Main Samandar Hoon


 
میں سمندر ہوں، کوئی آکے کھنگالے مجھ کو
بیکراں پیار کے کوزے میں بسالے مجھ کو

میں اندھیرے کے مقابل اِنہیں لے آیا ہـــوں
اپنے اندر نظر آئے جــو اُجالــے مجھ کو

چل پڑا ہوں میں کسی منزلِ گُل کی جانب
پھول لگنے لگےاب پاؤں کے چھالے مجھ کو

ریزہ ریزہ ہوں پہ یلغار کروں تاروں پر
ایسا جھونکا کوئی آئے جو اُچھالے مجھ کو

میں گنہ کر کے چلا آؤں گا پھر دنیا میں
دیکھ لے کرکےتُو جنت کے حوالے مجھ کو

پھر مرے جسم کے تاروں کا دُوپٹہ بُن لے
پہلے کیکر کے تُو کانٹے میں پھنسالے مجھ کو

تُو گلاب اور مِرا رنگ ہے ســرســوں جیسا
تُو کبھی میرے لہو سے ہی سجا لے مجھ کو

برف گرتی ہے ، تو میں اور سُلگ اٹھتا ہوں
اور پگھلاتے ہیں، یہ برف کے گالے مجھ کو

کس بُلندی پہ حزیں میری نظر جا پہنچی
کتنے بونے نظر آتے ہیں ہمالے مجھ کو
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں