یہ تبدیلی آپ کے گھر والے اور دوست احباب واضح طور پر محسوس کرتے ہیں. آپ کا حلقہ احباب بدل جاتا ہے. آپ ان محافل میں نہیں جاتے جن میں پہلے جایا کرتے تھے. کییونکہ ان محفلوں میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی اجازت اسلام میں نہیں. آپ کو خود اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ جس طریقے سے پیسہ کما رہے ہیں وہ اسلام کی روح کے منافی ہے.  تو آپ اسلام کی خاطر پھر کاروبار میں نقصان اٹھاتے ہیں یا آپ کو نوکری بھی چھوڑنی پڑ سکتی ہے. کچھ رشتے، کچھ دوست ایسے تھے جن سے مل کر آپ کو مزا آتا تھا اور وہ آپ کی زندگی کا لازمی جزو تھے. مگر اب آپ انہیں اپنی زندگی سے کاٹ پھینکتے ہیں. کیونکہ ان کے ساتھ تعلق، آپ کو برائی  کے راستے سے لے کر بدترین گناہوں کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے. تو آپ انہیں چھوڑ دیتے ہیں. آپ تنہا ہوتے چلے جاتے ہیں. کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کی مذہب اجازت نہیں دیتا لیکن آپ کے اردگرد کے لوگوں کو ان سے کوئی مسئلہ ہی نہیں. تو آپ کو یوں لگتا ہے کہ آپ اجنبی ہو کر رہ گئے ہیں . آپ اکیلے ہو گئے ہیں. سب سے الگ تھلگ ہیں اور لوگ آپ کو عجیب  سمجھتے ہیں. لوگ آپ کو بیوقوف سمجھتے ہیں. اور جب آپ ان لوگوں کو دین کی دعوت دینے کی کوشش کرتے ہیں، جب آپ کہتے ہیں کہ آئیے آپ میرے ساتھ مسجد چلیے. تو آپ کو کیا سننے کو ملتا ہے "اوہ!  تو آپ چاہتے ہیں کہ میں بھی آپ کی طرح بن جاؤں؟ آپ مجھے اپنے جیسا بیوقوف، انتہا پسند بنانا چاہتے ہیں؟ جی نہیں! بہت شکریہ!"  یہ جملے آپ کو اپنے دوستوں، گھر والوں اور کزنز سے سننے کو ملتے ہیں، وہی ہیں جو آپ سے کہیں گے کہ " آپ عجیب بیوقوف ہیں. آپ اتنے شدت پسند کیوں ہیں. ارے اطمینان رکھیے! آپ میری طرح مزے سے زندگی گزاریں". تو یہ مسئلہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے. *أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ *.
اللہ تعالٰی انہیں جواب دیتے ہیں.

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ
بےشک وہی بےوقوف ہیں مگر وہ جانتے نہیں.

"أَلَا "جان لو. اسی میں تمہاری بہتری ہے. غور کریں أَلَا کا لفظ دوبارہ استعمال ہوا ہے. یہ تنبیہ ہے کہ مت بھولو کہ وہ لوگ! وہی لوگ ہیں جو دراصل بے وقوف ہیں. اب وہ لوگ کس طرح بے وقوف ہیں؟ ہم نے پڑھا منافقین کی نظر میں بے وقوف ہونا کیا تھا. منافقین کے خیال میں بیوقوفی، دنیاوی فوائد سے محروم رہنا تھا. ان کا کہنا تھا، "بھئ جنت کا حصول آسان ہے. آپ کو اتنی قربانیاں دینے کی ضرورت ہی نہیں. بس تھوڑی بہت نیکیاں کما لیں، ستائیسویں کی شب عبادت کر لی،  بس کافی ہے. لیکن دوسری طرف جب اللہ تعالٰی انہیں بے وقوف کہتے ہیں تو اللہ تعالٰی کی لغت میں بےوقوف ہونے کے الگ معنی ہیں. ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالٰی کس طرح کے لوگوں کو بیوقوف کہہ رہے ہیں. الکافی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر تدبر کیا ہے اور یہ ان کا بیان ہے. میں اس کا ترجمہ بعد میں آپ کو بتاؤں گا کیونکہ یہ انتہائی خوبصورت  شاعرانہ عربی انداز  میں بیان کیا گیا ہے،

ظاہر الجھل، عدیم العقل، خفیف البلد، ضعیف الرعی، ردیف الفھم، مستخف القدر، صریع الذنب،  حقیر النفس، مخدوع الشیطان، اسیر الطغيان، داعم العصیان، ملازم الکفران،لایبالی بما کان و ما یقولو او سوف یکون

ظاہر الجھل یعنی وہ واضح طور پر اپنی خواہشات کے غلام ہیں. اپنے جذبات پر انحصار کرنے والے، اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے انہیں چاہے جو بھی کرنا پڑے وہ کر گزریں گے.
عدیم العقل سوچنے سمجھنے کی زحمت ہی نہ کرنے والے. انہیں کہا جائے کہ بھائی کام کرنے سے پہلے کچھ سوچ تو لو تو جواب ملے گا "اوہ چھوڑیں جی! میں نہیں سوچنا چاہتا، میرے لیے آپ ہی سوچ لیں.."
خفیف البلد تدبر کرنے کے معاملے میں نہایت کمزور. جب آپ اپنے کانوں کو موسیقی کا عادی بنا لیں اور موسیقی کے سمندر میں کانوں کو ڈبو لیں. اور ساز و آواز آپ کے کانوں میں گونجتا رہے، یا پھر یہ ہو کہ آپ کی آنکھیں ایک قسط سے اگلی قسط اور پھر اس سے اگلی قسط اور پھر اس سے اگلی قسط دیکھ دیکھ کر تھک جائیں تو سوچنے کے لیے آپ کے پاس وقت ہی کتنا بچتا ہے. یہاں تک کہ جب ٹی وی اسکرین تاریک بھی ہو جائے تب بھی آپ اگلی قسط کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں. آپ یہ نہیں سوچ پاتے کہ آپ کو تخلیق کیوں کیا گیا؟ آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟  وہ بے ہنگم موسیقی بند ہونے کے بعد بھی چلتے پھرتے آپ کے دماغ میں چل رہی ہوتی ہے.
خفیف البلد. وہ اس زبردست تحفہ کو استعمال ہی نہیں کرتے جو اللہ تعالٰی نے انہیں عطا کیا ہے. وہ دماغ کو اس قسم کی چیزوں کا عادی بنا کر مفلوج کر دیتے ہیں. ایسی تفریح کا عادی ہو جانا ایک قسم کا نشہ ہے. یہ نشہ کی ہی ایک قسم ہے جو آپ کے دماغ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتی ہے. یہ دماغ کو اس کے اصل مقصد کے لیے استعمال ہی نہیں ہونے دیتی. اور یہ صرف نوجوان طبقہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے کے بوڑھے افراد بھی اس مرض کا شکار ہیں جو سوپ، اوپراز دیکھے بنا رہ نہیں سکتے. اور ہماری خواتین جو پاکستانی ڈراموں کی عادی ہیں، "اب کیا ہو گا؟ ان کی شادی ہو گی یا نہیں ہو گی." وہ بس اسی قسم کی چیزوں میں مصروف ہیں.
ضعیف الرعی فیصلہ کرنے کے معاملے میں نہایت کمزور. "میں نہیں جانتا، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا"  ان کی پوری زندگی ان  جملوں کے گرد گھومتی ہے. ان کے ذہن میں کچھ بھی واضح نہیں ہے.
ردیف الفھم فہم و فراست کے معاملے میں مکمل طور پر نااہل. یعنی انہیں پرواہ  ہی نہیں کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے معاملے میں.
مستخف القدر اور اب وہ انتہائی کم صلاحیت کے حامل ہیں.
صریع الذنب لیکن گناہ کرنے کے معاملات میں جلدی کرنے والے. برائی فوراً سے کرنے والے.
حقیر النفس وہ جن کی کوئی عزت نفس نہ ہو، حتٰی کہ اپنی نظروں میں بھی کوئی عزت نہ ہو.
مخدوع الشیطان شیطان کے ہاتھوں دھوکہ کھانے والے.
اسیر الطغيان اپنی ہی سرکشی و نافرمانی کے غلام. وہ عادی ہیں اللہ کے احکامات کی نافرمانی کرنے کی. اپنے آپ سے دشمنی رکھنے کے عادی.
داعم العصيان ہر وقت گناہ میں مشغول رہنے والے. ہمہ وقت برائیاں کرنے میں سرگرداں.
ملازم الکفران صرف ایک چیز ہے جس میں وہ مستقل مزاج ہیں اور وہ ہے ان کا ناشکرا پن. وہ کبھی بھی شکر ادا نہیں کرتے اور ہمیشہ اور زیادہ کے طلب گار رہتے ہیں.
لایبالی بما کان و ما یقولو او سوف یکون
 انہیں کچھ پرواہ نہیں کہ جو کچھ انہوں نے ماضی میں کیا یا جو اب وہ کر رہے ہیں یا جو بھی وہ مستقبل میں کریں گے اس پر ان سے مواخذہ کیا جائے گا.  انہیں فکر ہی نہیں کہ ان کے اعمال کا بدلہ انہیں آخرت میں ملے گا. 

تو ان سے بڑھ کر بیوقوف اور کون ہو گا. میں آپ کو یہاں بیوقوف لوگوں سے متعلق ایک حدیث بتانا چاہوں گا. ہم نے دیکھا کہ  اللہ کی نگاہ میں کون لوگ بیوقوف ہیں؟ اور  رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ایک وقت آئے گا جب لوگ کئی سالوں تک دھوکہ و فریب کا شکار رہیں گے. کچھ سال ایسے آئیں گے جو انسانیت پر حاوی ہو جائیں گے اور لوگ ان میں سالوں تک دھوکے میں مبتلا رہیں گے .  ان  میں جھوٹے کو سچا تسلیم کیا جائے گا. اور سچ بولنے والے کو جھوٹا قرار دے دیا جائے گا. جو ناقابلِ بھروسہ ہو اسی پر اعتبار کیا جائے گا. اور جو قابلِ اعتبار ہو اسے ناقابلِ  بھروسہ قرار دیا جائے گا. اور ایک عجیب گروہ رعیببه ہو گا جو سب بات چیت کریں گے." صحابہ کرام پریشان ہوئے کہ  یہ رعیببه کیا ہے؟   یہ کون لوگ ہوں گے رعیببه جو تمام گفت و شنید کریں گے؟ تو رسول اکرم صل اللہ علیہ والہ و السلام نے فرمایا " بیوقوف لوگ! جو لوگوں کے مسائل پر گفتگو کریں گے. " وہ بیوقوف جو پبلک میں مائک لے کر گفتگو کرتے ہیں کہ معاشرے میں کیا کیا ہونا چاہیے.  بغیر سوچے سمجھے کہ وہ اپنے  منہ سے کیا الفاظ نکال رہے ہیں. جو منہ میں آئے گا بولے چلے جائیں گے.
 سبحان اللہ! یہ حدیث امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے.
-نعمان علی خان

جاری ہے........

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں