تدبر قرآن حصہ-17
أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ
پس وہی ہیں جو بیوقوف ہیں مگر وہ جانتے نہیں
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا
یہ اس مسئلے کا دوسرا حصہ ہے وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا اور جب وہ ان لوگوں سے ملنے آتے ہیں جو ایمان لائے، ایک چیز یہ تھی کہ کچھ اہل ایمان ان منافقین سے اکیلے میں ملنے گئے. یہ پچھلا سین تھا کہ اہل ایمان ان سے اکیلے میں ملے اور انہیں کہا کہ بس کرو بھائی ، اپنی اصلاح کرو. تو ان منافقین نے جواب دیا کہ "جی نہیں شکریہ! ہمیں ان بیوقوفوں جیسا بننے کا کوئی شوق نہیں" . اب اگلا سین یہ ہے کہ اہل ایمان ان منافقین کے پاس نہیں گئے بلکہ منافقین خود مسلمانوں کے پاس آئے ہیں. تو وہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و سلم کے پاس یا کسی ایسی محفل میں آئے جہاں اہل ایمان کی کثیر تعداد ہے . اب یہاں منافقین اپنا اصل چہرہ نہیں دکھا سکتے. یہ ضروری ہے کہ آپ پچھلی آیت اور اس آیت میں فرق سمجھیں. پچھلی آیت میں بتایا گیا کہ کہ منافقین جب اکیلے تھے تو وہ کھل کر کہہ سکتے تھے کہ یہ ایمان لانے والے تو نرے بیوقوف ہیں. لیکن اب جبکہ وہ اہل ایمان کی محفل میں موجود ہیں، انہیں لوگوں میں جنہیں وہ بیوقوف کہا کرتے ہیں تو انہیں اپنا اصل چہرہ چھپانے کی ضرورت ہے. اس لیے وہ دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں.
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا
منافقین اہل ایمان کی محفل میں کہتے ہیں" ہم بھی ایمان والے ہیں، قسم سے ہم بھی ایمان لاتے ہیں، ہاں ہم تمہارے ساتھ ہیں" .
آپ غور کریں کہ پچھلی ہی آیت میں اللہ تعالٰی نے بتا دیا کہ وہ منافق اصل میں کیا سوچتے ہیں اور آگلی ہی آیت میں اللہ تعالٰی مسلمانوں کو بتاتے ہیں کہ اہل ایمان کے سامنے ان منافقین کا طرزِ عمل نہایت متاثر کن ہے. اللہ عزوجل سورۃ المنافقون میں تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ منافقین کس قدر متاثر کن، کتنے متاثرکن لگ سکتے ہیں.
تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ
اور جب تم انکے تناسب اعضاء کو دیکھتے ہو تو انکے جسم تمہیں کیا ہی اچھے معلوم ہوتے ہیں اور جب یہ گفتگو کرتے ہیں تو تم انکی تقریر کو توجہ سے سنتے ہو گویا لکڑیاں ہیں جو دیواروں سے لگائی گئیں.
*تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ حضور اکرم صل اللہ علیہ والہ و السلام کو بتایا جا رہا ہے کہ آپ بھی دیکھیں تو آپ ان منافقین کے ڈیل ڈول سے نہایت متاثر ہوں گے. اس آیت میں اجسام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے. "جسم".
یہاں یُعۡجِبُکَ یعنی وہ تمہیں امپریس کریں گے نہیں کہا گیا بلکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ان کے اجسام آپ کو متاثر کن لگیں گے. اور اللہ تعالٰی نے صرف جسم کا لفظ کیوں استعمال کیا؟ کیونکہ ان کے دل مردہ ہیں. اور جب دل مردہ ہو جائے تو کیا رہ جاتا ہے؟ صرف ایک جسم. تو ان کے اجسام آپ کو متاثر کن لگتے ہیں. بعض لوگوں نے اس کی تفسیر یوں کی ہے کہ وہ منافقین بڑے ڈیل ڈول والے ہوں گے. کیونکہ انہوں نے اسلام کی راہ میں کوئی قربانی تو دی نہیں تو وہ بہت کھاتے پیتے ہوں گے. اور ان کے جسم نہایت توانا ہوں گے.
ایک طرف تو اہل ایمان ہیں جو دین کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھے اور دوسری طرف منافقین جب بھی ان سے جنگ کے لیے کچھ حصہ ڈالنے کو کہا جائے تو ان کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ تھا.
وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ اور وہ منافقین نہایت خوبصورت اور فصیح گفتگو کرتے ہیں. وہ نہایت خوبصورت باتیں کرتے ہیں. جب وہ بولتے ہیں تو آپ ان کی باتوں کے سحر میں کھو جاتے ہیں.
کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ
گویا لکڑیاں ہیں دیواروں سے لگائی گئیں*.
اللہ تعالٰی ان کی مثال سہارا دی ہوئی لکڑی کی مانند دیتے ہیں. یہ کس قسم کا سہارا ہے؟ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ قرآن کی عربی نہایت خوبصورت ہے. "مُّسَنَّدَۃٌ " کہتے ہیں ان چیزوں کو جو ایک قطار میں کھڑی کی گئی ہوں. آپ نے آج کل وہ باڑ دیکھیں ہیں گھروں کے دالان میں جو بانس کی پتلی پتلی ڈنڈیوں کی بنی ہوتی ہیں. وہ بانس کی لکڑیاں قطار میں لگی ہوتی ہیں اور ان کے پیچھے ایک رسی سی ہوتی ہے جو ان کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے. اب ایک ایسی باڑ کا تصور کریں جس میں پیچھے سے مضبوط کرنے کے لیے کوئی رسی بھی نہیں بندھی. دور سے لگے گا کہ یہ ایک مضبوط باڑ ہے . مگر ذرا سی ہوا چلے گی تو کیا ہو گا؟
ایک لکڑی گری تو سب کو گراتی چلی جائے گی. یہ ہے خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ. دوسری بات یہ کہ*" خُشُب"* صرف کھوکھلی لکڑی کو ہی نہیں کہا جاتا. " خُشُب" کا استعمال دراصل النار کے لیے ہوتا ہے. ایسی لکڑی جو جلانے کے علاوہ کسی اور کام نہیں آتی. اور یہ تصور دراصل منافقین کو جہنم کی آگ کا ایندھن بنائے جانے کے متعلق ہے . اور ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں.اللہ تعالٰی ہمیں اس جہنم کی آگ میں جلنے سے بچائے . اللھم اجرنی من النار. آمین یا رب العالمین.
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا
جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں آمَنَّا ہم بھی ایمان لانے والوں میں سے ہیں.
آپ غور کریں کہ پچھلی ہی آیت میں اللہ تعالٰی نے بتا دیا کہ وہ منافق اصل میں کیا سوچتے ہیں اور آگلی ہی آیت میں اللہ تعالٰی مسلمانوں کو بتاتے ہیں کہ اہل ایمان کے سامنے ان منافقین کا طرزِ عمل نہایت متاثر کن ہے. اللہ عزوجل سورۃ المنافقون میں تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ منافقین کس قدر متاثر کن، کتنے متاثرکن لگ سکتے ہیں.
تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ
اور جب تم انکے تناسب اعضاء کو دیکھتے ہو تو انکے جسم تمہیں کیا ہی اچھے معلوم ہوتے ہیں اور جب یہ گفتگو کرتے ہیں تو تم انکی تقریر کو توجہ سے سنتے ہو گویا لکڑیاں ہیں جو دیواروں سے لگائی گئیں.
*تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ حضور اکرم صل اللہ علیہ والہ و السلام کو بتایا جا رہا ہے کہ آپ بھی دیکھیں تو آپ ان منافقین کے ڈیل ڈول سے نہایت متاثر ہوں گے. اس آیت میں اجسام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے. "جسم".
یہاں یُعۡجِبُکَ یعنی وہ تمہیں امپریس کریں گے نہیں کہا گیا بلکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ان کے اجسام آپ کو متاثر کن لگیں گے. اور اللہ تعالٰی نے صرف جسم کا لفظ کیوں استعمال کیا؟ کیونکہ ان کے دل مردہ ہیں. اور جب دل مردہ ہو جائے تو کیا رہ جاتا ہے؟ صرف ایک جسم. تو ان کے اجسام آپ کو متاثر کن لگتے ہیں. بعض لوگوں نے اس کی تفسیر یوں کی ہے کہ وہ منافقین بڑے ڈیل ڈول والے ہوں گے. کیونکہ انہوں نے اسلام کی راہ میں کوئی قربانی تو دی نہیں تو وہ بہت کھاتے پیتے ہوں گے. اور ان کے جسم نہایت توانا ہوں گے.
ایک طرف تو اہل ایمان ہیں جو دین کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھے اور دوسری طرف منافقین جب بھی ان سے جنگ کے لیے کچھ حصہ ڈالنے کو کہا جائے تو ان کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ تھا.
وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ اور وہ منافقین نہایت خوبصورت اور فصیح گفتگو کرتے ہیں. وہ نہایت خوبصورت باتیں کرتے ہیں. جب وہ بولتے ہیں تو آپ ان کی باتوں کے سحر میں کھو جاتے ہیں.
کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ
گویا لکڑیاں ہیں دیواروں سے لگائی گئیں*.
اللہ تعالٰی ان کی مثال سہارا دی ہوئی لکڑی کی مانند دیتے ہیں. یہ کس قسم کا سہارا ہے؟ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ قرآن کی عربی نہایت خوبصورت ہے. "مُّسَنَّدَۃٌ " کہتے ہیں ان چیزوں کو جو ایک قطار میں کھڑی کی گئی ہوں. آپ نے آج کل وہ باڑ دیکھیں ہیں گھروں کے دالان میں جو بانس کی پتلی پتلی ڈنڈیوں کی بنی ہوتی ہیں. وہ بانس کی لکڑیاں قطار میں لگی ہوتی ہیں اور ان کے پیچھے ایک رسی سی ہوتی ہے جو ان کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے. اب ایک ایسی باڑ کا تصور کریں جس میں پیچھے سے مضبوط کرنے کے لیے کوئی رسی بھی نہیں بندھی. دور سے لگے گا کہ یہ ایک مضبوط باڑ ہے . مگر ذرا سی ہوا چلے گی تو کیا ہو گا؟
ایک لکڑی گری تو سب کو گراتی چلی جائے گی. یہ ہے خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ. دوسری بات یہ کہ*" خُشُب"* صرف کھوکھلی لکڑی کو ہی نہیں کہا جاتا. " خُشُب" کا استعمال دراصل النار کے لیے ہوتا ہے. ایسی لکڑی جو جلانے کے علاوہ کسی اور کام نہیں آتی. اور یہ تصور دراصل منافقین کو جہنم کی آگ کا ایندھن بنائے جانے کے متعلق ہے . اور ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں.اللہ تعالٰی ہمیں اس جہنم کی آگ میں جلنے سے بچائے . اللھم اجرنی من النار. آمین یا رب العالمین.
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا
جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں آمَنَّا ہم بھی ایمان لانے والوں میں سے ہیں.
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ (14
اور جب وہ ملاقات کرتے ہیں ایمان والوں سے، وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، اور جب وہ تنہا ہوتے ہیں اپنے شیاطین کی طرف تو کہتے ہیں کہ ہم تو آپکے ساتھ ہیں، بے شک ہم ان کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔
ہم آیت نمبر 14 کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں:
واذا خلو الي شياطينهم
لفظ خلو، خلوہ، ( خلوت، اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے ) خالین، اس کا مطلب "خالی ہے"
خلوت کا مطلب "کسی دوسرے کے ساتھ تنہائی میں ملنا"،
۱-اگر آپ اپنے برابر والے سے ملنے جارہے ہیں تو "خلوت بہ" استعمال ہو گا.
۲- اگر آپ اپنے سے اونچے درجے والے سے ملنے جارہے ہیں، تو پھر "خلوت اليه " استعمال ہوتا ہے، مثلا اگر میں اپنے استاد سے ملنے جا رہا ہوں تو "خلوت الیہ" ہے.
اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ وہ لوگ اپنے سے اونچے درجے کے شیطانوں کے پاس مشورے کیلئے جاتے ہیں. کیونکہ وہ ان کو اپنا حقیقی سردار مانتے ہیں. اس لئے قرآن مین لفظ "الٰی" استعمال ہوا ہے. وہ اپنے شیطانوں کی طرف دیکھتے ہیں. یہاں شیطان سے مراد وہ آگ سے بنے ہوئے شیطان ہرگز نہیں ہیں، بلکہ منافقین کی کمپنی کے بدترین لوگ مراد ہیں.
چند دن پہلے میں نے تذکرہ کیا تھا کہ اگر آپ شیطان کو اپنے سینے میں داخلے کی اجازت دے دیتے ہیں. پھر اس کا ایک لمبے عرصے تک وہاں قیام رہتا ہے، تو ایک مدت کے بعد وہ میزبان انسان ہی شیطان میں تبدیل ہو جاتا ہے اور شیطان کی غیرموجودگی میں بھی وہ سارے کام اسی طرح سے انجام پاتے ہیں جیسے سب آٹو پائلٹ ہو.
شیطان کے طویل قیام کی وجہ سے منافقین کے سردار شیاطین میں تبدیل ہو چکے ہیں. یہاں انہی تبدیل شدہ شیاطین کا ذکر ہے.
"قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ"
وہ کہتے ہیں کہ ہم کلی طور پر آپ کے ساتھ ہیں، ہم مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہیں. آپ نے آج مجھے مسلمانوں کے اجتماع میں دیکھا، آپ کو فکر لاحق ہوئی ہوگی کہ شاید میں نے آپ سے تعلق توڑ لیا ہے؟ نہیں نہیں. ایسا نہیں ہے. ہم آپکے ساتھ ہیں.
إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ
"ہم تو ان کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں"
استہزاء دوسرے کے ساتھ طنزیہ رویہ اپنانے کو کہتے ہیں، کسی کا مذاق اڑانا، کسی کو ٹہوکے لگانا،
عربی میں 'ہزالابل' کسی جانور کو جانتے بوجھتے ( غصے کے اظہار کے طور پر) سردی میں باہر ٹھہرانے کو کہتے ہیں. جانور کو آہستہ آہستہ سردی سے مارنے کا عمل بھی استہزاء ہے.
مدینہ کے منافقین اپنے سرداروں کے پاس یقین دہانی کیلئے جاتے ہیں، کہ ہم بظاہر مسلمانوں کے ساتھ ہیں، لیکن درحقیقت ہم ان کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں، ہمارا مقصد ان کو تکلیف پہنچانا ہے.
اب ذرا لفظ "شیطان" کی طرف آجائیے اس کی جڑیں یونان سے ملتی ہیں( satan ) دیگر قدیمی زبانوں مثلا عبرانی میں بھی یہ لفظ ہے. عربی میں اس کے دو طرح کے روٹ ورڈز ہیں. دونوں کے مطالب سے انکار ممکن نہیں.
۱- ش ی ط
۲- ش ط ن
۱- "ش ی ط "ایسا گوشت جو بار بی کیو کیلئے تیار ہو آگ پر سینکنے کیلئے تیار ہو ( تشہیط) یا کسی کو اس حد تک جلا دینا کہ اس کی موت واقع ہو جائے ( شء ط، ایشاط ، تشہیط،)
۲- "ش ط ن" خوب بھڑکا ہوا، غصے کی آگ میں بھسم. آپ سب جانتے ہی ہیں کہ غصہ کیلئے آگ کا لفظ عموما استعمال ہوتا ہے. جیسے وہ فلاں شخص غصے کی آگ میں جل رہا ہے.
مدینہ طیبہ میں منافق جب مسلمانوں کے پاس آتے تھے تو ان کے سردار یہ سب دیکھ کے بھڑکتے تھے. پھر وہ منافق بھاگے بھاگے اپنے سرداروں کے پاس، ان کو ٹھنڈا کرنے کیلئے آتے تھے، کہ آپ غصہ نہ کیجئے ہم تو آپ کے ساتھ ہیں.
شیطان کو دو وجوہات کی بنا پر شیطان کہا جاتا ہے:
۱- شیطان آگ سے بنا ہوا ہے آگ ہی اس کا گھر ہے.
۲- وہ حضرت آدم عليه السلام سے نفرت کرتا ہے اور اپنا غصہ بنی نوع آدم پر اتارتا ہے.
"ش ط ن " اس رسی کو بھی کہتے ہیں جس سے گھوڑے کو باندھا جاتا ہے.
یہ رسی والی تشبیہہ سمجھنے کیلئے ہم ایک مثال لیتے ہیں:
پرانے زمانے میں گھریلو استعمال کےلئے بہتے پانی کا نظام نہیں ہوتا تھا، کہ آپ پانی کی ٹونٹی کھولیں اور پانی آنا شروع ہو جائے. پھر کیا سسٹم تھا؟ تب پانی لینے کیلئے کنویں پر جانا پڑتا تھا. وہاں کیا ہاتھ ڈال کر پانی نکالتے تھے؟ نہیں بلکہ کنویں سے بالٹی یا ڈول کے ذریعے پانی نکالا جاتا تھا. جس کے ساتھ ایک لمبی رسی بندھی ہوتی تھی. آپ اس رسی کے ذریعے ڈول کو کنویں میں گہرا اتارتے جاتے تھے. یہاں تک کہ پانی کی سطح آجاتی. اور آپ پانی بھر کر رسی کو واپس کھینچ لیتے تھے.
شیطان بھی اسی طرح اپنی رسی ہماری طرف پھینکتا ہے. جب آپ کا اس سے تعلق بن جاتا ہے. تو پھر وه آہستہ آہستہ رسی کو اپنی طرف واپس کھینچتا ہے.
یہاں اس عمل کو سمجھنے کیلئے ایک اور مثال سے بھی مدد لی جا سکتی ہے. ذرا پہلے وقتوں کے شکاریوں کا مشاہدہ کریں. وہ اپنے ٹریپ یا پھندے کے سرے پر تھوڑی سی خوراک لگا کر جانور کو اپنی طرف مائل کرتے تھے. پھر رسی کو اپنی طرف کھینچتے جاتے اور جانور اس خوراک کے لالچ میں ان کی طرف گھسٹتا آتا.
یہ عمل ہے "شطن".
شیطان اپنی رسی کے ذریعے ہمیں اپنی طرف کھینچتا ہے.
یہی بات سورت الاعراف میں بھی استعمال ہوئی ہے
فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ (22)
غرض
(مردود نے) دھوکہ دے کر ان کو (معصیت کی طرف) کھینچ ہی لیا جب انہوں نے اس
درخت (کے پھل) کو کھا لیا تو ان کی ستر کی چیزیں کھل گئیں اور وہ بہشت کے
(درختوں کے) پتے توڑ توڑ کر اپنے اوپر چپکانے لگے اور (ستر چھپانے لگے) تب
ان کے پروردگار نے ان کو پکارا کہ کیا میں نے تم کو اس درخت (کے پاس جانے)
سے منع نہیں کیا تھا اور جتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن
ہے
شطن کا ایک مطلب "الله تعالى کی رحمت سے دور" بھی ہے. صراط مستقیم سے دور. گم ہو چکا ہوا. جس کی واپسی کا کوئی امکان نہیں. غرض شیطان کے بہت سے مطالب ہیں. جو یہاں ان لوگوں پر پورے اترتے ہیں، یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف گٹھ جوڑ میں ملوث ہیں، یہ منافق ہر صورت میں اپنے سرداروں کو متاثر کرنے کی کوششوں میں ہیں. اور ان کو یقین دھانی کروارہے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ بہت خوش ہیں. اب الله تعالى کا جواب سن لیں ان کیلئے.
﴿ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴾
الله عزوجل ان کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں، الله تعالى کس طرح ان کے ساتھ "مذاق " کر رہے ہیں؟ یہ قرآن کی اہم خصوصیات میں سے ہے کہ بعض اوقات قرآن پاک میں ایسے الفاظ آتے ہیں کہ ہم بے اختیار سوچتے ہیں کہ یہ لفظ الله تعالى کیلئے مناسب نہیں لگ رہا جیسے یہی لفظ مذاق، یا مکر وغیرہ.
{وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ } - أل عمران 5
الله عزوجل ان کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں، الله تعالى کس طرح ان کے ساتھ "مذاق " کر رہے ہیں؟ یہ قرآن کی اہم خصوصیات میں سے ہے کہ بعض اوقات قرآن پاک میں ایسے الفاظ آتے ہیں کہ ہم بے اختیار سوچتے ہیں کہ یہ لفظ الله تعالى کیلئے مناسب نہیں لگ رہا جیسے یہی لفظ مذاق، یا مکر وغیرہ.
{وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ } - أل عمران 5
إنهم يَكِيدُونَ كَيْدًا * وَأَكِيدُ كَيْدًا* الطارق: 15 *
یہ وہ مسائل ہیں، جن کی وجہ سے ایک زبان کو مکمل طورپر دوسری زبان میں ترجمہ کرنا آسان نہیں ہوتا اور پھر خصوصا اس زبان کو جو چودہ سو سال پرانی ہے. عربی زبان میں دونوں فاعل کیلئے ایک جیسا فعل استعمال ہوتا ہے.
لوگ چالیں چلتے ہیں = الله چالیں چلتا ہے.
لوگ مذاق اڑاتے ہیں= الله مذاق اڑاتا ہے.
یہ وہ مسائل ہیں، جن کی وجہ سے ایک زبان کو مکمل طورپر دوسری زبان میں ترجمہ کرنا آسان نہیں ہوتا اور پھر خصوصا اس زبان کو جو چودہ سو سال پرانی ہے. عربی زبان میں دونوں فاعل کیلئے ایک جیسا فعل استعمال ہوتا ہے.
لوگ چالیں چلتے ہیں = الله چالیں چلتا ہے.
لوگ مذاق اڑاتے ہیں= الله مذاق اڑاتا ہے.
یعنی اللہ کہہ رہے ہیں کہ میں وہی کر رہا ہوں جس کے وہ مستحق ہیں.
الله ان لوگوں کو ان کے جیسے الفاظ میں ہی جواب دے رہے ہیں.
لوگ جو عمل کرتے ہیں ویسا ہی ردعمل پاتے ہیں.
الله ان کا استہزاء اڑا رہے ہیں مگر کیسے؟ کس طریقے سے؟
اس کی تشریح الله رب العزت خود ہی فرما رہے ہیں:
﴿ .. وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴾
وہ ان (منافقین ) کو ان کی سرکشی میں بڑھا دیتے ہیں. وہ راہ گم کر بیٹھتے ہیں، اور ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو جاتی ہے.
الله ان کو اجازت دئیے جا رہے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں، طغیانی میں مسلسل بڑھتے جائیں.
اللہ کا ان کا ساتھ یہ رویہ ہے: "اگر تم نافرمانی پر ہی تلے ہوئے ہو تو میں تمہیں نہیں روک رہا"
ان کو عین وقت پر سزا نہیں مل رہی. اللہ ان کو مزید نا فرمانی کا موقع دئیے جا رہے ہیں.
یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک کلاس روم میں استاد کسی بچے کو شرارتیں کرتے ہوئے دیکھتا جاتا ہے، اور اس کو روکتا نہیں. استاد اگر بچے کو شروع میں ہی روک دیتا تو بچہ آرام سے بیٹھ جاتا مگر استاد نے روکا نہیں. اب اس ڈھیل کا کیا نتیجہ برآمد ہو رہا ہے؟ بچہ زیادہ دلیر ہو گیا ہے. اس کی شرارتوں کا دائرہ بڑھ گیا ہے. اب وہ کبھی ڈیسک پر کھڑا ہو رہا ہے، کبھی کھڑکی کے ساتھ لٹک رہا ہے. آخر کار استاد اس کو پرنسپل آفس میں لے جاتا ہے، اس کے والدین کو کال کرتا ہے کہ آپ کے بچے کو ان ان وجوہات کی بنا پر سکول سے خارج کر دیا جائے گا.
آپ اس ساری صورت حال کو سمجھ رہے ہیں؟
آج سے پندرہ سال پہلے میرے استاد نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے ایک مثال دی تھی. جو میرے ذہن میں چپک کے رہ گئی ہے.
فرض کیجئے کہ آپ ایک باغی کتے کے مالک ہیں. جو کسی کو کاٹ بھی سکتا ہے. اگر اس کی رسی محض دو فٹ کی ہے تو وہ کلبلاتا ہوا، مگر آپ کے ساتھ ساتھ ہی چلتا ہے. اب اگر آپ اسے حقیقت میں سزا دینا چاہتے ہیں، تو آپ اس کی رسی کو ۱۰۰ فٹ تک لمبا کر دیں. وہ جتنا تیز بھاگ سکتا ہے، بھاگے گا.
۵۰ فٹ کے اندر اندر وہ سمجھے گا کہ میں آزاد ہوں.
۹۰ فٹ کے اندر بھی وہ تیز ترین رفتار سے بھاگے گا اور اپنے آپ کو آزاد ہی محسوس کرے گا.
۹۹ فٹ تک بھی دنیا اس کے سامنے کھلی ہے ہر طرف آزادی ہے.
مگر ۱۰۰ فٹ پر کیا ہوگا؟؟؟
آپ اس کی رسی کھینچ لیں گے. اب آپ محض اس کی رسی نہیں کھینچ رہے بلکہ آپ اس کا گلا گھونٹ رہے ہیں. یہ رسی دراز کرنا کتے کے ساتھ مذاق ہی تو تھا. اب اس کو ایک دم دھچکا لگے گا. کہ اس کو پیچھے کھینچ لیا گیا ہے. جب اس کی رسی دو فٹ کی تھی، تب آپ اس کو کھینچتے تو وہ اس کو زیادہ ہرٹ نہیں کرتا. مگر جب ۱۰۰ فٹ کی رسی کھینچی جاتی ہے. تو گویا کہ آپ اسے مارنے کے درپے ہیں. اس کیلئے یہ دھچکا، پھندہ لگنے کے برابر ہی ہے.
الله کا بھی منافقین کے ساتھ ایسا ہی مذاق ہے. منافقین اس ڈھیل کو سمجھ رہے ہیں کہ جیسے وہ ہی بالا دست ہیں.
جبکہ الله تعالى کہتے ہیں کہ "میں"ان کو یہ سوچنے کی اجازت دے رہا ہوں، کہ وہی بالادست ہیں. وہی غالب ہیں.
سبحان الله ! یہ ہے الله کا "منافقون کیلئے ردعمل"
اُس دور کے عربی لوگ بھی اس بات کو سمجھ نہ پا رہے تھے، کہ کس طرح یہ صاحب ( رسول الله صلى الله عليه وسلم ) قرآنی عربی بول رہے ہیں؟ اگرچہ وہ اُن سب کی زبان تھی، مگر قرآن میں کچھ ایسا تھا. جس کی تشریح ، زبان دانی کے ماہر بھی نہیں کر پا رہے تھے.
اور انگریز حاضرین کے سامنے ان باتوں کی وضاحت اور بھی مشکل امر ہے. ابھی میں ان میں سے ایک بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں:
قرآن کتنے عرصے میں نازل ہوا؟ تقریبا ۲۳ سال میں، یہی قرآن کا نزولی دور ہے، اور اس کے کم و بیش چھ سو صفحات ہیں. یہ قرآن ایک وقت میں نہیں اُترا. قرآن کے نزول کے ساتھ ساتھ حدیث بھی بیان ہوتی رہی. یعنی کبھی کسی ایک وقت میں حضور پاک سے قرآن لوگوں تک پہنچ رہا تھا، اور کبھی دوسرے وقت میں حدیث.
درحقیقت رسول الله صلى الله عليه وسلم کے ذریعے ہزاروں چیزیں بیان ہوئی ہیں. کبھی قرآن کی شکل میں کبھی حدیث کی شکل میں. اگر آپ لغوی اعتبار سے قرآن اور حدیث کا تجزیہ کریں: ( جو کچھ علماء نے کیا بھی ہے) تو رسول الله صلى الله عليه وسلم کے اندازگفتگو کو جان جائیں گے کہ وہ کس طریقے سے بات کرتے تھے؟ قرآن کا انداز بیان کیا ہے؟ رسول الله صلى الله عليه وسلم کے اسلوب اور قرآن کے اسلوب میں واضح فرق ہے. احادیث کا بیانیہ قرآن کے بیانیہ سے مختلف ہے. یہ ایک جیسا نہیں ہے. بے شک یہ ایک ہی انسان کے منہ سے بیان ہوئی ہیں، لیکن پھر بھی یہ اپنے اسلوب کی وجہ سے دو مختلف مصنفین کی تحریریں ہی لگتی ہیں.
قرآن میں کچھ ایسی منفرد چیزیں، ایسے الفاظ موجود ہیں، جو کبھی کسی انسان نے اتنی باریکی کے ساتھ استعمال نہیں کئے.
ایک عربی لفظ ہے { مٓدَّه}اس کا مطلب ہے کھینچنا.
ایک اور لفظ ہے {آمٓدَّه} اس کا مطلب بھی کھینچنا ہی ہے.
مٓدٓدْتُهٌ آمْدٓدْتُهٌ ان دونوں کا بھی کسی قدر ایک ہی مطلب ہے.
عربی لوگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہم معنی لفظ استعمال کرتے رہتے ہیں.
لیکن الله رب العزت ایک ایسے طریقے سے ان الفاظ کو استعمال میں لا رہے ہیں، جو اس سے قبل کسی انسان نے نہیں اپنایا۔۔
-نعمان علی خان
جاری ہے...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں