Bharke hue lamhon ko

 

 بھڑکے ہوئے شعلوں کو ہوائیں نہیں دیتے
جاتے ہوئے لمحوں کو صدائیں نہیں دیتے

مانا یہی فطرت ہے مگر اس کو بدل دو
بدلے میں وفاؤں کے جفائیں نہیں دیتے

گر پھول نہیں دیتے تو کانٹے بھی تو مت دو
مُسکان نہ دینی ہو تو آہیں نہیں دیتے

تم نے جو کیا، اچھا کیا، ہاں یہ گلا ہے
منزل نہ ہو جس کی تو وہ راہیں نہیں دیتے

یہ بار کہیں خود ہی اُٹھانا نہ پڑے کل
اوروں کو بچھڑنے کی دعائیں نہیں دیتے

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں